"AHC" (space) message & send to 7575

دو دن گوادر میں

دودھ پینے سے بننے والے رشتے میں حضرت ام حرامؓ، اللہ کے رسولﷺ کی خالہ لگتی تھیں۔ ایک دن حضور نبی کریمﷺ ان کے گھر میں تشریف لے گئے، دوپہر کا کھانا تناول فرمانے کے بعد لیٹ گئے، بیدار ہوئے تو مسکرا رہے تھے۔ حضرت ام حرام بنت ملحانؓ نے مسکرانے کا سبب پوچھا تو فرمایا ''میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے نمایاں کئے گئے۔ یہ اللہ کی راہ کے غازی تھے، یہ سمندر کے وسط میں اپنے سمندری جہازوں پر اس طرح بیٹھے تھے جیسے بادشاہ اپنے تختوںپر بیٹھتے ہیں‘‘ (بخاری 2788)
قارئین کرام! ہمارے حضورﷺ کے فرمان سے سمندری دنیا کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ سمندر کے وسط میں پہاڑوں جیسی لہریں اور موجیں ہوتی ہیں۔ سمندری طوفان بھی ہوتے ہیں۔ ان طوفانوں اور موجوں کا سامنا بڑا بحری بیڑا ہی کر سکتا ہے۔ بڑا بحری بیڑہ اعلیٰ مہارت کے بغیر ممکن نہیں، یعنی اعلیٰ مہارت حاصل کر کے بحری بیڑا بنا کر مسلمان سمندروں کے وسط میں دنیائے سمندر کے ساحلوں پر محوِ سفر ہوں تو یہ منظرہمارے حضورﷺ کو خوش کرتا ہے۔ آپ کے چہرے پر تبسم لاتا ہے، مسکراہٹ بکھیرتا ہے۔ حضورﷺ کا ایسے لوگوں کو بادشاہوں جیسا قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں شاہانہ زندگی، عزت و آبرو کی زندگی سمندروں کو تسخیر کرنے میں ہے۔ تسخیر کی یہ نعمت ہمیں اس وقت ملی جب حضرت عثمانؓ کے دور میں دنیا کا سب سے بڑا بحری بیڑا تیار ہوا، سائپرس بھی فتح ہوا۔ حضرت ام حرامؓ کی قبر آج بھی قبرص میں ہے، مذکورہ جزیرے پر حضورﷺ کی رضاعی خالہ کی مبارک قبر ہمیں سمندری دنیاکی اہمیت باور کرواتی ہے۔
چین کے موجودہ صدر جن پنگ نے جب اقتدار سنبھالا تو انہوں نے چین کی پالیسی میں ایک تبدیلی کا اعلان کیا کہ ہم زمین 
پر قوت حاصل کرنے کی نسبت سمندر پر قوت کے حصول کو ترجیح دیں گے، اس قوت میں بھی ترجیح تجارت کو دے دی لہٰذا اس وقت چین دنیا بھر میں بندرگاہیں بنا رہا ہے۔ دنیا کی درجنوں بندرگاہیں کہ جن پر چین سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ ان میں گوادر کی بندرگاہ سرفہرست ہے۔ جس طرح ہیروں میں ''کوہِ نور‘‘ کو ممتاز مقام حاصل ہے، ایسے ہی گوادر بندرگاہ کو دنیا بھر کی بندرگاہوں میں نمایاں ترین مقام حاصل ہے۔ یہ بندرگاہ عرب سمندر کی سمندری موٹروے پر واقع ہے۔ ہمارے دوست بھائی شبیر الغنی صاحب جنہیں میں گوادر اسپیشلسٹ کہتا ہوں، انہوں نے کئی بار مجھے گوادر آنے کو کہا، اس بار کراچی گیا تو گوادر جانے کا بھی عزم کر لیا۔ پاک فوج کے عظیم تعمیراتی ادارے ''ایف ڈبلیو او‘‘ نے چین کے تعاون سے ساحلی کارپٹ روڈ بنا دیا ہے۔ کراچی سے گوادر تک 624کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ کراچی سے 232کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے جب ''کنڈمکیر‘‘ کی وادی میں داخل ہوئے تو یہ پہاڑی علاقہ تھا۔ سمندر نیلا اور صاف، چکنی مٹی کے یہاں ایسے پہاڑ اور تودے کہ لگتا ہے ڈیزائن بنا کر نقش و نگار کے ساتھ اللہ کی قدرت نے ان کو قلعوں کی صورت دے دی ہے۔ کراچی کے لوگ اب یہاں ہفتہ اتوار کو پکنک کے لئے آتے ہیں۔ اسی علاقے میں ایک جگہ حکومت نے بڑا سا بورڈ لگا رکھا ہے کہ یہاں محمد بن قاسم رحمہ اللہ کے ساتھیوں کی قبریں ہیں۔ میں علاقے کے لوگوں کو پوچھتا ہوا یہاں ایک پہاڑی کی چوٹی پر پہنچا تو وہاں درجن کے قریب انتہائی پرانی قبریں موجود تھیں۔ محمد بن قاسم رحمہ اللہ ایرانی شہر شیراز سے سندھ کے لئے چلے تھے اور کم و بیش موجودہ ساحلی روڈ سے ہی یہاں آئے تھے اور پھر سمندر کے راستے سے دیبل گئے تھے، دوسرے الفاظ میں میری پاک فوج نے آج جو ساحلی روڈ ''کوسٹل ہائی وے‘‘ بنایا ہے وہ تیرہ سو سال قبل کے اسی راستے پر بنایا ہے جس پر محمد بن قاسم کی اسلامی فوج نے اپنے گھوڑوں اور قدموں کے نشانات ثبت کئے تھے۔ مذکورہ پہاڑی علاقے کو ''ہنگول‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ کوئی ایک سوکلومیٹر کے قریب ہو گا۔ حکومت نے اسے ''نیشنل پارک‘‘ قرار دے دیا ہے۔ اس علاقے کے بعد اوڑمارہ کی بندرگاہ ہے۔ ضلع گوادر کی تحصیل بھی ہے، گوادر یہاں سے 291کلومیٹر ہے۔ ہائی وے پر چلتے ہوئے دائیں جانب پہاڑی سلسلہ ہے تو بائیں جانب سمندر کا ساحل کہیں قریب اور کہیں دور ہو جاتا ہے۔ اوڑمارہ میں نیوی کا کیڈٹ کالج بھی ہے جو بہت بڑے رقبے پر مشتمل ہے۔ اس کے بعد پسنی کا ساحلی شہر ہے یہ بھی بندرگاہ ہے، گوادر کی تحصیل ہے اور گوادر سے 132کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
لیجئے!ہم گوادر بھی پہنچ ہی گئے، اس شہر کی شکل "T" سے مشابہ ہے۔ ٹی کا سرا ایک پہاڑی میدان ہے۔ آدھا پاک بحریہ کے پاس ہے اور آدھا سنگھار ہائوسنگ سکیم کے پاس ہے مگر یہ ضلعی حکومت کی سکیم زبوں حالی کا شکار ہے، کسی کو قبضہ نہیں دیا گیا، محسوس ہوتا ہے کہ نیول اہمیت کے پیش نظر یہاں ہائوسنگ سکیم مشکل سے ہی بن پائے گی۔ یہیں پر پی سی اور مرجان ہوٹل موجود ہیں۔ مذکورہ پہاڑ کو ''کوہِ باطل‘‘ کہا جاتا ہے۔ میرا خیال اور مشورہ ہے کہ اس پہاڑ کا نام تبدیل کر کے ''کوہِ صادق‘‘ رکھ دینا چاہئے۔ یہ پہاڑ سمندر میں آگے تک گیا ہوا ہے، اس کے نیچے "T" کا جو ڈنڈا ہے، یہ گوادر شہر ہے۔ پہاڑ پر کھڑے ہو کر گوادر شہر کی طرف دیکھیں تو دائیں جانب گہرا سمندر ہے جہاں ہمارے چینی دوست بندرگاہ کی برتھیں بنا رہے ہیں۔ کوہ مہدی تک یہ برتھیں بنیں گی اور دنیا کے بڑے بحری بیڑے سیدھے یہاں آن لگیں گے۔ بائیں جانب کا سمندر کم گہرا ہے، یہاں سمندر میں مٹی کی بھرائی کر کے تفریح وغیرہ کے لئے شاندار ساحلی سڑک بنا دی گئی ہے۔ اسے مزید آگے بڑھا کر مجوزہ کوہِ صادق تک پہنچا دیا جائے گا۔ ٹی کا ڈنڈا اب دو ڈنڈوں میں تقسیم ہو جاتا ہے اور یوں درمیان میں خشکی کا خطہ پھیلنا شروع ہو جاتا ہے جو بائیں جانب پچاس ساٹھ کلومیٹر تک سمندر کے ساتھ ساتھ رہتا ہے۔ یہی مستقبل کا گوادر شہر ہے جہاں ہائوسنگ سکیموں کی بھرمار ہے۔ مجھے یہاں صرف ایک چھوٹی سی سکیم کی چاردیواری اور گیٹ نظر آیا، باقی کسی سکیم کی چاردیواری اور گیٹ دکھائی نہیں دیا۔ یہ سکیمیں مستقبل میں بنیں گی مگر ابھی تک صحرا ہے، کسی نے زیادہ کیا تو چھوٹا سا بے آباد کمرہ بنا کر اس پر اپنی سکیم کا نام لکھ دیا۔ باقی اس میں کوئی شک نہیں کہ گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے 40-45مربع کلومیٹر تک بڑے پلان کے تحت بڑی بڑی سڑکیں بنا دی ہیں۔ ایک یونیورسٹی بھی بنا دی ہے، ہسپتال بھی ہے، پارک بھی ہے۔ جناح ایونیو کا روڈ بارہ لائنوں پر مشتمل ہے۔ 109ایکڑ رقبہ پر مشتمل ایشیا کا سب سے بڑا چوک ہے۔ وفاقی اور صوبائی اداروں نے اپنے اپنے قطعات اراضی میں بورڈ آویزاں کر دیئے ہیں۔ بعض نے اپنی تعمیرات شروع کر دی ہیں۔ 
