اللہ کے رسول حضرت محمد کریمؐ کی آمد سے قبل عرب کے ہاں چور کے لئے جس سزا کا رواج تھا وہ ہاتھ کاٹنے کی سزا تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس سزا کو برقرار رکھا اور فرمایا! ''چور مرد ہو یا عورت، اس کے ہاتھ کاٹ دو۔ اللہ کی طرف سے یہ اس جرم کی عبرتناک سزا ہے جس کا انہوں نے ارتکاب کیا (المائدہ: 38)۔ ایسا جرم کرنے والے چونکہ رسوا بھی ہوتے ہیں کہ ہاتھ کٹ جانے سے زندگی بھر چوری جیسی رسوائی کا ٹھپہ لگ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے ایسے لوگوں کے بارے میں تعجب بھی کیا اور ڈانٹ ڈپٹ کا یہ جملہ بھی ارشاد فرمایا ''چوری کرنے والے پر اللہ کی لعنت ہو، انڈہ چوری کرتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے۔ رسی چوری کرتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے۔ (بخاری: 6799، مسلم: 1687) ہمارے حضورؐ کو اللہ تعالیٰ نے تمام جہان والوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے اس لئے حضورؐ کی مذکورہ ڈانٹ میں رحمت اور ہمدردی کا پہلو اس لحاظ سے بھی ہے کہ چور کیسا نادان ہے کہ معمولی چیزوں کی چوری پر اپنا ہاتھ کٹوا لیتا ہے۔ چنانچہ اللہ کے رسولؐ نے مالیت کا تعین فرما دیا کہ ''چور کا ہاتھ کم از کم دینار کے چوتھے حصے کی چوری پر کاٹا جائے گا۔‘‘ (بخاری:6790، مسلم: 1684)
قارئین کرام! دینار سونے کا سکہ ہے جبکہ درہم چاندی کا سکہ ہے۔ 12درہم کا ایک دینار ہوتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ تین درہم کی چوری پر ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ میں نے آج کے حساب سے جب 3درہم کی قیمت روپے میں لگائی تو یہ تقریباً پانچ سو روپے بنتے ہیں یعنی پانچ سو روپے مالیت کی شے چرانے پر چور کی سزا حضورؐ کی شریعت میں ہاتھ کاٹنا ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی مسند اور دیگر کتب میں ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر قریش قبیلے کی ایک شاخ مخزوم سے تعلق رکھنے والی ایک عورت نے کہ جس کا نام فاطمہ تھا، چوری کر لی۔ جن کا مال چوری ہوا تھا وہ اس خاتون کو حضورؐ کی عدالت میں لے آئے۔ خاتون نے اپنے جرم کا اقرار کر لیا۔ حضورؐ نے ہاتھ کاٹنے کا حکم دے دیا۔ مخزومی لوگ عرض کرنے لگے ہم پانچ سو دینار فدیہ ادا کرنے کو تیار ہیں مگر ہاتھ نہ کاٹیے۔ فرمایا! اس کا ہاتھ کاٹ دو۔ امام بخاری اور امام مسلم حدیث لائے ہیں۔ حضرت عائشہؓ بتلاتی ہیں کہ قریش نے سفارش کے لئے حضرت اسامہؓ سے کہا، اللہ کے رسولؐ ان سے محبت کرتے تھے، وہ جب سفارشی بن کر حضورؐ کے سامنے آئے تو آپ کے مبارک چہرے کا رنگ بدل گیا اور فرمایا، اچھا! تو اس قدر جرأت مند ہو گیا ہے کہ اللہ کی حدوں میں سے ایک حد میں سفارش کرنے آ گیا ہے؟ شام ہوئی تو حضورؐ نے لوگوں کو جمع کرنے کا حکم دیا اور خطاب فرماتے ہوئے خبردار کیا! تم سے پہلے لوگ اس وجہ سے برباد ہو گئے کہ ان کا کوئی شریف (طاقتور) آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور اگر ان میں کوئی ضعیف (کمزور) آدمی چوری کرتا تو اس پر حد قائم کر دیتے۔ اس معاملے میں، کان کھول کر سن لو، اس اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ (یہ تو قریش کی فاطمہ ہے) اگر محمدؐ کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کر لے تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دوں۔ (بخاری:4304، مسلم: 1668)
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ بتلاتے ہیں کہ بنومخزوم کی فاطمہ کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ وہ عرض کرنے لگی، اے اللہ کے رسولؐ! کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ فرمایا، کیوں نہیں، اب تم اپنے گناہوں سے اس طرح پاک صاف ہو گئی ہو جس طرح اس وقت پاک صاف تھی جس دن تمہاری ماں نے تمہیں جنم دیا تھا۔ ساتھ ہی اللہ کا قرآن بھی نازل ہو گیا۔ فرمایا! ''جو اپنے ظلم کرنے کے بعد تائب ہو گیا اور اصلاح کر لی، اللہ اس کی توبہ قبول فرمائے گا، کچھ شک نہیں اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ (المائدہ:39) یاد رہے! حضورؐ کے فرمان کی روشنی یہ بتلاتی ہے کہ عدالت میں آنے سے پہلے فریقین معافی تلافی کر لیں تو اچھی بات ہے لیکن معاملہ عدالت میں آ گیا تو فیصلہ ہی ہو گا لہٰذا حضورؐ نے اللہ کے طے کردہ اصول کے مطابق اپنی عدالت میں فیصلہ ہی سنایا۔
قارئین کرام! یہ تو ہو گئی چوری کی سزا، اب آتے ہیں ''ڈاکے‘‘ کی سزا کی جانب کہ شریعت میں اس کی سزا کیا ہے۔ اللہ فرماتے ہیں! وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں دہشت گردی کرنے کو بھاگ دوڑ کرتے ہیں ان کی سزا یہ ہے کہ سختی کے ساتھ قتل کر دیئے جائیں یا سولی چڑھا دیئے جائیں یا ان کے ہاتھ پائوں مخالف سمت سے کاٹ دیئے جائیں یا انہیں ان کے علاقے سے بے دخل کر دیا جائے۔ یہ تو ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے جبکہ آخرت میں ان کے لئے بہت بڑا عذاب ہے۔ (المائدہ :33) مندرجہ بالا فرمانِ الٰہی پر اللہ کے رسولؐ کا عمل اس طرح ثابت ہے کہ امام بخاری اور امام مسلم حضرت انس بن مالکؓ سے حدیث لائے ہیں کہ عُکَل قبیلے کے آٹھ بندوں نے اسلام قبول کیا۔ مدینہ میں رہنے لگ گئے پھر بیمار ہو گئے تو حضورؐ نے انہیں سرکاری چراگاہ میں بھیج دیا کہ اونٹنیوں کا دودھ پئیں۔ وہ تندرست ہو گئے تو چرواہے کو قتل کر دیا۔ اونٹوں کو بھگا کر لے گئے۔ حضورؐ کے علم میں بات آئی تو صحابہ کو دوڑایا وہ گرفتار کر کے لے آئے تو حضورؐ کے حکم سے ان کے ہاتھ پائوں مخالف سمت سے کاٹ دیئے گئے۔ ''چونکہ انہوں نے چرواہے کی آنکھوں میں گرم سلائیاں بھی پھیری تھیں لہٰذا ان کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا گیا۔‘‘ دھوپ میں پھینک دیا گیا اور یہ سب آٹھوں کے آٹھوں مر گئے (بخاری:233، مسلم :1671)
بہرحال! اللہ تعالیٰ نے چار سزائیں بتلائی ہیں، عدالت ان میں سے جو سزا جرم کے مطابق مناسب سمجھے وہ نافذ کر سکتی ہے۔
بنومخزوم کی خاتون جس کا ہاتھ کاٹا گیا تھا اس کے بارے میں حضرت عائشہؓ یہ بھی بتلاتی ہیں کہ اس عورت کی یہ عادت تھی کہ ادھار لیا کرتی تھی اور پھر انکار کر دیا کرتی تھی تو حضورؐ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا تھا (مسلم:1688) سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ تو معزز قریش خاندان کی ایک خاتون تھیں کہ جو قرض لیتی تھیں اور انکار کر دیتی تھیں۔ آخرکار چوری کی صورت میں گرفت میں آ گئیں۔ آج کے جو اشرافیہ ہیں، اونچے اور معزز خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں، انہوں نے کروڑوں اربوں کے قرض لئے ہیں اور پھر ان کو معاف کر دیئے گئے ہیں۔ پاکستان میں کرپشن کا آغاز قرضوں کی معافیوں سے ہوا۔ وزیراعظم پاکستان نے بھی دوبار کرپشن کے سلسلے میں خطاب کیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ کمشن سب کا احتساب کرے۔ چوری کی سزا معطل کرنے کی جب سفارش آئی تھی تو شاہ عرب حضرت محمد کریمؐ نے بھی خطاب فرمایا تھا، میاں نوازشریف صاحب اس خطاب کو اپنے سامنے رکھیں اور بے لاگ احتساب کریں۔ اس کا آغاز قرض لے کر معاف کرانے والوں سے کریں کہ یہ انتہائی آسان ہے۔ نام اور لسٹیں موجود ہیں، کچھ نہ کر سکیں تو اتنا ہی کر لیں کہ قرض معاف کرانے والوں کی جائیدادوں کو موجودہ حساب کے ساتھ ضبط کر لیں۔ اس سے ہی بڑا فرق پڑ جائے گا۔
جی ہاں! پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا ہے۔ اس کا نام ''اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ ہے۔ اس کا آئین اسلامی ہے جس میں حاکم اعلیٰ اللہ تعالیٰ ہے اور کتاب و سنت کے منافی کوئی قانون نہیں بن سکتا۔ لہٰذا وہ لوگ جنہوں نے یہاں سرکاری اداروں میں کرپشن کر کے انہیں لوٹا، پھر کرپشن کی مدد سے دہشت گردی کی۔ بیرونی ملکوں اور دشمن ملک کی ایجنسیوں کے ہاتھوں فروخت ہوئے اور ان کے اسلحہ سے ملک میں فساد مچایا۔ اہل پاکستان کو قتل کیا، عورتوں اور بچوں کو بم دھماکوں سے اڑایا۔ ان لوگوں نے اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان کے خلاف جنگ کر کے انہوں نے اللہ اور اس کے رسولؐ کے خلاف لڑائی کی ہے لہٰذا وزیراعظم میاں محمد نوازشریف ایسے لوگوں سے کوئی رورعایت نہ کریں۔ ایک کمیٹی تشکیل دے دیں۔ اس کے ارکان انتہائی دیانتدار ہوں، مثال کے طور پر جنرل راحیل سے کہیں وہ فوج کا ایک نمائندہ دیں۔ مسلم لیگ ن کا ایک نمائندہ ہو، پیپلزپارٹی، تحریک انصاف، جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی، مرکزی جمعیت اہلحدیث، ایم کیو ایم یعنی تمام قابل ذکر پارلیمانی پارٹیوں سے ایک ایک دیانتدار ایسا نمائندہ لیا جائے کہ پوری قوم اس کی دیانت کے بارے میں مطمئن ہو۔ یہ کمیٹی طے کرے کہ احتساب کا آغاز کہاں سے اور کس سے شروع کریں اور جو آزاد و خودمختار کمیشن بنایا جائے، اس کے سربراہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ہوں۔ ٹی او آر یعنی ٹرمز آف ریفرنس بھی یہی کمیشن بنائے اور کام شروع کر دے۔ پورے ملک کو درست راستے پر ڈال دے۔ مذکورہ کمیشن سفارشات نہیں کرے گا بلکہ احکامات دے کر ان کو نافذ کرے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ حالات میں ملک کو استحکام کی ضرورت ہے۔ کرپشن کے خلاف جنرل راحیل شریف کے جرأتمندانہ کردار کو سامنے رکھا جائے۔ انتشار اور انارکی سے بچنے کے لئے سب کو کردار ادا کرنا چاہئے۔ ہم نے اسلامی نقطہ نظر بھی اس لئے واضح کیا ہے کہ چوری، ڈاکے، کرپشن اور دہشت گردی میں ناپاک اتحاد ہو چکا ہے لہٰذا اسلامی سزائوں کی روشنی میں کرپشن کی نئی تعریف کے ساتھ خودمختار کمشن اپنا کردار ادا کرے۔ اللہ تعالیٰ میرے ملک کو سلامت رکھے اور ہم سب کو درست راستے پر چلائے۔ (آمین)!۔