پاکستان کی سرزمین پر رونما ہونے والا یہ عجب اتفاق ہے کہ جنرل (ر) عبدالوحید کاکڑ اور جنرل (ر) پرویز مشرف پاک آرمی کے ایسے دو سالار تھے جو درمیانی قدوقامت کے حامل تھے۔ میاں نوازشریف کو دونوں کے ہاتھوں سے اپنی وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھونا پڑے۔ ان کے مقابلے میں جو دراز قد آرمی سالار تھے ان کے ہاتھوں سے میاں نوازشریف کی حکومت بچی رہی۔ جنرل آصف نواز جنجوعہ مرحوم پاک آرمی کے ایسے سالار تھے جو دراز قد تھے۔ جنرل (ر) جہانگیر کرامت بھی ایسے سپہ سالار تھے جو لمبے قد کے حامل تھے، دونوں کے ہاتھوں سے میاں صاحب کی حکومت محفوظ رہی۔ حالیہ دور میں جنرل (ر) راحیل شریف بھی ایسے آرمی چیف تھے جو قد میں طویل بھی تھے اور حسین بھی۔ ان کے دور میں بھی میاں نوازشریف محفوظ و مامون رہے اور اب جنرل قمر جاوید باجوہ آرمی چیف کے منصب پر فائز ہوئے ہیں تو ان کا قدوقامت مجھے پچھلے سارے سالاروں سے زیادہ محسوس ہوا ہے جو چھ فٹ 4 انچ ہے۔ میاں نوازشریف کی پہلی تصویر جو جنرل باجوہ کے ساتھ جاری کی گئی وہ ایک سادہ سی میز کو درمیان میں رکھ کر جاری کی گئی۔ ایسی میز جس پر کوئی غلاف وغیرہ بھی نہ تھا۔ بعض تجزیہ نگاروں نے اس پر اپنی آراء کا خوب اظہار کیا ہے مگر میری رائے کا ایک پہلو یہ ہے کہ میاں نوازشریف جن کی دولتوں اور مال اموال کے تذکرے سپریم کورٹ کے ایوانوں میں گونج رہے ہیں انہوں نے سادہ سی میز کے ساتھ تصویر بنوا کر جنرل باجوہ کے ذریعے سے سارے پاکستان کو پیغام دیا ہے کہ ہم نے جنرل باجوہ جیسے سادہ انسان کو آرمی چیف بنایا ہے تو ہم نے بھی سادگی اختیار کر لی ہے مگر اس انداز کی سادگی کو سپریم کورٹ مانتی ہے یا نہیں، یہ اب سپریم کورٹ کی مرضی ہے۔
میاں نوازشریف کے میڈیا نے جنرل باجوہ صاحب کے ساتھ جو دوسری تصویر شائع کی وہ بھی صوفے پر بیٹھ کر نہیں بلکہ کھڑے کھڑے تصویر ہے۔ یار لوگ اس تصویر سے بھی بہت سارے نکتے نکال سکتے ہیں مگر اس تصویر سے مجھے جو نکتہ نظر آیا ہے وہ یہ ہے کہ مجھے میاں نوازشریف کا چہرہ بڑے دنوں کے بعد پہلی بار کھِلا ہوا دکھائی دیا ہے۔ چمک مارتا ہوا اس کا حسن نظر آیا ہے۔ یہ چہرہ جنرل قمر کو دیکھ رہا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے آسمان پر چاند ستارہ دیکھا جاتا ہے۔ جنرل قمر کا قد کاٹھ ہی اس قدر اونچا ہے کہ ان کو دیکھنے کے لئے میانہ قد کے شخص کو اوپر کی جانب دیکھنا پڑتا ہے اور جنرل باجوہ اپنے سامنے کھڑے شخص کو یوں دیکھتے ہیں جیسے کوٹھے کی چھت پر چڑھا شخص زمین پر کھڑے آدمی کو دیکھتا ہے۔ قارئین کرام! مجھے تو یہی نکتہ سمجھ آیا ہے کہ میاں نوازشریف صاحب نے اپنے آپ کو بلند قامت آرمی سالاروں سے محفوظ سمجھنا شروع کر دیا ہے۔ محسوس ہوتا ہے میاں صاحب نے اپنے اندر عاجزی بھی پیدا کر لی ہے کہ جب چھوٹے قد کا بندہ بڑے قد والے کو نگاہ اوپر اٹھا کر دیکھے گا تو عاجزی خودبخود ہی پیدا ہو جاتی ہے۔ کرسی کا بڑا پن اور دل بے شک عاجزی کو نہ مانے مگر زمینی حقیقت کو ماننا پڑتا ہے۔ انکساری کو تسلیم کرنا ہی پڑتا ہے۔ ویسے مجھ عاجز کا حضور میاں صاحب کی خدمت میں ایک مشورہ ہے کہ ہر قمری مہینے کی پہلی تاریخ کو جنرل قمرصاحب سے ملاقات ضرور کر لیا
کریں۔ آسمان میں پہلی تاریخ کے چاند کو دیکھ کر جو دعا پڑھی جاتی ہے پہلے وہ پڑھ لیا کریں۔ وزیراعظم ہائوس کی چھت پر چڑھ کر چاند دیکھ لیا کریں اور اگلے ہی دن جناب قمر کو وزیراعظم ہائوس بلا لیا کریں اور گردن اٹھا کر جب جنرل قمر کی جانب دیکھیں تو چاند دیکھنے والی دعا کو دہرا لیا کریں۔ دعا کا ترجمہ اس طرح ہے:
''اے اللہ! اس چاند کو امن اور ایمان کے ساتھ ہم پر طلوع فرمائے رکھ۔ سلامتی اور اسلام کے ساتھ اس کو چمکائے رکھ، اے چاند! میرا رب بھی اللہ ہے اور تیرا رب بھی اللہ ہی ہے۔ (ترمذی شریف)
اس عمل سے امید ہے کہ میاں صاحب خوش رہیں گے۔ ہشاش بشاش رہیں گے۔ باقی سپریم کورٹ کیا کرتی ہے وہ اللہ کو بہتر معلوم ہے۔
ہمارے وزیراعظم صاحب کچھ کچھ شرمیلے بھی ہیں۔ وہ انڈیا کے مظالم پر اس کو کچھ کچھ گھور بھی جاتے ہیں مگر کافی ساری شرم بھی کھا جاتے ہیں۔ واہگہ بارڈر پر وہ دیکھتے ہی ہیں کہ پاک رینجرز کے جوان جب انڈیا کی بارڈر سکیورٹی فورس کے ساتھ مشترکہ پریڈ کرتے ہیں تو ہمارے جوانوں کے قد سوا چھ فٹ تک ہوتے ہیں جبکہ انڈین فورس کے جوانوں کے قد ساڑھے پانچ فٹ تک ہوتے ہیں۔ ایسا بھی ہو چکا ہے کہ ان کے سینے، قد اور بوٹ کی دھمک سے انڈین جوان زمین پر گر گیا۔ جب ہمارا جوان مارچ کرتا ہوا اپنی ٹانگ اٹھاتا ہے تو پائوں انڈین فوجی کے سینے اور سر سے بھی اوپر چلا جاتا ہے جبکہ انڈین فوجی کی ٹانگ ہمارے جوان کے کولہے تک ہی پہنچ جاتی ہے۔ جی ہاں! جنرل باجوہ صاحب جیسے قد کاٹھ والے جرنیل کو اس لئے بھی ہمارے وزیراعظم نے آرمی چیف بنایا ہے تاکہ جس طرح جنرل (ر) راحیل شریف صاحب نے انڈیا کو للکارا تھا اور مودی جھاگ کی طرح ہوا ہو گیا تھا وقت آنے پر جنرل باجوہ کی للکار بھی انڈین آرمی چیف جنرل سہاگ کی سہاگ راتوں کو ڈرائونے خوابوں میں تبدیل کر دے اور کل کلاں اگر دونوں سالاروں کی ملاقات ہو تو واہگہ کا منظر اعلیٰ ترین سطح پر دیکھنے کو ملے۔ جی ہاں! میں اچھا گمان رکھنے والا ہوں اور بقول محترم جناب عطاء الحق قاسمی ! مولانا امیرحمزہ صاف دل انسان اور سادہ آدمی ہیں لہٰذا اپنے میاں صاحب کے بارے میں صاف دلی سے لکھتے ہوئے محترم قاسمی صاحب کے دل کو بھی خوش کرنا چاہتا ہوں کہ سیرت پر میری کتاب ''رویے میرے حضورؐ کے‘‘ پر جناب نے پورے کالم کو صاف دلی سے خوب خوب لکھا تھا۔
تورات کا عہد نامہ قدیم سموئل 1 آگاہ کرتا ہے کہ غیر مختونوں یعنی بت پرست مشرکوں کا بادشاہ اور فوجوں کا سالار جالوت تھا۔ اس کا قد چھ ہاتھ اور ایک بالشت یعنی دس فٹ کے قریب تھا۔ اس دور کے مسلمان یعنی بنو اسرائیل جو جالوت سے ڈرے ہوئے تھے اور شکست کھا چکے تھے۔ اپنے نبی سے درخواست کی کہ وہ اللہ سے دعا کریں کہ ہمارے لئے کسی طاقتور کو سالار اور بادشاہ مقرر کرے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے طالوت کو بادشاہ اور سالار مقرر فرما دیا۔ اب انہوں نے اعتراض یہ کر دیا کہ یہ تو مالدار بھی نہیں اور قبیلہ بھی ہم سے کم تر ہے، اس پر اللہ نے اپنا جو جواب دیا اسے قرآن میں درج فرمایا کہ طالوت علم اور جسمانی اعتبار سے بلند و بالا ہے۔ معلوم ہوا جالوت کا قد دس فٹ تھا تو طالوت کا قد بارہ تیرہ فٹ کے قریب تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ نے طالوت کو فتح عطا فرمائی۔ جالوت شکست سے دوچار ہوا اور میدانِ جنگ میں قتل ہوا۔ جی ہاں! میدانوں میں قد کاٹھ کی بہت اہمیت ہے لیکن قرآن نے واضح کر دیا کہ قد کاٹھ بھی اسی وقت دوچند فائدہ دیتا ہے جب قد کاٹھ کی بنیاد علم ہو اور علم سے مراد علم تو ہے ہی ساتھ عمل یعنی کردار بھی ہو کہ کردار کے بغیر علم کچھ نہیں ہے۔ جنرل قمر کا قد کاٹھ ''ٹریننگ اور ایویلیوایشن‘‘ سے ہے۔ تربیت اور اعلیٰ اخلاق سے ہے۔ جنرل راحیل کے قد کاٹھ کا پس منظر اور بنیاد بھی یہی تھی اور جنرل باجوہ کی بھی یہی ہے۔ اب سوال ہے سیاستدانوں کا کہ اگر وہ اپنے کھائے ہوئے اور ہڑپ کئے ہوئے حکومتی قرضوں کے افشاء کو غیر قانونی قرار دیں گے۔ سپریم کورٹ میں ان کی کرپشنوں کے کیس کھلیں گے۔ بیانات کے تضادات سامنے آئیں گے تو ان کے قد کاٹھ کا کیا بنے گا جو جسمانی طور پر بھی چھوٹا اور اخلاقی طور پر اس سے بھی چھوٹا ہو گا؟ جناب والا! اصل حسن اور اصل قد کاٹھ اور بنتر بناوٹ اعلیٰ ترین کردار سے بنتی ہے، اس متاع کو حاصل کیجئے۔ یہ نہیں ہے تو پھر بلندی پر قمر ہے اور چاند یعنی قمر کے چہرے پر اک التجائی نظر ہے اور بس۔