کوئی 35سال قبل لاہور کے علاقے صدر میں جمعہ کا خطبہ دیا کرتا تھا۔ محترم شہزاد صاحب جمعہ پڑھا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو دو بیٹیاں دیں اور ایک بیٹا عطا فرمایا۔ ان کے اکلوتے بیٹے یحییٰ عمر کا چند دن قبل ایکسیڈنٹ ہوا۔ یحییٰ کی عمر 29سال تھی۔ کینٹ میں حادثے کے بعد لوگ انہیں ایک سرکاری سول ہسپتال میں لے گئے۔ سر پر چوٹ کی وجہ سے یحییٰ زندگی اور موت کی شدید کشمکش میں تھا۔ ہسپتال کے ذمہ دار نے وینٹی لیٹر پر لٹانے کے پیسے مانگنے شروع کر دیئے۔ اس نئی کشمکش میں کافی سارا قیمتی وقت ضائع ہو گیا۔ یحییٰ عمر کے چچا چوہدری نعیم گھمن سابق فوجی افسر ہیں وہ اپنے بھتیجے کو کینٹ کے فوجی ہسپتال ''سی ایم ایچ‘‘ میں لے گئے۔ یحییٰ کو فوراً وینٹی لیٹر مہیا کر دیا گیا اور ایمرجنسی میں جو اعلیٰ ترین سطح پر فوری علاج ہو سکتا تھا وہ شروع کر دیا گیا مگر تین دن کے بعد ڈاکٹروں نے بتلا دیا کہ دماغی طور پر یحییٰ کی موت واقع ہو چکی ہے۔ آپ اجازت دیں تو یحییٰ کو وینٹی لیٹر سے اتار لیتے ہیں۔ دوسری صورت میں زیادہ دن رکھنے سے جسمانی اعضا بوسیدگی کا شکار ہونا شروع ہو جائیں گے۔ چوہدری نعیم صاحب نے اجازت دے دی اور ساتھ ہی یحییٰ کے دونوں پائوں کے تلوئوں پر کسی شے سے خارش کی تو یحییٰ کے دونوں پائوں کے انگوٹھوں نے حرکت کی۔ ادھر وینٹی لیٹر کا سلسلہ ختم ہوا اور مشین نے یحییٰ کی جسمانی حالت کی زندگی کا درجہ جو پانچ بتلایا تھا وہ نیچے گرا، چار، تین، دو ایک اور پھر صفر ہو گیا۔ پرانے تعلق کی وجہ سے چوہدری صاحب نے مجھے فون پر بتلایا کہ یحییٰ عمر فوت ہو گیا۔ میں نے یحییٰ کا جنازہ پڑھایا۔ چوہدری صاحب نے اپنے موبائل کی فوٹیج مجھے دکھلائی جس میں خارش کرنے سے یحییٰ عمر اپنے دونوں پائوں کے انگوٹھے ہلا رہا تھا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب لاہور تشریف لائے تو ان کے علم میں یحییٰ کا واقعہ آیا۔ انہوں نے ایک آرڈر پاس کیا کہ آئندہ کینٹ میں کوئی حادثہ پیش آ جائے تو پاکستان بھر میں کوئی سول ہو یا فوجی‘ اس کا بلاامتیاز علاج فوجی ہسپتال میں فوراً کیا جائے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ اپنے اختیار کے دائرے میں جو کر سکتے تھے انہوں نے انسانی ہمدردی میں کر دیا۔
قارئین کرام! انگوٹھے ہلنے کی طبی اور علمی گفتگو بعد میں... پہلے اپنے میاں شہباز شریف صاحب کی انسانی ہمدردی کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔ ننکانہ صاحب میرا شہر ہے اور میرے شہر کے ہسپتال میں میاں صاحب دو مرتبہ جا چکے ہیں اور دونوں مرتبہ ہسپتال کے ایم ایس کو معطل کر چکے ہیں۔ چند دن قبل ایک خاتون جو لاہور کے تین ہسپتالوں میں بیماری کا بستر حاصل نہ کر سکی اور فرش پر جان دے دی۔ میڈیا نے اس خبر کو نشر کیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ میاں شہباز شریف صاحب نے انسانی ہمدردی میں نوٹس لے لیا۔ قصور کا وہ ہسپتال جس میں خاتون کا علاج نہ ہوا۔ اسے بندکرنے کا نوٹس مل گیا ہے۔ یاد رہے! مذکورہ ہسپتال عمومی ہسپتال نہیں ہے۔ پلاسٹک سرجری کا ہسپتال ہے۔ یہ منفرد ہسپتال ہے اور لوگوں کو سستا علاج مہیا کرتا ہے۔ میاں شہباز شریف کی ہمدردی اب اسے بند کرنے جا رہی ہے۔ جی ہاں! ہمدردی میں مذکورہ ہسپتال بند کر دیجئے مگر حضور والا پلاسٹک سرجری کے مریضوں کا بھی بندوبست کر دیجئے۔ اسی طرح ننکانہ کے ہسپتال میں اب کوئی ایم ایس بننے پر قابل ڈاکٹر تیار ہی نہیں کہ نہ جانے میاں صاحب کب تشریف لائیں اور وہ معطل ہو جائیں۔ ہسپتال میں مریضوں کا حال پہلے سے بھی خراب ہو چکا ہے۔ لاہور کے جناح ہسپتال میں جس فزیشن پروفیسر ظفر اقبال چوہدری کو معطل کیا گیا، ان کی شہرت ایک انتہائی رحم دل اور نیک ڈاکٹر کی ہے۔ باقی ڈاکٹر بھی اسی طرح کے بتلائے جاتے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ پچھلے 24سال سے لاہور میںنئے سرکاری ہسپتال بنے ہی نہیں جو موجودہ ہیں وہاں ایک ایک بستر پر دو دو اور تین تین مریض پڑے ہیں۔ اس کے بعد مزید مریض آئیں گے تو ڈاکٹر کیا کریں گے پھر فرش ہی رہ جائیں گے تو میڈیا نے کسی ایک واقعہ کو نمایاں کر دیا اور فوراً ڈاکٹرز معطل ہو گئے۔ اس میں میاں صاحب کی انسانی ہمدردی اپنی جگہ مگر یہ مسئلے کا حل نہیں۔ حل یہ ہے کہ حکومت سہولتوں میں اضافہ کرے۔ نئے ہسپتال بنوائے۔ وزیرآباد میں چوہدری پرویز الٰہی کا بنوا یاہوا دل کا ہسپتال بند پڑا ہے۔ اس کو بحال کرے۔ موجودہ ہسپتالوں کی گنجائش زیادہ کرے۔
اب آتے ہیں انگوٹھے ہلنے کی جانب۔ میں نے تحقیق کا آغاز شکم مادر میں بچے کی پرورش سے شروع کیا تو وہاں انسان کی زندگی کا آغاز اسی وقت شروع ہو جاتا ہے جب مرد اور عورت کا جرثومہ اور بیضہ باہم ملتے ہیں۔ نشوونما شروع ہو جاتی ہے۔ بچہ جب چار ہفتے یعنی ایک مہینے کا ہو جاتا ہے تو اس کا دل دھڑکنا شروع ہو جاتا ہے۔ یاد رہے! بچہ ماں کے شکم میں سانس نہیں لیتا، جب وہ دنیا میں آتا ہے تو روتا ہے۔ رونے سے اس کے پھیپھڑے کھلتے ہیں اور وہ سانس لیتا ہے اگر وہ نہ روئے تو زندگی کو خطرہ ہے۔ بہت سارے بچے نہ رونے کی وجہ سے مر جاتے ہیں لہٰذا ولادت کے وقت چائلڈ اسپیشلسٹ کا موجود ہونا ضروری ہے مگر ہمارے ہسپتالوں میں اس کا کوئی اہتمام نہیں۔ چائلڈ اسپیشلسٹ ہو تو ایک آدھ منٹ میں معاملہ سنبھال لیتا ہے۔ میاں صاحب! ذرا سروے تو کروایئے کہ پنجاب میں اور پورے پاکستان میں کتنے بچے ماہانہ نہ رونے کی وجہ سے فوت ہو جاتے ہیں۔ جناب والا! سہولت فراہم کیجئے۔
جی ہاں! میں عرض کر رہا تھا کہ زندگی کا آغاز تو پہلے دن ہی ہو گیا تھا۔ انسان کا امتیاز یہ ہے اور وہ مخلوقات میں اشرف و اعلیٰ اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں روح پھونکی ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا کہ بچہ جب چار ماہ کا ہوتا ہے تو فرشتہ آ جاتا ہے اور اللہ کی طرف سے اس میں روح ڈال دیتا ہے۔ صحیح بخاری میں اللہ کے رسولﷺ کے ایک دوسرے فرمان کے مطابق روحیں عالم بالا میں ایک جگہ موجود ہیں۔ وہاں سے روح لائی جاتی ہے اور جس روح کو جہاں حکم ہوتا ہے وہاں بھیج دیا جاتا ہے۔ یہ روح اللہ کے احکام میں سے ایک حکم ہے اور قرآن نے بتلا دیا ہے کہ اس کے بارے میں تم لوگوں کو بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل ؑکو بھی روح کہا ہے۔ مولا کریم نے اس وحی کو جو حضرت محمد کریم ﷺپر نازل ہوئی اسے بھی روح کہا ہے یعنی روح اللہ کے اوامر اور احکام ہیں۔ انسانی روح بھی اللہ کا ایک امر اور حکم ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کے مٹی سے بنے ہوئے جسم میں پھونکا تھا۔ انسان کے اربوں خلیات میں یہ روح موجود ہے جب فرشتہ اسے نکال لیتا ہے تو روح عالم بالا سے آئی تھی وہیں واپس چلی جاتی ہے۔ نیک ہو تو قرآن نے کہا ''علّیّین‘‘ میں چلی جاتی ہے۔ وہاں جنت جیسے نظارے ہیں۔ بری ہو، مظلوموں اور کمزوروں کے ساتھ ڈرامہ باز ہو، کرپٹ ہو، انسان کے حقوق غضب کرنے والی ہو تو ''سجّین‘‘ میں چلی جاتی ہے، یہ بدبودار قید خانہ ہے۔ نیک روح جب جسم کو چھوڑتی ہے تو حضورﷺ نے فرمایا اس میں سے کستوری کی خوشبو آتی ہے۔ فرشتے اسے ہاتھوں ہاتھ لے کر مولا کریم کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ بری ہوتی ہے تو مردار جیسی بدبو آتی ہے۔ دنیا میں جس جسم سے نکلی وہ ساری زندگی مردار ہی کھاتا رہا تو بدبو بھی مردار کی آئے گی۔ اس کے لئے قرآن نے بتلایا کہ آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاتے اور ''سجّین‘‘ میں پٹخ کر پھینک دیا جاتا ہے۔ جسم تو زمین کی چیز تھی زمین میں کیڑوں کی خوراک بن کر مٹی بن گیا، اصل چیز روح ہے۔
قرآن نے نیند کو بھی موت قرار دیا ہے، نیند کی حالت میں روح اپنے جسم کو چھوڑ کر سیاحت بھی کرتی ہے۔ اللہ کے ہاتھ میں ہوتی ہے، اچھے خواب دیکھ کر مستقبل کا کوئی واقعہ بھی دیکھ لیتی ہے۔ اس کا کنکشن اپنے جسم سے قائم رہتا ہے۔ موت یہ ہے کہ روح کا تعلق جسم سے ختم ہو جاتا ہے۔ باقی موت کے بعد حضورﷺ کے فرمان کے مطابق آنکھیں روح کا پیچھا کرتی ہیں۔ اسی لئے نگاہیں مڑ جاتی ہیں۔ یعنی جسم حسرت کرتا ہے کہ مجھے چھوڑ کر جا رہی ہے۔ یہ چند لمحوں کی بات ہوتی ہے۔ اس کے بعد روح کے بغیر جو عام زندگی ہے وہ مختلف اعضاء کی مختلف ٹائم کے لئے ہوتی ہے۔ مصنوعی سانس لگا دیا جائے تو ٹائم میں اضافہ بھی ہو جاتا ہے۔ موت تو واقع ہو چکی مگر کچھ دیر کے لئے عام یا سادہ زندگی باقی رہتی ہے۔ انگوٹھوں کا ہلنا اسی وجہ سے ہے۔ اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے اور انسانی فلاح و بہبود کا نظام پنہاں ہے کہ فوت ہونے والے شخص کے اعضاء کسی دوسرے ضرورتمند انسان کو لگ سکتے ہیں۔ اس میدان میں انڈیا بہت آگے ہے۔ آیئے! آج ہم سب اپنی روح کو اپنے کردار سے پاکیزہ بنائیں اور ایسے ہسپتال بنائیں جہاں پلانٹیشن کے سستے کام ہو سکیں اور سزا دیں تو ان ڈاکٹرز کو دیں جنہوں نے مریضوں کے دلوں کی اصلاح کے نام پر سٹنٹ میں جعل سازی کی ہے۔ میاں صاحب ایسے ڈاکٹرز کو سزا دیں، بلکہ سرعام الٹا لٹکائیں اور لٹکتے ہوئے دنیا کو دکھلائیں۔ میری دعا ہے اللہ تعالیٰ آپ جیسے ہمدرد حاکم کو ہمدردی کے صحیح اور درست راستے پر چلائے۔ تاکہ سچی ہمدردی آپ کی روح کو دنیا و آخرت میں سچی مسرت سے ہمکنار کر دے ۔ (آمین)