"AHC" (space) message & send to 7575

امریکہ کے دو چہرے

اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول حضرت محمد کریمﷺ کو مخاطب کر کے دورخے انسانوں کے کردار سے آگاہ کرتے ہوئے بتلایا! 
''انسانوں میں سے بعض ایسے بھی ہیں کہ دنیا کی زندگی میں ان کی باتیں آپ کو بہت ہی اچھی لگتی ہیں۔‘‘ (البقرہ:204)
جی ہاں!آج کے دور میں امریکہ وہ قوت ہے کہ جس کے ساتھ مسلم ممالک کا تعلق دوستی کا رہا اور ابھی تک کسی نہ کسی سطح پر بخوبی قائم ہے۔ اس کی باتیں بڑی شاندار اور اچھی لگتی ہیں۔ مثال کے طور پر انسانی حقوق کی وہ بہت باتیں کرتا ہے، اس کی قیادت میں دنیا بھر کے اندر کبھی ماں کا دن منایا جاتا ہے تو کبھی معذوروں کا دن منایا جاتا ہے۔ کبھی خواتین کے حقوق کی پاسبانی کا دن منایا جاتا ہے تو کبھی بچوں کا دن منایا جاتا ہے۔ خواتین اور بچوں کے دن منانے والوں کو ایوارڈز دیئے جاتے ہیں۔ بہت اچھی تقریریں اور بیانات دیئے جاتے ہیں۔ یہ چہرے کا ایک رخ ہے۔ اب دوسرا رخ ملاحظہ کیجئے، اللہ تعالیٰ اگلی ہی آیت میں چہرے کے اس دوسرے رخ سے پردہ ہٹاتے ہوئے انتہائی بھیانک اور خوفناک رخ دکھلاتے ہیں، فرمایا!
''اور جب رخ پلٹتا ہے تو زمین میں بھاگ دوڑ اس لئے کرتا ہے تاکہ اس میں فساد مچا ڈالے، تب وہ فصل اور نسل کو تباہ کر کے رکھ دیتا ہے۔‘‘ (البقرہ:205)
امریکہ جیسے ملکوں کا یہ دوسرا چہرہ ہے جو انتہائی بھیانک اور تباہ کن ہے۔ اس چہرے کو دیکھنا ہو تو جاپان کے دو شہروں ''ناگاساکی‘‘ اور ''ہیروشیما‘‘ کی شکل میں دیکھا جا سکتا ہے۔ امریکہ اور جاپان باہم برسرپیکار تھے، فوجیں لڑ رہی تھیں اور پھر امریکہ نے دو شہروں کے عوام پر، عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور جوانوں پر دو ایٹم بم گرا دیئے۔ ان لاکھوں بے گناہ اور نہتے لوگوں کو آگ میں بھسم کر دیا جو جنگ میں مدمقابل نہ تھے، جنہوں نے امریکہ کے کسی فوجی کو خراش تک نہ ڈالی تھی، کسی امریکی فوجی کو ''اوئے‘‘ تک نہ کہا تھا، ان کو صفحہ ہستی سے انتہائی بھیانک انداز سے مٹا دیا گیا۔ یہ واقعہ پرانی تاریخ کا نہیں بلکہ محض ستر سال قبل کا ہے۔ 1945ء کا یہ واقعہ ہے کہ امریکہ کی بپا کی ہوئی جہنم کے کنارے پر جو لوگ ان شہروں سے دور تھے وہ جھلسے ہوئے آج بھی زندہ ہیں۔ یعنی یہ ہمارے آج کے دور کا واقعہ ہے جسے مہذب دور کہا جاتا ہے۔ ہاں ہاں! وہ مہذب دور اور زمانہ کہ جس کا سربراہ امریکہ ہے اور جو تمام دنیا کو ایک دوسرے چہرے کے ساتھ انسانیت کے ساتھ ہمدردی کا وعظ کرتا ہے۔ جس کے ہاں وعظ ایک الگ چیز ہے اور عمل بالکل ایک دوسری چیز ہے۔ دونوں کا ایک دوسرے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔
امریکہ کے صدر جناب بارک اوباما مئی 2016ء کے آخری ہفتے میں جاپان کا دورہ کرتے ہیں۔ جاپان کی تاریخ میں یہ امریکہ کے پہلے صدر ہیں جو ہیروشیما اور ناگاساکی میں تباہ ہونے والے لاکھوں انسانوں کی یادگار پر گئے ہیں۔ شاید جاپان امریکی صدر کو یہاں آنے کی اجازت نہ دیتا لیکن چونکہ جاپان ابھی تک مفتوحہ کی حیثیت سے امریکہ کے زیرنگیں ہے اس لئے انکار کی گنجائش نہیں ہے۔ صدر اوباما سے یادگار پر جانے کی صورت میں معافی کا مطالبہ کیا گیا مگر امریکہ نے اس کو مسترد کر دیا۔ جی ہاں! اس لئے مسترد کر دیا کہ فاتح کے تکبر اور بڑائی کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنے زیرنگیں مفتوحہ ملک سے معافی نہ مانگے چنانچہ اس موقع پر سورۃ البقرہ کی تیسری آیت میں اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے بھیانک کردار کی منظرکشی یوں فرماتے ہیں!
''اور جب اس سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ (اپنے بھیانک جرم کو سامنے رکھتے ہوئے) اللہ سے ڈر جائو (معافی مانگ لو) تو گناہ کے ساتھ تکبر اس کو تھام لیتا ہے۔‘‘ (البقرہ:206)
اللہ اللہ! امریکہ کی سپرمیسی کے تکبر نے صدر اوباما کے دامن کو پکڑ لیا، اسے اپنی گرفت میں لے لیا اور وہ بول اٹھا، نہیں نہیں! معافی نہیں مانگی جائے گی یعنی ہم نے لاکھوں انسانوں کا جو قتل عام کیا وہ ٹھیک تھا۔ مئی 2016ء تک ہماری آج کی مہذب دنیا کے لیڈر نے واضح کر دیا کہ جس ملک سے ہماری جنگ ہو گی اس کی بے گناہ عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور جوانوں کو مارنا ہمارے لئے جائز ہے، ہم اس کو حق سمجھتے ہیں۔ ہمارا آج بھی مؤقف یہی ہے، یہی ہمارا کردار ہے، ویسے اپنی گفتار میں ہم عورتوں، بچوں، معذوروں وغیرہ کے دن بھی مناتے رہیں گے۔ یہ دن منانے والی این جی اوز کو پیسے بھی دیتے رہیں گے۔ کچھ پیسے، سلائی مشینیں، میڈیکل ایڈ وغیرہ بھی دیتے رہیں گے۔ ان کی خدمت کے اعلان بھی کرتے رہیں گے۔ خدمت کے چمپئن کا سہرا بھی اپنے سر پر رکھیں گے۔ تیسری دنیا کے ملکوں کو حقوق انسانی کی
پامالی پر ڈانٹتے بھی رہیں گے مگر جب ہم کسی پر حملہ کریں گے، دشمنی کریں گے تو کوئی لحاظ اور کسی کا کوئی خیال نہیں کریں گے۔ یہ ہماری سپرمیسی اور اس کے تکبر کا تقاضا ہے، یہ قائم رہے گا۔
قارئین کرام! یہ ہیں دو چہرے۔ کاش! دنیا کے انسان، خصوصاً حکمران ان دو چہروں کو دیکھ سکیں۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو چودہ سو سال قبل متواتر تین آیات میں یہ چہرے دکھا دیئے۔ کس قدر بدقسمتی کی بات ہے کہ ہم ان چہروں کو دیکھنے ہی سے قاصر ہیں۔ عراق میں بھیانک چہرہ کس کا ہے؟ افغانستان میں خوفناک چہرہ کس کا ہے؟ فلسطین اور کشمیر میں تو تھا ہی، اب شام میں بھیانک چہرے کا سیاہ ترین رخ کس کا ہے؟ یمن میں بھڑکتی اور سلگتی آگ میں مکروہ چہرہ کس کا ہے، جی ہاں! جس کا کالا رخ نظر آئے گا اس کو قرآن نے دکھلا دیا ہے۔ اس کا نام امریکہ ہے جس کو کالے رنگ کی متکبرہ نامی چڑیل نے اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ اس چڑیل نے کالی دیوی کو ہمارے پڑوس میں اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔ نریندر مودی کی صورت میں اسے افغانستان میں کردار دے ڈالا ہے۔ پاکستان سے مطالبہ کیا گیا کہ تمہارا طالبان پر اثر ہے لہٰذا ہمارے ساتھ مذاکرات کروائو۔ اب پاکستان نے ملامنصور کے ساتھ مری میں مذاکرات کروا دیئے، قطر میں امن کی خاطرکروا دیئے۔ امریکہ کے چہرے کا یہ ایک رخ تھا۔ اب دوسرا رخ سامنے آیا اور ایران سے واپسی پر ملامنصور کو مار ڈالا اور پاکستان پر الزام لگا دیا کہ یہ تو دہشت گردوں کو پناہ دینے والا ملک ہے۔ جی ہاں! امن کی طرف جو راستہ جاتا ہے ادھر امریکہ نہیں آئے گا۔ امریکہ اور انڈیا وغیرہ افغانستان سے نکل جائیں، امن ہو جائے گا۔ مگر یہ سادہ سی اور پرحقیقت بات نام نہاد امن اور انسانیت کا علمبردار امریکہ نہیں مانے گا۔ کیا کیا جائے اس کے بھیانک چہرے کا تقاضا ہی یہی ہے۔
صدر اوباما سعودی عرب کے شاہ سلمان سے جھک کر ملتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ میں اس قانون پر دستخط نہیں کروں گاجس کے تحت نائن الیون میں شامل سعودی 
باشندوں کے کردار کی وجہ سے کانگریس نے بل پاس کیا ہے کہ سعودی عرب مرنے والوں کے لواحقین کو ہرجانہ دے۔ دوسری جانب حقیقت یہ ہے کہ سینٹ سے پاس ہونے کے بعد مذکورہ بل کانگریس سے پاس ہو کر اوباما کے پاس جائے گا۔ صدر دستخط نہیں کرے گا۔ کانگریس نے اسے دوبارہ پاس کر دیا تو قانون بن جائے گا۔ یہ ہے امریکہ کا دوسرا بھیانک رخ... کاش! ان دو رخوں کو دیکھنے کے لئے ہم لوگ سورۃ البقرہ کی تین آیات کو سامنے رکھیں۔ امریکہ کے دو رخے کردار کو سامنے رکھتے ہوئے ہمارے حکمران ایک کام کریں۔ جس طرح ملا منصور کے ڈرائیور کے بھائی نے امریکہ کے خلاف نوشکی پاکستان میں مقدمہ دائر کیا ہے کہ تمہارا مجرم ملامنصور تھا، میرے بھائی کو کیوں مارا؟ اسی طرح ہمارے پاکستان کے شمالی علاقوں میں جو ڈرون حملے ہوئے ہیں ان میں مارے جانے والے بے گناہ لوگوں کے مقدمے بھی پاکستان کے تھانوں میں درج ہونے چاہئیں۔ ان مقدمات پر ہماری اسمبلی اور سینیٹ ہرجانے کے قوانین بنائیں۔ عراق، افغانستان، یمن اور شام میں بھی او آئی سی یہی کام کرے اور لاکھوں مقتولوں کے مقدمے دائر کر کے ہرجانے کے قوانین بنائے جائیں۔ جاپان بھی یہی کردار ادا کرے اور ہیروشیما ناگاساکی کے مقتولوں کے مقدمے درج کئے جائیں۔ ویت نام میں نیپام بم پھینک کر امریکہ نے لاکھوں عورتیں، بچے، بوڑھے، مویشی اور فصلیں جلا ڈالیں۔ ان میں سے ایک بچی کہ جس کو آگ لگی ہوئی تھی اور وہ بھاگ رہی تھی آج یہ خاتون کینیڈا میں جنگ کے خلاف مہم چلا رہی ہے، ان مظلوموں اور مقتولوں کے ہرجانے پر مبنی مقدمات چلنے چاہئیں۔دنیا کے انصاف پسند اس میدان میں آئیں اور کردار ادا کریں۔ سعودیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ کردار بھی ادا کرے اور دنیا کو بتلائے کہ چودہ سو سال قبل حضرت محمد کریمﷺ نے دوران جنگ فصلوں، کھیتوں اور جانوروں تک کی بربادی سے روکا۔ عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور شہری آبادی کے قتل عام سے منع کیا۔ اس قانون پر عمل کر کے دکھلایا۔ عبادت گاہوں کی مسماری سے روکا۔ لہٰذا اس قانون کے جن علمبرداروں نے اس پر عمل کر کے دکھلایا وہی ایک چہرے والے ہیں، وہی حق رکھتے ہیں کہ حقوق انسانی کے علمبردار بنیں۔ دو چہروں والے حق نہیں رکھتے، وہ ہرجانے دینے اور معافی مانگنے کا حق رکھتے ہیں۔ مہم چلے گی تو ایک نہ ایک دن امریکی صدر کو حقیقی مہذب دنیا کے مطالبات پر جھکنا پڑے گا۔ آج نہیں کل، یہ تو کرنا ہی پڑے گا۔ (ان شاء اللہ)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں