"AHC" (space) message & send to 7575

غیرت اور عورت کا قتل

اللہ تعالیٰ خواتین کے تحفظ میں فیصلہ فرماتے ہیں کہ ''وہ لوگ جو پاک دامن خواتین پر تہمت لگائیں پھر (اپنے الزام کی سچائی میں) چار عدد گواہ پیش نہ کر سکیں، ایسے لوگوں کو 80کوڑے مارو، ان کی گواہی بھی کبھی قبول نہ کرو، یہ فاسق لوگ ہیں‘‘ (النور:4)۔حضرت سعد بن عبادہؓ جو مدینہ میں اپنے قبیلے کے سردار تھے وہ مندرجہ بالا حکم سن کر پریشان ہو گئے۔ اللہ کے رسولﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورفرض کرتے ہوئے اللہ کے رسولﷺ سے پوچھنے لگے: ''اگر میں کسی شخص کو دیکھوں کہ وہ میری بیوی کے ساتھ ملوث ہے تو میں اسے چار گواہ لانے تک مہلت دوں؟‘‘ آپﷺ نے فرمایا ہاں‘‘ (مسلم)۔ اس پر حضرت سعد بن عبادہؓ کہنے لگے ''میں تو اگر کسی مرد کو اپنی عورت کے ساتھ دیکھ لوں تو تلوار کے ساتھ فوراً گردن اڑا دوں۔ اس پر اللہ کے رسولﷺ نے صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا! تم لوگوں کو سعدؓ کی غیرت پر تعجب ہوا ہے کہ یہ اس قدر غیرت مند ہے، سن لو! میں اس سے کہیں زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ سے کہیں بڑھ کر غیرت مند ہیں۔ (بخاری، مسلم)
قارئین کرام! اللہ کے رسولﷺ نے واضح کر دیا کہ اللہ قانون بنانے والا ہے، اس کا قانون یہی ہے کہ جو تہمت لگائے گا اور چار گواہ پیش نہیں کر سکے گا تو80کوڑے کھائے گا اور اگر غیرت میں آ کر قتل کرے گا تو قصاص میں قتل ہو گا۔ غیرت میں آ کر قتل کرنے والے کو سمجھنا ہو گا کہ جس اللہ نے قانون بنایا وہ سب سے بڑھ کر غیرت مند ہے اور اپنے جس نبیؐ کی طرف قانون نازل فرمایا وہ نبیؐ تمام انسانوں سے بڑھ کر غیرت مند ہے، لہٰذا قانون پر عمل ہو گا۔ کسی کا کوئی لحاظ نہ ہو گا۔ غیرت کے قتل میں کسی 
گنجائش کا کوئی استحقاق نہ ہو گا۔ بات واضح ہے کہ اس میں اگر ہلکی سی بھی ڈھیل دے دی گئی تو دس عورتیں اگر گناہ گار قتل ہوں گی تو 90عورتیں بے گناہ ماری جائیں گی۔ کسی کو عورت پسند نہیں تو الزام لگا کر قتل کر دی جائے گی۔ جہیز کم لائی ہے تو لالچی آدمی الزام لگا کر قتل کر دے گا۔ خاندانی چپقلش میں الزام لگا کر قتل کردے گا۔ بیٹیاں پیدا کرنے کی وجہ سے الزام لگا کرقتل کر دے گا۔ دوسری عورت لانے کی راہ میں رکاوٹ ہے تو الزام لگا کر قتل کر دے گا۔ یوں حوا کی بیٹی کا خون ارزاں ہو جائے گا۔ آج ہم دیکھتے نہیں کہ عورت کو آگ لگا کر مارا جاتا ہے اور مٹی کے تیل کا چولہا پھٹنے کا بہانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ چولہے کم رہ گئے، تب بھی مارنے کے کتنے بہانے بنائے جاتے ہیں۔ اللہ اللہ! اگر تھوڑی سی بھی گنجائش مل جاتی تو بیٹیاں اور بہنیں بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح ہو جاتیں۔ میں صدقے اور قربان جائوں سارے جہان والوں کے لئے سراپا رحمت بن کر آنے والے رسولﷺ پر کہ آپ نے سردار کو واضح کر دیا کہ حوّا کی بیٹی غیرت کے نام پر قتل ہو گی تو قانون حرکت میں آئے گا اور قتل کرنے والا بچ نہیں پائے گا، بدلے میں قتل ہو گا۔
جی ہاں! چار بیٹیوں کے بابل حضرت محمد کریمﷺ نے اپنی امت کی بیٹیوں کا تحفظ کر دیا۔ حضرت فاطمۃ الزہراؓ کے مشفق ابا جان نے ہر بیٹی کے خون کی حرمت پر نبوت کی مہر لگا دی اور واضح کر دیا کہ اللہ رحمن ساری کائنات سے بڑھ کر غیرت مند ہے اور اس کا نبی تمام انسانیت سے بڑھ کر غیرت مند ہے۔ ''مسند احمد‘‘ میں ہے کہ صحابہ نے اس موقع پر اللہ کے رسولﷺ سے عرض کی تھی کہ اے اللہ کے رسولؐ! سعد بن عبادہ سے درگزر فرمایئے، یہ وہ سردار ہے کہ اس نے اپنی غیرت کی شدت کی وجہ سے جب بھی شادی کی تو کنواری لڑکی سے کی اور جب کسی کو طلاق دی تو اس کی غیرت کو سامنے رکھتے ہوئے کسی میں جرأت نہ تھی کہ اس کی مطلقہ سے شادی کرے۔قارئین کرام! اللہ کے رسولﷺ نے درگزر کیا، حضرت سعدؓ کو کچھ نہ کہا مگر اپنی بات سے واضح کر دیا کہ غیرت کی ایسی باتوں کی کوئی حیثیت نہیں۔ قانون، قانون ہے اور وہ بہرحال وہی ہے جو غیرت والے اللہ اور اس کے غیور نبیؐ نے بتلا دیا ہے۔ جو بھی حوّا کی بیٹی کے معاملے میں قانون اپنے ہاتھ میں لے گا وہ قانون کی گرفت میں آئے گا۔
قارئین کرام! لیجئے اب ایک کیس بارگاہِ رسالتؐ میں آ گیا، یہ میاں بیوی کا کیس ہے اور جس کا کیس ہے وہ ایک جلیل القدر صحابی ہیں۔ حضرت ہلال بن امیہؓ وہ صحابی ہیں جو غزوئہ تبوک میں پیچھے رہ گئے تھے۔ جب حضورﷺ تبوک سے واپس مدینہ تشریف لائے تو انہوں نے کوئی عذر نہیں کیا، بلکہ اپنی سستی اور غلطی کا اعتراف کر لیا۔ اس غلطی کی سزا انہیں یہ دی گئی کہ حضورﷺ نے اور تمام مسلمانوں نے بائیکاٹ کر دیا۔ آخر اللہ نے ان کی توبہ قبول فرمائی اور قرآن نازل فرمایا۔ یہ حضرت ہلالؓ زمیندار تھے۔ عشاء کے بعد اپنی زمین سے واپس آئے اور جب گھر میں داخل ہوئے تو اپنی بیوی کے ساتھ ایک شخص کو ملوث پایا جس کا نام شریک بن سحماء تھا۔ رات تو صبر سے انہوں نے گزاری، فجر کی نماز کے بعد اللہ کے رسولﷺ کے سامنے تذکرہ کیا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ چار گواہ لانا پڑیں گے، نہیں لا سکو گے تو قرآن میں جو سزا ہے کہ جو بے گناہ مومن عورتوں پر الزام لگائے اور چار گواہ پیش نہ کر سکے تو اسے اسّی (80) کوڑے مارے جائیں گے، اس کے لئے تیار ہو جائو۔
اب اگر حضرت ہلالؓ کو کوڑے لگ جاتے ہیں، اور لگنے یقینی تھے کیونکہ وہ خود ہی اکیلے گواہ تھے، تو یوں وہ جھوٹے مشہور ہو جاتے اور آئندہ کے لئے ان کی گواہی ناقابل قبول ہو جاتی مگر یہ تو میاں بیوی کا معاملہ ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے عام قانون سے ہٹ کر میاں بیوی کا معاملہ خاص کر دیا۔ قرآن نازل فرمایا اور واضح کر دیا کہ جو شخص اپنی بیوی پہ تہمت لگائے اور وہ خود ہی گواہ ہو تو وہ چار بار اللہ کی قسم کھا کر کہے گا کہ اس نے جو الزام لگایا ہے اس میں سچا ہے اور پانچویں بار یوں کہے گا کہ اگر وہ الزام لگانے میں جھوٹا ہو تو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ اسی طرح پھر عورت کھڑی ہو گی اور چار بار اللہ کی قسم کھا کر کہے گی کہ اس کا خاوند جھوٹ بولتا ہے اور پانچویں بار کہے گی کہ اگر اس کا خاوند سچا ہو تو مجھ پر اللہ کا غضب بھڑکے۔
