جناب پوپ فرانسس نے روم میں مردوں اور عورتوں کے پائوں کو دھویا اور پھر ان کے قدموں کو بوسہ دیا۔ بوسہ لیتے ہوئے اُن کی کی تصویر کو دنیا بھر کے نشریاتی اداروں نے شائع اور نشر کیا۔ پوپ فرانسس نے جن لوگوں کے پائوں کو دھو کر بوسہ دیا ان میں شام کے مسلمان مہاجرین بھی تھے۔ پوپ فرانسس کے اپنے ہم مسلک اور پیروکار کیتھولک مسیحی بھی تھے۔ مخالف مسلک کے لوگ آرتھوڈکس مسیحی بھی تھے، ہندو بھی شامل تھے۔ اس تصویر کو دیکھ کر عام لوگ حیران ہوتے ہیں، خبر پڑھ کر حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ دنیا میں سلامتی کونسل کے پانچ ممبر جنہیں ویٹو پاور حاصل ہے، یعنی وہ دنیا کے انتہائی طاقتور ملک ہیں، ان میں روس اور چین کے علاوہ باقی چار مسیحی ملک ہیں۔ امریکہ، برطانیہ اور فرانس۔ پوپ کیتھولک مسیحی برادری کے سب سے بڑے روحانی رہنما ہیں پھر وہ ایسا انتہائی عاجزانہ عمل کیوں کرتے ہیں کہ جس میںلوگوں کو توہین کا پہلو نظر آتا ہے۔ چنانچہ لوگوں کی حیرانی کو دیکھتے ہوئے میں نے ضروری سمجھا کہ اس پر اسلامی اور مسیحی حوالوں سے روشنی ڈالوں کہ جناب پوپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟
مسیحی روایت یہ بتلاتی ہے کہ جناب مسیح علیہ السلام نے بقول ان کے صلیب پر چڑھائے جانے سے پہلے ایسٹر کے موقع پر اپنے بارہ حواریوں کے پائووں کو پہلے دھویا اور پھر بوسہ دیا تھا۔ لہٰذا پوپ بھی اس روایت پر عمل کرتے ہیں۔ اس عمل میں انتہا درجے کی عاجزی اور مسکینی ہے۔ انجیل لوقا میں ہے کہ جب حضرت یحییٰ علیہ السلام سے ان کے پیروکاروں نے پوچھا کہ کیا آپ مسیح ہیں تو حضرت یحییٰ علیہ السلام نے نفی میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ آنے والا ہے ''میں اس کی جوتی کا تسمہ کھولنے کے لائق نہیں (لوقا:16) یعنی حضرت یحییٰ علیہ السلام حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عظمت بیان کرتے ہوئے اور اپنی عاجزی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں تو ان کی جوتی کا تسمہ کھولنے کے لائق نہیں۔ بتلانے کا مقصد یہ ہے کہ یہودیوں کے اندر جو انتہا درجے کی سختی، بے ادبی، گستاخی اور نبیوں کا قتل اور بے ہودہ بہتان طرازی تھی اس کے مقابلے میں انجیل میں ہمیں نرمی نظر آتی ہے۔ جناب پوپ کی روایت میں بھی اس نرمی اور عاجزی کا اظہار ہوتا ہے اور بائبل کا یہ بول تو بے حد مشہور ہے کہ اگر کوئی تمہارے رخسار پر طمانچہ مارے تو دوسرا رخسار بھی اس کے سامنے پیش کر دو۔ بہرحال پائوں جوتی میں ہو یا جوتی کے بغیر اس کی تعظیم ہمیں مسیحی روایات میں بخوبی ملتی ہے۔
