عید خوشیوں کا دن ہے۔ قرآن مجید میں ''عید‘‘ کا لفظ''سورۃ المائدہ‘‘ میں آیا ہے۔ مائدہ کا معنی دسترخوان ہے۔ جب انسان خوش ہوتا ہے تودعوتیں اڑاتا ہے‘ یہ انسان کی فطرت ہے۔ قرآن کی سورت المائدہ اور عید اسی فطرت کا اظہار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعا کا ذکر کیا‘ وہ اللہ کے حضور درخواست کرتے ہیں: ''اے ہمارے پالنہار اللہ! ہم پر آسمان سے ایک دسترخوان اتار دیجیے جو ہمارے اگلے پچھلے لوگوں کے لیے عید کا دن بھی بن جائے اور جناب کی طرف سے ایک معجزہ بھی ہو جائے(المائدہ:114) اس سے ثابت ہوا عید اور دسترخوان لازم ملزوم ہیں۔ آخری رسول حضرت محمد کریم ﷺ نے انسانیت کو دوعیدوں سے نوازا ہے‘ ایک عیدالفطر ہے اور دوسری عید الاضحی۔ آج ہم عیدالفطر منا رہے ہیں‘ دستر خوان سجائے اور دعوتوں کے پروگرام ترتیب دیے جائیںگے۔ عید ایسی خوشی و مسرت کا دن ہے کہ سال کے باقی دنوں میں بھی کسی کو کوئی خوشی مل جائے تو اسے استعارے کے طور پر کہا جاتا ہے کہ ''آپ کی تو عید ہو گئی‘‘۔
عید عربی زبان کا لفظ ہے، یہ ''عَادَ یَعُودُ‘‘ سے ہے‘ اس کا معنی واپس پلٹنا ہے، یعنی ایسی خوشی جو بار بار پلٹ کر آتی ہے اور ہر سال آتی ہے۔ قارئین کرام! لمحہ بھر کے لیے سوچیے کہ موت کس قدر پریشان اور دکھ دینے والی چیز ہے اور زندگی کس قدر خوشی و مسرت بانٹنے والی نعمت ہے۔ اگر موت کے بعد زندگی ملے تو یہ کس قدر خوشی و مسرت کالمحہ ہو گا؟ اس خوشی کا تصور ہی کیا جا سکتا ہے‘ اظہار تو مشکل ہے‘ الفاظ کی صورت میں اس خوشحالی کی ادائیگی تو ناممکن ہے، مگر یہ خوشی ملنے والی ہے۔ اس خوشی سے ہمکنار کرنے والا اللہ ہی ہے کیونکہ وہی موت کے بعد زندگی عطا فرمانے والا ہے۔ قرآن میں مولا کریم کی اس صفت کا یوں بیان آیا ہے: ''بلا شبہ وہی ہے جو (زندگی) کا آغاز کرتا ہے اور وہی اس زندگی کو پلٹائے گا (البروج:13) زندگی پلٹانے کے لیے''یُعِیدُ‘‘کا لفظ استعمال ہوا ہے اور یہ بھی عید سے ہے یعنی جس روز نئی زندگی ملے گی وہ دن بھی''عید‘‘ ہو گا مگر یہ اسی کے لیے ہو گا جس نے دنیا میں اپنی زندگی کو اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت میں گزارا ہو گا‘ انسانیت کی خدمت میںگزارا ہوگا۔ جو اس سے محروم رہا اس کے لیے وہ دن عید کا دن نہیں ہوگا بلکہ انتہائی بھیانک ہوگا۔ ایسا بھیانک کہ قرآن نے بتلایا کہ وہ شخص ہاہا کار مچاتے ہوئے دہائی دے گا کہ کاش میں مردہ ہی رہتا ‘زندہ نہ کیا جاتا۔ جی ہاں! ایسی بھیانک ہاہا کار سے تبھی بچا جا سکتا ہے جب اللہ کی عدالت میں جوابدہی کا کامل یقین ہو۔
چند دن پہلے 23 رمضان المبارک کو لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس جناب منصور علی شاہ صاحب نے عدالت لگائی۔ چیف جسٹس بنتے ہی انہوں نے عدالت لگا لی اور عدلیہ کے ذمہ داران سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ سے ڈریں‘ افسروں سے ڈرنے کی انہیں ضرورت نہیں ہے۔ چیف جسٹس بننے کے پہلے ہی دن‘ پہلے ہی آرڈر میں انہوں نے 30 ججوں کو ہٹا دیا اور کہا‘ غلط کام کرنے والے ٹھیک نہ ہوئے تو کان سے پکڑ کر نکال دیا جائے گا۔ اس موقع پر جو خاص بات انہوں نے کی وہ یہ تھی کہ ثبوت کی ضرورت نہیں‘ اتنا ہی کافی ہے کہ شہرت خراب ہے، یعنی جس کی شہرت خراب ہے اسے ''او ایس ڈی‘‘ بنا کر عدلیہ کے شعبے میں کسی ایسی جگہ بٹھا دیا جائے گا جہاں اختیار کی قوت کے بغیر محض پیپر ورک یا فائل ورک جیسا کوئی کام ہوتا ہے، وہاں وہ تنخواہ پر گزارہ کرتا رہے۔ چیف صاحب نے قدم تو بڑا مبارک اور خوش کر دینے والا اٹھایا ہے‘ نام بھی ان کا منصور ہے‘ ہم دعا ہی کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان کی مدد اور نصرت ہوتی رہے۔ وہ رکاوٹوں کے باوجود ڈٹے رہیں گے تو اللہ تعالیٰ مظلوموں کے حق میں ضرور ان کی مدد اور نصرت فرمائیںگے۔
انہوں نے ججوں کے کمروں میں کیمروں کی تنصیب کا بھی اعلان کیا ہے۔ یہ کیمرہ یقیناً جج کے سامنے نیچے بیٹھے ہوئے اس شخص پر فوکس کرے گا جو اگلی تاریخ ڈالنے کے پیسے لیتا ہے۔ جھوٹا شخص لمبی تاریخیں ڈلوانے کے پیسے دیتا ہے تو بیچارہ حق دار چھوٹی تاریخ ڈلوانے کے پیسے دیتا ہے ۔ یہ وہ رشوت ہے جو سر عام چلتی ہے اور خوب چلتی ہے۔ ہاں چند ایک اللہ سے ڈرنے والے جج حضرات ایسے بھی ہیں جو اس سے بچے ہوئے ہیں مگر اکثر کا حال تو یہی ہے۔ اسی طرح جسٹس منصور علی شاہ نے وکیل حضرات کو ججوں کے چیمبر میں جانے پر بھی پابندی لگا دی ہے۔ یہ بھی اسی ضمن میں ایک کوشش ہے کہ کوئی عدل و انصاف کی راہ میں حائل نہ ہونے پائے۔ محض دنیا کی خاطر جو عدل و انصاف کی راہ میں حائل ہوتا ہے... چھوٹی بڑی تاریخ لینے کی صورت میں، جلد یا بدیر پیشی کی صورت میں‘ کیس کو لٹکانے اور لمبا کرنے کی صورت میں‘ جھوٹی گواہی کی شکل میں‘ تفتیش کرتے ہوئے بے گناہ کو مجرم بنانے کی صورت میں اور مجرم سے پیسے لے کراسے ریلیف دینے کی شکل میں، کسی موثر آدمی کے فون اور سفارش پر انصاف کا خون کر دینے کی نوعیت میں۔ الغرض ! جو شخص بھی عدل و انصاف کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے اسے حضرت محمدکریمؐ کا یہ فرمان اور انتباہ اپنے سامنے رکھ لینا چاہیے۔ فرمایا: ''جو شخص (قتل کا) قصاص لینے میں قتل ہونے والے کے وارثوں اور قتل کرنے کے درمیان رکاوٹ بن جائے اس پر اللہ کی لعنت ہے‘ فرشتوں کی بھی لعنت ہے اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔ اس کا کوئی فرض یا نفل عمل قبول نہ ہوگا‘‘ (نسائی:4890صحیح)
