جنوبی ایشیا یا برصغیر کے سات ملکوں کو جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور میں ''سارک‘‘ نامی تنظیم میں پرویا گیا۔ اس تنظیم کا سب سے بڑا ملک ہندوستان ہے جہاں ہندو اکثریت میں ہیں۔ دوسرا ملک پاکستان اور تیسرا بنگلہ دیش ہے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ چوتھا ملک نیپال ہے جو ہندو اکثریت رکھتا ہے۔ پانچواں سری لنکا اور چھٹا بھوٹان ہے جو بدھ اکثریت کے حامل ہیں۔ ساتواں مالدیپ ہے جو مسلمان اکثریت کا ملک ہے۔ ان ساتوں ممالک کی آبادی کوئی پونے دو ارب کے قریب ہے۔ جس میں مسلمانوں کی تعداد ستر کروڑ کے لگ بھگ ہے یعنی برصغیر یا جنوبی ایشیا کے ملکوں میں نصف کے نزدیک مسلمان ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق برصغیر میں پانچ کروڑ مسیحی ہیں۔ تین کروڑ سکھ ہیں۔ آٹھ کروڑ بدھسٹ ہیں۔ یوں برصغیر کی آبادی میں ہندوئوں کی تعداد کم ہو چکی ہے۔ ساڑھے تیرہ سو سال قبل جب اسلام عرب سرزمین سے نکلا اور برصغیر کی سرزمین پر اس نے قدم رکھا تب بدھ مت تو موجود تھے مگر مسلمان، مسیحی اور سکھ موجود نہ تھے۔ یہاں ہرسو ہندو ہی ہندو تھے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ ہندو اقلیت کا روپ دھار چکے ہیں یعنی سارک ملکوں کی تنظیم میں ہندو ایک اقلیتی دھرم ہے۔ انڈیا کے متعصب ہندوئوں کو یہ حقیقت ایک کڑوی دوائی سمجھ کرپینا پڑتی ہے جب وہ سارک ملکوں کی تنظیم کے اجلاس میں شرکت کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مودی جیسی متعصب سرکار کے دور میں سارک کو ہر صورت ناکام بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کبھی وہ اجلاس کے درمیان سے بھاگ جاتے ہیں اور کبھی خود بھی شرکت نہیں کرتے اور دوسرے ملکوں کو بھی شرکت سے روک کر اپنی ہندتوا کی پیاس کو بجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہندو رہنمائوں کو مندرجہ بالا حقیقت کا شدت سے احساس ہو چکا ہے چنانچہ انہوں نے غیر ہندوئوں کو ہندو بنانے کے لئے قیام پاکستان سے قبل ''شدّھی‘‘ اور ''سنگھٹن‘‘ کے نام سے تحریک چلائیں۔ ان ناموں کا مطلب ہی یہ ہے کہ جو لوگ غیر ہندو بن کر ملیچھ یعنی ناپاک ہو چکے ہیں ان کو ''شدھ‘‘ کیا جائے یعنی ہندو بنا کر پاک اور پوتر کیا جائے۔ مودی کی قیادت میں بی جے پی کی ہندو سرکار نے اب ''ہندتوا‘‘ کے نام سے غیر ہندوئوں کو ہندو بنانے کی باقاعدہ مہم چلا رکھی ہے۔ شدھی اور سنگھٹن کی تحریکیں رضاکارانہ تھیں کیونکہ تب انگریز کی حکومت تھی مگر اب ''ہندتوا‘‘ کی تحریک چلانے والے خود حکمران ہیں لہٰذا مسلمانوں، سکھوں، مسیحی اور دیگر افراد کے ساتھ تشدد، سختی اور ریاستی دہشت گردی کے ہتھکنڈے استعمال کر کے ظلم ڈھایا جا رہا ہے۔ ترغیب اور فسادات کے ذریعے اقلیتوں پر ظلم کر کے ہندو بننے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔
ہندو مت کا سب سے بڑا مسئلہ جو اڑھائی ہزار سال سے چلا آ رہا ہے وہ ذات پات کی تقسیم کا ہے۔ اس تقسیم کو پارہ پارہ کیا تو مسلمانوں نے کیا۔ سب سے اونچی ذات جس کے لوگوں کی پوجا بھی کی جاتی ہے وہ ''برہمن‘‘ ہیں۔ ہندو دھرم کے مطابق یہ پاک لوگ بھگوان کے سر سے پیدا ہوئے لہٰذا حکومت کرنا اور دھرم کے پنڈت بننا ان کا کام ہے۔ دوسرے نمبر پر کھشتری ہیں یہ بھگوان کے بازوئوں سے بنے ہیں لہٰذا جنگ کرنا ان کا کام ہے۔ کھشتریوں کی پھر آگے بہت ساری ذیلی ذاتیں ہیں جیسے راجپوت، پٹیل، کورمی، کشواں، شواں، گجر، جاٹ وغیرہ اور پھر ان میں سے بھی مزید آگے ''گوتیں‘‘ یعنی شاخیں ہیں جیسے جاٹ میں سے وڑائچ، ورک اور بسرا وغیرہ... اسی طرح برہمنوں کی بھی بہت ساری ذیلی ذاتیں ہیں جیسے دوبیزی برہمن، چوپیزی، تربیزی، سریشٹ اور کریسٹ برہمن وغیرہ۔ تیسری ذات ویش ہے جو بھگوان کے پیٹ سے پیدا ہوئی ہے اس کی بھی بہت ساری قسمیں ہیں، ان کا کام تجارت ہے۔ چوتھی شودر ہے جو بھگوان کی ٹانگوں اور پیروں سے بنی ہے اس کا کام سب کی خدمت ہے۔ ان کے بعد ایک ایسی ذات ہے جو ہے تو ہندو مگر وہ طے شدہ ذات نہیں ہے یعنی وہ انسان ہو کر بھی انسان نہیں ہیں۔ ان کا رتبہ جانوروں جیسا بلکہ ان سے بھی کم تر ہے۔ ان کو ''دلت‘‘ کہا جاتا ہے، مگر ہندوستان میں ان کی تعداد 22 کروڑ کے قریب ہے۔ مسلمان جو پورے برصغیر میں اپنی تعداد میں نصف ہو چکے ہیں ان میں مندرجہ بالا چاروں ذاتوں کے لوگ اور بڑی تعداد میں دلت بھی شامل ہیں چونکہ مسلمان برصغیر میں ایک ہزار سال تک حکمران رہے ہیں اس لئے اعلیٰ ذاتوں سے بھی بے شمار اور کروڑوں لوگ مسلمان ہوئے ہیں۔ سکھوں کے اندر بھی ہندوئوں جیسی ذات پات کی تقسیم نہیں
ہے۔ بابا گورونانک جو خود کھشتری تھے، انہوں نے اسلام سے متاثر ہو کر اس ذات پات کے خلاف پرچم اٹھایا۔ یوں سکھ مذہب میں ذات پات کے خاتمے کا کریڈٹ بھی اسلام کو جاتا ہے۔ سو سالہ انگریزی دور حکومت میں ہندوئوں نے مسیحی مذہب بھی اختیار کیا اس لئے کہ اس آسمانی اور الہامی مذہب میں بھی ذات پات نہیں ہے مگر زیادہ تر مسیحیت اختیار کرنے والے شودر اور دلت تھے۔ بدھ مذہب میں بھی ذات پات کی تقسیم ہندوئوں جیسی نہیں ہے، الغرض! ہندو دھرم مٹتا چلا جا رہا ہے۔
ہندو دھرم کی بقاء کا انحصار اب دلتوں پر ہے۔ دلت میں سے فی زمانہ اب کچھ لوگ پڑھ لکھ بھی گئے ہیں۔ مایاوتی خاتون دلت ہیں وہ انڈین صوبے اترپردیش کی وزیراعلیٰ بھی رہی ہیں۔ ایک دلت اب ارب پتی بھی بن چکا ہے مگر 22 کروڑ کے مقابلے میں یہ سب کچھ آٹے میں نمک بھی نہیں ہے۔ دلتوں کو مزارع بن کر بھی زمین کاشت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ان کی بستیاں اور محلے الگ ہیں۔ معاشی لحاظ سے اس قدر غربت کی زندگی ہے کہ ان کے چھوٹے چھوٹے گھر یوں ہیں جیسے جانوروں کے ڈربے ہوں۔ روزنامہ دنیا میں کالم لکھنے والے ویدک پرتاپ نے اپنے کالم میں انکشاف کیا کہ ایک دلت نے آٹا پیسنے والی چکی پر ایک کھشتری کے آٹے کی بوری کو سائیڈ پر کیا تو اس جرم کی پاداش میں کھشتری نے موقع پر ہی اس کی گردن کو تن سے جدا کر دیا۔ ایسے واقعات ہندو معاشرے میں عام ہیں۔ وہ ہندو ہو کر بھی ہندو کے مندر میں نہیں جا سکتے۔ چلے جائیں تو قتل کر دیئے جاتے ہیں، زخمی کر دیئے جاتے ہیں، مندر کو دھویا جاتا ہے۔ مگر اب ہندو دھرم کی اڑھائی ہزار سالہ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ دلتوں کے تیور میں بغاوت آ گئی ہے۔ انہوں نے حال ہی میں گائے کو کاٹ کر اسے مندروں میں اور حکومتی ایوانوں میں پھینک دیا ہے یعنی جو کام ابھی تک سکھ نہ کر سکے وہ اب دلتوں نے کرنا شروع کر دیا ہے۔ یاد رہے! دلت لوگ مردہ گائیوں کا گوشت کھاتے ہیں مگر زندہ گائیوں کو کاٹنا بہت بڑی تبدیلی اور بغاوت ہے۔
دلت لوگ دیگر مذاہب میں بھی جا رہے ہیں مگر سب سے زیادہ اسلام میں جا رہے ہیں۔ بمبئی کے مضافات میں ایک دلت قبیلے نے حال ہی میں اسلام قبول کیا ہے۔ سب نے داڑھیاں رکھی ہوئی ہیں، پانچ وقت کے نمازی ہیں۔ الجزیرہ ٹی وی نے اس خاندان پر خصوصی ڈاکومنٹری چلائی ہے۔ برہمنوں اور ہندو کھشتریوں نے ان پر تشدد بھی کیا۔ ان کے سربراہ کو ٹانگ میں گولی بھی لگی مگر وہ وضو کرتے ہوئے کہہ رہا تھا، جان بھی چلی جائے اب اسلام نہیں چھوڑیں گے۔ وہ کہہ رہا تھا دیگر قبائل بھی اسلام قبول کرنے پر سوچ بچار کر رہے ہیں۔ اسلام کی یہ بات انہیں متاثر کر رہی تھی کہ ہندو ہو کر بھی وہ ہندو کے مندر میں نہ جا سکتے تھے، برہمن کے گھر نہ جا سکتے تھے، ان کے ہاتھ کو چھو نہ سکتے تھے۔ وہ کہتے ہیں ہم مسجد میں جاتے ہیں تو یہ شان نظر آتی ہے کہ ہم مسجد میں پہلے چلے گئے ہیں، اگلی صف میں ہیں تو ایک برہمن یا کھشتری مسلمان ہم سے پچھلی صف میں کھڑا ہے تو جہاں ایک دلت مسلمان کے پائوں ہیں وہاں ایک برہمن یا کھشتری مسلمان کا سر ہمارے پائوں کے نیچے اپنے اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہے۔ یہ اعزاز اور اکرام ہمیں مسلمانوں میں اور مسجد میں ملا ہے۔ ہم اپنے مولوی صاحب سے مصافحہ کرتے ہیں، ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں۔ ہمیں پہلی بار احساس ہوا ہے کہ ہم انسان ہیں۔ اس آخری رسول حضرت محمدﷺ پر ہماری جان قربان کہ جنہوں نے ایسا دین دیا کہ ہم جیسوں کو بھی احساس ہی نہیں، یقینِ کامل ہوا کہ ہم بھی انسان ہیں اور مسلمان بن کر اعلیٰ ترین انسان ہیں۔ الغرض! اس وقت دلت لوگ پورے ہندوستان میں ہندو کے غیر انسانی ظالمانہ سماج کے سامنے تاریخ میں پہلی بار ڈٹ کر کھڑے ہو رہے ہیں اور باغیانہ انداز میں ان کو چیلنج کر رہے ہیں۔ تاریخ اور ارتقاء پاتے ہوئے سماج کے دھارے کو نہ روکا جا سکتا ہے اور نہ ہی رخ موڑا جا سکتا ہے۔ چنانچہ تاریخ کا حالیہ حقیقت بھرا زمینی بیانیہ یہی ہے کہ ہندو مذہب برصغیر یا جنوبی ایشیا میں تو اقلیت بن ہی چکا ہے یہ اب اپنی راجدھانی انڈیا کے اندر بھی اقلیتی دھرم بننے جا رہا ہے۔ تاریخ کا یہ سفر اگلے چند برسوں میں ہی اپنے منطقی انجام تک پہنچنا چاہتا ہے تاہم نریندر مودی جیسا شخص کہ جو اپنے اقدامات سے تاریخ کے سفر کو تیز کر چکا ہے، اگر پاکستان کے ساتھ کوئی تصادم کر بیٹھا تو انڈیا کے مظلوم طبقات ظالم ہندو سماج کے خلاف مذکورہ کام دنوں میں کر دیں گے۔ بہرحال جلد یا بدیر مذکورہ کام ہونے جا رہا ہے کہ ہندو دھرم ہندوستان کے اندر اک اقلیتی گروہ بننے والا ہے۔