امام حافظ محمد بن عیسیٰ رحمہ اللہ اپنی حدیث کی کتاب ''ترمذی شریف‘‘ میں بیان کرتے ہیں، حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے بتایا کہ اللہ کے رسولﷺ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا، عرض کرنے لگا! اے اللہ کے رسولﷺ!میں نے ایک بہت ہی بڑے گناہ کا ارتکاب کر لیا ہے۔ کیا توبہ کی کوئی صورت ہے؟ فرمایا! کیا تمہاری والدہ زندہ ہیں؟ کہنے لگا، جی نہیں، پوچھا کیا تیری کوئی خالہ ہے، عرض کی جی ہاں، فرمایا! جا اور اس کے ساتھ حسن سلوک کر (تیرا گناہ معاف ہو جائے گا) قارئین کرام! جنرل قمر جاوید باجوہ جونہی آرمی چیف کے منصب پر فائز ہوئے، سب سے پہلے والدہ محترمہ کی قبر پر گئے، ہاتھ اٹھائے، دعا کی، آنسو بہائے اور قبرستان سے نکل کر سیدھے اپنی خالہ جان صفیہ بیگم کے ہاں حاضر ہوئے۔ صفیہ بیگم بے اولاد ہیں، جنرل صاحب جب بھی ان سے ملے ان کو یہی احساس دلایا کہ ہم آپ کی اولاد ہیں اور ماں کے بعد خالہ ہی نے ماں کا مقام بھی حاصل کر لیا۔ میرے حضورﷺ نے چچا کو باپ کا مقام دیا تو خالہ کو ماں کا مقام دیا۔ یوں جنرل صاحب نے آرمی چیف بننے کے بعد سب سے پہلے عظمت کے حامل رشتوں کو سلام کیا۔ جنرل صاحب جب قبرستان میں کسی کو دفن کرنے کے بعد اظہار خیال کرتے ہیں تو یہ جملے اکثر بولتے ہیں ''انسان اس دنیا میں آیا تو بے لباس آیا اور جب جاتا ہے تو سفید لباس میں جاتا ہے۔ اس میں سب انسان برابر ہیں، ان دو واقعات کے درمیان پروٹوکول، اونچ نیچ سب کچھ عارضی، فضول اور بناوٹی ہے۔‘‘ جی ہاں! مندرجہ بالا جملے بولنے والے جنرل باجوہ اپنی عملی زندگی میں بھی اپنے قول کو سامنے رکھتے ہیں۔
ان کے والد محترم اقبال باجوہ مرحوم جو 16بلوچ رجمنٹ میں کرنل تھے، اسی رجمنٹ میں انہوں نے کمیشن لیا اور افسر بن گئے۔ اب جب والد گرامی کے دور کے فوجی جنرل باجوہ کو سلیوٹ مارتے تو جنرل صاحب منع کرتے ہوئے کہتے! میں آپ کے ہاتھوں میں پلا بڑھا اور جوان ہوا، افسر بن گیا تو کیا ہوا، میں آپ کے لئے بچپن کا وہی ''واجا باجا‘‘ ہوں لہٰذا مجھے سلیوٹ نہ مارا کرو۔ آپ لوگ میرے بزرگ ہو اور انتہائی قابل احترام ہو۔ قارئین کرام! جنرل باجوہ جب راولپنڈی کی دسویں کور کے کمانڈر تھے تو ایک بار جب وہ جمعہ کی نماز سے پہلے وضو کر کے آ رہے تھے تو ان کے جوان کیا دیکھتے ہیں کہ جنرل صاحب اپنے بوٹ اٹھائے مسجد کے صحن میں چل رہے ہیں۔ جوان جوتے پکڑنے کو دوڑے مگر جنرل باجوہ نے جوتے نہ دیئے اور جوانوں سے کہا، یہ میرا بوجھ ہے میں ہی اٹھائوں گا۔ اصرار کے باوجود جوتے نہ دیئے۔ یہ ہیں قول کے ساتھ کردار کے دھنی جنرل باجوہ جو اب پاک آرمی کے چیف بن چکے ہیں۔
