"AHC" (space) message & send to 7575

پولیس کا کھریپڑ

جنہوں نے دیہات کی زندگی کا حقیقی چہرہ نہیں دیکھا انہیں کیا خبر کہ کھریپڑ کیا ہوتا ہے۔ اب تو دیہات بھی تیزی سے ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں اور شہروں کا روپ دھار رہے ہیں۔ بعض دیہات میں تو اسلام آباد‘ لاہور اور کراچی کے پوش علاقوں سے بھی بڑھ کر عالیشان محل نما بنگلے دکھائی دیتے ہیں‘ لیکن میرے ملک کے ایسے دیہات بھی ہزاروں میں ہیں جن میں بنے مکانات کچی اینٹوں کے ہیں۔ یہ کچے مکانات برسات کے موسم میں اپنا حسن کھو دیتے ہیں۔ نسوانی ہاتھوں نے چکنی مٹی کی لپائی خوبصورتی سے کی ہوتی ہے، لیکن بارش کی وجہ سے دیواروں پر توڑی کے نوکیلے تنکے میخوں اور کانٹوں کی طرح دکھائی دینے لگتے ہیں‘ لہٰذا برسات کا موسم گزرتے ہی لپائی کا سیزن شروع ہو جاتا ہے۔ ابھی اگست کا مہینہ ہے۔ ستمبر کے وسط یا آخر میں دیہات کی خواتین لپائی کے لئے کمر ہمت کس لیں گی۔ اس لپائی میں ایک بات کا بہت زیادہ خیال رکھا جاتا ہے۔ وہ یہ کہ اگر اوپر تلے متواتر لپائی سے‘ لپائی کی تین چار تہیں بن جائیں تو یہ لپائی جگہ جگہ سے تڑخ جاتی ہے۔ اب اگر کوئی نادان خاتون اس پر نئی لپائی کر دے گی تو پرانی تڑاخ شدہ لپائی کھریپڑ بن کر گرنا شروع ہو جائی گی اور یوں نئی لپائی کی ساری محنت ضائع ہو جائے گی۔ لہٰذا ایسے مکانوں اور ان کی دیواروں کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ سمجھدار خاتون پہلے دیواروں کے کھریپڑ اُتارے‘ پھر نئی لپائی کرے۔ اس مقصد کے لئے مردانہ مدد کی بھی ضرورت ہوتی ہے‘ لہٰذا گھر کے سارے افراد مل کر پہلے کھریپڑ اُتارتے ہیں اس کے بعد نئی لپائی کی جاتی ہے‘ یوں کچے مکان کا حسن بحال ہو جاتا ہے۔
قارئین کرام! مندرجہ بالا دیہی حقیقت میں اس لئے بیان کر سکا ہوں کہ میں اپنے بچپن اور لڑکپن میں اپنی والدہ مرحومہ کے ہمراہ کھریپڑ اُتارنے کا تجربہ کر چکا ہوں اور اپنی والدہ کا لپائی میں ہاتھ بٹا چکا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہماری پولیس بھی ایک ''کھریپڑ‘‘ بن چکی ہے۔ میاں شہباز شریف صاحب اس کھریپڑ کو اُتار پھینکنے کی بجائے اس پر لپائی کیے چلے جا رہے ہیں۔ پاکستان کی عوام ایک کچی دیوار ہیں۔ اس دیوار کو چوروں، بدمعاشوں، اغواکاروں، بھتہ خوروں، ڈاکوؤں، غیرت کے نام پر خواتین کے قاتلوں سے محفوظ کرنے کے لئے جس لپائی کی ضرورت ہے وہ تو تڑخ چکی، عرصہ ہوا اس کی ہیت ختم ہو چکی۔ اس کی ہیت اور رعب بھی خود حکمرانوں نے ختم کیا ہے۔ پولیس میں سیاسی مداخلت پر دو آرا نہیں ہیں۔ ہر کیس پر سفارشیوں کے فون آتے ہیں۔ تھانے بکتے ہیں۔ رشوت سرعام چلتی ہے۔ کبھی کوئی وقت تھا کہ دیہات میں سالوں میں ایک بار باوردی پولیس والے چلے جاتے تو عورتیں اپنے بچوں کو کہتی تھیں کہ باہر نہ جانا سپاہی گاؤں میں آئے ہوئے ہیں۔ اب یہ حال ہے کہ پولیس اہلکار آئے روز سڑکوں پر الجھتے ہیں اور مارکٹائی کے مناظر ٹی وی اور اخبارات پر شائع ہوتے ہیں۔ پولیس والے سڑکوں پر ڈاکوؤں کے ہاتھوں قتل ہوتے ہیں۔ ان کی شہادت والے بورڈ سڑکوں پر آویزاں کیے جاتے ہیں۔ راہ گیر جب پڑھتے ہیں کہ اچھا فلاں تھانیدار شہید ہے تو ان کے دل پر شہید کا لفظ کوئی اثر نہیں چھوڑتا کہ پولیس والا بھی شہید ہو سکتا ہے۔ یہ ہے حال پولیس کا جو ایک کھریپڑ بن چکی ہے۔ ایسا کھریپڑ کو تڑخ چکا ہے۔
چوہدری پرویز الٰہی صاحب جب پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے تو انہوں نے پولیس کی اصلاح کا فیصلہ کیا مگر کھریپڑ اُتار کر اصلاح کرنے کی بجائے انہوں نے بھی کھریپڑ پر واڈن پولیس کے نام سے لپائی کر دی۔ وارڈن کے نوجوان کچھ عرصہ رشوت سے پاک رہے۔ اعلیٰ تنخواہیں تھیں‘ سہولیات تھیں۔ وہ لاہور شہر میں شہریوں کی تربیت کرتے کہ چوکوں پر لائن میں کھڑے ہوں‘ زیبرا کراسنگ سے پیچھے کھڑے ہوں‘ اس لئے کہ یہ پیدل سڑک پار کرنے والے لوگوں کا راستہ ہے‘ ان کے راستے کا حق پامال نہ کریں۔ ان کے دور میں یہ سلسلہ کچھ اچھا چلتا رہا مگر اس کے بعد یہ وارڈن بھی اب رشوت خور نظر آتے ہیں۔ سڑکوں پر لوگوں سے جھگڑتے ہیں۔ وردیاں پھڑوا بیٹھتے ہیں۔ ان کی اچھی شہرت خاک ہو چکی۔ یہ اب تڑخے ہوئے کھریپڑ کا حصہ بن چکے ہیں۔ میاں شہباز شریف صاحب کی پرواز کی رفتار چونکہ بہت زیادہ ہے۔ عوام کی خدمت کا جذبہ رکھنے والے وہ نئے قائد عوام ہیں۔ خادم اعلیٰ پنجاب ہیں۔ ان کے پاس زیادہ سوچنے کا وقت نہیں ہوتا کیونکہ انہوں نے خدمت بہت زیادہ اور انتہائی تیز رفتاری سے کرنا ہوتی ہے لہٰذا اس جذبے کے تحت انہوں نے کھریپڑ اُتارنے کے جھنجٹ میں اپنے آپ کو نہیں ڈالا۔ انہوں نے پہلے عام پولیس کے کھریپڑ پر ایلیٹ فورس کی لپائی کر دی۔ امن و امان کا حال اسی طرح رہا تو انہوں نے پولیس کی تنخواہیں ڈبل کرنے کی لپائی کر دی۔ حال پھر بھی وہی رہا تو اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو براہ راست پولیس میں اعلیٰ افسران لگایا گیا۔ کھریپڑ پر یہ لپائی بھی نا کام ہو گئی۔ فوج سے کچھ ریٹائرڈ افسران کو پولیس میں ذمہ داریاں دی گئیں مگر کھریپڑ پر یہ لپائی بھی ایک مزید بوجھ بن گئی اور کوئی معمولی سا فرق ہی پڑا ہو گا۔ اب ایک نئی فورس بن گئی ہے۔ اس کا نام ڈولفن فورس ہے۔ اس نئی لپائی کا حال یہ ہے کہ اس کے چار افراد رشوت خوری میں حوالات کے پیچھے بند عوام نے دیکھے ہیں۔ ٹی وی کی سکرین پر اور اخبارات کے صفحات پر دیکھے ہیں۔ یہ ڈولفن مچھلیاں انتہائی قیمتی موٹر سائیکلوں پر لاہور کی سڑکوں پر چار چار آٹھ آٹھ کی ٹولیوں میں تیرتی پھرتی ہیں۔ کسی کو روک لیا اور کاغذات چیک کر لئے۔ اب کمپیوٹر ہاتھوں میں تھامے بغیر کسٹم کی گاڑیاں چیک کرنے لگے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کالے کپڑوں اور کالی شلوار قمیض والی کسٹم پولیس کس کام کی ہے؟ الغرض! کھریپڑ پر لپائی در لپائی ایک نادان خاتون کی طرح ہو رہی ہے اور گتھی ہے کہ سلجھ نہیں رہی۔ کھریپڑ اب خودبخود ہی دیواروں سے گرنے لگ گیا ہے۔
جی ہاں! کھریپڑ کے گرنے سے دیوار مزید ننگی ہو رہی ہے۔ طوفانی بارشوں میں رات کے اندھیروں میں اس دیوار کو تحفظ دینے والا کوئی نہیں رہا۔ پولیس کا ایک انٹیلی جنس کا محکمہ ہے۔ اسے سپیشل برانچ کہتے ہیں۔ اس کا کام یہ ہے کہ معاشرے میں پتہ لگائے کہ جرائم کہاں پنپ رہے ہیں۔ نرسری کہاں لگ رہی ہے۔ کسی اندھے کیس اور نابینا قتل میں حقیقت کیا ہے؟ مگر اس کی کارکردگی کا حال یہ ہے کہ بچے اغوا ہو رہے ہیں۔ ہمیشہ سے ہوتے آ رہے ہیں مگر اب تو بچوں کا اغوا ایک وبا کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ مجال ہے جو پولیس سراغ لگا سکی ہو۔ سوال یہ ہے کہ یہ مسئلہ حل کیسے ہو گا۔ جناب والا! سیدھا سا اور فطری حل یہ ہے کہ کھریپڑ پر لپائیاں بند کر دیجئے۔ پولیس میں چھانٹی کیجئے۔ سابق آئی جی پنجاب شوکت جاوید صاحب اور ذوالفقار چیمہ جیسے افسران اور جوانوں کو الگ کر لیجئے۔ باقی ستر یا نوے فی صد پولیس کو فوج کے حوالے کر دیجئے۔ وہاں ایک نئی کور یا ڈویژن بنا کر کھڑا کر دیجئے۔ خالص فوجی چھلنی میں چھن کر یہ سونا بن جائیں گے۔ انہیں وہیں رہنے دیجئے۔ کھریپڑ کے ساتھ بھی ایسا ہی کرتے ہیں کہ اسے اُتار کر اس کی نئی ''گھانی‘‘ بناتے ہیں اور پھر لپائی کرتے ہیں۔ اگر یہ سیم زدہ ہو کر زیادہ ہی خراب ہو جائے تو اسے کسی گڑھے میں ڈال کر بھرتی کا کام لیا جاتا ہے۔ جی ہاں! پولیس کا کھریپڑ اگر کسی کام کا ہو تو اس کی فوج میں نئی ''گھانی‘‘ بنا دی جائے ورنہ اسے فارغ کر دیا جائے۔ اس میں سیم زدہ عنصر کو کسی گہرائی کی بھرتی بنا دیا جائے۔ پولیس نئی کھڑی کی جائے۔ تازہ چکنی مٹی کی ''گھانی‘‘ بنائی جائے۔ اسے فوج سے لیا جائے۔ تازہ دم اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں سے لیا جائے۔ اس سے عوام کی دیوار کی لپائی کی جائے۔ دیوار محفوظ ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ کوئی حل نہیں ہے۔ خادم اعلیٰ صاحب! کھریپڑ اُتارئیے اور نئی لپائی کیجئے۔ برسات جانے کو ہے لپائی کا موسم آنے کو ہے۔ آپ یہ خدمت کر گئے تو ہم عوام آپ کی خدمت کو یاد رکھیں گے۔ آپ کی نئی ٹاسک فورس جو اغواکاروں کے سدباب کے لئے سامنے آنے والی ہے‘ اس کو جانے دیجئے۔ بس کھریپڑ اُتارنے کی خدمت کیجئے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں