دنیا میں جس ادارے نے خلائوں اور فضائوں کی تسخیر کے جھنڈے گاڑے ہیں وہ امریکہ کا ادارہ ''ناسا‘‘ ہے۔ ناسا کی خلائی کامیابیوں پر برطانیہ کے معروف اشاعتی ادارے(D.K) نے ایک کتاب شائع کی ہے جس کا نام (Space) ہے۔ بڑے سائز کی یہ کتاب ساڑھے تین صد صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں نظام شمسی اور کائنات کی معلوم وسعتوں کو تصاویر کی مدد سے واضح کیا گیا ہے۔ میں نے جب مطالعہ کرتے ہوئے زمین کے گرد اور نظام شمسی میں ''میزان پوائنٹس‘‘ کو ملاحظہ کیا تو حیران ہونے کے ساتھ ساتھ خوش بھی ہوا کہ علم کی اڑان بھرنے والے اہل علم یعنی سائنسدانوں نے خلائوں میں کیسے کیسے مقامات ڈھونڈ نکالے ہیں۔ مندرجہ بالا پوائنٹس کو سائنسدانوں نے اپنی زبان میں (Lagrangian Points) کا نام دیا ہے اور بتلایا ہے کہ یہ وہ انتہائی یقینی پوائنٹس یا مقامات ہیں جو زمین اور چاند کی خلائوں اور نظام شمسی کے دیگر مقامات میں موجود ہیں۔ جہاں دو یا زیادہ سیاروں کی کشش باہم ملتی ہے وہاں یہ مقامات واقع ہیں اور سیاروں کے استحکام میں انتہائی مفید اثرات مہیا کرتے ہیں۔ ان مقامات میں اہم ترین "L-1" اور "L-2" ہیں۔ سائنسدان واضح کرتے ہیں کہ یہ دو مقامات زمین اور چاند کے درمیان میزان درست رکھنے کے مقامات یا پوائنٹس ہیں۔ اسی طرح "L-3-4-5" ایسے مقامات ہیں جو نظام شمسی میں تلاش کر لئے گئے ہیں۔ خلائی سائنسدان واضح طور پر بتلاتے ہیں کہ ان مقامات کے وجود سے سیاروں، ستاروں اور خلائوں میں توازن قائم ہے۔ نیز اسی توازن کی وجہ سے مصنوعی سیارے یا سیٹیلائٹ بھی اپنے اپنے مداروں میں توازن کے ساتھ گردش کرتے رہتے ہیں۔ سوہو (SOHO) جیسا سیٹیلائٹ بھی زمین سے دور اسی توازن کی وجہ سے گردش کر رہا ہے۔
قارئین کرام! میں مطالعہ کر رہا تھا، تصاویر دیکھ رہا تھا اور زبان پر بے ساختہ سورۂ رحمان تلاوت کر رہا تھا۔ اللہ فرماتے ہیں: سورج اور چاند ایک حساب (ریاضی) کے پابند ہیں۔ (الرحمان:5) مزید فرمایا: آسمان کو اللہ نے رفعت و وسعت سے ہمکنار فرمایا اور میزان قائم کر دی۔ (الرحمان:7) یعنی اللہ تعالیٰ نے میزان کے جو پوائنٹس کائنات میں رکھے ہیں۔ ان بے شمار اور لاتعداد پوائنٹس میں سے ناسا کے اہل علم نے پانچ پوائنٹس دریافت کر لئے ہیں۔ اب میرا یہ فرض ہے کہ میں ناسا کے اہل علم کو بتلائوں کہ جن پوائنٹس کو آپ نے تلاش کیا ہے ان کا تذکرہ قرآن نے چودہ سو سال قبل کر دیا تھا۔ اس آخری رسول کریمؐ کی مبارک زبان سے یہ تذکرہ ہوا کہ جن کا دنیا میں کوئی استاد نہ تھا۔ انہیں اللہ نے آسمان سے براہ راست تعلیم دی چنانچہ آسمان کے پوائنٹس کے بارے میں انکشاف ''سورہ رحمان‘‘ میں کر دیا گیا ہے۔ سورۃ رحمان میں اللہ نے جب علم کی بات کا آغاز کیا تو اپنی صفت رحمان سے کیا کہ ''وہ کس قدر مہربان ہے جس نے قرآن کی تعلیم دی ہے۔ انسان کو پیدا فرمایا، (تو) اسے بات کھول کھول کر بیان کرنے کا ڈھنگ بھی سکھلا دیا۔‘‘ (الرحمان:1تا 4)۔
''البیان‘‘ کا معنی کھول کر اور تشریح و توضیح کے ساتھ بیان کرنے کے ہیں۔ حقائق کو سمجھ کر اسے آگے سمجھانے کا نام ''البیان‘‘ ہے۔ رحمان مولا نے انسان کو البیان کی جو خصوصیت عطا فرمائی ہے۔ اسے کوئی بھی انسان حاصل کر سکتا ہے۔ یہاں مسلمان کی شرط نہیں ہے۔ انسان کی بات ہے۔ اللہ نے اپنے پیارے نبیؐ کے ذریعے قرآن کی تعلیم تو دے دی۔ اب اس تعلیم سے مسلمان سائنسی فائدہ نہ اٹھائے اور کوئی دوسرا انسان فائدہ اٹھا لے تو ہمیں اتنا تو کرنا چاہئے کہ اس انسان کا شکریہ ادا کریں۔ اسے اپنے قرآن کی تعلیم بھی بتلا دیں اور اس حقیقت کوبھی تسلیم کریں کہ جس تعلیم تک وہ پہنچا ہے وہ ہر انسان کا ورثہ ہے اسے اپنے ادارے میں رائج بھی کر دیں اس علم سے اپنے طلبہ کو آراستہ بھی کریں۔ مگر یہ جہالت کس قدر اندھیر نگر ہے جسے خارجی دہشت گردوں نے اپنا رکھا ہے کہ اس علم کو جو مسلمان حاصل کریں گے وہ ان پرحملہ کریں گے، ان کو شہید کریں گے آرمی پبلک سکول اور چارسدہ یونیورسٹی کے اہل علم کا قتل کریں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے خارجی دہشت گرد قرآن سے ناواقف ہیں۔ سورۃ الرحمان کو نہیں جانتے۔ قرآن میں جس ''قلم‘‘ کی قسم اللہ نے ''والقلم‘‘ کہہ کر کھائی ہے یہ اس قلم کو توڑنا چاہتے ہیں اور ''اقرأ‘‘ کی کتاب کے مقدس اوراق کو پھاڑنا چاہتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ قلم کو اور مضبوطی سے تھاما جائے۔ کتاب کو اور زیادہ قوت کے ساتھ پکڑا جائے۔ جن اداروں میں قلم اور کتاب کا مقدس نظام چلتا ہے ان سکولوں اور یونیورسٹیوں کو ایک دن کے لئے بھی بند نہیں کرنا چاہئے۔
میرے ایک جاننے والے نے جو امریکہ میں رہتا ہے بتلایا کہ اس کی ٹیکسی میں ایک مسافر سوار ہوا، اس کی منزل چار گھنٹے کی مسافت پر تھی۔ راستے میں اس نے قرآن کی تلاوت لگا دی۔ قاری عبدالباسط مرحوم نے سورہ رحمان کو انتہائی خوبصورت انداز سے پڑھا ہے۔ ساتھ ساتھ انگریزی کا ترجمہ... جی ہاں! جب امریکی مسافر کی منزل آ گئی تو اس نے اپنے ٹیکسی ڈرائیور سے کہا یہ جو آپ نے ترنم لگا رکھا ہے، اسے میں مزید سننا چاہتا ہوں لہٰذا کہیں چلے جائو، دو گھنٹے کا سفر کرو پھر دو گھنٹوں میں واپس آئو تاکہ میں یہ ترنم سنتا جائوں۔ آپ کے پیسے میں ڈبل دوں گا۔ ٹیکسی ڈرائیور نے کہا، یہ جو ترنم ہے یہ قرآن ہے، سورۃ رحمان ہے، آسمان سے آئی ہے، رحمان مولا نے ہمارے حضرت محمد عالیشانﷺ پر نازل فرمائی ہے۔ میں آپ کو یہ سی ڈی گفٹ کر رہا ہوں، میرے پاس پورے قرآن کی بھی سی ڈی موجود ہے وہ بھی آپ کو تحفہ دے رہا ہوں۔ یہ ہے دعوت کا انداز۔ یہ ہے پیاسے کی علمی پیاس بجھانے کا انداز... امریکی نوجوان قرآن اور سورۃ رحمان لے کر یوں شکریہ ادا کر رہا تھا کہ جیسے اسے دنیا جہان کا عظیم انعام مل گیا ہو۔ کیا شک ہے، یہ دنیا اور آخرت کا عظیم انعام ہے مگر جنہوں نے دینا تھا، بانٹنا تھا ان کی پہچان دہشت گرد کی ہو گئی، علم دشمن کی ہو گئی... نہیں نہیں! یہ توچند لوگ ہیں، خارجی دہشت گرد ہیں، ہم سب اپنے اپنے محاذ پر ان کا مقابلہ کریں گے۔ اہل علم ان کا مقابلہ علمی میدان میں کریں گے، صاحب سیف جان ہتھیلی پر رکھ کر مقابلہ کریں گے تو ان کا قلع قمع چند دن کی بات ہے۔ عضب نامی تلوار اور قلم کی سنگت کامرانی کی چابی ہے۔ (ان شاء اللہ)