قارئین کرام! ذرا سوچیے‘ اللہ کے رسولؐ کے فرمان کے مطابق عید کی نماز پڑھنے کا جو میدان ہے اسے فرشتوں نے گھیر رکھا ہے۔ اس میدان میں روزہ دار اپنے اللہ سے مہینہ بھر کی عبادت کا اجر و ثواب لینے آئے ہیں۔ اس میدان میں پولیس کے وہ تفتیشی بھی موجود ہیں جو عدل و انصاف کا خون کرنے والے ہیں۔ عدلیہ کے اہلکار بھی موجود ہیں جومحض دنیا کی خاطر مظلوموں کو انصاف دینے کی راہ میں دیوار بنے ہوئے ہیں۔ سیاستدان اور افسر لوگ بھی ہیں جنہوں نے پولیس سے اپنی مرضی کی ایف آئی آر لکھوا کر انصاف کا خون کیا ہے۔ یہ سارے لوگ نمازیں لے کر‘ روزے لے کر‘ قرآن کی تلاوت لے کر اور نوافل و صدقات لے کر میدان میں آتے ہیں۔ یہ جب ہاتھ اٹھاتے ہیں اور یا رب یارب کہہ کر اللہ سے مانگتے ہیں تو حضورؐ کے فرمان کے مطابق فرشتہ آواز دیتا ہے: تیرا کھانا حرام کا‘ تیرا پہننا حرام کا ‘ تیرے جسم کی نشو و نما حرام سے‘ تیری دعا کیسے قبول ہو؟
ہاں ہاں! یہ اپنے بیوی بچوں کو اور اپنے آپ کو جو خوبصورت کپڑوں سے آراستہ کر کے شاندار گاڑی میں آیا ہے‘ اس میں تو حرام کی ملاوٹ ہے‘ اس سے مظلوموں کی آہوں اور سسکیوں کی آوازیں آ رہی ہیں۔ چنانچہ اس پر اللہ تعالیٰ بھی لعنت بھیجتا ہے‘ فرشتے بھی لعنت کرتے ہیں اورانسانیت بھی لعنت بھیجتی ہے۔ جی ہاں! دنیا کی عید کے میدان میں بھی پھٹکار اور اگلے جہاں میں بھی پھٹکار۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اسی بات سے اپنی عدلیہ کے اہلکاروں کو ڈرایا ہے۔ جسٹس منصور کامیاب ہو جاتے ہیں تو مظلوموں کو جلد انصاف ملنے کا ہر دن عید کا دن بن جائے گا اور اگر اللہ نہ کرے جسٹس منصور کے راستے میں بھی کوئی رکاوٹ بننے والا کامیاب ہو گیا تو رکاوٹ بننے والا لعنتیں ہی حاصل کرنے والا ہو گا ‘مگرامید یہ ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ جیسا اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا دبنگ جج کسی کی رکاوٹ کو خاطر میں نہیں لائے گا۔ جسٹس منصور کا ریکارڈ ایک عملی دیانتدار جج کا ریکارڈ ہے۔ انہوں نے پہلے دن کا آغاز بھی عملی ایکشن سے کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو کامیابی سے ہمکنار فرمائے۔ ان کی خواہش اور عزم کے مطابق لاہور ہائیکورٹ پورے ملک کی عدلیہ کے لیے ایک مثال بنے۔ ہر طالب انصاف کے لیے سال کے 365 دنوں کو عید بنا دے۔ آمین یارب العالمین!