اللہ کے آخری رسول حضرت محمد کریمﷺ نے ختم نبوت کا اعلان کیا تو اپنا خط مبارک مسیحی بادشاہ کو بھیجا۔ اس وقت دنیا کی دو سپرپاورز تھیں ایک ایران اور دوسری روم۔ رومی بادشاہ ایران سے بھی زیادہ طاقتور تھا۔ اس کا پایہء تخت قسطنطنیہ (استنبول) تھا۔ وہ زیارت کے لئے یروشلم (القدس) آیا ہوا تھا۔ اللہ کے رسولﷺ کا خط مبارک حضرت دحیہ کلبیؓ لے کر گئے تھے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت دحیہ کلبیؓ کو اردن کے رومی گورنر حاکم غسّان نے ہرقل کے دربار میں پہنچایا ان دنوں جناب ابوسفیانؓ بھی وہاں تھے اور وہ ابھی تک مسلمان نہ ہوئے تھے۔ شاہ روم نے ان کو بھی بلا بھیجا اور سوال و جواب اور تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ وہ آخری رسول آ چکے ہیں۔ اب شاہ ہرقل حضرت دحیہؓ سے کہنے لگا: ''مجھے یہ تو معلوم تھا کہ وہ پیغمبر آنے والا ہے مگر میرے گمان میں یہ نہ تھا کہ وہ تم (عرب) میں سے مبعوث ہو گا اگر مجھے یہ معلوم ہوتا کہ میں ان کی خدمت میں حاضر ہو سکوں گا توان سے ملاقات کی خاطر ہر مشقت برداشت کرتا اور لَوْ کُنْتُ عِنْدَہٌ لَغَسَلْتُ عَنْ قَدَمَیْہِ ان کی خدمت میں موجود ہو جاتا تو ان کے دونوں پائوں دھوتا‘‘(بخاری، مسلم)۔ جی ہاں! معلوم ہوا جوتے کے تسمے کھولنے، پائوں دھونے اور پائوں کے بوسے لینے کی روایات مسیحی مذہب میں تسلسل کے ساتھ چلی آ رہی ہیں اور آج بھی یہی وہ روایت ہے کہ جس کے تسلسل کو جناب پوپ نباہ رہے ہیں۔ اس سے مسیحی علماء کی نرم دلی اور انسانیت کے ساتھ محبت کا اظہار ہوتا ہے۔
یاد رہے! مسیحی علماء کی مذکورہ نرم دلی کا تذکرہ قرآن میں بھی ہے جو حضرت محمد کریم رحمۃ للعالمینﷺ کی مبارک زبان سے ادا ہوا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں! ''(بہت سارے رسولوں کے بعد) ہم نے ان کے پیچھے عیسیٰ بن مریم کو بھیجا ہم نے ان کو انجیل عطا فرمائی اور جن لوگوں نے ان کی پیروی کی ان کے دلوں میں ہم نے شفقت اور رحم دلی پیدا فرما دی۔‘‘ (الحدید:27) دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی نرمی کا اظہار یوں فرماتے ہیں۔ ''(اے مسلمانو!) تم اس حقیقت کو بہرحال محسوس کرو گے کہ مسلمانوں کے ساتھ سب سے زیادہ دشمنی رکھنے والے یہودی ہیں اور دوسرے وہ لوگ ہیں جنہوں نے (بت پرستی کر کے) شرک کا ارتکاب کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تم اس حقیقت کو بھی محسوس کرو گے کہ (غیر مسلم اقوام) میں مسلمانوں کے ساتھ دوستی میں سب سے زیادہ قریب ترین وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے تعارف میں یہ کہا کہ ہم نصاریٰ لوگ ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں علماء بھی ہیں اور دنیا کو چھوڑ دینے والے صوفی بھی ہیں۔ ایک اہم ترین وجہ یہ بھی ہے کہ یہ لوگ تکبر نہیں کرتے۔‘‘ (المائدہ:82)
قارئین کرام! ثابت ہوا یہ تکبر نہیں کریں گے تو عاجزی اور مسکینی کا اظہار کریں گے اور وہ اظہار ہم ان کی روایات میں دیکھتے چلے آ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر مشرکین مکہ نے جب مسلمانوں کو ستایا تو اللہ کے رسولﷺ نے ستائے ہوئے مسلمانوں کو حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ وہاں کا بادشاہ نرم دل ہے، یعنی انسانیت کے ساتھ محبت کرنے والا ہے چنانچہ مسلمانوں کی اولین ہجرت حبشہ کی جانب تھی۔ آج شام کے ستائے ہوئے مسلمان بھی ہجرت کر کے نصاریٰ (یورپی ممالک)کے پاس پہنچے ہیں اور جناب پوپ ان مسلمانوں کے پائوں دھو کر ان کو بوسہ دے رہے ہیں۔ ان میں ایک شامی مسلمان خاتون بھی ہے جس نے سر پر دوپٹہ اوڑھ رکھا ہے اور گود میں بچہ اٹھا رکھا ہے۔ جناب پوپ جن کے پائوں دھو رہے ہیں اور بوسہ دے رہے ہیں ان کے بارے میں کہہ رہے ہیں کہ یہ سب اللہ کے بندے ہیں اور ہم اللہ کی مخلوق سے پیار کرتے ہیں۔ وہ مہاجرین کے بارے میں کہتے ہیں کہ برسلز جیسے حملے کر کے دہشت گرد لوگ مہاجرین میں انسانیت کی بنیاد پر قائم بھائی چارے کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔
قابل غور بات یہ ہے کہ جناب پوپ نے جن لوگوں کے پائوں کوبوسہ دیا ہے ان میں کوئی یہودی نہیں اور جناب پوپ نے جو اشارہ کیا ہے وہ توجہ کے لائق ہے۔ فرماتے ہیں دہشت گردی ان کا عمل ہے جو خون کے پیاسے اور اسلحے کی صنعت کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ اب اس بات سے کون ناواقف ہے کہ امریکہ اور یورپ میں اسلحہ کی صنعت یہودیوں کے پاس ہے، یعنی داعش جیسے دہشت گردوں کے پیچھے یہودی ہیں۔ وہ یورپ میں ایسے حملے کروا کر مسلمانوں اور نصرانیوں کے درمیان جنگ چاہتے ہیں، اس طرح ان کی اسلحہ کی صنعت کو فروغ ملے گا۔ اللہ اللہ! ثابت ہوا مسلمانوں میں سے خوارج حضرات نکل کر مسلمانوں کو بھی مار رہے ہیں اور ان نصرانیوں کو بھی مار رہے ہیں جہاں مسلمان سکون کے ساتھ قیام پذیر ہیں اور نصرانیوں میں سے وہ حکمران کہ جن کی رگِ جان پنجۂ یہود میں ہے وہ بھی خارجیوں کے پشت پناہ ہیں۔ شام، افغانستان اور عراق میں ان کا کردار انتہائی بھیانک ہے۔ ان کے مذکورہ کردار کو دیکھ کر ہی شاہ عبداللہ مرحوم نے مذاہب کے درمیان ڈائیلاگ اور امن کی داغ بیل ڈالی تھی۔ انہوں نے اس مہم میں ان امن پسند یہودیوں کو بھی شریک کیا تھا جو اسرائیل کی صہیونی دہشت گردی کے خلاف ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں جناب پوپ جیسے نصرانی کردار کے حامل محبِ انسانیت علماء کو آگے بڑھنا چاہئے اور اپنے ان نصرانی حکمرانوں کا محاسبہ کرنا چاہئے جنہوں نے فلسطینیوں پر غاصب یہودیوں اور کشمیر پر غاصب ہندوئوں کو مسلط کیا ہے۔ ایسے مسیحی علماء کے بارے میں معروف صحابی رسولؐ اور فاتح مصر فرماتے ہیں کہ یہ لوگ بادشاہوں کے ظلم کے سامنے سب سے بڑھ کر رکاوٹ کھڑی کرنے والے ہوتے ہیں۔ (مسلم)
جی ہاں! یہ مسائل حل ہو جائیں تو دہشت گردی کے بڑے اور بنیادی اسباب ختم ہو جائیں گے۔ مسلمان علماء کو بھی آگے بڑھنا چاہئے اور خوارج کے بارے میں حقائق بتلا کر امن کی جدوجہد کرنی چاہئے۔ ہمارے آخری پیارے رسولﷺ جو تمام جہانوں کے لئے رحمت بن کر تشریف لائے ہمارا جہان اس رحمت کا گہوارہ ہونا چاہئے۔ امن کے ماحول میں دلیل کے ساتھ دعوت کا ڈائیلاگ ہی انسانیت کی معراج اور اس کا شرف ہے۔ انسانیت کو اس شرف سے مشرف کر کے ہی ہم اشرف المخلوقات کہلا سکتے ہیں۔