"AHC" (space) message & send to 7575

ایاز صادق کا حلقہ اور امان کی جان

جناب ایاز صادق پاکستان کی قومی اسمبلی کے سپیکر ہیں۔ انہیں میاں نوازشریف کا قرب اسی طرح حاصل ہے جس طرح ایاز کو سلطان محمود غزنوی کا قرب حاصل تھا۔ میاں محمد نوازشریف کے ایاز نے اپنے حلقے کے ایک بچے کے بارے میں ایک جملہ بولا تھا، یہ جملہ انتہائی سچا اور صادق تھا۔ ہم اس سچے اور صادق جملے کا تذکرہ بعد میں کریں گے، پہلے ہم ایاز صادق صاحب کے حلقے میں چلتے ہیں جن کے ووٹوں سے وہ پاکستان کی قومی اسمبلی کے سپیکر ہیں۔ لاہور کی ایک متوسط بستی سمن آباد ہے۔ یہاں ایک پارک کے سامنے کوئی چار مرلہ کا گھر ہے جسے گرا کر نئے سرے سے خوبصورت انداز میں بنایا گیا ہے۔ میں اس گھر میں موجود ہوں۔ میری موجودگی کا سن کرمحلے کے معززین بھی اکٹھے ہو گئے ہیں۔ میں نویں جماعت کے ایک طالب علم امان قمر کے غم زدہ والد احمد معین کے پاس بیٹھا ہوا ہوں، سوال کرتا جا رہا ہوں اور کربناک داستان سن کر دل قابو میں نہیں آ رہا۔ ہر آنکھ اشکبار ہونے کو بار بار نم ہوتی ہے۔ آنسو گرتے ہیں، ایک ایک جملے پر یوں محسوس ہوتا ہے کہ سینہ سمندر بن جائے اور آنکھیں دریا کی صورت بہنے لگ جائیں تب بھی غم کی کربناکی کا انتہائی انجام ہونے نہ پائے۔
قربانی کے دن قریب آ گئے، بکرے چھترے خریدے جا رہے تھے بچے ان بکروں کولے کر گلیوں میں گھومنے لگ گئے تھے۔ امان قمر کو بکروں سے محبت کچھ زیادہ ہی تھی۔ قریب کے تندور سے وہ روٹیاں بھی لاتا تھا۔ جس ہوٹل کا یہ تندور تھا وہاں فیصل آباد کے علاقے سے تعلق رکھنے والے تین چار نوجوان کام کرتے تھے۔ وہ امان قمر کے واقف بن گئے تھے۔ ان بدبختوں کی نیت میں فتور آ گیا۔ انہوں نے امان قمر کو اغوا کرنے کاپروگرام بنا لیا۔ اسی کا موٹرسائیکل تھا۔ وہ اسے بکرے چھترے دکھلاتے بہلا پھسلا کر فیصل آباد کے نواحی علاقے پینسرہ میں لے گئے۔ امان قمر نے ابھی چند دن قبل اپنی اماں سے سمارٹ فون یہ کہہ کر لیا تھا کہ میں نے اس میں قرآن کی سورتیں ڈائون لوڈ کر کے سننا ہیں۔ ماں نے اپنے لخت جگر کو فوراً فون دے دیا۔ امان قمر معصوم، بھولا بھالا مگر ذہین اور دینی ذہن رکھنے والا بچہ تھا۔ ماں کو کیا پتہ تھا کہ جو فون دے رہی ہوں یہی فون بیٹے کے دکھوں کی خبر سنائے گا۔ جب امان قمر کچھ دیر گھر نہ آیا تو ماں باپ نے فون کیا۔ جواب میں امان نے اتنا کہا کہ میں بکرے دیکھنے جا رہا ہوں، آ جائوں گا اور پھر فون بند ہو گیا۔ 
اغوا کار دہشت گردوں نے 2اگست کو اغوا کیا تھا، اب انہوں نے ایک کروڑ تیس لاکھ کا مطالبہ کر دیا اور کہا پولیس کو نہ بتانا وگرنہ بچے کو مار دیں گے: باپ نے کہا، میں اتنی رقم کہاں سے لائوں گا؟ آخرکار 30لاکھ پر بات ختم ہوئی۔ امان کے والد نے اپنی چار بہنوں سے بات کی۔ چاروں نے تین تین لاکھ دینے کی حامی بھری، بارہ لاکھ جمع ہو گیا۔ امان کا باپ تازہ تازہ مکان بنا کر فارغ ہوا تھا۔ اس کے پاس تو جمع پونجی تھی نہیں۔ تایا زاد بہن کو پتہ چلا، تین لاکھ اس نے دے دیا۔ باقی پندرہ لاکھ امان کے ماموں، خالائوں نے جمع کر دیا۔ یوں تیس لاکھ روپیہ جمع ہو گیا۔ آٹھ اگست 2016ء کو پیسے دینے چل پڑے۔ مجرموں نے پینسرہ کے پاس آنے کو کہا، امان کے والد بتائے جا رہے تھے، چھوٹی سی گاڑی رکھی ہوئی ہے، اچھا ڈرائیور نہیں ہوں، لمبے روٹ پر کبھی گیا نہیں، مجرموں نے کہا صرف تم اور تمہاری بیوی ہو اس کے علاوہ کوئی ہمراہ نہ ہو۔ اب ہم میاں بیوی چل پڑے۔ کتنی بار ایکسیڈنٹ سے بچا، خوف اور خوشی کے جذبات لئے میاں بیوی جا رہے تھے۔ فیصل آباد کے نواحی علاقے میں خوف اس بات کا کہ رات کا اندھیرا، سناٹا، یہ ظالم بیٹے کے ساتھ کچھ کر نہ دیں اور خوشی اس بات کی کہ ہم نے مطالبہ پورا کر دیا۔ ابھی اپنا امان ہمراہ لے کر گھر روانہ ہوں گے۔ ماں اپنے دل میں امان کے لئے کیا کیا ارمان لئے سپنے دیکھ رہی تھی۔ 
میں اپنے امان کو دیکھتے ہی سینے سے لگائوں گی۔ اس کا چہرہ جگہ جگہ سے چوموں گی۔ اب اسے یوں گھر سے نکلنے نہ دوں گی۔ یوں کرتے کرتے مجرموں کی بتلائی ہوئی جگہ پر پہنچ گئے، کچھ دیر بعد ان کی گاڑی آ گئی۔ جڑانوالہ روڈ جائو۔ دولکھڑی سٹاپ پر بائیں طرف جائو، گوگو وال، کاہنیانوالہ پل پر جائو، 4 کلو میٹر کے بعد پُلی ہے۔ وہاں بورا رکھا ہوا ہے، اس میں پیسے ڈال دو۔ امان کے ماں باپ نے کہا، ہم پیسے ڈال دیتے ہیں، ہمارے سامنے ہمارا بیٹا تو کرو، کہا، پیسے ڈالو ہم گنتی کریں گے، بیٹا مل جائے گا۔ ہم نے پیسے ڈال دیئے، وہاں سے پیچھے آ گئے۔ انہوں نے کہا ہم نے گن لئے، بچہ صبح دس بجے آ جائے گا۔ ہم فون پر روئے پیٹے مگر انہوں نے فون بند کر دیا۔ پولیس ہمراہ لے کر گئے تھے، انہوں نے ہم سے کہا، ہم دور رہیں گے، فون کا ''لوکیٹر‘‘ ان کے پاس تھا، مگر وہ بھی کچھ نہ کر سکے۔ وہ ساتھ تھے بھی یا نہیں، تھے تو مجرموں کی پوزیشن کو لوکیٹر کے ذریعے معلوم کرنا کوئی مسئلہ نہ تھا مگر...؟ جی ہاں! غم کے مارے امان قمر کے امی ابو واپس آ گئے، صبح کا دن سارا گزر گیا، امان نہ آیا، چار مہینے کی راتیں کیسے گزریں، ماں باپ روتے رہے، رات کو گولیاں کھا کھا کر سوتے رہے، سارا خاندان یونہی کرب میں رہا۔ امان کے چچا کو بھی جو میرے پاس کھڑا تھا پولیس نے شبے میں اپنے پاس رکھا مگر امان کے اردگرد ماحول نہ ٹٹولا، اگر کوشش کرتی تو تندور کے ملازم جو اچانک غائب تھے، ٹریس ہو سکتے تھے۔ ان دنوں کافی بچے اغوا ہو رہے تھے، ایاز صادق سے صحافیوں نے امان کے اغوا کی بات کی تو ان کے منہ سے جملہ نکلا، بچے اغوا ہوتے رہتے ہیں۔
