اللہ تعالیٰ کا جس پر فضل و کرم ہو۔ مالی لحاظ سے آسودہ حال ہو۔ ہونہار اولاد کے لحاظ سے خوشحال ہو۔ مال مویشی کے حوالے سے مالامال ہو۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں۔ ہاتھ میں سونے کا چمچ ہے اور منہ میں گھی اور شکر ہے۔ پاکستان میں میاں محمد نواز شریف کچھ ایسی ہی شخصیت کے حامل ہیں۔ کھلا ڈُلا ماحول پسند کرتے ہیں۔ انہیں دیسی کھانے اور دیہی ماحول پسند ہے۔ چونکہ وہ میاں شریف مرحوم کے بڑے اور پہلوٹھی کے بیٹے ہیں‘ اس لیے ان کی چاہت اور طبیعت کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے ان کے والد گرامی نے جاتی امرا کا گائوں بسایا۔ دیہی ماحول کو شاہانہ لباس پہنایا۔ ایسا خوب خوب پہنایا کہ ٹھاٹ باٹ کو غلام بنا کر جاتی امرا کے چوراہوں پر کھڑا کر دیا۔ آج میں نے اپنے کالم کی مندرجہ بالا تمہید اس لیے باندھی ہے کہ اپنے قارئین کو بتلا سکوں کہ محترم میاں نواز شریف گھی شکر کے اعتبار سے خود کفیل ہیں۔ انہیں کسی کے گھی شکّر کی ضرورت نہیں‘ مگر ہم اہلِ پاکستان میاں صاحب کی محبّت میں جاتی امرا کی چار دیواری پر گھی کے چراغ جلاتے‘ جناب میاں صاحب کے منہ میں گھی شکر ڈالتے‘ گھی شکّر سے بنی ہوئی چوری کے لڈّو ان کو پیش کرتے۔ جی ہاں ! ہم اہل پاکستان ایسا کرتے اگر:
محترم میاں صاحب فوجی عدالتوں کی مدّت ختم ہونے سے ایک ہفتہ پہلے ہم اہلِ پاکستان سے خطاب فرماتے اور بتلاتے کہ ہم نے دہشت گردی کے جن کو قابو کرنے کے لیے دو سال پہلے آئین میں ترمیم کرتے ہوئے فوجی عدالتوں کو قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ حالات یہ تھے کہ ہمارا نظامِ عدل انتہائی سست تھا۔ نہلے پہ دہلا یہ کہ جرم کے شواہد نہیں ملتے تھے۔ پولیس پر حملے ہوتے اور دھمکیاں بھی دی جاتیں‘ لہٰذا پولیس والے شواہد پیش کرنے سے ڈرتے تھے کہ مارے جائیں گے۔ ایسا بھی ہوا کہ مجرم دہشت گردی میں رنگے ہاتھوں پکڑا جاتا تھا۔ شہادتیں نہیں ہوتی تھیں۔ وہ پولیس کے سامنے اعتراف کرتا تھا مگر عدالت میں مُکر جاتا۔ یوں دہشت گرد رہا ہو رہے تھے۔ ججوں کو بھی دھمکیاں ملتی تھیں۔ ججوں پر حملے ہوئے‘ ان کے بیٹوں کا اغوا بھی ہوا۔ عدالتیں جیلوں میں لگانے کا سوچا گیا مگر جیلیں ٹوٹنے لگ گئیں۔ مجرم بھاگنے لگے۔ سیاستدان‘ حکمران‘ پولیس کے لوگ‘ سکیورٹی فورسز کے دفاتر‘ پوسٹیں اور گاڑیاں‘ کچھ بھی محفوظ نہ رہا۔ ڈاکٹر اور علما‘ آفیسرز اور عام لوگ‘ قتل ہونے لگے اور دھماکوں سے اڑائے جانے لگے۔ یہ تھا وہ ماحول اور حالات جن میں ہم نے فوجی عدالتیں بنائیں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے جیسا اوپر سے خوبصورت بنایا ہے‘ میں اندر سے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ویسا ہی خوبصورت ہوں۔ محترم عطاالحق قاسمی کو میں نے پی ٹی وی کا چیئرمین بنایا۔ انہوں نے مولانا امیر حمزہ کو سادہ اور صاف دل انسان کہا۔ میں ایسے علما سے کہیں بڑھ کر سادہ اور صاف دل انسان ہوں۔ پرویز مشرف کہا کرتے تھے کہ ''میں کسی سے ڈرتا ورتا نہیں‘‘ مگر ڈر ور کر ہی باہر بیٹھے ہیں۔ میں نے کہا تھا کہ میں کسی سے ڈکٹیشن نہیں لیتا۔ میں آج بھی اس پر قائم ہوں۔ نہ ہی بیرونی پریشر پر کسی بے گناہ کو گناہگار بناتا ہوں اور نہ ہی اندر سے کسی کا دبائو قبول کرتا ہوں۔ میں صاف صاف کہتا ہوں کہ:
فوجی عدالتوں نے کمال کر دیا۔ انہوں نے دو سال میں جرأت اور دلیری سے فیصلے دیے۔ تیز ترین انصاف کیا۔ اس سے پورے پاکستان کو امن ملا ہے۔ بھتّہ خوری ختم ہو گئی ہے۔ دھماکے رک گئے ہیں۔ جیکٹیں پھٹنا بند ہو گئی ہیں۔ پرچیاں ملنا بھی بند ہو گئی ہیں۔ بوریوں میں بند لاشیں ملنے کا سلسلہ بھی رک گیا ہے۔ مولانا فضل الرحمان میرے انتہائی قریبی دوست ہیں۔ ممتاز عالمِ دین اور مایہ ناز سیاستدان۔ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ہیں۔ کشمیر میں ہونے والے مظالم کا وہ بوجھ اٹھائے پھرتے ہیں۔ ان پر بھی خود کش حملہ ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے وہ بال بال بچ گئے۔ آج وہ امن کے ماحول میں سیاست کر رہے ہیں۔ میں اس صورتحال میں فوجی عدالتوں کے کردار اور کارکردگی کو سلام پیش کرتا ہوں۔ جناب اسفند یار ولی ہمارے انتہائی قابل احترام سیاستدان ہیں۔ اسفند کا معانی شیر ہے‘ یعنی ان کے اسم گرامی کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ شیروں کے ساتھ دوستی اور یاری لگا کر رکھتے ہیں۔ محترم ولی خان مرحوم نے بالکل درست نام رکھا تھا مگر خود کش حملہ ایسی ظالم چیز ہے کہ شیروں کے پِتّے پانی ہو رہے تھے۔ ہمارا انتخابی نشان شیر ہے مگر میں صاف دل انسان ہوں۔ صاف بات یہ ہے کہ ہمارا پِتّہ بھی پانی ہو رہا تھا۔ دوستو! میں بات کر رہا تھا اپنے شیر دوست بھائی اسفند یار کی۔ ان پر خود کش حملہ ہوا۔ ان کے محافظوں اور ساتھیوں کے جسموں کے پرزے اڑ گئے۔ ادھر سے صدر پاکستان آصف زرداری نے اڑنے والی سواری بھیج دی اور میرے شیر دوست بھائی اپنے ساتھیوں کو کندھا دینے اور جنازہ پڑھنے کے لیے بھی رک نہ سکے اور ہوائی مشین میں بیٹھ کر ایوان صدر میں آ کر بیٹھ گئے۔ آج وہ ولی ہائوس چارسّدہ میں سادگی کے ساتھ سیاست کر رہے ہیں۔ یہ سب کچھ فوجی عدالتوں کی وجہ سے ممکن ہوا ہے؛ چنانچہ میرے بھائی اور میں فوجی عدالتوں کے شاندار کردار کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔ کیوں نہ کریں‘ اسفند یار صاحب کو بشیر بلور جیسے سینئر وزیر کا خون نہیں بھول سکتا۔ آصف زرداری صاحب ان حالات کو نہیں بھول سکتے لہٰذا ہم سب فوجی عدالتوں کے کردار کو سلیوٹ پیش کرتے ہیں۔
میرے عزیز ہموطنو! آپ مجھے عزیز ہو اور پیارے بھی۔ میں علم دوست انسان ہوں۔ اخبارات کے کالموں پر گہری نظر رکھتا ہوں۔ جب ہم نے فوجی عدالتیں بنائیں تو روزنامہ دنیا کے کالم نگار مولانا امیر حمزہ نے لکھا تھا کہ ان دو سالوں میں عدلیہ کے معیار کو اس قدر بہتر کر دو کہ اس کے بعد سول عدالتیں فوجی عدالتوں سے بہتر کام کرنے لگ جائیں۔ میں نے اسی وقت سے عدلیہ کے نظام میں اصلاحات شروع کر دی تھیں۔ اب قانون کی حکمرانی کے ساتھ ساتھ ترجیحاً انصاف کی حکمرانی کو بھی جج حضرات ملحوظ رکھ کر فیصلے کرتے ہیں۔ ہم نے پولیس کو بھی غیر سیاسی کر دیا ہے۔ اب پولیس اور عدلیہ کی دیانت کو دنیا ماننے لگ گئی ہے۔ انصاف کی فراہمی تیز ہو گئی ہے اور یہ سستا بھی کر دیا گیا ہے۔ دہشت گردی کا مقدمہ زیادہ سے زیادہ دو مہینے میں نمٹ رہا ہے۔ فوجداری مقدمے زیادہ سے زیادہ چھ مہینے میں اور دیوانی مقدمے ایک سال کے اندر نمٹ رہے ہیں۔ جو جج مدّت کے اندر فیصلہ نہیں کرتا‘ اس کی ترقی رک جاتی ہے۔ پولیس بروقت چالان پیش نہ کرے تو جج اسے برخاست کر سکتا ہے۔ وکیل تاریخیں لمبی ڈلوانے کا عادی ہو تو اس کا لائسنس کینسل ہو جاتا ہے۔ یہ ہے ہمارا وہ شاندار کردار جس کی وجہ سے میرے اتحادی دوست فوجی عدالتوں میں توسیع کی مخالفت کر رہے ہیں۔ توسیع کی مخالفت کرنا دوسری بات ہے مگر فوجی عدالتوں کے کردار پر انگلی اٹھانا ایک الگ معاملہ۔ میں صاف دل اور کھرا انسان ہوں۔ آپ سب کا اللہ حافظ ہو۔
قارئین کرام! کاش وزیر اعظم کا ایسا خوبصورت خطاب ہوتا تو ہم اپنے پیارے میاں جی کے منہ میں گھی شکر کی چُوری ڈالتے۔ مگر ایسا نہ ہو سکا۔ اچھا گمان کرکے یہی کہہ سکتا ہوں کہ مصروفیات کی وجہ سے وہ ایسا نہ کر سکے۔ اچھا! کوئی بات نہیں۔ دو سال اور بڑھا دیں اور پھر مندرجہ بالا خطاب فرما دیں اور ہمیں اس قابل کر دیں کہ ہم اہلِ پاکستان آپ کے منہ میں گھی شکر ڈال سکیں۔