جس رات قرآن نازل ہوا وہ ''لیلۃ القدر‘‘ ہے۔ اس میں عبادت کرنا ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے۔ اس رات کو حضرت جبریل اور بے شمار فرشتے زمین پر اترتے ہیں۔ یہ رات رمضان کے آخری دس دنوں کی پانچ طاق راتوں میں ہے۔ اللہ نے اپنے پیارے نبیﷺ کی امت پر خصوصی شفقت فرماتے ہوئے اس رات سے اپنے نبیؐ کو آگاہ فرما دیا۔ حضور عالیشان اپنے گھر کے دروازے سے باہر قدم رکھتے ہیں، مسجد نبوی کے حصے ''ریاض الجنۃ‘‘ میں قدم رنجہ فرماتے ہیں تاکہ اپنے صحابہ کو ''قدر والی رات‘‘ کے بارے میں آگاہ فرما دیں۔ آگے دیکھا کہ دو شخص آپس میں لڑ رہے ہیں اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کو واپس اٹھا لیا۔ حضورﷺ اب اپنے صحابہ کو نتیجہ بتلاتے ہیں، فرمایا! میں ''لیلۃ القدر‘‘ کے بارے میں بتلانے آیا تھا مگر دو بندوں کے جھگڑے کی وجہ سے قدر والی رات کے تعین کی تاریخ کو اللہ نے مجھ سے واپس لے لیا۔
قارئین کرام! ثابت ہوا کہ مسلمانوں میں انتشار، لڑائی اور جھگڑے کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی آئی ہوئی رحمت بھی واپس اٹھا لی جاتی ہے، مسجد نبوی سے اٹھا لی جاتی ہے، ریاض الجنۃ سے اسے واپس بلا لیا جاتا ہے، حضورؐ کے پاک اور مبارک دل سے اسے واپس وہاں لے جایا جاتا ہے جہاں سے یہ رحمت آئی تھی۔ یہ واقعہ اس لئے ظہور میں آیا اور حضورؐ نے اپنی امت کو بتلایا تاکہ وہ باہمی لڑائی جھگڑوں سے بچے رہیں، ایک دوسرے پر مشرک، کافر اور گستاخِ رسولؐ کے فتوے لگانے سے باز رہیں۔ ان فتووں سے آگے بڑھ کر گردنیں مارنے سے محفوظ رہیں، خوں ریزی سے مامون رہیں، لیکن اگر کہیں اجتہادی غلطی یا غلط فہمی کی بنیاد پر لڑ بھی پڑیں تو پھر اللہ کے رسولؐ نے اپنے خاندان سے ایک نمونہ پیش کیا، آیئے! اس خوبصورت نمونے کا منظر ملاحظہ کرتے ہیں!
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اپنی مسند میں حدیث لائے ہیں۔ حضرت ابوبکرہؓ بتلاتے ہیں کہ ایک روز اللہ کے رسولؐ لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے۔ جب سجدے میں جاتے تو ننھے حسنؓ کود کر حضور ؐکی کمر مبارک پر سوار ہو جاتے، ساری نماز میں ننھے حسنؓ اسی طرح ہی کرتے رہے کہ جب بھی حضورؐ سجدے میں جاتے وہ اچھل کر سوار ہو جاتے۔ نماز کے بعد کچھ نمازی کہنے لگے، اے اللہ کے رسولؐ! آپ اس بچے کے ساتھ جو منفرد رویہ روا رکھتے ہیں، ہم نے نہیں دیکھا کہ آپ نے کسی اور کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کیا ہو۔ اس پر حضورؐ نے فرمایا!
''میرا یہ بیٹا سردار ہے، وہ وقت آنے والا ہے جب اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سے مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح کرا دے گا۔‘‘
حدیث کے راوی حضرت ابوبکرہؓ دوبارہ اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ جب حضرت حسنؓ خلیفہ بنے تو ان کی خلافت میں مسلمانوں کا اتنا خون بھی نہیں بہنے دیا گیا جتنا سینگی لگوانے سے کسی آدمی کا خون بہتا ہے۔
قارئین کرام! سینگی لگوانا علاج کا ایک طریقہ ہے۔ آج کے حالات میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ ایک ڈاکٹر یا ڈسپنسر اپنے مریض کا خون جس قدر سرنج میں نکالتا ہے اتنا خون بھی حضرت حسنؓ کے دور خلافت میں نہیں بہایا گیا۔ یہ ہے وہ سبب جس کی وجہ سے اللہ کے رسولؐ اپنے نواسے حسنؓ کے ساتھ پیار بھرا منفرد رویہ روا رکھتے تھے۔ یاد رہے! نبوی راستے پر خلافت کی مدت حضورؐ نے تیس سال بتلائی ہے۔ یہ تیس سال تب پورے ہوتے ہیں جب حضرت حسنؓ کی خلافت کے چھ ماہ اس میں شامل ہوں، یوں حضرت حسنؓ بھی خلیفہ راشد ہیں اور پانچویں خلیفہ راشد ہیں۔ اس لئے کہ انہیں حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد مسلمانوں نے متفقہ طور پر خلیفہ بنایا۔ یوں حضرت حسنؓ آخری خلیفہ راشد ہیں۔ آخری خلیفہ راشد نے اپنی خلافت راشدہ کو اس لئے چھوڑ دیا تاکہ مسلمانوں کے دو گروہوں میں انتشار اور افتراق ختم ہو جائے۔ انہوں نے حضرت معاویہؓ کے حق میں دستبرداری کا اعلان کر دیا اور اپنی باقی زندگی اپنے نانا حضرت محمد کریمﷺ کے شہر مدینہ میں گزار دی۔ اسی مسجد میں عبادت کرتے زندگی گزار دی جس مسجد میں وہ اپنے نانا کی کمر مبارک پر سوار تھے اور گود میں تھے کہ نانا محترم کی زبان اقدس سے سردار کہلائے۔ جی ہاں! یہ ہے سچی سرداری۔ اسے کہتے ہیں سردار۔ جان کی قربانی آسان ہے کہ انسان اقتدار کی خاطر جان قربان کرتا ہے مگر اقتدار کی قربانی اور اس وقت قربانی جب اقتدار مٹھی میں ہو، بہت بڑی بات ہے اور ایسی بہت بڑی بات کو سچ کر دینے والا ہی سردار ہوتا ہے۔ بھلا اپنوں میں آگ بھڑکانے والا بھی کوئی سردار ہوتا ہے؟ سردار تو صلح کرانے والا ہوتا ہے۔ ایسا منفرد سردار ایک ہی تھا اور وہ حسنؓ تھا۔ وہ نہ صرف دنیا کا سردار تھا بلکہ حضورﷺ نے اپنے اس نواسے کو جنت کے جوانوں کا بھی سردار قرار دیا۔ یعنی اپنے نانا محترم کے بعد وہ دنیا میں بھی سرداری کا سمبل بن گیا اور جنت کی سرداری کا بھی حقدار بن گیا۔
حضرت حسنؓ نے چند روزہ ظاہری سرداری کو ٹھکرا کر حقیقی اور دائمی سرداری حاصل کر لی۔ آج بھی ساری دنیا میں کلمہ پڑھنے والے باہم جس قدر بھی لڑیں حضرت حسنؓ کے اس کردار کے گیت گاتے ہیں۔ ان کے کردار کا تقاضا تھا کہ امت نبوی منہج پر خلافت کا احیاء کرتی مگر نہیں کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بار بار انتشار و افتراق، قتل و خونریزی کا شکار ہونا پڑا اور یہ مشق آج تک جاری ہے اور جاری رہے گی، جب تک حسنی کردار کو زندہ نہ کیا جائے گا۔ میں کہتا ہوں مسلمان حکمران نواسۂ رسول کے عظیم صلح کُن کردار سے پورا نہیں، صرف اتنا سا حصہ ہی لینے پرتیار ہو جائیں کہ کوئی مسلمان ملک دوسرے ملک کے معاملات میں مداخلت سے باز آ جائے، اپنی انقلابی سوچ برآمد کرنے سے رک جائے، اپنے مسلح جتھوں کو یلغار کرنے سے روک لے تو تباہی و بربادی اور غیروں کی مداخلت اور فوج کشی کے راستے بند ہو جائیں گے۔ تھوڑا سا اور آگے بڑھیں، اوآئی سی کو فعال کر لیں، شکوے شکایتیں مل بیٹھ کر دور کر لیں، آپس میں بیٹھ کر اپنے اندر سے ثالث بنا لیں، حسنی کردار تو ہمالیہ سے بھی بلند کردار ہے۔ یہ کسی ٹیلے جتنا کردار ادا کرنے کے لئے ہی تیار ہو جائیں۔ کوئی شاہ فیصل اور کوئی بھٹو جیسا ہی ڈھونڈ نکالیں اور ایک جگہ بیٹھ تو جائیں، اکٹھے ہو کر بات تو کریں۔
اللہ اللہ! حسن کا معنی خوبصورت اور حسین ہے، کیا خوبصورت کردار ادا کیا کہ امت میں ان جیسا سوفیصد کردار ادا کرنے کے لئے کوئی آئے گا تو وہ حضرت حسنؓ کی اولاد ہی سے آئے گا۔ یعنی اللہ تعالیٰ قربانیوں کا صلہ اور بدلہ ضرور دیتا ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا، اس وقت تک نہ قیامت قائم ہو گی نہ دنیا ختم ہو گی جب تک کہ میرے اہل بیت سے ایک شخص عرب کا حکمران نہ بن جائے۔ اس کا نام میرے نام پر ہو گا۔ اس کے باپ کا نام میرے باپ کے نام پر ہو گا۔ یہ بھی فرمایا، مہدی فاطمہؓ کی اولاد سے ہو گا (ابودائود، صحیح) یعنی امام مہدی کا نام محمد بن عبداللہ ہو گا۔ وہ علوی، حسنی اور فاطمی ہوں گے۔ جب انتشار اور افتراق اپنی آخری حدوں کو چھو جائے گا، کوئی قائد اور رہنما باقی نہ رہے گا تو اللہ کے رسولؐ کے فرمان کے مطابق اللہ تعالیٰ ایک ہی رات میں امام مہدی کو قیادت کے قابل بنا دے گا (ابن ماجہ، صحیح) کعبہ میں ان کی بیعت ہو گی، وہ قیادت کرنے کو تیار نہ ہوں گے مگر مسلمان زبردستی انہیں اپنا قائد بنائیں گے، یعنی کردار وہی جوحضرت حسنؓ کا تھا۔ اب ''خلافت علیٰ منہاج النبوّۃ‘‘ پھر اس سطح پر قائم ہو گی جس سطح پر حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ اور حضرت حسنؓ کی خلافت تھی۔ اللہ تعالیٰ حضرت حسنؓ کو قربانی کا صلہ دیں گے مگر ایسا باکمال کہ اس دنیا میں بھی لاجواب اور آخرت میں بھی بے حساب اور بے مثال۔ حضرت امام مہدی سیاست کے بھی امام ہوں گے اور نماز کے بھی امام ہوں گے اور ایسے جلیل القدر امام کہ اللہ کے رسولؐ کے فرمان کے مطابق دمشق شہر کی جامع مسجد میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان کی اقتداء میں نماز ادا کریں گے۔ امام مہدی کی پیشکش کے باوجود وہ فرمائیں گے کہ امت محمدﷺ کی تکریم کا تقاضا یہ ہے کہ امام مہدی امام ہوں اور عیسیٰ علیہ السلام ان کے مقتدی ہوں۔ اے آج کے حکمرانو! جس نبیؐ کا کلمہ پڑھتے ہو ان کی زبان مبارک سے جو سردار قرار پائے ان جیسا کچھ کردارتو اس دکھوں بھری امت کی جھولی میں بھی ڈال کر دکھائو کہ تمہیں سردار مانیں!