88سال کا بوڑھا نہ تو پروفیسر تھا ،نہ مولانا، نہ علامہ تھا، نہ ڈاکٹر تھا اور نہ فلسفی تھا۔ وہ تو صرف دو جماعتیں پاس تھا، یعنی معروف معنوں میں 'تعلیمِ بالغاں‘‘ کا ایک طالب علم تھا وہ اس دنیا سے رخصت ہوا تو انسانوں نے اسے ''خادمِ انسانیت‘‘ کا لقب دیا۔ نہ وہ چینلز پر ٹاک شوز کا بندہ تھا، پھر کیا ہوا وہ فوت ہوا تو اخبارات، ٹی وی اور ہر انسان کی زبان پر اس کی خدمت کا نام آیا۔ اس کے چرچے اور نیک نامی نے ہر آنکھ کو نم کیا۔ معروف تو وہ پہلے بھی بہت تھا مگر اب تو شہرت کا اک نیا آسمان سامنے آن موجود ہوا کہ جس پر عبدالستار ایدھی نام کے ستارے جگ مگ جگ مگ کر رہے تھے۔ پاک فوج نے دل کھول کر اعزاز سے نوازا، قائداعظم، لیاقت علی خان اور جنرل ضیاء الحق کے بعد تدفین پر خصوصی اعزاز سے جناب ایدھی کو نوازا گیا۔ میں نے اس پر غور کیا تو کتاب و سنت کی رہنمائی میں اس نتیجے پر پہنچا کہ جو ایسی خواہشیں کرتے ہیں وہ دنیا کی زندگی میں نام و نمود کے لئے ہر حد پار کرتے ہیں اور جب مرتے ہیں تو انسانوں کی زبانوں سے رسوا ہی ہوتے ہیں اور وہ جو ایسی ریا کاری سے کوسوں دور ہوتے ہیں وہ اس دنیا سے جاتے ہیں تو اللہ کی مخلوق کی زباں سے تحسین پاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا تھا کہ میرے صحابیو!تم زمین پر اللہ کے گواہ ہو (ابن ماجہ: حسن) یعنی جس مسلمان کے مرنے پر تمہاری زبانیں تحسین میں بول اٹھیں تو زمین پر یہ گواہی اللہ کی طرف سے ہے جو زبانوں پر جاری ہوئی ہے۔ اسی کا نام سچی عزت ہے، بابا جی عبدالستار ایدھی کو ملی ہوئی یہ عزت آج ہر آنکھ نے دیکھی ہے اور ہر کان نے سنی ہے۔
میں نے اس عزت پر مزید غور کیا تو بابا جی کی زندگی کا ابتدائی فیصلہ کن ارادہ سامنے آیا۔ وہ میمن برادری کے فرد تھے۔ یہ برادری ایک تاجر برادری ہے، سیٹھ برادری ہے، یہ برادری پاکستان کی محبت میں قربانیاں دیتے ہندوستانی گجرات سے کراچی میں پہنچی۔ اس برادری نے اپنے غرباء اور مساکین کو پائوں پر کھڑا کرنے کے لئے برادری کی سطح پر خدمتِ خلق کی تنظیم بنائی، اس وقت کے نوجوان عبدالستار بھی اس تنظیم کا حصہ تھے۔ اس نوجوان نے میمن برادری کے مالداروں میں اپنی تجویز زوروشور سے پیش کی کہ صرف میمن برادری نہیں انسانیت کی خدمت کا عزم کرو۔ نوجوان عبدالستار کی بات کو پذیرائی نہ ملی، نوجوان نے اپنے انسانی عزم و ارادے کو تحریک بنا دیا تو برادری نے عبدالستار میمن کو نکال باہر کیا۔ عبدالستار نے انسانیت کو اپنی برادری بنا لیا اور پھر انسانی خدمت کی ایسی تاریخ رقم کی کہ میمن برادری کے جن سیٹھ بزرگ تاجروں نے عبدالستار کو نکال باہر کیا تھا، آج انہیں کوئی نہیں جانتا اس لئے کہ وہ اپنے محلے میں بنائے ہوئے حوض کو اپنے تک محدود رکھنا چاہتے تھے مگر جس نے انسانی برادری کے سمندر میں تیراکی کا فیصلہ کیا آج وہ خادم انسانیت بن گیا ہے۔ میں ایک عرصہ سے گوجر، ارائیں، راجپوت اور خواجے کشمیری وغیرہ کی فائونڈیشنز دیکھ رہا ہوں، سیاست میں برادری کی ترجیحات دیکھ رہا ہوں مگر سب کا حال اک چھوٹے سے حوض کا ہے۔ بابا جی عبدالستار ایدھی کو قومی فوج کے سالار جنرل راحیل نے اس لئے سلیوٹ کیا ہے کہ بابا جی نے انسانی خدمت کا قومی سمندر بنایا ہے۔ جی ہاں! قومی سوچ رکھنے والوں کو عزتیں بھی قوم ہی دیا کرتی ہے اور برادری کی نچلی سطح پر رہنے والوں کا حال وہی ہوتا ہے جس طرح بطخ اپنے گائوں کے جوہڑ میں کالے گارے میں چونچیں مار مار کر روڑ کھاتی رہتی ہے اور وہی کالا گارا بیٹ کی شکل میں کر کے اس وقت آلودگی پھیلاتی ہے جب جوہڑ سے باہر گھر کے صحن میں گھومتی ہے۔ بعض لوگ اونچے مناصب پر فائز ہونے کے باوجود ایسا ہی کردار رکھتے ہیں۔ بابا جی چونکہ انسانی، آفاقی اور پاکستانی سوچ رکھتے تھے اس لئے صرف پاکستان ہی نہیں دنیا نے انہیں خراج تحسین پیش کیا ہے۔
میں کہتا ہوں بابا جی عبدالستار ایدھی آدھا کام کر گئے، خدمت خلق کے میدان میں تو کر گئے، اب ایک ایسے ایدھی کی بھی ضرورت ہے جو سیاست کے میدان میں بھی باقی آدھا کام کر دکھائے۔ ہماری سیاست کہ جسے عوامی خدمت کہا جاتا ہے وہ علاقائیت، زبان اور برادری سے اوپر اٹھ جائے۔ میں کہتا ہوں جس دن سیاست کے میدان میں ہمیں کوئی ایدھی مل گیا ہمارا باقی آدھا کام بھی ہو جائے گا۔ (ان شاء اللہ)۔ ہے آج کے سیاستدانوں میں کوئی ایسا سیاستدان جو سیاست کے میدان میں وی آئی پی کلچر کی موت کا اعلان کرے۔ سادگی اختیار کر کے قوم کی رہنمائی کرے۔ آیئے! ذرا ہم سب مل کر ایسا سیاستدان ڈھونڈیں۔ ایسی جماعت کو تلاش کریں۔ ایسا سیاستدان اپنا کردار ادا کر کے جس دن فوت ہو تو اپنے وقت کا جنرل راحیل اسے سلیوٹ کر رہا ہو۔ قوم اسے خادم انسانیت کہہ رہی ہو، یارو! 20کروڑ انسانوں میں کوئی ایک بھی زندہ ایدھی نہیں؟
بابا ایدھی نے خدمت انسانیت کا جو بے لوث کردار ادا کیا، ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے سوچ اور جذبہ کہاں سے لیا تو انہوں نے جھٹ سے کہا، حضرت محمد کریمﷺ سے صحیح بخاری میں امام بخاری جو حدیث لائے وہ یہی ہے کہ حضورﷺ جب غارِ حرا سے اللہ کا پیغام لے کر گھر میں تشریف لائے تو حضرت خدیجہؓ سے فرمانے لگے مجھ پر چادر ڈال دو، کانپتے ہوئے فرمایا، مجھے تو اپنی جان خطرے میں لگتی ہے۔ حضرت خدیجہؓ نے کہا، یہ بالکل نہیں ہو سکتا، اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی دکھی نہ کرے گا۔ عزت کو آنچ نہ آنے دے گا کیونکہ آپؐ رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں۔ لاچار کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔ اپنی کمائی کا مال بے کسوں کی جیب میں ڈالتے ہیں۔ مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں۔ دو فریقوں کے درمیان جھگڑے کی صورت میں حقداروں کی مدد کرتے ہیں۔ یہ تھیں وہ پانچ خصوصیات جو نبوت سے پہلے حضورﷺ کے مبارک کردار کا حصہ تھیں۔ مزید برآں! اللہ کے رسولﷺ نے صحابہؓ کے سامنے اعلان کیا کہ میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح اکٹھے ہوں گے اور آپﷺ نے ہاتھ کی درمیان والی انگلی اور شہادت والی انگلی کو اٹھایا اور ان دونوں کے درمیان ہلکا سا خلا پیدا فرمایا (بخاری 5304:) اللہ کے رسولﷺ نے مزید فرمایا! ''بیوہ عورتوں اور مسکینوں کی خدمت کے لئے بھاگ دوڑ کرنے والا اللہ کی راہ میں اس مجاہد کی طرح ہے جو رات کو قیام کرے اور دن کو روزہ رکھے (بخاری و مسلم)۔ مزید یہاں تک فرمایا کہ رات کا قیام کرے تو تھکے نہیں اور روزے رکھے تو چھوڑے نہیں (بخاری و مسلم)۔ قارئین کرام! مطلب یہ ہے کہ دنیا میں کوئی اس طرح نہیں کر سکتا کہ رات کو قیام کرے، دن کو مسلسل روزے کی حالت میں گھوڑے کی پشت پر سوار ہو کر راہ جہاد میں تلوار چلائے۔ اللہ اللہ! یہ ہے خدمت خلق کے کام کی عظمت جو اللہ کے رسولﷺ بتلا رہے ہیں۔ آپﷺ نے اس پر پہلے خود عمل کیا، مسلسل کیا اور پھر اس کی فضیلت سے آگاہ فرمایا۔
میمن خاندان کا چشم و چراغ کاروباری بنتا تو اربوں میں ہوتا کہ اس خاندان کو اللہ نے کاروبار کی خوبی عطا کی ہے مگر جناب ایدھی مرحوم نے سادہ سا چند مرلے کا مکان وہ بھی باپ کا خریدا ہوا، اس میں گزارہ کیا۔ اربوں کھربوں کی جائیداد جو غریبوں، یتیموں اور مسکینوں کا مال ہے، اس کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا۔ سوکھے ٹکڑے کھا کر اس دنیا سے چلا گیا۔ یہ سارا کردار بابا جی نے اللہ کے رسولﷺ سے لیا۔ خلیفہ عبدالملک کے دور میں جب مسجد نبوی کی توسیع کی خاطر 9عدد حجرات مبارکہ کو گرایا گیا تو صحابہؓ اور تابعینؒ روتے تھے اور کہتے تھے کہ کاش ان حجرات کو باقی رہنے دیا جاتا تاکہ آنے والے لوگ دیکھتے کہ ان کے پیارے نبیﷺ نے کیسے حجروں میں زندگی گزاری؟ بابا ایدھی جس دن اپنے سیٹھ اور مالداروں سے الگ ہوا، وہ کسی مالدار کے پاس نہ گیا۔ اس نے جھولی پھیلائی تو اللہ کے بندوں کے سامنے۔ میں کہتا ہوں ہمارے حکمران بھی قوم کے سامنے جھولی پھیلا کر تو دیکھیں۔ سارا قرضہ اتر جائے گا۔ مگر حکمران کی جھولی میں چھید ہوتے ہیں، حکمران نے جھولی پھیلائی تھی، عوام نے پیسے ڈالے اور پتہ ہی نہ چلا کہ ڈالر، پائونڈ اور ریال گئے کہاں؟
لوگو! کوئی سیاسی ایدھی تلاش کرو کہ وہ جھولی تمہارے آگے پھیلائے، رب کریم کے سچے فقیر کی جھولی جو عالمی سود خوروں کے سامنے نہ پھیلے بلکہ پاکستانیوں کے سامنے پھیلے۔ اللہ کی قسم! وہ دن عالمی انقلاب کا دن ہو گا جس دن پاکستان کا وزیراعظم اہل پاکستان کے سامنے جھولی پھیلا کر بھر لے گا اور وہی جھولی سود خوروں کے منہ پر مار کر ہمیں سودی قسطوں سے نجات دلائے گا۔ مجھے اب ایسے ایدھی کی تلاش ہے، تلاش ہے، تلاش ہے۔