جنرل حمید گل مرحوم جنہوں نے ''آئی جے آئی‘‘ بنوائی اور میاں نوازشریف کو وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بٹھانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ وہ جب ملتان میں کور کمانڈر تھے تو میرا ان کے ساتھ نامہ و پیام شروع ہوا۔ 28اکتوبر 1990ء کو میرے نام لکھا ہوا ان کا محبت نامہ آج بھی میرے پاس محفوظ ہے۔ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد یہ تعلق اور گہرا ہوا اور محبت و احترام کے جذبوں میں ڈھلتا چلا گیا۔ چند ہفتے قبل اسلام آباد کے ایک وسیع و عریض ہال میں ان کے لائق اور دانشور فرزند عبداللہ گل نے باپ کی یاد میں ایک سیمینار کا انعقاد کیا تو مجھے بھی بلاوا دیا۔ وہاں پہنچا تو اسٹیج پر درمیان کی بڑی کرسی پر بٹھا دیا۔ میں نے پریشانی اور ہچکچاہٹ کا اظہار کیا مگر عبداللہ گل نے اپنے عظیم والد کے ساتھ تعلق کی لاج کو سامنے رکھتے ہوئے وہیں بیٹھنے کو کہا۔ تھوڑی دیر گزری تو جناب اعجاز الحق صاحب تشریف لے آئے وہ اسٹیج پر رکھی ہوئی قدرے دور کی کرسی پر بیٹھنے لگے تو میں نے ان کے لئے اپنی کرسی چھوڑ دی اور اس پر اصرار کر کے بٹھا دیا اور خود ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ مزید وقت گزرا تو مولانا فضل الرحمن چیئرمین کشمیر کمیٹی تشریف لے آئے۔ اب تمام کرسیاں فل تھیں اور پیچھے بھی لیڈروں کے باڈی گارڈز وغیرہ کا جم غفیر تھا۔ میں پھر آگے بڑھا، مولانا فضل الرحمن کا ہاتھ تھاما اور اپنی جگہ پر بٹھا دیا۔ خود ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گیا، کشمیری لیڈر جمیل الرحمن کو بھی خراج تحسین کہ جو میرے قربانی دینے پر ساتھ والی کرسی میرے لئے چھوڑتے رہے۔ مذکورہ کردار جسے ادا کرنے کی اللہ نے مجھے توفیق دی، ایسی توفیق اللہ تعالیٰ اور بھی کئی لوگوں کو دیتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ایسے لوگوں کی عزت بڑھتی ہے یا کم ہوتی ہے۔ یقینا بڑھتی ہے کم ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اس لئے کہ اللہ کے رسولﷺ نے گارنٹی دی ہے، فرمایا جس نے اللہ کی خاطر عاجزانہ رویہ اختیار کیا اللہ تعالیٰ اس کی عزت میں اضافہ کر دیتے ہیں(جامع ترمذی)
میرے حضورﷺ تو اپنے دشمنوں کی عزت افزائی میں بھی کوئی کمی گوارا نہ کرتے تھے۔ روم کے بادشاہ ''ہرقل‘‘ کو خط لکھا تو ''عظیم الروم‘‘ کے لقب سے عزت افزائی کر کے خط لکھا۔ ابوسفیان جس کی سالاری میں احد کے میدان میں حضورﷺ شدید زخمی ہوئے۔ فتح مکہ کے موقع پر اس کے گھر کو خصوصی اعزاز دیتے ہوئے امن کا گھر قرار دے دیا۔ حضورؐ کے مبارک کندھے پر رکھی چادر جسم اطہر پر لپٹی چادر کہ جس کی وجہ سے اللہ نے کبھی مزمل کہا تو کبھی مدثر کہہ کر یاد فرمایا۔ میرے حضورؐ نے اس چادر کو بھی ایک ایسی خاتون کے لئے زمین پر بچھا کر مسند بنا دیا کہ جو بچپن میں آپ کو بہلایا اور کھلایا کرتی تھی یعنی حضورﷺ نے صحابہؓ کی موجودگی میں اپنی فرشی کرسی اک خاتون کے لئے پیش کر دی اور خود ننگی زمین پر جلوہ افروز ہو گئے۔
خیر! یہ تو قربانی اور ایثار کی باتیں ہیں، میں آج سوچتا ہوں کہ ہمارے سیاستدان برادران یہ نہیں کر سکتے تو ایک دوسرے کے لئے زبان کے جملے ہی محترم بنا لیں۔ چلو یہ بھی نہیں کر سکتے تو کم از کم اچھے اخلاق کو گھوری ڈالنے اور ڈانٹنے والے جملوں سے ہی بچا لیں تو ہماری سیاست کافی حد تک پرسکون اور مہذب ہو جائے۔
اپنے سیاستدانوں کے لئے آج میں اردو لغت میں اک نئے لفظ کا اضافہ کرنے کی جسارت کرنے جا رہا ہوں۔ اس نئے لفظ کو ''تہذیب دان‘‘ کہہ لیں۔ یہ اک ایسا خوبصورت اور سنہرا برتن ہے جس میں میرے حضورﷺ کے ایسے فرامین ہیں جو تہذیب اور شائستگی کا درس دیتے ہیں۔ آیئے! اس ''تہذیبدان‘‘ سے اک جواہر پارہ نکالتے ہیں۔ اس میں میرے حضورﷺ کا فرمان اس طرح سے سامنے آتا ہے۔ فرمایا! ''جو شخص مجھے دو چیزوں کی ضمانت دے دے میں اس کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں، یہ دو چیزیں دو ٹانگوں کے درمیان اور دو جبڑوں کے درمیان ہیں‘‘ (صحیح بخاری)۔ جی ہاں! ایک شرمگاہ ہے اور دوسری زبان ہے۔ زبان کو سوچ سمجھ کر استعمال کرنے سے جنت کی خوشخبری مل رہی ہے۔ اس لئے مل رہی ہے کہ اس کا غیر ذمہ دارانہ استعمال آگ بھڑکا سکتا ہے۔ ملک کی جڑیں ہلا سکتا ہے۔ سیاستدان کی زبان خانہ جنگی کا باعث بن سکتی ہے۔ عوام کی پرامن زندگی کو خاکستر کر سکتی ہے۔ اس لئے سیاستدان اور حکمران کی زبان کو بہت زیادہ محتاط اور مہذب ہونا چاہئے۔ خاندان کے ایک فرد کی زبان جس طرح گھر کو برباد کر سکتی ہے اسی طرح سیاستدان اور حکمران کی غیر مہذب اور غیر شائستہ زبان ملک کو برباد کر سکتی ہے۔ اس لئے سیاستدان اور حکمران کے لئے ''تہذیب دان‘‘ کو سامنے رکھنا انتہائی ضروری ہے۔
ایک انتہائی معزز سیاستدان کو جنہوں نے پرویز مشرف کے دور میں جیل کاٹی، قربانی دی، جب اقتدار کا پھل کھانے کا وقت آیا تو انہیں نظرانداز کر دیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان پر فالج کا حملہ ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے صحت سے نواز دیا۔ پھر وہ تحریک انصاف میں چلے گئے پھر وہاں سے بھی نکل گئے۔ انہوں نے تحریک انصاف کی مجلسوں کے راز ٹی وی پر بتانے شروع کر دیئے۔ کاش! وہ تہذیب دان سے فائدہ اٹھانے کے قابل ہوتے تو میرے حضورؐ کا یہ جملہ سامنے رکھتے۔ فرمایا! ''مجالس (میٹنگ) امانت ہوتی ہیں۔‘‘(جامع ترمذی)۔ یعنی مجلس کی بات مجلس میں رہنے دو۔ تنقید اور اصلاح کرنا ہے تو وہیں کرو۔ اگر اسے باہر لائو گے تو خیانت کا ارتکاب کرو گے اور پھر جو خیانت کرے گا بھلا عزت کیسے پائے گا؟ جی ہاں! وہ مجلس کے اندر کی بات ٹی وی پر بیان کر رہے تھے اور تحریک انصاف کا ترجمان سامنے بیٹھا کہہ رہا تھا، تم جھوٹ بول رہے ہو۔ سینئر سیاستدان کی اس توہین پر مجھے بے حد افسوس ہو رہا تھا۔ اس وقت پاک فوج کے معزز ذمہ داران اور نواز حکومت کے درمیان جو کھچائو جاری ہے۔ جناب پرویز رشید صاحب وزارت سے فارغ ہو چکے ہیں۔ یہ ساری بدمزگی اور کشیدگی اس وجہ سے ہے کہ قومی سلامتی کی انتہائی اعلیٰ مجلس کو خیانت کے سپرد کیا گیا ہے۔ اس خیانت میں جس جس کا جتنا جتنا حصہ ہے اسے اپنے کردار پر غور کرنا چاہئے۔ اپنے آپ کو تہذیب دان کے سپرد کر کے مہذب بننا چاہئے۔
کنٹینرز کے ذریعے راستے بند کرنے کا انتہائی غیر مہذب انداز پرویز مشرف کے دور میں کراچی میں شروع ہوا۔ مسلم لیگ ن کو یہ اس قدر پسند آیا کہ اسے پورے ملک میں پھیلا کر اک کلچر بنا دیا۔ کتنے بیمار اور زخمی اس کی نذر ہو کر جان سے ہار گئے۔ اللہ کو معلوم ہے البتہ ایک فوجی افسر لیفٹیننٹ کرنل شاہد بھی اسی کا شکار ہو کر شہید ہو گئے کہ وہ اپنے کانوائے کو کچے راستے سے گزارنے کے لئے رات کے اندھیرے میں ایک کھائی میں جا گرے۔ امام بخاری سڑک اور راستے کے حوالے سے اپنی صحیح میں جو عنوان لائے ہیں وہ ہے ''کتاب المظالم والغضب‘‘ یعنی راستے کو روکنا ظلم بھی ہے اور اللہ کے غضب کو دعوت دینا بھی ہے۔ اسی طرح اللہ کے رسولﷺ نے اپنے ایک جہادی سفر میں پڑائو ڈالا تو اعلان کروایا کہ جو شخص راستے پر خیمہ لگائے گا اس کا کوئی جہاد نہیں ۔(ابودائود)۔
ایسے ہی حضورﷺ کے ایک اور فرمان کے مطابق راستے میں رکاوٹ ڈالنا لعنتی حرکت کرنا ہے۔ (ابودائود)۔ جبکہ راستے سے رکاوٹ کو دور کرنا ایسا نیکی کا کام ہے کہ ایک شخص سڑک سے کانٹوں کی جھاڑی ہٹانے کی وجہ سے جنت میں چلا گیا۔ (مسلم) جی ہاں! حکومت نے عوامی مفادات کے خلاف حرکتوں کا ارتکاب کیا ہے تو اپوزیشن کا حق اور فرض ہے کہ تہذیبدان کے شہ پارے عدلیہ کے سامنے اور عوام کے سامنے رکھے جائیں۔ مگر اس کے برعکس جواب میں صوبہ خیبر کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک صاحب قوم پرستی کی بولی بولنا شروع کر دیں۔ پٹھان اور پنجاب کی بات شروع کر دیں۔ ''باغی بن گئے تو ملک کا حشر نشر ہو جائے گا۔‘‘ جیسی پھلجھڑیاں چھوڑنا شروع کر دیں تو صاف نظر آتا ہے کہ سیاستدان جوش میں ہوش کھو رہے ہیں۔کنٹینر لگانا حکومت کی سنگین غلطی مگر اس سے یہ سمجھنا کہ حکومت پنجاب اور خیبر کو تقسیم کر رہی ہے۔ سخت زیادتی ہے۔ وزیراعظم کے ترجمان صادق صاحب جناب عمران خان کو مجیب الرحمن کہنا شروع کر دیں تو ''انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘ ہی ایسے بیان اور سوچ پر پڑھا جا سکتا ہے۔ خواجہ آصف صاحب کے پاس دو وزارتیں دفاع، پانی اور بجلی ہیں۔ خواجہ صفدر مرحوم جو باوقار اور باحوصلہ سیاستدان تھے ان کے فرزند ہیں مگر ان کا کوئی بیان دیکھ لو۔ نہ دفاعی حد تک رہیں گے نہ ہی جلتی پر پانی ڈالیں گے۔ یہ صرف وزارت یعنی بجلی کی الیکٹرانک چیئر سنبھالیں گے۔ پچھلے دھرنے میں تحریک انصاف کے ممبران پارلیمنٹ میں آئے تو انہوں نے منہ سے ایسے جملے نکالے جو روٹھے دوستوں کو منانے اور مرہم رکھنے کے بجائے بجلی گرا کر بھسم کرنے والے تھے۔ اب دبئی سے تشریف لائے ہیں تو جملے پر غور کیجئے ''میں واپس آ گیا، اب تیرا کیا ہو گا کالیا‘‘ یقین جانئے نوجوان سیاستدان بلاول بھٹو زرداری کے بھی کچھ ایسے بیانات ہیں مگر وہ ابھی نوآموز ہیں تاہم ان کا یہ انداز کہ اپنی ماں محترمہ بے نظیر بھٹو مرحومہ اور نانا جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کا تذکرہ کر کے آنسو بھی بہائے، ساتھ ''پاکستان کھپے‘‘ کے نعرے بھی لگائے، مجھے بلاول بہت ہی اچھا لگا۔ کاش! سیاسی رنجش ذاتی رنجش نہ بن پائے اور پاکستان یعنی اپنے گھر کو تو کوئی سیاستدان بالکل نشانہ نہ بنائے... اور اگر یہ نشانے جاری رہے تو قومی سلامتی کے ادارے جب نشانہ باندھیں گے تب سب کو تہذیب دان یاد آئے گا۔ میں کہتا ہوں اسے ہر وقت سامنے رکھنا چاہئے کہ اسی میں سیاست اور سیاستدانوں کا بھلا ہے۔