قارئین کرام! جنرل باوجود کے قریب رہنے والے ایک ریٹائرڈ فوجی افسر نے مجھے بتلایا کہ چکلالہ کی مسجد میں جنرل صاحب جب جمعہ کی نماز ادا کرنے جاتے تھے تو ایسا ہوتا تھا کہ ان کے لئے اگلی صف میں جگہ کا اہتمام کیا جاتا۔ جنرل باجوہ نے اس اہتمام سے منع کر رکھا تھا۔ وہ جمعہ پڑھنے آتے جہاں جگہ ملتی بیٹھ جاتے۔ ایسا بھی ہوا کہ وہ لیٹ ہو جاتے تو آخری صف میں اپنے رب کے حضور کھڑے ہو جاتے۔ گرمیوں کے موسم میں سخت دھوپ میں آخری صف میں اپنے اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو جاتے۔ چونکہ وہ لیٹ ہو گئے ہیں اس لئے وہ سمجھتے تھے کہ اے سی ہال میں اگلی صف میں ان کا کوئی حق نہیں رہا۔ یہ ہیں عاجزی اور خاکساری کے حامل جنرل باجوہ جو پاک آرمی کے سالار بن چکے ہیں۔ جنرل باجوہ کے اندر یہ عاجزی اور انکساری آخرت پر نظر رکھنے کی وجہ سے ہے۔ وہ پچھلی رات کو اکیلے ہی گھر کے ایک کونے میں تہجد بھی پڑھتے ہیں۔ قرآن کی کئی سورتیں انہیں حفظ ہیں، قرآن کی تلاوت ترجمہ و تفسیر کے ساتھ کرتے ہیں۔ دو حج کر چکے ہیں۔ مذکورہ کردار نے انہیں انسانیت کا ایسا ہمدرد بنا دیا ہے کہ محمد عارف ان کے ''پی اے‘‘ کی حیثیت سے ان کے پاس آئے۔ پھر وہ صوبیدار بن گئے اور انہی کے پاس رہے۔ عارف صاحب کی بیٹی کی شادی کا موقع آیا تو 10کور کے کمانڈر نے پنڈی گولف کلب بک کروایا۔ جب بارات آئی تو دروازے پر کھڑے ہو کر جنرل باجوہ نے اپنے پی اے کے داماد اور بارات کا خود استقبال کیا۔ بارات والے سادہ اور غریب لوگ حیران اور ششدر تھے کہ کور کمانڈر صاحب ہمارا استقبال کر رہے ہیں۔ جنرل باجوہ نے کہا، عارف صاحب! جہاں افسران کے بچوں بچیوں کی شادیاں ہوتی ہیں وہیں تمہاری بیٹی کی شادی ہو گی۔ آپ کی بیٹی میری بیٹی ہے۔ عارف صاحب کی خوشی کا تب کیا ٹھکانہ تھا دل سے جو دعائیں نکلیں، میں سمجھتا ہوں ایسی ہی دعائوں نے جنرل باجوہ کو دنیا کی بہترین آرمی کا سالار بنا دیا۔
خاندان کے اندر مشہور ہے کہ جو بھی بیمار ہو جائے اس کا علاج کروانا جنرل باجوہ کی ذمہ داری ہے۔ وہ آج تک اس ذمہ داری کو نباہ رہے ہیں۔ ان کی والدہ 80-85سال کے قریب عمر میں فوت ہوئیں، آخری پانچ ماہ بے ہوشی میں رہیں۔ جنرل صاحب روزانہ والدہ کی خدمت میں حاضری دیتے۔ وہ فوت ہوئیں تو رو رہے تھے۔ ماں کی دعائوں سے محروم ہو گیا مگر ان کی ہمدردیوںسے مستفید ہونے والے کتنے ہی لوگ ہیں جو جنرل باجوہ کو دعائوں میں یاد رکھتے ہیں۔ کراچی سے ایک عورت نے کسی طرح سے جنرل صاحب کا فون حاصل کر لیا۔ اس نے درخواست کی، بیوہ عورت ہوں، تین بیٹے ہیں اور بے روزگار ہیں۔ غربت نے زندگی اجیرن کر دی ہے۔ جنرل باجوہ نے مذکورہ بیوہ کے بیٹے کو رینجرز میں ملازمت دلا دی۔ ایسے نہ جانے کتنے ہی لوگ ہیں جو جنرل باجوہ کو دعائیں دیتے ہیں۔ جنرل باجوہ 11نومبر 1959ء کو پیدا ہوئے۔ اپنے بھائیوں، بہنوں میں پانچویں نمبر پر ہیں۔ ان کی والدہ کا 55لاکھ روپیہ سب سے چھوٹے بیٹے باجوہ کے اکائونٹ میں تھا۔ ماں کی وفات کے بعد جنرل باجوہ نے ساری رقم سب بھائیوں بہنوں میں شرعی حصوں کے ساتھ تقسیم کر دی۔ انصاف پسند باجوہ سے ایک قریبی عزیز نے کسی کی سفارش کی۔ جنرل باجوہ نے صاف صاف کہا، میرٹ سے ہٹ کر مجھ سے ذرہ برابر امید نہ رکھنا۔
جنرل باجوہ ختم نبوت کے بارے میں انتہائی غیرت مند اور جذباتی مومن ہیں۔ ان کے دو بیٹے ہیں ایک کا نام سعد صدیق باجوہ ہے جبکہ دوسرے کا نام علی صدیق باجوہ ہے۔ سعد اور علی کے ساتھ انہوں نے صدیق اس لئے لگایا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے سب سے پہلے اللہ کے رسول حضرت محمد کریمﷺ کی نبوت کی تصدیق کرتے ہوئے کلمہ پڑھا تھا۔ اللہ نے ان کی مذکورہ خوبی کا قرآن میں اعلان کر دیا۔ صدیق اکبرؓ کی دوسری عظیم خوبی یہ ہے کہ خلافت سنبھالنے کے بعد مسیلمہ کذاب کہ جس نے نبوت کا دعویٰ کر دیا تھا۔ حضرت صدیق اکبرؓ نے مسیلمہ اور اس کے ملعون ساتھیوں کو جنگ میں شکست فاش دی اور مسیلمہ واصل جہنم ہوا۔ یہ ہیں صدیق اکبرؓ کے دو کردار... پہلا حب رسولؐ اور صداقت رسولؐ اور دوسرا ختم نبوت کا کردار کہ جس کی محبت میں جنرل باجوہ نے اپنے دونوں بیٹوں کے ناموں کے ساتھ اپنا نام قمر یا جاوید لگانے کے بجائے صدیق لگایا۔ جنرل باجوہ کی اہلیہ محترمہ کا نام بھی اسی ہستی کے نام پر ہے جو صدیق اکبرؓ کی بیٹی ہیں اور حضور نبی کریمﷺ کی محبوب زوجہ ام المؤمنین ہیں، اسم گرامی عائشہؓ ہے۔
قارئین کرام! بتلانا میں یہ چاہتاہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہم اہل پاکستان کو ایسا سالار دیا ہے جو اسلامی حرمتوں کا پاسبان اور محافظ ہی نہیں بلکہ ان کے ساتھ بے پناہ محبت کرنے والا ہے اور اپنی کمٹمنٹ کا ببانگ دہل اعلان کرنے والا ہے (فَلِلّٰہِ الْحَمد)
جنرل باجوہ جب کیپٹن تھے تو ان کی تعیناتی سعودی عرب میں تبوک کے مقام پر ہوئی یوں انہیں سعودیہ میں خدمات سرانجام دینے کا موقع ملا۔ افریقی ملک کانگو میں انہوں نے امن فوج میں جو کردار ادا کیا، اس پر سابق انڈین آرمی چیف مسٹر بکرم سنگھ نے انہیں ''دنیا کے بہترین آفیسرز میں سے ایک‘‘ کہہ کر خراج تحسین پیش کیا۔ میجر جنرل کی حیثیت سے وہ فورس کمانڈر نادرن ایریا (گلگت) رہے۔ لیفٹیننٹ جنرل بنے تو دسویں کور کے دو سال تین ماہ کمانڈر رہے۔ اب ان کے پاس پاک فوج کی ٹریننگ اور ایویلیوایشن‘‘ کی ذمہ داری تھی۔ وہ جو جنرل راحیل کے پاس تھی۔ میاں نوازشریف نے انہیں بھی سالار بنایا اور اب جنرل باجوہ کو بھی سالار بنایا۔ پیغام یہی ہے کہ حضرت علیؓ نے جس طرح خارجی دہشت گردوں کا صفایا کیا۔ جنرل راحیل نے اسی کردار کو اپنایا اور اپنے بیٹے کا نام علی رکھنے والا باجوہ اسی کردار کو مزید آگے بڑھائے گا۔ اس انتخاب پر میاں نوازشریف بھی خراج تحسین کے مستحق ہیں کہ اب کے بار بھی انہوں نے ایک ایسے جرنیل کو سالار بنایا جو ''قول سدید‘‘ کے حوالے سے معروف ہیں۔ وہ کہ جنہوں نے انڈیا کا کبھی گانا نہیں سنا۔ جن کی سروس کا بیشتر حصہ کشمیر کے ساتھ نتھی ہو کر گزرا۔ ان کا یہ کردار بھی خوب تاریخی رہے گا کہ جب 24اکتوبر 1980ء کو انہوں نے کمیشن لیا تو 62ویں لانگ کورس میں چاروں دوست جنرل زبیر، جنرل باجوہ، جنرل اشفاق ندیم اور جنرل جاوید اقبال رمدے اکٹھے تھے۔ اب جب جنرل زبیر اور جنرل باجوہ چار ستارہ جرنیل بن گئے تو جنرل باجوہ جو یاروں کے یار اور دوستوں کے کھلے ڈلے دوست ہیں، انہوں نے جنرل ندیم اور جنرل رمدے کو یاری دوستی میں کہا، یارو! جب تک تمہارا وقت باقی ہے تب تک تو ساتھ نبھائو، یہ پروٹوکول تو وقتی اور عارضی باتیں ہیں۔ چھوڑو یار ان کو... خدمت کریں، دنیا چند روز کی زندگی ہے۔ جنت میں بھی اکٹھے چاروں جا ملیں۔ (ان شاء اللہ) چھوڑو یار۔ مل کر کام کرتے ہیں۔ اور پھر دونوں جرنیلوں نے باجوہ کے سینے سے سینہ لگا دیا۔ باجوہ کا سینہ اخلاقی لحاظ سے بھی فراخ ہے اور جسمانی لحاظ سے بھی فراخ تھے۔ حضرت طالوتؑ کے بارے میں قرآن نے یہی کہا کہ وہ علم اور جسم کے لحاظ سے فراخ ہے۔ جی ہاں! یہ ہیں سپہ سالار پاک فوج کے کہ جن کا انڈیا کے لئے پیغام میرے نزدیک یہ ہے کہ اہل کشمیر کو ان کا حقِ خودارادیت دو گے تو میں قمر ہوں۔ چاند کی ٹھنڈک ہوں اور یہ نہ کرو گے تو انڈیا کی کمر کبھی سلامت نہ رہ سکے گی۔ اس پر عدل و انصاف کا کوڑا برستا رہے گا۔ جنرل باجوہ کے چوڑے اور باکردار سینے کا یہی پیغام ہے۔ پاکستان زندہ باد۔ پاک فوج، پائندہ باد۔