چین پاکستان اور انڈیا تین ایسے ملک ہیں جو آپس میں دریائوں کے مشترکہ نظام میں بندھے ہوئے ہیں ویسے تو ان ملکوں میں درجنوں دریا بہتے ہیں لیکن یہ سارے دریا تین بڑے دریائوں سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ان میں سب سے بڑا دریا''دریائے سندھ‘‘ ہے یہ چین کے علاقے تبت سے نکلتا ہے اور اپنے راستے میں چھوٹے بڑے دریائوں کو ساتھ ملاتا ہوا 3180کلو میٹر کا سفر طے کر کے عربی سمندر میں جا گرتا ہے۔ دوسرا بڑا دریا''دریائے گنگا‘‘ ہے یہ بھی تبت کے گنگوتری گلیشیئر سے نکلتا ہے اور جمنا جیسے اہم دریا اور دیگر کو ساتھ لے کر بنگلہ دیش سے ہوتے ہوئے 2525کلومیٹر کا سفر طے کرکے بنگالی سمندر میں جا گرتا ہے‘مسافت کے اعتبار سے دوسرا لیکن جغرافیائی اعتبار سے تیسرا اہم ترین دریا''دریائے برہم پترا ‘‘ہے۔ یہ بھی چین کے علاقے تبت سے نکلتا ہے ہمالیہ کے گلیشئر سے ایک جھیل بنتی ہے جسے ''منسارو‘‘ کہا جاتا ہے۔ وہاں سے نکل کر یہ دریا کوئی 1800کلو میٹر تک چین کے علاقے تبت میں ہی چلتا رہتا ہے اور پھر یہ دریا انڈیا کے صوبے ''ارونا چل پردیش‘‘ میں داخل ہوتا ہے۔ انڈیا کا مذکورہ صوبہ مشرق میں انڈیا کا آخری صوبہ ہے جو انتہائی کونے میں چین اور برما سے ملتا ہے۔ بہرحال یہ دریا وہاں سے آسام اور بنگلہ دیش میں داخل ہوتا ہے۔900کلو میٹر کے قریب انڈیا میں چلتا رہتا ہے اور بنگلہ دیش میں دریائے گنگا سے مل کر بنگالی سمندر میں جاگر تا ہے۔ بنگلہ دیش میں جس مقام پر مذکورہ دونوں دریا ملتے ہیں وہاں دریا کی چوڑائی بارہ کلو میٹر تک ہو جاتی ہے وہاں ایک کونے سے دوسرے کنارے تک بسوں اور ٹرکوں کو لاد کر بحری جہاز چلتے ہیں میں نے آج سے کوئی 25سال قبل یہاں بحری سفر کیا تھا یوں اس دریا کی کل لمبائی کوئی 2900کلو میٹر ہے۔
قارئین کرام! ثابت یہ ہوا کہ برصغیر کے تین بڑے دریائی نظاموں کا تعلق چین کے ساتھ ہے۔ شمال میں اوپر چین ہے اور انڈیا سارے کا سارا نیچے جنوب میں ہے۔ جبکہ پاکستان۔ انڈیا کے شمال مغرب میں ہے اگر پاکستان کی جانب سے چین اور انڈیا کے بارڈر پر چلنا شروع کریں تو صورت حال یوں بنے گی کہ پاکستان‘ کشمیر اور چین کے بارڈر کے بعد مقبوضہ کشمیر کے ساتھ چین کا علاقہ تبت شروع ہو جائے گا۔ اس کے بعد انڈیا کا صوبہ ہماچل پردیش اور اتر کھنڈ آئے گا۔ اس کے بعد نیپال کا ملک ہو گا جو چین اور انڈیا کے مابین لمبائی میں بڑھتا جائے گا۔ اس کے بعد چین میں آگے تک گھسا ہوا انڈین صوبہ ''سکم‘‘ آ جائے گا۔ یہ جغرافیائی اعتبار سے چین کے علاقے تبت کا حصہ بنتا ہے مگر انڈیا نے آج سے کوئی 40سال قبل اس پر قبضہ کر لیا تھا۔ تب یہ ایک آزاد ملک تھا اس کا بادشاہ چوگیال تھا جسے انڈیا نے قید کر لیا۔ جی ہاں! سکّم کے بعد بھوٹان کا ملک ہے اور اس کے بعد انڈیا کا صوبہ اروناچل پردیش ہے جو بنیادی طور پر چین کا علاقہ ہے مگر انڈیا قابض ہے اس کے سرحدی علاقے میں جھڑپیں چلتی رہتی ہیں جس طرح انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشمیر کی کنٹرول لائن پر جھڑپیں چلتی رہتی ہیں۔
یاد رہے! ارونا چل پردیش سے لے کر مقبوضہ کشمیر تک اوپر چین ہے اور چین کا بھی صرف ایک صوبہ ہے جس کا نام تبت ہے۔ دریائے برہم پتر جب چین کے علاقے تبت میں چلتا ہے تو اس کا نام ''چیما یونگاڈنگ‘‘ ہوتا ہے ۔ چین نے اس دریا پر ''جھانگو‘‘ کے مقام پر ایک بہت بڑا ڈیم بنایا ہے۔ یہ تبت کے دارالحکومت''لہاسہ‘‘ سے ایک سو چالیس کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہ ڈیم بھارتی سرحد سے 550کلو میٹر دور ہے۔ یہ ڈیم کوئی ساڑھے تین سو فٹ اونچا ہے۔ مذکورہ جھانگو پاور اسٹیشن ایک سال میں اڑھائی ارب کلو واٹ بجلی بناتا ہے۔2007ء سے یہ بجلی بنا رہا ہے۔ پانی اور بجلی بنانے کے لحاظ سے یہ دنیا کا ایک بڑا دریائی نظام ہے جی ہاں! یہ دریا کہ جسے ''یانگزے‘‘ بھی کہا جاتا ہے انگریزی میں اس کو ییلو اور اردو میں زرد کہا جاتا ہے۔ انڈیا کو اس پر بننے والے ڈیم کی بڑی تکلیف ہے۔ مودی اس پر چین کے صدر سے احتجاج کر چکا ہے میڈیا شور مچاتا ہے کہ چین اس دریا پر مزید نو عدد ڈیم بنانے کی تیاری کر رہا ہے جب انڈیا کو پانی کی ضرورت ہو ئی چین یہ پانی روک لے گا اور جب ضرورت نہ ہو گی سیلاب لا کر ہم کو ڈبو مارے گا۔ قارئین کرام! یہی وہ نکتہ ہے جس کی خاطر میں نے محنت کے ساتھ تحقیق کر کے حقائق آپ کے سامنے رکھے ہیں یعنی مذکورہ دریا کے بارے میں چین اور انڈیا کا کوئی معاہدہ بھی نہیں۔ چین نے کبھی کچھ کیا بھی نہیں۔ ڈیم بھی انڈیا کی سرحد سے سینکڑوں کلو میٹر دور ہے اس کے باوجود انڈیا خواہ مخواہ شورمچا رہا ہے اس کے برعکس دریائے سندھ کے پانچ ذیلی دریائوں میں سے تین کا پانی وہ سندھ طاس معاہدے کے مطابق لے گیا اب وہ باقی تین دریا بھی ہمیں دینے پر تیار نہیں۔ ڈیم بنا کر پانیوں کے رخ موڑ رہا ہے اور اب پانی روکنے کی باتیں کر رہا ہے۔ ڈیم اس مقبوضہ کشمیر میں ہیں جو یو این کی سلامتی کونسل میں متنازعہ علاقہ ہے کہ جس کو انڈیا نے اپنے بانی وزیر اعظم پنڈت نہرو کی تحریر سے متنازعہ تسلیم کر رکھا ہے۔ یہ تحریر اور اس پر کشمیر میں رائے شماری کی قرار دادیں سلامتی کونسل کی میز پر پڑی ہیں۔ کس قدر ڈھٹائی ہے کہ ان پر عمل کرنے کی بجائے انڈیا جارحیت کرتا ہوا اہل کشمیر کو قتل بھی کیے جا رہا ہے اور اب ان کے حق میں آواز اٹھانے پر پاکستان کو پیاسا مارنے کی دھمکیاں بھی دے رہا ہے۔
ایسے حالات میں کہ جب چین پاکستان کے درست اور حق پر مبنی موقف کے ساتھ کھڑا ہے اور چین نے پاکستان کا ساتھ دینے کا اعادہ بھی کیا ہے تو ہمیں اپنے برادر ملک چین کے ساتھ مزید مضبوطی کے ساتھ کھڑا ہونا ہو گا۔ ارونا چل پردیش‘ سِکّم اور دیگر معاملات میں چین کا ساتھ دینا ہو گا۔ انڈیا کی جارحیت کا مداوا کرنا ہو گا۔ اقتصادی راہداری کو پوری قوت سے بنانا ہو گا۔ جس چین کے دریا بحیرہ عرب اور خلیج بنگال میں گرتے ہیں۔ بحر ہند میں گرتے ہیںان سمندروں میں چین کے بحری جہازوں کو بلا روک ٹوک گزرنا ہو گا۔ چین کے مال کو گوادر کی سڑک اور سمندر سے جلدازجلد ملانا ہو گا۔ ہم یہ کام کریں گے تو انڈیا کی گیدڑ بھبکی کو جہاں پاک فوج کے شیر ناکام بنائیں گے وہاں ہمارے برادر چین کا کردار بھی ناکام بنائے گا۔ اگر انڈیا کے بنائے ہوئے بگلیہار وغیرہ ڈیموں کا پانی اقتصادی راہداری کو ڈبونے کی کوشش کرے گا۔ اقتصادی راہداری کے اطراف سبز سرزمین کو بنجر بنانے کی کوشش کرے گا تو انڈیا نے اپنے علاقے میں جس دریا کا نام برہم پُتّر رکھا ہے۔ انڈیا کا وہ پُتّر یعنی بچہ کیسے بچ پائے گا۔
قارئین کرام!دریائی پانی ہی فلٹر ہو کر زمین کے نیچے جاتا ہے۔ یہی پینے کے کام آتا ہے۔ زمین کے اوپر کھیتیاں ہیں تو نیچے صاف اور سفید پانی ہے۔ جمادات جو ایٹم سے وجود میں آئی ہیں پانی ان کے ساتھ ملا ہے تو خلیہ وجود میں آیا ہے۔ یہی خلیہ زندگی کی بنیاد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں واضح کر دیا کہ ہم نے ہر شئے کو پانی سے ہی زندگی عطا فرمائی ہے۔ انسانی وجود میں آئرن ‘ فاسفورس اور تانبا وغیرہ کی مقدار معمولی ہے باقی سارے کا سارا پانی ہی ہے۔ یہ کم ہو جائے تو جلد خشک پڑ جاتی ہے ڈاکٹر کو ڈرپ لگانا پڑتی ہے۔ بروقت ڈرپ کا قطرہ نہ ملے تو موت تیار ہوتی ہے۔ انڈیا جو کشمیر میں موت بانٹ رہا ہے وہ سارے پاکستان کو اس موت سے ہمکنار کرنا چاہتا ہے تو یہ اس کی بھول ہے۔ جدید سائنسی تحقیق یہ بھی ہے کہ پانی کا انتہائی ننھا قطرہ یعنی مالیکیول اپنے اندر یادداشت رکھتا ہے دوسرے لفظوں میں ہر زندہ شئے وہ چاہے یک خلوی کیڑا ہی کیوں نہ ہو اک یادداشت اور میموری رکھتا ہے۔ جی ہاں! میں نے مندرجہ بالا ساری تحقیق اہل پاکستان کے سامنے اس لیے رکھی ہے کہ کشمیر اور پاکستان کے درمیان ایک ایسا رشتہ ہے جو ''لا الہ الاّ اللہ‘‘ کے مضبوط بندھن کے ساتھ تو بندھا ہوا ہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ذیل میں جغرافیائی اور دریائی اعتبار سے بھی بندھا ہوا ہے۔ یہ وہ یادداشت ہے جسے پاکستان کے حکمرانوں کی یادداشت سے اس وقت تک محو نہیں ہونا چاہیے جب تک کہ کشمیریوں کی خواہش کے مطابق کشمیر پاکستان نہیں بن جاتا۔ وقت کا دھارا اسی جانب رواں ہے کہ ایسا ہو کر رہے گا(انشاء اللہ)