یوں اللہ کی طرف سے میاں بیوی کے لئے ایک نیا قانون آ گیا۔ نیا ضابطہ ملتے ہی اللہ کے رسولﷺ نے حضرت ہلالؓ سے کہا:جائو اور اپنی بیوی کو بلائو۔ اب دونوں اللہ کے رسولﷺ کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ حضرت ہلالؓ نے قانون کے مطابق چار بار قسم کھائی اور پانچویں بار کہا کہ اگر میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر اللہ کی لعنت ہو۔ اب ان کی بیوی کی باری تھی، وہ بھی کھڑی ہو گئی۔ چار بار اس نے قسم کھائی کہ اس کا شوہر جھوٹ بول رہا ہے، پانچویں بار بولنے لگی تو موجود لوگوں نے کہا: بی بی! اللہ سے ڈر جا، دنیا کی سزا (رجم) آخرت کی سزا کے مقابلے میں بہت معمولی ہے۔ یہ سن کر وہ لمحے بھر کو ہچکچائی اور پھر کہنے لگی: اللہ کی قسم! میں اپنے قبیلے کو رسوا نہیں کروں گی چنانچہ اس نے کہہ دیا کہ اگر میرا شوہر سچا ہے تو مجھ پر اللہ کا غضب نازل ہو۔
اب اللہ کے رسولﷺ نے دونوں کے درمیان میاں بیوی کا رشتہ ختم کر دیا اور فیصلہ دیا کہ اس عورت کے ہاں جو بچہ پیدا ہو گا اسے باپ سے منسوب نہیں کیا جائے گا اور نہ اس عورت کی نسبت اس کے خاوند سے باقی رہے گی نہ اس عورت کے بچے پر کوئی الزام دیا جائے۔''اور جس شخص نے اس عورت پر کوئی تہمت لگائی یا اس کے بچے پر کوئی الزام دیا تو اسے حد (80کوڑے) لگائی جائے گی۔‘‘
قارئین کرام! میں نے مندرجہ بالا واقعہ قرآن مجید، بخاری اور حدیث کی دیگر کتابوں سے اخذ کر کے عام فہم مفہوم میں آپ کے سامنے رکھ دیا۔ اس واقعہ سے ثابت یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے لئے ''لعان‘‘ کے نام سے الگ قانون بنا دیا لیکن اس کے لئے بھی عدالت میں آنا پڑے گا۔ دونوں کے درمیان جدائی ہو جائے گی لیکن اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ کوئی غیرت کے نام پر قتل کرے۔ اگر کوئی غیرت کے نام پر بہن کو قتل کرے گا، بیٹی کو قتل کرے گا، کسی عزیزہ کو قتل کرے گا تو اسے قانون کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اب سوال حکمرانوں سے یہ ہے کہ قانون تو موجود ہے، حوّا کی بیٹیاں ہزاروں کی تعداد میں پچھلے چند برسوں میں قتل ہو گئیں تو کیا قاتلوں کو سزا ملی؟ ہزاروں خواتین کے قتل میں کسی ایک قاتل کو بھی پھانسی کے پھندے پر لٹکایا گیا، آگ میں جلانے والے درندوں میں سے کسی ایک درندے کو بھی نشان عبرت بنایا گیا، عورت کمزور ہے، اس کمزور نے بھی اپنے کسی آشنا کے ساتھ مل کر اپنے خاوند کو قتل کر دیا۔ ایسے بھی واقعات موجود ہیں لیکن اوسط نکالیں تو سو میں سے پانچ واقعات ایسے ہوں گے جس میں کسی عورت نے ایسا بھیانک کردار ادا کیا۔ ایسی عورت کو بھی سزا سے دوچار کیا جائے تاکہ حیا کے دائرے سے نکل کر آخری حدپار کرنے والی درندہ صفت عورتوں کو بھی عبرت ہو مگر ہمیں یہ حقیقت سامنے رکھنا ہو گی کہ سو میں سے 95قتل ہونے والی حوّا کی کمزور بیٹیاں ہی ہیں لہٰذا ان کمزوروں کا تحفظ اسی طرح ہی ممکن ہے کہ غیرت کے نام پر قاتل درندوں کو عبرت کا سامان بنا دیا جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں