ترکی کا شہر استنبول صدیوں تک مسلمانوں کی متحدہ حکمرانی کا مرکز رہا ہے۔ مجھے ان دنوں استنبول میں جانے کا اتفاق ہوا جب بوسنیا میں سرب فوج نے مسلمانوں کو یورپ کی سرزمین سے مٹا ڈالنے کا پروگرام بنایا تھا۔ بوسنیا کے وزیراعظم حارث سلاجک مرحوم تھے اور پاکستان میں بوسنیا کی سفیر ان کی ہمشیرہ محترمہ ساجدہ سلاجک تھیں۔ میں نے محترمہ ساجدہ سے رابطہ کیا ان سے ملاقات ہوئی اور پھر بوسنیا کے لٹے پٹے مہاجروں کی خبرگیری کے لئے استنبول پہنچ گیا۔ ہمارے وزیراعظم میاں نوازشریف صاحب بھی چند دن پہلے بوسنیا کادورہ کر کے واپس آئے ہیں۔ ترکی کے موجودہ حکمران جناب رجب طیب اردوان نے ترکی کی اسلامی حیثیت کو پروان چڑھانے کے ساتھ ساتھ اس کی معاشی اور عسکری قوت کو بھی بلندیوں تک پہنچا دیا ہے مگر ترکی کو مشرق وسطیٰ میں بھڑکنے والی آگ سے دو سنگین خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ کرد علیحدگی پسند بھی یہاں دھماکے کرنے لگ گئے ہیں اور خارجی فکر رکھنے والے گروہ بھی استنبول میں آئے روز دھماکے اور فائرنگ کر کے بے گناہ انسانوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔ پاکستان بھی انہی دو عناصر سے تخریب کاری کا شکار رہا ہے۔ اس میں ضربِ عضب کی وجہ سے ہم اہل پاکستان کو بہت حد تک امن ملا ہے مگر ابھی بھی دہشت گردی پوری طرح ختم نہیں ہو پائی۔ پاکستان اور ترکی کے تعلقات ہمیشہ مثالی رہے ہیں لیکن میاں نوازشریف اور طیب اردوان کے دور میں اور بھی مثالی ہو گئے ہیں۔
ترکی کے حکمران یقینا پاکستان کے تجربات سے فائدہ اٹھا رہے ہوں گے کہ پاکستان نے کس طرح دونوں طرح کی دہشت گردی کے خلاف کامیابی حاصل کی ہے لیکن میں یہاں جس حقیقت کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ نظریاتی جنگ ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کہ جس کی اساس خارجی اور تکفیری سوچ تھی۔ بلوچستان اور کراچی میں علیحدگی پسندی کے تحت سیاست کے نام پر دہشت گردی اور بھتہ خوری تھی۔ پاکستان کے تمام مسالک کے دردمند اہل علم نے کتاب و سنت کی روشنی میں اسے مسترد کیا۔ اس پر کتابیں لکھیں، پمفلٹ لکھے، تقریریں کیں، بیانات دیئے۔ روزنامہ دنیا کے صفحات گواہ ہیں کہ اس موضوع پر سب سے زیادہ کالم میں نے خود تحریر کئے۔ آرمی پبلک سکول کا سانحہ ہوا تو میں خود وہاں پہنچا۔ چارسدہ یونیورسٹی کا سانحہ ہوا تو خود وہاں گیا۔ شہادت پانے والے فوجی افسران کے گھروں میں گیا۔ اس پر لکھا اور شہداء کے ماں باپ کو حوصلہ دیا کہ تمہارے شیردل جگرپاروں نے کتنا بڑا مقام حاصل کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں اس نظریاتی اور علمی کام کو اب بھی جاری رہنا چاہئے اور ترکی کے علماء کو یہ کام کرنا چاہئے اور پاکستان کے جن علماء نے یہ نظریاتی اور علمی کام کیا ہے ان کے کام سے استفادہ کرنا چاہئے۔ ذرائع ابلاغ کو اس میدان میں بھرپور طریقے سے استعمال کرنا چاہئے۔ حکمرانوں کے گھسے پٹے پرانے جملے کہ ''دہشت گردوں کے حملے ہمارے عزائم کو کمزور نہیں کر سکتے‘‘ وغیرہ، محض مذاق بن کر رہ گئے تھے اور حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ بیان دینے والے اندر سے خود بھی خوفزدہ ہوتے تھے۔ تبدیلی اس وقت آئی جب علماء نے علمی اور نظریاتی میدان میں ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں کے خلاف شرعی دلائل کے انبار لگائے اور سکیورٹی فورسز نے بھرپور حملے کر کے ان کو جسمانی طور پر تباہ کیا اور خفیہ اداروں نے ان کے نیٹ ورک پر بھرپور کام کر کے ان کے جال کو تتر بتر کر دیا۔ ہمارا موجودہ دور خارجی اور تکفیری فتنے کا دور ہے۔ اس فتنے کے خلاف اللہ کے رسولؐ کے فرمودات حدیث کی تمام کتابوں میں ''کتاب الفتن‘‘ کے باب میں موجود ہیں۔ ان احادیث کو سعودی عرب کے علماء بھی عوام کے سامنے شرح اور تفصیل کے ساتھ لائے ہیں۔ ترکی کے علماء کو بھی یہ کردار ادا کرنا ہو گا۔ طیب اردوان صاحب سے گزارش ہے کہ اس پہلو پر بھی توجہ دیں تاکہ ترکی جیسا عالم اسلام کا اہم ترین ملک عراق، شام، لیبیا اور یمن جیسے حالات سے محفوظ و مامون رہے۔
میں جب موجودہ حالات کو دیکھتا ہوں اور اللہ کے رسولﷺ کے ایک فرمان کو دیکھتا ہوں تو اپنے پیارے حضورﷺ پر درودسلام پڑھنا شروع کر دیتا ہوں کہ آپﷺ نے کس طرح ہمارے موجودہ دور کے خارجی اور تکفیری فتنہ بازوں کی نشاندہی فرما دی۔ ارشاد فرمایا ''جو شخص مسلمانوں میں سے نکل کر (خارجی اور تکفیری بن کر) میری امت کے لوگوں پر چڑھ دوڑے۔ ان میں جو نیک لوگ ہیں ان کو بھی قتل کرے اور جو فاسق و فاجر ہیں ان کی گردنیں بھی اڑائے، نہ اس امت کے مومنوں کا خیال کرے اور نہ ہی ذمّیوں کا پاس کرے تو ایسا شخص میری امت میں سے نہیں ہے۔ مزید فرمایا! ایسے شخص کا مجھ سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی میرا اس سے کوئی تعلق ہے ‘‘(مسند احمد بن حنبل (10338-7931)
قارئین کرام! غور فرمائیں، کیا پریڈ لائن کی مسجد اور دیگر مساجد میں نیک لوگ نہیں مارے گئے۔ کیا سینما گھروں، کلبوں اور دیگر مقامات پر گناہ گار لوگ نہیں مارے گئے اور کیا چرچ میں ذمّی اور اقلیتی لوگ قتل نہیں کئے گئے؟ جی ہاں! یہ سارا کچھ ہوا ہے تو پھر میرے حضورﷺ کا فرمان ایسے دہشت گردوں پر ہی منطبق اور لاگو ہوا ہے۔ چنانچہ واضح ہو گیا کہ یہی لوگ حضورﷺ کی امت سے نکلے ہیں۔ ان کا جو بھیانک کردار ہے اس کی وجہ سے یہ لاکھ حضورﷺ کا نام لیتے رہیں، حضورﷺ کی شریعت کی بات کرتے رہیں مگر ان کا حضور رحمت دو عالمؐ سے کوئی تعلق نہیں۔ اللہ کے رسولﷺ مزید فرماتے ہیں! ''جہنم کے سات دروازے ہیں، ان میں ایک دروازہ ایسا ہے کہ اس سے وہ داخل ہو گا جو میری امت پر تلوار لہراتا ہے۔‘‘ (مسند احمد: 5689) قارئین کرام! مسلم اور مومن کا معنی ہی سلامتی اور امن بانٹنے والا ہے۔ مومن کیسا ہوتا ہے حضورﷺ نے آگاہ فرمایا! ''مومن محبت کا مرکز ہوتا ہے اور وہ شخص جو لوگوں سے محبت نہ کرے اور لوگ بھی اس سے محبت نہ کریں تو اس میں کوئی خیر و بھلائی نہیں ہے۔‘‘ (مسند احمد، طبرانی کبیر: حسن) صحیح مسلم اور مصنف عبدالرزاق میں حسن سند کے ساتھ یہ بھی حدیث ہے، حضورﷺ نے فرمایا! فتنوں کے زمانے میں سونے والا لیٹنے والے سے بہتر ہے، لیٹنے والا بیٹھنے والے سے بہتر ہے، بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے اچھا ہے اور کھڑا ہونے والا چلنے والے سے بہتر ہے، چلنے والا بھاگنے والے سے بہتر ہے اور پیدل چلنے والا سوار سے بہتر ہے جبکہ تیز سوار سے آہستہ چلنے والا سوار بہتر ہے‘‘ یعنی علماء کی ذمہ داری ہے، حکمرانوں کا فرض ہے کہ وہ عام مسلمانوں میں خارجی اور تکفیری فتنے کا شعور پیدا کریں۔ انہیں آگاہی دیں تاکہ وہ مذہبی اور سیاسی خارجیوں کے فتنے میں نہ پڑیں، ان سے دور رہیں، حصہ دار نہ بنیں اور حکمران فتنہ بازی کی سرکوبی کریں۔ جی ہاں! دہشت گردی کی بیماری کا ہر پہلو سے علاج کیا جائے تو ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان ترکی اور سعودیہ ہی نہیں، سارا عالم اسلام اورپوری انسانیت کو اس سے محفوظ کیا جاسکتا ہے۔