چارسدہ سے کوئی بارہ تیرہ کلومیٹر دور باچا خان یونیورسٹی میں طلبہ کے ہاسٹل میں داخل ہوا اور ایک ایک کر کے ان کمروں کو دیکھتا چلا جا رہا تھا جن کے فرشوں پر پھیلا طلبہ کا پاکیزہ خون مجھے خون کے آنسو رلا رہا تھا۔ مجھے اس خون سے پڑھنے پڑھانے کی خوشبو آ رہی تھی۔ کتاب روتے ہوئے دکھائی دے رہی تھی تو قلم اپنے آنسو پونچھتا ہوا نظر آ رہا تھا۔ میری اپنی زندگی کا آغاز ایک استاد کی حیثیت سے ہوا۔ شاہ کوٹ کے گورنمنٹ ہائی سکول میں چھ سال تک سینئر استاد کی حیثیت سے پڑھاتا رہا۔ چند دن پہلے کی بات ہے ایک دوست جو کسی حاضر سروس کرنل کے پاس بیٹھا تھا، میرے کالموں کا تذکرہ ہوا تو کرنل صاحب کہنے لگے: حمزہ صاحب میرے استاد ہیں، آج کرنل ہوں تو ان کے معلمانہ فیض سے، اور پھر دوست نے بات کروائی تو مجھے بے پناہ خوشی ہو رہی تھی کہ میرا روحانی بیٹا اپنے وطن کے دفاع پر تعینات ہے۔ اسی طرح ایک بار خطبہ جمعہ کے لئے مسجد جا رہا تھا تو سادہ کپڑوں میں گبھرو جوان نے سلام کیا اور پھر کہنے لگا، سر! آپ کا شاگرد ہوں اور ڈی ایس پی ہوں، میں نے ڈھیر ساری دعائیں دیتے ہوئے گلے لگا لیا اور خوشی و مسرت اسی طرح ہو رہی تھی جس طرح اپنے حقیقی بیٹے اور بیٹی کی ہوتی ہے۔
قلم، کتاب اور علم کے دشمن دہشت گردوں نے ایک سال قبل بھی میرے پاکستان کے مستقبل پر حملہ کیا تھا۔ میں اس وقت بھی آرمی پبلک سکول پشاور گیا تھا اور شہداء کے گھروں میں بھی۔ مجھے اس وقت دہشت گردوں کی ناکامی اور روسیاہی کا یقین ہوا تھا تو پرنسپل طاہرہ کے کردار کو دیکھ کر کہ جنہوں نے آگ میں جلنا منظور کر لیا مگر اپنے روحانی بچوں سے جدا ہونا قبول نہ کیا۔ سحرافشاں اور اذان بیٹے نے بھی ایسا ہی کردار ادا کر کے دہشت گردوں کو ناکام کیا تھا اور حوصلے کی شمع کو گولیوں اور آگ کے اٹھتے دھویں کے دوران میں روشن کر دیا تھا۔ اسی روشنی سے کیپٹن اسفند یار بخاری فیض یاب ہوا اور اس نے عزم کر لیا کہ اب ان دہشت گردوں سے مقابلے کا موقع ملا تو وہ طاہرہ اور اذان کا بدلہ ضرور لے گا اور جب بڈھ بیر بیس پر حملہ ہوا تو اسفند یار بخاری کے والد گرامی نے مجھے بتلایا کہ ڈیوٹی نہ ہونے کے باوجود اس نے مقابلہ کیا اور دہشت گردوں کو ناکام کرتا ہوا شہادت کی مراد سے سرفراز ہوا۔ باچا خان یونیورسٹی میں اب یہ روشن کردار اور آگے بڑھا ہے، ذرا ملاحظہ ہو ایمان اور بہادری کی داستان کہ وہ کیسے تسلسل اختیار کئے ہوئے اپنے تیسرے فیز میں داخل ہوتی ہے؟
اب میں صوابی میں ہوں، پروفیسرحامد حسین کے بوڑھے والد لال بہادر کے پاس بیٹھا ہوں، میں نے لال بہادر کو یہ کہہ کر حوصلہ دیاکہ آپ کا نام بہادر ہے تو حامد نے بہادر بن کر دکھلا دیا ہے۔ بہادری اور لال خون لازم و ملزوم ہیں تو حامد نے اپنا لال خون دے کر دہشت گردی کو ناکام کر دیا ہے۔ لال بہادر نے الحمدللہ کہا، تو اب میں نے ان کے بیٹے سجاد حسین سے پوچھا، آپ کا کاروبار کیا ہے؟ کہنے لگے، والد صاحب معمولی کریانے کی دکان چلاتے ہیں۔ جی ہاں! حامد حسین اپنے باپ کے ساتھ ہاتھ بٹاتا اور پڑھتا رہا، سوات یونیورسٹی سے ایم ایس سی میں سکالرشپ لے اڑا اور پھر برطانیہ سے کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کر کے ڈاکٹر اور سائنسدان بن گیا۔ برطانیہ میں اسے لگژری لائف کی حامل ملازمت کی پیشکش ہوئی مگر اس نے کہا جس ملک پاکستان نے اسے سکالرشپ دے کر یہاں تک پہنچایا اس کی خدمت مجھ پر فرض بھی ہے اور قرض بھی۔ میں فرض کی ادائیگی سے غافل نہیں رہ سکتا اور قرض اپنے سرپر لاد نہیں سکتا۔ اس کا چھوٹابھائی اشفاق حسین جو سعودیہ سے آیا ہے، بتلانے لگا، میں نے بھائی جان سے کہا پاکستان میں سکیورٹی کا مسئلہ ہے، یہاں سعودیہ میں آ جائو، میں نے آپ کی قابلیت کو یہاں ایک اہم ادارے کے سامنے رکھا تو ان کی طرف سے 60ہزار ریال ماہانہ کی پیشکش ہے۔ پاکستانی روپے میں یہ رقم 17لاکھ بنتی ہے۔ حامد حسین نے ماہانہ سترہ لاکھ روپے کو بھی نظرانداز کر دیا اور کہنے لگا کہ پاکستانی بچوں کا مجھ پر حق ہے کہ میں ان کو یہاں پی ایچ ڈی کرائوں۔
قارئین کرام! یہ کیسا پاکستانی تھا کہ اس نے پاکستان کی کسی بڑی یونیورسٹی اور بڑے شہر کا بھی انتخاب نہ کیا‘ اس نے اپنے پسماندہ علاقے کی ایک یونیورسٹی کا انتخاب کیا۔ باچا خان یونیورسٹی بنیادی طورپر ٹیکنیکل کالج تھا۔ جب یہاں اے این پی کی حکمت تھی تو اسے یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا۔ بعض تعمیرات اور سہولتیں دے دی گئیں مگر اس کا رقبہ ایک کالج جتنا ہی ہے۔ پھر چارسدہ سے کئی کلومیٹر دور یہ یونیورسٹی اپنے چاروں طرف کھیت کھلیانوں کے درمیان ہے۔ پروفیسر حامد حسین نے یہاں ڈیرے ڈال دیئے تھے۔ اس نے کیسا فرض اور قرض ادا کیا کہ رول ماڈل بن گیا۔ سکیورٹی رسک کا حل بھی اس نے نکال لیا۔ آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد حکومت نے اساتذہ کو پستول رکھنے کی اجازت دے دی تاکہ دہشت گردوں کا مقابلہ کیا جا سکے۔ حامد حسین کے چچا مجھے بتلانے لگے، میں نے اس کا لائسنس بنوایا، پستول خرید کر دیا، اسے اس کا طریقہ بتلایا، اس نے مجھے اس سارے کام کی محنت کا معاوضہ بھی دیا اور پھر اس نے اپنے 20کے قریب طلبہ کی حفاظت کرتے ہوئے اپنے پستول سے دہشت گردوں کا مقابلہ کیا اور معرکہ آرائی میں شہادت پا کر یہ پیغام دے گیا کہ حقوق کا رونا رونے والو! اپنے دیس کو کچھ دے کر بھی دیکھو کہ دینے میں کیسی لذت ہے اور فرض اور قرض کی ادائیگی میں کیسی عزت ہے۔ کالے دھن یعنی پاکستان سے لوٹے ہوئے مال کو سفید یعنی قومی اسمبلی سے اسے حلال کر کے کھانے کا بندوبست کرنے والے لیڈرو... قربانی نہ سہی، فرض اور قرض کی ادائیگی نہ سہی، صرف حلال کھا کر ہی دیکھ لو کہ اس میں بھی کافی ساری لذت اور عزت ہے۔ مگر جہاں زاغوں اور گِدھوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن ہوں، شاہینوں کے ایوان ہوں، وہاں مردار خوری کے بِل پاس نہ ہوں تو اور کیا ہو؟
وہاں مجرموں کو چھڑوانے کا حق لینے کے استحقاق نہ ہوں تو اور کیا ہو؟ قوم کو اب فیصلہ کرنا ہو گا کہ رول ماڈل ایسے لوگ ہیں یا حامد حسین جیسے لوگ جو خاموشی سے اپنا کردار ادا کرتے کرتے جب خون دے جاتے ہیں تب پتہ چلتا ہے کہ لیڈرتو یہ تھا جو چلا گیا اور کس شان اور دھج سے رخصت ہو گیا کہ رول ماڈل بن گیا۔ مگر اے شومیٔ قسمت کہ میرے دیس میں حامد کو رول ماڈل بنائے گا کون؟ اپنائے گا کون؟ کر کے دکھلائے گا کون؟ بس علاقائیت کے نعرے لگانے والا ایک حکمران اس کے گھر میں آیا تھا اور یہاں سے یہ سن کر خاموش واپس چلا گیا تھا کہ جس کا نام حکمرانی ہے تم اس کے قابل نہیں ہو۔ رول ماڈل حامد حسین کے گھر سے گونجنے والے اس جملے نے بھی تو کوئی جنبش پیدا نہیں کی۔
قارئین کرام! میں دہشت گردی کے خلاف تیسرے فیز کی بات کر رہا تھا۔ ساتھ ساتھ حکمران جیسی مخلوق کا بھی ذکر کرنا پڑ گیا۔ ہم واپس تیسرے فیز ہی کی جانب چلتے ہیں چارسدہ یونیورسٹی کے گیسٹ ہائوس کا کیئرٹیکر فخر عالم ہے۔ میں اس کے باپ کے ساتھ بیٹھا ہوں، فخر عالم کے پستول میں چھ گولیاں تھیں، اس نے دو دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا۔ ریسٹ ہائوس میں کلاشنکوف لینے دوڑا، ابھی وہ اسے اٹھا کر دہشت گردوں کے سامنے سینہ تاننے ہی لگا تھا کہ دہشت گردوں نے شہید کر دیا۔ اس شیر نے ایک سو بیس طالبات اور طلبہ کو محفوظ کیا۔ اس کے چچا شریف گل نے مجھے پہچان لیا، کہنے لگا: میں نے کراچی میں دہشت گردوں کے خلاف آپ کا خطاب سنا ہے۔ باپ شاہ حسین کہنے لگا، جب میں نے سنا کہ یونیورسٹی میں خارجی دہشت گرد گھس آئے ہیں تو میں یونیورسٹی نہیں گیا کہ وہاں فخر عالم ضرور لڑ رہا ہے۔ میں تو ہسپتال گیا تاکہ زخمیوں کا پتہ کروں۔
جی ہاں! یونیورسٹی کے اردگرد دیہات کے لوگوں کو پتہ چلا کہ آرمی پبلک سکول میں گھسنے والے دہشت گرد یہاں بھی آ گئے ہیں تو وہ بندوقیں اٹھائے یونیورسٹی پہنچ گئے تھے۔ مگر اب پولیس بھی آ گئی، فوج بھی آ گئی، دہشت گرد ناکام ہو چکے تھے، ساتھ ہی ضرب عضب کا سالار راحیل شریف بھی یونیورسٹی گرائونڈ میں سینہ تانے کھڑا تھا۔ یہ ہے خارجی اور تکفیری دہشت گردی کے خلاف تیسرا فیز جس میں ہر سطح کا مقابلہ موجود ہے۔ مجھے دنیا بھر میں کوئی دکھلائے تو سہی کہ دہشت گردی کے حملے میں سکیورٹی فورسز کے علاوہ ایسا منظر ہو کہ جس میں نشانہ بنے ہوئے لوگوں نے مقابلہ کیا ہو، عوام نے مقابلہ کیا ہو اور پھر آخر میں سکیورٹی فورسز کادھاوا ہو؟
اسی روز پشاور پریس کلب میں پیر سید ہارون علی گیلانی نے پروگرام ترتیب دے رکھا تھا۔ یہاں مختلف مسالک کے نمائندے تھے تو دیگر مذاہب کے نمائندے مسیحی، ہندو اور سکھ بھی تھے۔ میں نے گفتگو میں کہا: حضور نبی کریمﷺ پر وحی کا آغاز ''اقرا‘‘ پڑھنے سے ہوتا ہے۔ تیسری آیت کا آغاز پھر ''اقرا‘‘ سے ہوتا ہے۔اس کے بعد قلم کی بات ہے اور پھر علم اور تعلّم کا ذکر ہے اور جو قلم اور علم پر حملہ کرتا ہے اس کا پہلی وحی سے کوئی تعلق نہیں، جس پر وحی آئی‘ اس نبی سے کوئی تعلق نہیں، حضورؐ کے اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ جی ہاں! جب قرآن پڑھیں تواس میں تسخیر کائنات کی بات ہے، سائنس کی بات ہے، یہ سب اقرا میں داخل ہے۔ میرے حضورؐ نے بدر کے غیر مسلم قیدیوں سے اپنے مسلمان بچوں کو تعلیم دلوا کر عملی تفسیر پیش کر دی کہ سائنس ہو یا ریاضی، جغرافیہ ہو یا الجبرا، سب ''اقرا‘‘ میں شامل ہیں۔ باچا خان یونیورسٹی میں ''اقرا‘‘ پر حملہ ہوا ہے۔ پہلی وحی کے پیغام پر حملہ آوروں کا انجام اس دنیا میں بھی رسوائی اور روسیاہی ہے اور اگلے جہان میں جہنم کے دھویں کی کالی رات ہے۔ اقرا کی مشعل جلانے والوں کو مبارک ہو! کامیابی انہی کی ہے، کامرانی انہی کی ہے (ان شاء اللہ)