ایاز صادق کا جملہ کس قدر سچا اور صادق ہے، یہ جملہ بتلاتا ہے کہ حکمرانی کی کرسی پر جو بیٹھ جاتا ہے سکیورٹی کے حصار میں اپنے بیوی بچوں کو دیکھتا ہے تو محفوظ حکومتی حصار میں اسے اپنی رعایا کے بچے یونہی نظر آتے ہیں جیسے یہ بھیڑ بکریوں کے بچے ہیں، کسی بھیڑیئے نے کھا لئے تو کیا فرق پڑتا ہے؟ حضرت عمرؓ نے اسی کرسی پر فرمایا تھا، فرات کے کنارے بکری پیاس سے مر گئی تو اس کے بارے میں بھی عمر سے پوچھا جائے گا مگر حضرت عمرؓ ہمارے عملی آئیڈیل کہاں ہیں؟ مدینے سے فرات کا فاصلہ سینکڑوں میل تھا اور اونٹوں گھوڑوں کے سفر کا دور تھا۔ آج فیصل آباد ایک سو میل دور ہے اور جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے اور امان کو مجرم قتل کر کے موٹرسائیکل سمیت ویرانے میں دفن کر دیتے ہیں۔ یہ تو قسمت بیگ نامی اداکارہ خاتون قتل ہوئی تو مجرموں کی تفتیش میں پولیس افسر طارق کیانی نے امان کے مجرم پکڑ لئے۔ امان کی لاش برآمد کر لی، تابوت میں بند امان کی لاش گھر آئی تو چہرہ کہاں دیکھنا تھا۔ بس ماں تابوت کو چومتی رہی اور امان کو نشان حیدر پانے والے جنرل (ر) راحیل شریف کے بھائی میجر شبیر شریف شہید کے قریب میانی صاحب قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔
جنرل ضیاء الحق مرحوم کی حکمرانی کا آغاز تھا۔ لاہور میں معروف صنعت کار دائود کا اکلوتا بیٹا اغوا ہو کر قتل ہوا تھا۔ معصوم ننھے کو پپو کہا جاتا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کی فوری انصاف کرنے والی فوجی عدالت نے چاروں درندہ صفت مجرموں کو سرعام پھانسی دینے کا اعلان کیا۔ میں نے ان کی پھانسی کا منظر کیمپ جیل لاہور کے سامنے دیکھا تھا۔ چاروں مجرموں کی لاشیں گھنٹہ بھر پھندوں پر جھولتی رہیں۔ اس سال جرائم کی سطح ملک کی 70سالہ تاریخ میں سب سے کم ترین تھی۔ میں نے میاں شہباز شریف صاحب سے ایک بار اتفاقی ملاقات پر عرض کی تھی کہ سزائیں سرعام کر دو۔ جرائم انتہائی کم ہو جائیں گے۔ آرمی پبلک سکول پشاور کے بچوں پر جس طرح میاں نوازشریف اور جنرل راحیل نے ایکشن لیا تھا۔ اسی طرح میاں نوازشریف اور جنرل قمر جاوید باجوہ ایکشن لیں اور اغوا کاروں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلا کر چند دن میں سرعام بھیڑیے لٹکا دیے جائیں تو ہر ماں کے امان کو امن مل جائے گا۔ امان کے مجرموں سے اس کا آغاز کر دیا جائے۔ محترم ایاز صادق کی زبان سے جو انتہائی نامناسب جملہ نکلا اس کا مداوا بھی اس طرح کر دیا جائے کہ قومی اسمبلی میں جناب ایاز صادق کی سپیکرشپ میں مجرموں کو سرعام سزا دینے کا بل پاس ہو کر قانون بن جائے۔ امان کے مجرم لاہور کے چوراہے میں لٹکا دیئے جائیں تو ایاز، شہباز اور نواز کے اس احسان سے ہر ماں کے لخت جگر کی جان کو امن و امان کا پیغام ملے گا۔ قومی اسمبلی میں نصب سپیکر سے مذکورہ اعلان سننے کو اہل پاکستان کی ہر ماں کا کان انتظار میں رہے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں