نینو ٹیکنالوجی اور میڈیکل سائنس میں ''بیالوجی‘‘ علم کا وہ میدان ہے جس نے اس قدر ترقی حاصل کر لی کہ انسان کا سینہ چیرے بغیر دل کا آپریشن کر دیا جاتا ہے۔ آپریشن کے مختلف طریقے ''یوٹیوب‘‘ پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ انسان کی کلائی سے خون کی ایک نالی میں انتہائی چھوٹی سی مشین داخل کی جاتی ہے وہ دل کی نالی میں اس جگہ پہنچ جاتی ہے جہاں چربی کی وجہ سے نالی بند ہونے کے قریب ہوتی ہے۔ یہ مشین وہاں ایک انتہائی باریک غبارے کو پھلا دیتی ہے اس غبارے کے ذریعے سے سٹنٹ ڈالا جاتا ہے جو نالی کو سکڑنے سے روکے رکھتا ہے اور خون کی روانی بآسانی شروع ہو جاتی ہے۔ اسی طرح جہاں خون منجمد ہو جاتا ہے وہاں بھی ایسی ہی ایک انتہائی ننھی سی مشین داخل کی جاتی ہے۔ وہ وہاں پہنچ کر جمے ہوئے خون سے آگے گزر کر لوتھڑے کو پاش پاش کر دیتی ہے اور پھر اسے واپس لے آتی ہے۔ نالی کھل جاتی ہے اور دل کو خون کی سپلائی بحال ہو جاتی ہے۔ یعنی وہ کام جو سینہ پھاڑ کر کئے جاتے ہیں وہ ''نینو ٹیکنالوجی‘‘ کو کام میں لا کر بغیر آپریشن کے کر دیئے جاتے ہیں۔
میاں نواز شریف صاحب کے دل کی چونکہ چاروں نالیاں ہی چربیلے مادوں کے جمنے سے متاثر تھیں چنانچہ سینہ چیرنا ضروری قرار پایا۔ اس لئے کہ چاروں نالیوں کو بدل کر نئی نالیاں ڈالنا ناگزیر ہو گیا تھا۔ اللہ کی قدرت ملاحظہ ہو کہ انسان کے خالق نے اپنے بندے کی پنڈلی میں ایک ایسی لمبی نالی کا سپیئر پارٹ رکھ دیا ہے کہ جس کا پنڈلی میں کوئی خاص فنکشن نہیں۔ ہمارے دور میں میڈیکل سائنس نے یہ سپیئرپارٹ دریافت کیا ہے چنانچہ میاں صاحب کی پنڈلی سے اس لمبوترے سپیئر پارٹ کو نکالا گیا اور پھر اس کے چار حصے کر دیئے گئے۔ میاں صاحب کے دل کی چاروں نالیوں کو کاٹ دیا گیا اور چار عدد سپیئر پارٹ نالیوں کو وہاں جوڑ دیا گیا۔ اس دوران میاں صاحب کے جسم کو خون کی سپلائی جاری رکھنے کے لئے ایک ایسی مشین سے منسلک کر دیا گیا کہ جو دل کے متبادل کے طور پر کام کرتی ہے یعنی میاں صاحب نے پانچ گھنٹے کے قریب زندگی ایک ایسے دل کے ساتھ بسر کی جو دل کی طرز پر انسانوں کے ہاتھوں سے بنائی گئی قلبی مشین تھی اور جب میاں صاحب کا اپنا قدرتی دل مرمت کے بعد تیار ہو گیا تو میاں صاحب کے جسم کی نالیوں کو آہنی دل سے ہٹا کر اصلی دل کے ساتھ جوڑ دیا گیا اور میاں صاحب کے سینے کو سی دینے کے بعد آپریشن کی کامیابی کا اعلان کر دیا گیا، اب میاں صاحب تندرست ہیں۔ (الحمدللہ)
جدید میڈیکل سائنس اس قدر ترقی کر چکی ہے کہ ایسے مصنوعی اعضا بھی تیاری کے مراحل میں ہیں کہ جنہیں انسانی جسم کے ساتھ ہی اگایا جائے گا اور متبادل کے طور پر فٹ کر دیا جائے گا۔ ایسے تجربات کئے بھی جا چکے ہیں۔ انسانی بازو پر کان اگایا جا چکا ہے اور فٹ کیا جا چکا ہے۔ مستقبل میں ڈائیلائسز مشین جو گردوں کے متبادل کا کام کرتی ہے، اس کی بجائے گردے اگا کر انسانی جسم کے ساتھ پیوند کر دیئے جائیں گے۔ سوال پیدا ہوتا ہے جب دھاتی دل، دھاتی گردے بیمار انسان کو راحت پہنچاتے ہیں ایک انسان کے دل گردے اور دیگر اعضا بھی دوسرے انسان کو لگ جاتے ہیں، انسانی دماغ کی انتہائی پیچیدہ وائرنگ پر بھی دن رات تحقیق جاری ہے اور کئی کامیابیاں اسے سمجھنے کے لئے حاصل کر لی گئی ہیں تو عقل و شعور کا حامل اصل انسان کہاں ہے؟
اصل انسان کی تلاش کرتے ہوئے ہمیں اس کے آغاز کو دیکھنا ہو گا۔ اللہ کے رسولﷺ کے فرمان کے مطابق کہ تم میں سے ہر ایک کی پیدائش اس طرح ہے کہ اس کی ماں کے بطن میں چالیس دن اور چالیس راتیں نطفہ جمع رہتا ہے، پھر اتنا ہی وقت (چالیس دن) جمے ہوئے خون کی شکل میں رہتا ہے، پھر اتنے ہی دنوں تک گوشت کا لوتھڑا بنا رہتا ہے... اسے پوری شکل دینے کے بعد پھر فرشتہ اس میں روح پھونک دیتا ہے۔ (بخاری و مسلم)
یعنی چار مہینے کے بعد انسان میں روح پھونک دی جاتی ہے تو اصل انسان روح پھونکے جانے کے بعد وجود میں آتا ہے۔ روح پھونکے جانے سے پہلے بھی اس کے اعضا نشوونما پا رہے ہوتے ہیں۔ وہ گوشت پوست کے محض اعضا ہوتے ہیں۔ ثابت ہوا اصل انسان اس کی روح ہے جبکہ اعضا کی حیثیت ترجیحاً انتہائی ثانوی یا بہت ہی کم تر درجے کی ہے۔ قرآن میں جگہ جگہ اللہ نے واضح فرما دیا کہ انسان کو ہم نے مٹی سے بنایا تو یوں جسم کا تعلق بنیادی طور پر مٹی سے ہے۔ دوسرے مقام پر فرمایا! اے انسانو! ہم نے تمہیں زمین سے پیدا فرمایا، اسی میں تمہیں لوٹا دیں گے اور پھراسی سے دوبارہ اٹھا کھڑا کریں گے (القرآن) جنات کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے سورۃ رحمان میں واضح کر دیا کہ ہم نے انہیں آگ کے شعلے سے پیدا فرمایا۔ فرشتوں کے بارے میں اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا کہ فرشتوں کو نور سے پیدا فرمایا گیا ہے۔ (مسلم)
جس طرح مٹی کی ترقی یافتہ شکل گوشت ہے، انسانی جسم ہے۔ اسی طرح آگ کی ترقی یافتہ یا اعلیٰ ترین صورت ''جِن‘‘ کا آتشیں وجود ہے۔ ہمارا سورج بھی آگ کا سمندر ہے۔ وہاں سے شعاعوں اور
توانائی کی جتنی اقسام خارج ہوتی ہیں وہ سب آگ ہی کی اعلیٰ ترین صورتیں ہیں۔ بجلی بھی اسی سے ہی ہے اور بجلی یا روشنی کی رفتار ایک سیکنڈ میں ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل ہے یعنی ایک آتشیں وجود یا جِن کوئی پونے تین لاکھ کلومیٹر کا فاصلہ ایک سیکنڈ میں طے کر لیتا ہے۔ اب جہاں تک فرشتوں کا تعلق ہے انہیں ہماری اس مادی کائنات سے ہٹ کر کسی خصوصی نور سے بنایا گیا ہے۔ ان کی رفتار کس قدر ہے؟ اسی طرح ایک عام انسان ایک کلو میٹر کا فاصلہ اوسطاً 4 منٹ میں دوڑ کر طے کر لیتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ جس قدر مٹی کے بنے ہوئے انسان اور آگ کے شعلے سے بنے ہوئے انسان کے دوڑنے کی رفتار کا فرق ہے، جن اور فرشتے کے مابین اس سے بھی زیادہ فرق ہے۔ اس لحاظ سے فرشتے کی رفتار کس قدر ہو گی انسانی عقل سے باہر ہے تاہم اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اس رفتار کے بارے میں کچھ اس انداز سے تذکرہ فرمایا ہے!
'' سب تعریف اس اللہ کے لئے جو آسمانوں اور زمین کو نئے سرے سے پھاڑ کر پیدا فرمانے والا ہے۔ فرشتوں کو پیغام پہنچانے کی حیثیت دینے والا ہے جو دو دو، تین تین اور چار چار پروں والے ہیں۔وہ تخلیق میں جو چاہتا ہے اضافے فرما دیتا ہے، کیا شک ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے۔‘‘ (فاطر:1) ''اَجْنِحَۃٌ‘‘ کا لفظ اللہ تعالیٰ نے استعمال فرمایا ہے، اس کا واحد ''جناحٌ‘‘ ہے۔ پرندوں کے ساتھ جب یہ لفظ استعمال ہو تو ''پَر‘‘ کے معنوں میں آتا ہے۔ انسان کے ساتھ یہ لفظ بازو کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے۔ ''جَنَاحَ الذُّلِّ‘‘ یعنی بوڑھے ماں باپ کے لئے رحمت بھرا بازو... جی ہاں! میں کہتا ہوں کہ جب یہی لفظ فرشتے کے ساتھ استعمال ہو گا تو فرشتے کی رفتار سے بھی متعلق ہو گا۔ جی ہاں! قرآن میں یہ لفظ قصد اور ارادے کے معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے جیسا کہ ''وان جنحواللسلم‘‘ کہ اگر وہ صلح کا ارادہ کریں۔ معلوم ہوا فرشتے کی رفتار یہ ہے کہ ادھرسے اللہ کا حکم ہوا، ارادہ ہوا اور فرشتہ سیکنڈ کے اربویں اور کھربویں حصے میں ساتویں آسمان سے زمین یا کائنات کے کسی بھی گوشے میں پہنچ گیا۔ فرشتوں کی رفتاریں مختلف ہیں اور سب سے بڑی رفتار حضرت جبریلؑ کی معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں قوت والا فرشتہ قرار دیا ہے۔ ہمارے حضور نبی کریمﷺ نے ساتویں آسمان پر انہیں ''سدرۃ المنتھٰی‘‘ پر اصلی شکل میں دیکھا۔ ان کے چھ سو پَر تھے۔ اس سے رفتار کا اندازہ لگانا ہمارے لئے ناممکن ہے کہ وہ رفتار کس قدر ہو گی۔ اللہ تعالیٰ نے جناب جبریلؑ کو ''الرُوحُ الامین‘‘ کہا ہے۔ ''لیلۃ القدر‘‘ میں فرشتے نازل ہوتے ہیں تو سورئہ قدر میں فرمایا کہ ''فرشتے اور روح (جبریل) نازل ہوتے ہیں‘‘
قارئین کرام! اندازہ لگائیں کہ اللہ کریم نے جناب جبریلؑ کو بھی ''روح‘‘ کہا۔ انسان میں بھی ''روح‘‘ پھونکی۔ جیسا کہ قرآن میں فرمایا: اب جبریلؑ بھی روح ہیں اور انسان میں بھی ''روح‘‘ ہے۔ قرآن میں فرمایا: میرے نبی! آپﷺ سے یہ لوگ روح کے بارے میں پوچھتے ہیں، ان کو بتلا دو یہ روح میرے رب کے اَمر میں سے کوئی چیز ہے۔ (القرآن)
اللہ اللہ! انسان کی سوچ کا برتن کس قدر چھوٹا ہے کہ مٹی کی اعلیٰ ترین قسم سے بنے ہوئے گوشت پوشت کے اعضا پر مر مِٹ رہا ہے اور روح سے غافل ہے۔ رمضان کا مہینہ اسی روح کو پاکیزہ بنانے کا مہینہ ہے، پیٹ اور معدے جیسے متعفن عضو سے ہاتھ ہلکا رکھنے کا مہینہ ہے تاکہ روح پاکیزہ ہو جائے آلودہ نہ رہے۔ آیئے رمضان میں کوشش کر دیکھیں۔ میری اپنے لئے، محترم میاں صاحب کے لئے اور سب کے لئے یہی دعا ہے کہ مولا کریم ہمیں اپنی روحوں کو مادی آلودگیوں سے پاک کرنے کی توفیق عطا فرما دے (آمین)۔