بائبل حضرت اسماعیلؑ کا ذکر کرتی ہے اور ان کے بیٹے جناب قیدار کا تذکرہ اک ایسے سردار کے طور پر کرتی ہے کہ جن کی اولاد سے عرب میں نبوت آئے گی۔ جناب قیدار کی نسل سے نمایاں شخصیت جناب عدنان کی ہے۔ جناب عدنان کی نسل سے جو شخصیت سردار بن کر نمایاں ہوئی وہ جناب ''قُصَی‘‘ ہیں۔ حضرت اسماعیلؑ کی اولاد جو مکہ اور اردگرد پھیلی ہوئی تھی، جناب قُصَی نے ان سب کو مکہ میں جمع کیا اور ان کو عرب کے ایک مضبوط قبیلے میں تبدیل کر دیا۔ تب سے اس قبیلے کا نام ''قریش‘‘ ہو گیا کیونکہ قریش کا معنی ''جمع کرنا‘‘ ہے۔ یوں ان کو جمع کرنے والے ہمارے رسول کریمؐ کے جدّ امجد جناب قُصَی بن کلاب ہیں جو پہلے قریشی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ''قریش‘‘ کے نام سے اپنے آخری نبیؐ پر ایک سورت نازل فرما دی۔ اس میں قریش کا ایک وصف بیان فرمایا، یہی وصف ہمارے آج کے کالم کا موضوع ہے۔ وصف ملاحظہ ہو!
سورت کا آغاز جس لفظ سے ہو رہا ہے وہ ''ایلاف‘‘ ہے، یہ الفت سے ہے۔ ''لِاِیْلَافِ قُرَیْشٍ‘‘ کا مطلب ہوا کہ قریش کے دلوں میں محبت و الفت ڈال دی گئی۔ اگلی اور دوسری آیت کا آغاز پھر ''اِیْلَافِھِمْ‘‘ سے ہو رہا ہے۔ یعنی ان قریش کے دلوں میں محبت و الفت ڈال دی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے آغاز ہی میں دوبار ذکر فرما دیا کہ قریش کے دلوں میں محبت و الفت ڈال دی گئی۔ ثابت ہوا یہ جو محبت و الفت ہے یہ انتہائی اہم چیز ہے کہ جس کا اللہ تعالیٰ نے دوبار تذکرہ فرمایا ہے اور پھر تیسرے نمبر پر جا کر بتلایا کہ یہ محبت ''رِحْلَۃَ الشِّتَآئِ والصَّیْف‘‘ کی ہے۔ ''رِحْلَۃٌ‘‘ اس قافلے کو کہتے ہیں جو اپنی منزل سے روانہ ہوتا ہے، کوچ کرتا ہے اور تجارت کے لئے دوسرے مقامات پر جاتا ہے۔ جی ہاں! اللہ تعالیٰ قریش پر اپنی ایک نعمت کا ذکر کر رہے ہیں کہ میں نے تمہارے دلوں میں تجارت کا شوق اور محبت پیدا کر دی، تمہارے قافلے گرمیوں میں بھی چلتے ہیں اور سردیوں میں بھی۔ گویا پورا سال تمہارے قافلے چلتے ہیں اور یہ جس روٹ پر چلتے ہیں یہ قریش کی معاشی راہداری ہے۔ اکنامک کوریڈور ہے۔ قریش کے قافلے گرمیوں میں شام جاتے تھے۔ شام کا شہر دمشق تجارتی مرکز تھا۔ یہاں سے تجارت کا مال ترکی بھی جاتا تھا اور بحیرہ روم کی بندرگاہوں سے یورپ بھی جاتا اور وہاں سے آتا بھی تھا۔ مصر کے راستے شمالی افریقہ سے بھی کوریڈور لنک ہو جاتا تھا۔ قریش کا دوسرا کوریڈور سردیوں میں یمن کی طرف چلتا تھا۔ عدن کی بندرگاہ کے ذریعے مشرقی اور جنوبی افریقہ سے ملتا تھا جبکہ مسقط، گوادر اور سندھ تک بزنس کرتا تھا۔ مشرق میں ایران اور افغانستان سے شاہراہ ریشم کے راستے چین جبکہ سندھ کے ذریعے پورے ہند میں بزنس چلتا تھا۔ یہ تھا قریش کا معاشی کوریڈور جس کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے۔ اس کوریڈور نے تین براعظموں کو لنک کررکھا تھا۔
ثابت ہوا اقتصادی راہداری کے ساتھ محبت اللہ کی نعمت ہے۔ یہ نعمت اپنے ساتھ مزید نعمتوں کو لاتی ہے۔ اقتصادی راہداری میں مختلف قوموں اور ملکوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ تہذیبیں ایک دوسرے سے ملتی ہیں، انسانیت کے درمیان رابطہ پیدا ہوتا ہے۔ انس اور محبت بڑھتی ہے۔ علم کا تبادلہ ہوتا ہے۔ تجربات میں اضافہ ہوتا ہے۔ یوں ترقی کا گراف بلند ہوتا ہے۔
پاکستان اور چین دو دوست ملک ہیں وہ دونوں یہی کرنے جا رہے ہیں۔ پاک چین اقتصادی کوریڈور انسانیت کے لئے امن کی کنجی اور معاشی خوشحالی کی راہداری ہے۔ دنیا کو اس میں داخل ہو کر فوائد حاصل کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ مخالفت کر کے انسانیت کے ساتھ دشمنی کا رویہ اختیار کرنا چاہئے۔ امریکہ اور یورپ کا مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے دنیا میں جو ترقی کی ہے اور خوشحالی حاصل کی ہے وہ دنیا پر قبضہ کر کے حاصل کی ہے۔ کروڑوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار کر حاصل کی ہے۔ ان کے وسائل کو لوٹ کر حاصل کی ہے۔ چین کا معاملہ بالکل الگ ہے۔ چین نے نہ کسی کے علاقے پر قبضہ کیا ہے، نہ کسی کے وسائل کو لوٹ کر ترقی حاصل کی ہے۔ چین نے اپنے وسائل کے ساتھ اپنے ملک میں رہتے ہوئے ترقی حاصل کی ہے۔ اب وہ دنیا میں پھیل رہے ہیں تو معاشی راہداریوں کے ذریعے پھیل رہے ہیں۔ وہ قوموں کے ساتھ برابری کی سطح پر تجارت کر کے آگے بڑھ رہے ہیں۔ یوں چین نے دنیا کو معاشی ترقی کا ایک پرامن ماڈل دیا ہے۔ مستقبل اسی ماڈل کا ہے مگر کیا کیا جائے، امریکہ اور مغرب کے بعض لوگ اپنی پرانی دنیا، پرانے استحصالی انداز سے نکل نہیں پا رہے۔ چنانچہ وہ انڈیا کو ساتھ ملا کر پاک چین اقتصادی شاہراہ کے منصوبے کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے پر تلے ہوئے ہیں لیکن انہیں سمجھنا چاہئے کہ پرانا دور زوال پذیر ہو چکا۔ اب نیا دور ہے اور یہ چین کے امن پسند معاشی راہداری کے اصولوں کا دور ہے، کامیابی اسی کی ہے۔ تاریخ کا سبق یہی ہے۔ اس کے رخ کو موڑا نہیں جا سکتا۔ پرانا دور واپس نہیں لایا جا سکتا۔
راحیل یا رَحِیل ''رِحْلَۃٌ‘‘ سے ہے۔ امام جمال الدین ابن منظور جو ایک انصاری صحابی کی اولاد سے ہیں۔ اپنی شہرئہ آفاق کتاب ''لسان العرب‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ''الرحیل القوی علی الارتحال والسیر‘‘ الرحیل اسے کہتے ہیں جو ایک جگہ سے دوسری جگہ یا ایک کے بعد دوسرا قدم اٹھانے میں اور چلنے میں بڑا مضبوط ہو۔ قارئین کرام! میں جب جنرل راحیل شریف کو دیکھتا ہوں تو انہی خوبیوں کا حامل پاتا ہوں جو ان کے نام کے معنوں اور مطالب میں موجود ہیں۔ معاشی راہداری یعنی ''رِحْلَۃٌ‘‘ان کے نام میں بھی موجود ہے اور کردار میں بھی موجود ہے۔ ان کے نام کے حوالے سے میں اسے قرآنی اصطلاح اور عربی زبان میں ''باک صین الرحلۃ الاقتصادیّۃ‘‘ کہوں گا۔ جنرل صاحب نے چین کو پاک فوج کی طرف سے گارنٹی دی ہے کہ اسے مکمل کر کے چھوڑیں گے۔ (ان شاء اللہ)
ایران کی چاہ بہار بندرگاہ کو بنانے کے لئے جو بھارت افغانستان اور ایران اکٹھے ہوئے ہیں وہ شوق سے بنائیں مگر اس بندرگاہ اور گوادر کی بندرگاہ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ چین کا تجارتی قافلہ چین سے چل کر چاہ بہار میں چودہ دنوں میں پہنچنا ہے جبکہ یہی قافلہ چین سے گوادر میں چار دنوں میں پہنچنا ہے۔ یوں گوادر کی نسبت چاہ بہار کے ذریعے پہنچنے والی شے دس گنا مہنگی ہو جائے گی۔ مثال کے طور پر گوادر میں پہنچنے والی فریج دس ہزار کی ہو گی تو چاہ بہار میں پہنچنے والی ایک لاکھ کی ہو گی۔ بتلائیے! اس فریج کو چاہ بہار سے کون خریدے گا؟ افغانستان میں امریکہ کے تیور بدامنی کے ہیں تو سنکیانگ کا جغرافیہ قازقستان، تاجکستان اور کرغیزستان سے ملتا ہے۔ یوں کاشغر کے ساتھ مل کر افغانستان کے بغیر پاک چین راہداری سے وسط ایشیا کی دنیا مربوط ہو سکتی ہے۔ تاجکستان اور پاکستان کی سرحدیں چترال کے قریب واخان کی افغانی پٹی کے ذریعے ملتی ہیں۔ یہاں سے تاجکستان اور پاکستان باہم مل سکتے ہیں۔ پاکستان کا جغرافیہ اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے۔
نریندر مودی محض پاکستان کی دشمنی میں شرارتیں کر رہا ہے۔ شرارتوں کا رزلٹ کچھ نہیں ہوتا، ہاں تھوڑا بہت ہمیں دہشت گردی کے ذریعے پریشان کیا جا سکتا ہے۔ انڈیا کا جغرافیہ نہ ایران سے ملتا ہے نہ افغانستان سے ملتا ہے اور نہ وسط ایشیا سے، مگر شرارتیں دیکھیں تو حیرانی بھی ہوتی ہے اور ہنسی بھی آتی ہے کہ انڈیا ایران کے چاہ بہار میں کیا کرے گا۔ وہ اپنا مال لے کر بمبئی سے چلے گا اور پاکستان کے سمندری راستے سے گزر کر چاہ بہار جائے گا تو طویل زمینی مسافت کے بعد اس کا مال وسط ایشیا میں کون خریدے گا؟ ویسے بھی وہ چین کے مقابلے میں مہنگا بھی ہے اور گھٹیا بھی۔ مزید مہنگا ہو کر کیسے بکے گا؟ انڈیا کا مال چاہ بہار سے ہلمند کے راستے کابل جائے گا تو کراچی اور چمن و طورخم کے راستے کی نسبت وہ انتہائی مہنگا پڑے گا۔ کون افغانی اسے خرید پائے گا؟ الغرض! یہ سب شرارتیں جو امریکہ اپنے طفیلی انڈیا سے کروا رہا ہے یہ دم توڑ جائیں گی اس لئے کہ یہ شرارتیں زمینی حقیقت کے صریحاً خلاف ہیں۔ افغانستان میں تو بے حیثیت کٹھ پتلی حکمران ہیں جو انڈیا کی شرارتوں کا شکار ہیں۔ ایران کو بالآخر سوچنا ہو گا کہ وہ کیا کر رہا ہے۔ چاہ بہار سے کل بھوشن کیوں پاکستان آ رہا ہے۔
سورئہ قریش کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے دہشت گردی کے خوف سے نکال کر امن کی نعمت مہیا کرنے کی بات کی ہے۔ آج ہمارے جرنیل راحیل شریف کے شیروں نے جانیں دے کر پاکستان کو امن دے دیا ہے۔ اقتصادی راہداری اور امن لازم و ملزوم ہیں۔ سورئہ قریش میں ان نعمتوں پر اللہ تعالیٰ نے قریشیوں سے ایک مطالبہ بھی کیا ہے کہ وہ اس گھر کعبہ کے رب کی عبادت تو کریں، اقتصادی راہداری اور امن کے ساتھ ہم اہل پاکستان اپنے حکمرانوں سے یہ گزارش کریں گے کہ پاکستان کے نظام کو کرپشن سے نکال کر اسلامی عدل و انصاف کا آئینہ دار بنایا جائے۔ سورئہ قریش کے مطابق اللہ تعالیٰ کے تقاضے کو آخر پاکستان کے حکمران کب پورا کریں گے؟