پوری دنیا کے ستانوے فیصد یعنی 100میں سے 97سائنسدان اس بات پر متفق ہو چکے ہیں کہ ہم سب انسان ہیں اور ہمارا گھر ایک ہے۔ اس کا نام زمین ہے، مکان کے مکینوں نے اپنے گھر کو صاف نہیں رکھا۔ اسے خوب خوب آلودہ کیا ہے، اس میں گند ڈال دیا ہے چنانچہ گندے کوڑے کی وجہ سے سڑاند بڑھ چکی ہے۔ حدت اور گرمی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ صورتحال انسانیت اور اس کے مستقبل کے لئے خطرناک ہے۔ یہ سارا خطرہ (Man Made) ہے یعنی انسان نے اپنے ہاتھ سے خطرناک صورتحال کو جنم دیا ہے۔
قارئین کرام! میں نے قرآن کھولا تو وہ صورتحال کہ جس پر آج سائنسدان چیخ و پکارکر رہے ہیں اور دہائیاں دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان بناتے ہی فرشتوں کی زبان سے مذکورہ خطرے سے آگاہ کر دیا تھا۔ فرشتوں نے انسان کے بارے میں کہا تھا: ''آپ جس انسان کو پیدا فرما رہے ہیں یہ زمین میں فساد بھی کرے گا اور خونریزی بھی کرے گا۔‘‘ (البقرہ:30) یعنی انسان دو کام کرے گا، فساد بھی کرے گا اور خونریزی بھی کرے گا۔ آج کا ہمارا موضوع فساد ہے۔ اس فساد کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے سورئہ روم میں اس طرح فرمایا!
''خشکی اور سمندر میں فساد سامنے آ گیا۔ اس کا سبب انسانوں کے ہاتھ ہیں، جن کی کمائی نے یہ دن دکھائے‘‘ (روم:41)
جی ہاں سائنسدان جس خطرے کو آج (Man Made) کہہ رہے ہیں۔ قرآن نے ساڑھے چودہ سو سال قبل بتلا دیا کہ زمین اور سمندر میں جو فساد ہو گا وہ انسان کے ہاتھ کا پھیلایا ہوا ہو گا۔ پھر قرآن نے ''ظَھَرَ‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا کہ انسانی ہاتھوں سے بپا فساد بالآخر واضح ہو کر رہے گا۔ اس فساد کے لئے ''کَسَبَت‘‘ کا لفظ بھی استعمال کیا یعنی انسان فساد مچائے گا تو اپنی کمائی کی خاطر فساد مچائے گا۔
حکمران اک انسان ہے، اس انسان کا فرض تھا کہ جو بھی منصوبہ بناتا اس میں انسانیت کا بھلا دیکھتا۔ صحیح مسلم کی حدیث ہے حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ جو نبی بھی آیا اس نے اپنی امت کے لئے جس چیز میں خیر دیکھی اس سے اپنی امت کو آگاہ کیا اور جس چیز میں نقصان دیکھا اس سے بھی اپنی امت کو آگاہ کیا۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان کے حکمران کا فرض تھا کہ وہ پاکستان میں ڈیم بناتا اس سے بجلی سستی بنتی، آبپاشی کے لئے فصلوں کو پانی ملتا اور زمین پر آلودگی کا فساد نہ مچتا مگر حکمران نے تیل سے چلنے والے بجلی کے کارخانے بنا دیئے۔ کوٹ ادو میں بنا دیئے، مظفر گڑھ اور گوجرانوالہ میں نندی پور پر بنا دیئے۔ دیوہیکل بھٹیاں دھوئیں کے بادل بنانے لگیں۔ اب کوئلے کے کارخانے ساہیوال وغیرہ میں بن رہے ہیں۔ یہ کوئلہ سندھ، بلوچستان سے آئے گا۔ ریل کے انجن دھواں چھوڑیں گے پھر یہ کارخانے دھواں چھوڑیں گے۔ اللہ کی پناہ! مہنگی بجلی اور ساتھ آلودگی اور زرعی رقبے کی تباہی۔ حکمران کہتا ہے یہ ترقی ہے مگر اس ترقی کے ساتھ جو فساد جڑا ہوا ہے ذرا حکمران بتائے اس کی قیمت کیا ہے؟ موٹرسائیکل بنا ہے زیادہ سے زیادہ دو بندوں کے لئے، چلو اس پر تین بیٹھ جائیں مگر موٹرسائیکل کے پیچھے چار پانچ سو کلو وزن کی چنگ چی بنا دی گئی ہے۔ اب موٹرسائیکل کو جب ریس دبا کر دی جائے گی تو دس بارہ مزید سواریاں کھینچنے والا موٹرسائیکل اپنے سائیلنسر سے کیا خارج کرے گا یقینا مضر صحت دھواں۔ خراب گاڑیوں کا دھواں الگ ہے۔ ہم اس قدر جاہل اور اپنی جان کے دشمن لوگ ہیں کہ احتجاج کریں گے تو ٹائر جلائیں گے۔ ٹائر کی تاریں نکالنے والے بھی ٹائر جلائیں گے۔ کئی فیکٹریوں والے ٹائر جلاتے ہیں۔ فیکٹریوں کا کیمیکل والا انتہائی تباہ کن پانی بھی دریائوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔ چمنیاں دھواں اگلتی ہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ محکمہ ماحولیات بنا ہوا ہے مگر کرپشن نے ہر جگہ پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ دنیا کے اچھے ممالک بلٹ ٹرینیں چلا کر ریلوے کو جدید بنا رہے ہیں تاکہ کاروں بسوں کا رش کم ہو، ماحول صاف ہو، ہم ہیں کہ اس نظام کا بیڑہ غرق کئے ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ حکمران کہاں سویا ہوا ہے۔ وہ ترقی ترقی کی رٹ لگائے جا رہا ہے مگر جان لیوا ترقی کے ساتھ فلٹر لگانے کی سوچ سے عاری ہے۔
لاہور فضائی آلودگی کی زد میں ہے۔ آنکھوں میں چبھن ہے تو گلے میں کڑواہٹ ہے۔ اتفاق کی بات کہ میں نے جمعہ کا خطبہ راولپنڈی میں دینا تھا۔ گجرات تک فضائی آلودگی بہت زیادہ تھی، آگے پوٹھوہاری علاقے میں کم تھی۔ راولپنڈی سے جب میں اسلام آباد میں داخل ہواتو وہاں انتہائی کم تھی اور جب میں مری پہنچا تو وہاں کی فضا بالکل صاف شفاف تھی۔ یہاں ایک رات گزارنے کا فائدہ یہ ہوا کہ آنکھوں کی چبھن ختم ہو گئی اور گلے کی کڑواہٹ حلاوت میں تبدیل ہو گئی۔ لاہور سے جنوب کی جانب بھی صورتحال کچھ ایسی ہے کہ ساہیوال تک فضائی آلودگی کافی زیادہ ہے، ملتان میں بھی آلودگی موجود ہے۔ کراچی تک کا علاقہ کہیں کم کہیں زیادہ متاثر ہے۔ اس صورتحال سے میں اس نتیجے پر پہنچا کہ پاکستان بارڈر کا علاقہ جو انڈیا کے ساتھ لگتا ہے وہاں فضائی آلودگی زیادہ ہے۔ کوئی شک نہیں کہ فضائی آلودگی پیدا کرنے میں پاکستان کے انسانوں کا بھی ہاتھ ہے مگر انڈیا کے انسانوں کا ہاتھ کچھ زیادہ ہی ہے اور دہلی تو شدید ترین آلودگی کی زد میں ہے۔ وہاں دوائیوں کی صنعت نے آلودگی پھیلانے کی حد کر دی ہے، جہاں یہ فیکٹریاں ہیں وہاں لاکھوں لوگ بیمار ہو گئے ہیں۔ ان پر مذکورہ فیکٹریوں کی دوائیاں بھی بے اثر ہو گئی ہیں۔ یہاں سے نکلنے والے گندے پانیوں نے دریائوں کی مچھلیوں کو مار دیا ہے۔ مویشیوں میں بیماریاں پھیل گئی ہیں۔ ماحولیات کے عالمی ماہرین نے اعتراضات کئے تو انڈیا جس نے اس مد میں 2014ء میں پندرہ ارب ڈالر کمایا اس نے تمام اعتراضات کو کچرے میں پھینک دیا۔ جی ہاں ان آلودگیوں کے اثرات نے بارڈر کے ساتھ ساتھ پاکستان کے حصوں کو بھی متاثر کر دیا۔
سورج کی دھوپ اللہ کریم کا ایک بہت بڑا فلٹر ہے، گرمیوں میں اس کی تمازت زمین کی آلودگیوں کو اڑا کر اوپر لے جاتی ہے، فضا صاف ہو جاتی ہے۔ گرمیوں میں آندھیاں، ہوائیں اور طوفان بھی چلتے ہیں، بگولے بھی اٹھتے ہیں یہ بھی فضا کو صاف کر دیتے ہیں۔ اس بار جونہی سردیوں کا آغاز ہوا، زمین پر پھیلایا ہوا انسان کا فساد جب اوپر اٹھا تو نہ گرمی تھی اور نہ ہوا چنانچہ یہ اور اوپر نہ جا سکا اور سردی کی وجہ سے یہ گیس دھواں سا بن کر انسانوں کی آنکھوں کو خراب کرنے لگ گیا۔ پھیپھڑوں کو نقصان دینے لگ گیا۔ گلے کو پکڑنے لگ گیا۔ میں نے چند ماہرین سے ملاقاتیں بھی کیں۔ محکمہ موسمیات کے ذمہ داران سے بھی معلوم کیا کہ بارش کب ہو گی۔ بارش بھی فلٹر ہے۔ بہرحال! ہلکی ہلکی ہوا چلنے کی خوشخبری ملی، یہ چلنا شروع ہوئی اور فضا صاف ہونا شروع ہو گئی۔ اگلے دنوں بارش ہو گی تو مزید صفائی ہو جائے گی۔ زمین کی کشش پہاڑی علاقے میں کم ہوتی ہے اس لئے وہاں گیسیں جلدی اوپر اٹھ جاتی ہیں۔ یہ بات بھی ہے کہ وہاں فیکٹریاں برائے نام ہیں، تیسری یہ بات کہ ہندوستان سے ذرا دور ہیں۔ ان چیزوں نے پہاڑوں میں بسنے والوں کو زہریلی دھند سے محفوظ رکھا۔ جی ہاں! ہم نہ سدھرے تو اپنے پہاڑ بھی خراب کر لیں گے، میں کہتا ہوں موجودہ صورتحال ہمارے لئے ایک تازیانہ ہے۔ ڈراوا ہے، انتباہ ہے کہ اے انسانو! تم نے خشکی میں بھی فساد مچا دیا۔ سمندروں میں گندہ پانی پھینکا۔ ٹوٹنے والے بحری جہازوں کی آلودگی کو بھی سمندر کی نذر کیا۔ کیمیکلز اور تیل کو سمندر میں پھینکا۔ تمہارا فساد جب خشکی اور سمندر میں نمایاں ہو گیا تو یہاں سے اٹھنے والی مضر گیسوں کی چادر تم پر تن گئی۔ سانس لینا دشوار ہونے لگا۔ جی ہاں! سمندری مخلوق بھی پریشان، خشکی پر انسان اور حیوان، چرند اور پرند سب پریشان۔ کیا اب باز آئو گے۔ اپنے ماحول کو صاف کرو گے؟ رشوتیں لے کر آلودگی پھیلانے میں اپنا حصہ ڈالنے والو! ذرا سوچو... یہ جو فضا ہے تم نے اسی میں سانس لینا ہے۔ تمہارے بیوی بچوں نے اسی میں سانس لینا ہے۔ حکمرانوں نے اسی میں سانس لینا ہے۔ ارے! کس قدر نادان ہو کہ جس شاخ پر بیٹھے چہچہا رہے ہو اسی کو کاٹنے پر تیار ہو۔ آگ لگانے پر پابہ رکاب ہو۔ نہیں نہیں، آیئے! اپنے ماحول کو صاف کریں۔ پالیسی بنائیں، قدرت اور فطرت کے معمولی طمانچے کو کافی سمجھیں۔ دنیا کے ساتھ بھی اس معاملے پر بات کریں۔ انڈیا کے ساتھ بھی بات کریں کہ انسان جو سانس لیتے ہیں وہ ہوا کسی سرحد کی پابند نہیں۔ زمین اللہ کی ہے، اس پر بسنے والے سب انسان ہیں۔ اللہ کے بندے ہیں۔ حضرت آدمؑ کی اولاد ہیں۔ آیئے! انسانیت کے گھر زمین کو آلودگیوں سے محفوظ کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ یہ وہ پیغام ہے جو رحمۃ للعالمینؐ پہ نازل ہونے والے قرآن نے ساڑھے چودہ سو سال پہلے دیا ہے۔ آیئے! ہم مسلمان سب سے بڑھ کر ماحول کی صفائی میں اپنا حصہ ڈالیں اور محسن انسانیت حضرت محمد کریمﷺ کے اسوئہ کو اپنا کر ماحول دوستی کے ذریعے انسانیت دوستی کا ثبوت دیں۔