جس شخص کے پاس دولت کے ڈھیر ہوں اسے یہودیوں کے ہاں قارون سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ مسیحی لوگوں کے ہاں بھی اسے قارون ہی قرار دیا جاتا ہے اور مسلمانوں کے ہاں بھی ایسے شخص کو قارون ہی کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ قارون نام کا سیٹھ تمام قوموں اور مذاہب میں ایک سمبل بن چکا ہے کہ جس کے پاس بے شمار دولت ہو، وقت کے حکمران کا وہ قریبی دوست ہو، اعلیٰ ترین اشرافیہ سے اس کا تعلق ہو، استحصال کرنے والوں کا وہ نمائندہ ہو، اسے قارون کہا جاتا ہے۔ ہر ایسے شخص کو قارون اسی لئے کہا جاتا ہے کہ قارون ایسا ہی ایک شخص تھا۔ قرآن میں اس کے نام ''قارون‘‘ کا چار بار تذکرہ ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے واضح کیا ہے کہ ''قارون کا تعلق حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم (بنی اسرائیل) سے تھا مگر اس نے ان لوگوں کے خلاف ظلم کا ارتکاب کیا تھا (القصص:76) امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ قارون حضرت موسیٰ علیہ السلام کے چچا کا بیٹا تھا۔
قارئین کرام! ثابت یہ ہوا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم جسے فرعون نے غلام بنا رکھا تھا اور بیگار لیا کرتا تھا اسی قوم کا ایک مالدار ترین فرد وقت کے حاکم سے مل گیا تھا۔ فرعون کا ساتھی بن گیا تھا اور فرعون کے ساتھ مل کراپنی قوم کے خلاف فرعون کا مددگار بن گیا تھا یعنی اسے صرف اپنے مال کے تحفظ کی فکر دامن گیر تھی، اپنی قوم کی کوئی پروا نہ تھی۔ بالکل یہی کردار آج ہمیں حکمرانوں اور ان کے مالدار دوستوں یاروں کا دکھائی دیتا ہے کہ جن کے نام ''پاناما لیکس‘‘ میں آ رہے ہیں، ان کا تعلق اس دنیا سے ہے جس کو غربت اور پسماندگی کے لحاظ سے تیسری دنیا کہا جاتا ہے۔ اس تیسری دنیا میں بیشتر مسلمان ممالک ہیں۔ پاکستان بھی بدقسمتی کے ساتھ اسی تیسری دنیا سے تعلق رکھتا ہے۔ ہماری تیسرے درجے کی دنیا کے یہ حکمران آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک وغیرہ کے مالک فرعونوں کے ساتھی ہیں۔ قارون کا کردار ادا کرتے ہوئے ہم کو لوٹتے ہیں اور خزانے سارے کے سارے امریکہ اور یورپ کے فرعونی ٹھکانوں، سوئٹزرلینڈ، پاناما وغیرہ کے بینکوں اور کمپنیوں میں ہیں۔
یہ خزانے کس قدر ہیں اللہ ہی بہتر جانتے ہیں۔ آیئے! ہم اس قارون کا خزانہ معلوم کرتے ہیں جو بنی اسرائیل جیسی دکھوں کی ماری اور غریب مسکین قوم کا فرد تھا۔ اس کے خزانوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ بتلاتے ہیں ''ہم نے اسے اس قدر خزانے دیئے تھے کہ اس کے خزانوں کی چابیوں کو طاقتور مردوں کی ایک جماعت مشکل سے اٹھاتی تھی (القصص :76)۔ اللہ تعالیٰ نے خزانے اٹھانے والی جماعت یا گروہ کے لئے ''عُصْبَۃ‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ امام جمال الدین ابن منظور اپنی شہرئہ آفاق عربی لغت کی کتاب ''لسان العرب‘‘ میں لکھتے ہیں کہ دس سے لے کر چالیس بندوں کی جماعت کو ''عُصْبَۃ‘‘ کہا جاتا ہے۔
قارئین کرام! اب نہ دس اور نہ چالیس... ہم اوسط بیس افراد مراد لے لیتے ہیں کہ فرعون کے خزانوں کی چابیوں کو بیس طاقتور اشخاص اٹھاتے تھے۔ اس دور کا طاقتور آدمی یقینا بہت زیادہ وزن اٹھاتا ہو گا مگر ہم اپنے آج کے دور کا طاقتور مزدور جسے ''پلّے دار‘‘ کہا جاتا ہے مراد لے لیتے ہیں، جو اڑھائی من یعنی سو کلو وزن کی بوری آرام سے اٹھا لیتا ہے یوں فرعون کے خزانوں کی چابیوں کا وزن دو ہزار کلوگرام بن جاتا ہے یعنی یہ وزن پچاس من سے زیادہ کا بن جاتا ہے۔ اب اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قارون کا ایک گودام نہ جانے کتنا لمبا چوڑا ہو گا۔ اس کا ایک آہنی دروازہ ہو گا اور اس دروازے کو ایک چابی لگا کر کھولا جائے تو اس میں گندم، دوسرے کو چابی لگا کر کھولا جائے تو اس میں گھی اور زیتون جیسے روغنیات، تیسرے گودام کو کھولا جائے تو سونے کی اینٹیں، چوتھے کو کھولا جائے تو چاندی کے بکس، پانچویں کو کھولا جائے تو ہیرے جواہرات۔ الغرض! دو ہزار کلو گرام یا 50من وزن کی چابیاں... خزانے کتنے ہوں گے، اللہ ہی بہتر جانتے ہیں۔
قارئین کرام! اللہ تعالیٰ نے قارون اور اس کی تیسرے درجے کی غریب مگر اپنے وقت کی مسلمان قوم کے مابین اپنے قرآن میں ایک مکالمہ بھی درج فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں! ''(میرے نبیؐ) وہ وقت یاد کرو کہ جب قارون سے اس کی قوم کہنے لگی، خزانوں پر اتنا شوخ نہ بن کہ اللہ تعالیٰ ایسے شوخ بازوں کو پسند نہیں فرماتے۔ اللہ تعالیٰ نے تجھے جو خزانے دیئے ہیں اس سے آخرت میں (جنت کا) گھر بنا۔ ہاں! دنیا میں بھی اپنے حصے کی گزران سے فائدہ اٹھا اور اپنی قوم سے اچھا رویہ اختیار کر، بالکل اسی طرح جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ اچھا رویہ اختیار فرمایا۔ زمین میں (ان خزانوں کی بدولت) دہشت گردی نہ پھیلا کہ اللہ تعالیٰ فسادیوں کو پسند نہیں فرماتا۔ جواب میں کہنے لگا! مجھے تو یہ مال اس علم کی وجہ سے دیا گیا ہے جو میرے پاس ہے (القصص:78) یعنی تم کون ہو مجھے نصیحت کرنے والے؟ مولویو، صحافیو! پیچھاچھوڑو میرا۔ مت کرو مجھے یہ نصیحتیں، میں نے جو حاصل کیا اپنی دماغی کاوشوں سے حاصل کیا۔ اپنے علم اور تجربے سے حاصل کیا۔ اپنی مہارت سے حاصل کیا۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے قرآن میں قارون کے کردار کا اگلا صفحہ پلٹتے ہیں اور بتلاتے ہیں کہ قارون اپنی دولت کی نمائش کرتے ہوئے جب اپنے لائولشکر کے ہمراہ نکلا تو بنی اسرائیل کے وہ لوگ کہ جن کے دلوں میں بس دنیا ہی بسی تھی حسرتیں کرتے ہوئے کہنے لگے، بابا! بڑے نصیبے والا ہے۔ کاش! ہمارے پاس بھی قارون جیسی دولت ہوتی۔ اللہ والے اہل علم نے اس موقع پر ان لوگوں کو ٹوکا اور کہا، افسوس ہے تمہاری ایسی سوچ پر، جو شخص ایمان لے آیا اور صالح عمل کیا اس کے لئے اللہ کا دیا ہوا بہتر ہے مگر قناعت کی ایسی دولت صبر کرنے والے خوش قسمت لوگوں ہی کا مقدر ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ مزید فرماتے ہیں ''اس منظر کے بعد ہم نے قارون اور اس کے محل کو زمین میں دھنسا دیا۔‘‘ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا! ایک شخص اپنی چادر تکبر سے گھسیٹتا چلا جا رہا تھا کہ اسے اسی حالت میں زمین میں دھنسا دیا گیا اور وہ قیامت تک زمین میں دھنستا ہی چلا جائے گا۔ (بخاری: 3485)
پاناما لیکس میں شامل بڑے اور چھوٹے موٹے قارونوں کی دوسری فہرست بھی لیک ہو گئی۔ نہ جانے اور کتنی فہرستیں لیک ہوں گی۔ کوئٹہ میں سیکرٹری خزانہ کے محل سے جو ایک نواب خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ سونے کی اینٹیں، ڈالر، پائونڈ، ریال اور روپے اتنی مقدار اور تعداد میں تھے کہ شمار کے لئے مشینیں لانا پڑیں، اس مال کو اٹھایا بھی گاڑیوں پر گیا۔ انسان اٹھاتے تو نہ جانے کتنی تعداد میں مزدور لانے پڑتے۔ اسی طرح بیرونی بینکوں میں جو سرمایہ ہے اس کو اگر اجناس، سونے کی اینٹوں میں ڈھالا جائے، گودام بنائے جائیں تو قارون کے خزانوں کی چابیاں بیس طاقتور مزدور اٹھاتے تھے، ہمارے حکمرانوں کے خزانوں کی چابیاں مال بردار ریلوے بوگیاں اٹھائیں گی یا جمبو جہاز فضا میں لے کر اڑیں گے۔ یوں قارون تو ہمارے قارونوں کے مقابلے میں پرچون فروش تھا جبکہ ہمارے معزز حکمران تو تھوک فروش ہیں۔ ہمارے سارے حکمران ایک دوسرے کے مقابلے میں کہیں اپوزیشن ہیں اور کہیں حکمران ہیں۔ ایک دوسرے کو کہہ رہے ہیںکہ میں قارون ہوں تو تم بھی تو قارون ہو۔ اب خود سوچئے! ایسی حالت میں ''ٹی او آر‘‘ یعنی ضابطہ کار کا ٹینٹا کیا کرے گا؟ یقینا کچھ بھی نہیں چنانچہ ہم عوام، صحافی اور مولوی نصیحت کر کے خاموش اور اللہ کے حکم کا دنیا میں نہیں تو قیامت کے دن کا انتظار کریں۔ (وما علینا الا البلاغ)