نیوٹائون کے نام سے جو سکیم ہے یہ ضلع گوادر کی سکیم ہے، اس کا فیز ون اور ٹو شہر کے قریب اور قدرے آباد ہیں مگر شہری سہولتوں سے محروم ہیں۔ باقی ماندہ فیز بہت دور اور بے آباد ہیں۔ اس لئے میرا مشورہ یہ ہے کہ جو لوگ پلاٹ خریدیں وہ ایک بار جا کر دیکھ ضرور لیں۔ اللہ کے رسولﷺ کا حکم ہے کہ جائیداد اور مال دیکھ کر لیں، محض کمپیوٹرائزڈ خوبصورت تصویروں کو دیکھ کر فیصلے نہ کریں۔ کراچی سے گوادر تک انتہائی شاندار اور آرام دہ بسیں دن رات چلتی ہیں۔ کوسٹل ہائی وے پر سوائے ایک دو جگہوں کے موبائل کام نہیں کرتا۔ ضرب عضب کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا انعام ہے کہ کراچی، بلوچستان اور سارے ملک میں امن کی فضا بہتر ہے۔ گوادر کے لوگ بہت اچھے ہیں، آمدورفت سے ان کو روزگار مل رہا ہے، وہ خوش ہیں۔ 14اگست 2016ء کو یہاں پاکستان کا دن خوب دھوم دھام سے منایا گیا ہے۔ ہر جانب سبز ہلالی جھنڈے ہی جھنڈے تھے۔ سینکڑوں گاڑیوں پر مشتمل گوادر کی تاریخ کی سب سے بڑی ریلی یہاں نکلی تھی۔ نوجوان جذباتی انداز میں کہہ رہے تھے ہم پاک فوج میں بھرتی ہونا چاہتے ہیں۔ جنرل (ر) ناصر جنجوعہ جو اب قومی سلامتی کے مشیر ہیں، انہوں نے یہاں بہت کام کیا، اب ان کی جگہ جنرل عامر ریاض بھی دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ لوگ ان کو اچھے لفظوں سے یاد کرتے ہیں۔ حکومت پاکستان مقامی لوگوں کے مفادات کا خوب خیال رکھتی ہے۔
میں 20سال پہلے بھی گوادر آیا تھا مگر تب یہ گائوں تھا۔ اب تو بہت بہتر ہو گیا اور مستقبل میں یہ بین الاقوامی شہر بننے جا رہا ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا ایئرپورٹ بن رہا ہے۔ ابھی تین سال لگ جائیں گے جو پرانا ایئرپورٹ ہے اگر اس کا رن وے تھوڑا سا لمبا کر دیا جائے اور قدرے بڑے جہاز کراچی، لاہور، کوئٹہ، اسلام آباد اور پشاور سے یہاں آنا شروع ہو جائیں تو گوادر آنے جانے والوں کو اور سہولت ہو جائے۔
اقتصادی زون بھی یہاں کوئی پچاس کلومیٹر تک ہے۔ مستقبل میں یہاں صنعتوں کا جال بچھ جائے گا۔ گوادر کا موسم خشک ہے، تین سال ہو گئے یہاں بارش نہیں ہوئی۔ موسم اور جغرافیہ عرب علاقوں سے ملتا جلتا ہے۔ واقع بھی بحیرئہ عرب پر ہی ہے۔ بارشی پانیوں سے تربت وغیرہ میں جو ڈیم بنائے گئے ہیں، وہی میٹھا پانی ہے، اسی کے کنٹینرز سے کنسٹرکشن کا کام ہوتا ہے۔ سمندری پانی سے تعمیرات ممکن نہیں، مستقبل میں میٹھے پانی کے پلانٹ لگانا پڑیں گے۔ بڑے پیمانے پر شجرکاری بھی کرنا ہو گی، یہ سارے منصوبے حکومت کے پلان میں شامل ہیں۔ یہاں کے ہوٹلوں میں دوسرے نمبر پر رائل ریزورٹ، صدف، اسلام آباد اِن اور گوادر اِن ہیں۔ بہرحال! جس تیزی سے کام ہو رہا ہے، صاف محسوس ہوتا ہے کہ چین کی دوستی کے ساتھ پاکستان مستقبل میں معاشی طور پر ایک طاقتور ملک بن کر ابھرے گا۔ گوادر جیسا کوہ نور ہیرا پاکستان کی معاشی اور دفاعی مضبوطی کی چمک دمک میں اضافہ کرے گا۔ اللہ تعالیٰ پاکستان اور اہل پاکستان کی خوشحالی میں اضافہ فرمائے۔ (آمین)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں