چند سال قبل چین میں ایک حادثہ رونما ہوا۔ چھ شیر خوار بچے دست اور اسہال سے فوت ہو گئے۔ بات حکومت کے نوٹس میں آئی اور تحقیق شروع کر دی گئی۔ بچوں کو جو دودھ پلایا جا رہا تھا اسے لیبارٹری میں بھیج دیا گیا۔ وہاں سے رپورٹ یہ آئی کہ جس کمپنی کا دودھ یہ بچے پی رہے تھے وہ دودھ ناقص ہے اور حفظانِ صحت کے اصولوں کے خلاف ہے۔ بچوں کی موت کا باعث یہی دودھ بنا ہے۔ اب کمپنی کے منیجر کو گرفتار کر لیا گیا۔ منیجر نے اپنے جرم کا اقرار کر لیا اور کہا کہ اس نے ناقص دودھ کی منظوری کے لئے ''سٹیٹ فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈ منسٹریشن‘‘ کے سربراہ ژینگ زیائو کو تحائف کی شکل میں رشوت دے کر منظوری حاصل کی تھی۔ اب مسٹر ژینگ زیائو کو محکمے کی سربراہی سے برطرف کر کے تحقیق شروع کر دی گئی۔ ژینگ زیائو نے اپنے جرم کا اعتراف کر لیا کہ اس کے بغیر کوئی چارہ نہ تھا چنانچہ اسے عدالت کے کٹہرے میں لایا گیا۔ قیدیوں والا لباس پہنے ہوئے جب جج کے سامنے حاضر ہوا تو اپنے جرم کی سنگینی اور متوقع سزا سے خوفزدہ نظر آ رہا تھا اور پھر وہی ہوا، جج نے سزائے موت سنا دی اور پھر دنیا کی تیسری سپر پاورکے ایک اہم ترین اہلکار کو 30 مئی 2007ء کو موت کی سزا دے کر پیغام دے دیا گیا کہ چینی بچوں کی صحت کے ساتھ کھیلنے والا چین کے مستقبل سے کھلواڑ کر رہا تھا۔ اسے چین کے معاشرے میں زندہ رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔حالانکہ یہ وہی شخص تھا جسے چینی حکومت نے درخواست کر کے بیرون ملک سے واپس بلایا تھا کہ وہ اپنی مہارت، تجربہ اور صلاحیتیں اپنے ملک کے لئے وقف کرے اور اس شخص کی چین میں اس درجہ عزت تھی کہ قومی خدمات کے صلہ میں اس کے مجسّمے چوراہوں پر نصب کئے جاتے۔
امریکہ، روس اور چین جیسے ملکوں میں ریلوے کو فوج کے تحت رکھا گیا ہے۔ چین کی وزارتِ ریلوے کا وزیر ہوژی ژانگ تھا۔ مذکورہ وزیر بہت قابل اور محنتی تھا۔ اس نے دن رات محنت کر کے چین کے ریلوے نظام کو آئیڈیل بنا دیا۔ لاجسٹک اور دفاعی حوالے سے اسے بامِ عروج تک پہنچا دیا مگر وہ بدعنوانی اور کرپشن کے ایک کیس میں دھر لیا گیا۔ تحقیقات ہوئیں تو بدعنوانی سامنے آ گئی چنانچہ وہ مجرم ثابت ہوا اور پھر اسے 8 جولائی 2013ء کو سزائے موت دے کر ابدی نیند سلا دیا گیا اور قوم کو یہ پیغام دے دیا گیا کہ جو کوئی خدمات بجا لاتا ہے وہ اس کا طے شدہ عوضانہ ریاست سے وصول کرتا ہے لہٰذا چاہے خدمات کس قدر بھی ہوں مگر بدعنوانی اور کرپشن سامنے آئے گی تو چینی قوم کا چاہے جس قدر بھی بڑا خادم ہو سزا سے بچ نہیں سکے گا۔ چین میں ایک ارب پتی تاجر خاتون کو بھی سزائے موت سنائی گئی جس نے قوم کا حق یعنی ٹیکس چوری کیا تھا۔ اس خاتون کو جب سزائے موت سنائی گئی تو وہ عدالت کے کٹہرے میں زاروقطار رو رہی تھی۔ چالیس سال کے لگ بھگ خوبرو اور ادھیڑ عمر عورت موت سے نہ بچ سکی۔ اسی طرح بلدیاتی سطح پر بلدیہ کے کئی چیئرمینوں کو بھی موت کی سزا دی گئی کہ جنہوں نے مقامی حکومتوں کے فنڈز کو خوردبرد کیا تھا... میں نے جب تحقیق کی تو پتہ چلا کہ چین ایسا ملک نہیں جہاں کرپشن سرے سے موجود ہی نہیں وہاں بھی لالچی اور کرپٹ لوگ موجود ہیں لیکن حکومت ان لوگوں سے آہنی ہاتھوں سے نبٹتی ہے۔ چین میں کرپٹ لوگوں کی کرپشن کو تلاش کیا جاتا ہے تو دیگر طریقوں کے علاوہ جو ایک طریقہ بہت نمایاں ہے وہ یہ ہے کہ حکومت میں موجود حکمران طبقہ کے اثاثوں کو ان کی آمدن سے ملا کر دیکھا جاتا ہے۔ معمولی فرق ہو تو نظرانداز بھی کیا جاتا ہے۔ فرق کافی بڑھ جائے تو تحقیق شروع کر دی جاتی ہے۔ اس کا گھر، گاڑی اور سماجی زندگی میں اخراجات اس کی آمدن سے کہیں بڑے ہو جائیں تو تحقیقات میں کرپشن سامنے آہی جاتی ہے اور پھر معافی نہیں ہے، ایک اہم شعبے کا سربراہ جو ہر تقریب میں ایک انتہائی قیمتی گھڑی پہنتا تھا... یہیں سے وہ گرفتار ہوا۔ کرپشن ثابت ہوئی اور موت کے منہ میں چلا گیا۔
کرپشن پکڑنے کا ایک اور سادہ سا طریقہ بھی ہے۔ مثال کے طور پر میٹرو بس ہمارا بڑا اچھا منصوبہ ہے جسے جناب میاں شہباز شریف صاحب نے مکمل کر کے اہل وطن خصوصاً اہل لاہور کو ایک تحفہ دیا ہے۔ اس پر دن رات محنت کی ہے۔ اس کی الیکٹرانک سیڑھیاں بھی ہیں۔ اب چونکہ ہمارے ملک میں لوڈشیڈنگ ہے، فرض کریں کہ اگر متعلقہ افسر کی جانب سے جنریٹرفٹ کرنے کا ٹینڈر دیا جائے۔ ایک شخص بالکل نئے اور اعلیٰ جنریٹر فٹ کرنے کی بولی پچاس کروڑ دے اور پھر ایک دن پتہ چلے کہ یہ سب کچھ کینسل کر کے کسی من پسند شخص کو دو ارب میں یہ ٹھیکہ دے دیا جائے۔ اب جنریٹر بھی پرانے یا گھٹیا لگا دیئے جائیں تو اگر اس کرپشن کو تلاش کرنا شروع کیا جائے تو نہ یہ کاغذوں میں ملے گی، نہ قانون اس پر ہاتھ ڈال سکے گا، نہ کچھ اور ہو سکے گا، لیکن اگر کوئی دیانتداری سے اس کیس کو پکڑ لے تو چند دنوں میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی بھی ہو سکتا ہے۔ یہ میں نے ایک فرضی مثال دی ہے۔ چین میں چونکہ فرض ادا کیا جاتا ہے لہٰذا فرضی چیزیں حقائق بن کر سامنے آ جاتی ہیں جبکہ ہمارے ہاں سب کچھ فرضی ہی رہ جاتا ہے۔
کرپشن پر موت کی سزا دینے کی ایک اور مثال ہمارے دوسرے پڑوسی ملک ایران کی بھی ہے۔ چین جس طرح ہمارے ہاں سی پیک اور دیگر بڑے بڑے منصوبے بنا رہا ہے ایسے ہی وہ ایران میں بھی بنا رہا ہے۔ ایک منصوبے کے تحت بحیرئہ خزر (کیسپین) سے نہر نکال کر ایران کے درمیان سے گزارتے ہوئے اسے چاہ بہار کے قریب لا کر بحیرئہ عرب میں ڈال دے گا۔ میں نے بحیرئہ خزر دیکھا ہوا ہے۔ اسے بحیرئہ قزوین بھی کہا جاتا ہے۔ یہ منصوبہ مکمل ہو گیا تو روس، وسط ایشیائی ریاستوں، آذربائیجان وغیرہ کے بحری جہاز تجارت کے لئے یہ راستہ استعمال کریں گے۔ بتلانے کا مقصد یہ ہے کہ چین کے جو منصوبے اور میگا پراجیکٹس ایران میں ہیں وہاں شفافیت ہے اور شفافیت میں جو کوئی گدلاپن پیدا کرتا ہے تو اس کی سزا موت ہے۔ ایران میں بابک زنجانی ایسا ہی ایک نام ہے۔ جب ایران پر تجارتی پابندیاں تھیں تو یہ شخص ایران کا تیل بیچ کر ایران کو فائدہ پہنچاتا تھا۔ صدر احمدی نژاد کے دور میں بابک زنجانی ایران کے صدر کے بہت قریب تھا۔ اس لئے کہ اسے ایرانی قوم کا محسن مانا جاتا تھا۔ یہ چونکہ تاجر تھا اس لئے بہت ہی امیر تھا اور ارب پتی تھا مگر پھر اس کی ہوس بے لگام ہو گئی اور اس نے ایران کے تیل میں بددیانتی کر کے اربوں کی دولت اکٹھی کر لی۔ دولت کے ہوشربا اضافے پر تحقیق ہوئی تو پکڑا گیا۔ اسے دسمبر 2013ء میں گرفتار کر لیا گیا۔ 45 سال کے قریب عمر کا حامل یہ خوبرو شخص جو چودہ ارب ڈالر کا مالک بن چکا تھا، جس کا اپنا رن وے، اپنے جہاز اور ہیلی کاپٹر تھے اسے جرم ثابت ہونے پر آج سے کوئی دو ماہ قبل چھ مارچ 2016ء کو سزائے موت سنا دی گئی ہے۔ انڈیا میں بھی کرپشن کے خلاف انا ہزارے کی تحریک کے بعد کیجری وال کی دہلی میں حکومت قائم ہو گئی ہے اور الیکشن کمیشن، عدلیہ اور دیگر ادارے خودمختار بن گئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں مگر میرا تجزیہ کچھ اس طرح ہے کہ امریکہ اور یورپ وغیرہ سے ہم وابستہ رہے اور آج بھی وابستہ ہیں۔ ان کے معاشی اداروں سے ہم امداد کے نام پر قرض لیتے رہے اور لے رہے ہیں۔ انہوں نے خود آنکھیں بند رکھیں بلکہ حوصلہ افزائی بھی کی کہ ہماری اشرافیہ کرپشن کرتی رہے، ملک معاشی استحکام حاصل نہ کر پائے اور وہ اپنے غلط مقاصد ہمارے حکمرانوں (اشرافیہ) سے حاصل کرتے رہیں۔ اب یہ دور اختتام پذیر ہو رہا ہے اور چین کے ساتھ وابستگی کا دور شروع ہونے جا رہا ہے۔ چین مذکورہ رویے کو پسند نہیں کرتا اس لئے کہ اس سے ترقی بھی نہ ہو گی اور استحکام بھی نہ ملے گا جبکہ معاشی سسٹم کو امن بھی چاہئے اور استحکام بھی، لہٰذا آنے والے دور کا تقاضا یہ ہے کہ پاکستان میں کرپشن کا خاتمہ ہو۔ جنرل راحیل شریف نے بلوچستان سے ہی کہ جہاں سی پیک بننے جا رہا ہے، وہاں کرپشن کرنے والے تھری سٹار جرنیل کو بھی کٹہرے میں سزا سنا کر ایک مضبوط اشارہ دیا ہے۔ سیاسی حکمرانوں کو اسے سمجھنا چاہئے۔ آنے والے دور کی دستک پر کان دھرنا چاہئے۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف ایک دوسرے کو کرپشن کے طعنے دیں گے، اپنے اپنے کارنامے بیان کریں گے اور کوئی عملی کام نہیں کریں گے تو دروازے پر دی جانے والی دستک کو نظرانداز کریں گے، میرا خیال ہے نظرانداز کرنے کا نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا۔ اچھا کیسے اقدامات سے ہو سکتا ہے اس پر مشورے آئندہ کسی تحریر میں۔ (ان شاء اللہ)۔