پچھلے 25سال سے کوئٹہ میں آنا جانا ہے۔ لوگ برف باری کو بھول ہی چکے تھے۔ اس بار 5فروری 2017ء کو کوئٹہ میں تھا تواس قدر برف باری تھی کہ کوئٹہ ہی نہیں بلوچستان کے کئی علاقے برف باری کی وجہ سے کوئٹہ شہر سے کٹ کر رہ گئے تھے مگر اس بار سردی سے ٹھٹھرتا ہوا کوئٹہ‘ سری نگر سے جڑ چکا تھا۔ اظہار یکجہتی کے فلک شگاف نعرے لگ رہے تھے۔ مقبوضہ جموں اور کشمیر میں انڈیا کی ریاستی دہشت گردی کے زناٹوں کی کربناک آوازیں کوئٹہ کے چلتن پہاڑ کو کراس کر کے کوئٹہ کو غمناک کر رہی تھیںتو یہاں سے یکجہتی کا مضبوط پیغام مودی سرکار کے کانوں سے بھی ٹکرا رہا تھا۔ ویسے تو اہل کشمیر کے ساتھ یکجہتی کے پیغام کی آوازیں پاکستان کے ہر شہر اور گائوں سے بلند ہو رہی تھیں، ریلیاں نکل رہی تھیں۔ جماعتیں اور تنظیمیں اہتمام کر رہی تھیں مگر کوئٹہ اس لحاظ سے منفرد تھا کہ یہاں 512عدد کاروں، لینڈ کروزروں اور جیپوں کا کارواں نکلا۔ ہر شخص اپنی گاڑی لے کر آیا۔ ویسے تو ''آزادی جموں و کشمیر‘‘ تحریک کے صوبائی سربراہ جناب اشفاق نے کارواں کو منظم کیا مگر بہت ساری سیاسی، سماجی، علاقائی اور دینی جماعتوں کے قائدین نے اس کارواں میں شرکت کی۔ اس لحاظ سے پورے پاکستان میں اتنا بڑا کارواں نہیں نکلا۔ اگر برف باری کی وجہ سے سڑکیں بلاک نہ ہوتیں تو خلجی پشتون قبیلے کے نواب سلمان خلجی مجھے کہہ رہے تھے ایک ہزار گاڑیوں سے بھی زیادہ کا کارواں ہوتا۔
کئی کلومیٹر لمبے قافلے کو لے کر جب ہم کوئٹہ کے منّان چوک میں پہنچے تو ہلکی برف باری کے ساتھ قدرے تیز اور سرد ترین ہوا بھی چل رہی تھی۔ بادلوں نے کالی اور سفید چادر کی اوٹ میں سورج کو چھپا رکھا تھا۔ لوگوں نے اب گلاب کے پھولوں کی سرخ پتیاں نچھاور کرنا شروع کر دی تھیں۔ روئی کی طرح اڑتی برف کے ساتھ سرخ اور گلابی پتیاں شاہ وانی قبیلے کے سردار جناب نواب میر ظفر اللہ خان پر گر رہی تھیں۔ مولانا عبدالقادر لونی امیر جمعیت علمائے اسلام نظریاتی اور آدوزئی قبیلے کی روح و ریحان ڈاکٹر ہارون پر نچھاور ہو رہی تھیں۔ تاجک قومی اتحاد کے چیئرمین محمد افضل، پی ٹی آئی کے محمد شبیر، آغا سعید، جماعت اسلامی کے مولانا عبدالکبیر شاکر اور دیگر عمائدین پر اللہ کے آسمان سے برف پتیاں بن کر نچھاور ہو رہی تھی تو اللہ کے بندے سفیدی کے اندر سرخی کی آمیزش کر رہے تھے۔ اہل کشمیر کے ساتھ یکجہتی کے ترانے فضا میں کلمے کے رشتے کا لازوال رنگ بھر رہے تھے۔ میں درمیان میں کھڑا اس منظر کو دیکھ کر‘ مسرت سے نہال ہوئے جا رہا تھا۔ جی ہاں! میں خوش اس لئے ہو رہا تھا کہ نائن الیون کے بعد سے لے کر اب تک امریکہ کی آشیرباد سے انڈیا کوئی پندرہ ارب ڈالر افغانستان میں خرچ کر چکا ہے۔ تجارت کے نام سے درجنوں قونصلیٹ بنا چکا ہے۔ مقصد یہ تھا کہ بلوچستان کو شورش کی نذر کیا جائے۔ کشمیر میں آزادی کی تحریک کا بدلہ بلوچستان میں لیا جائے۔ اقتصادی کوریڈور کا راستہ روکا جائے۔ میں خوش اس لئے ہو رہا تھا کہ انڈیا ناکام ہو گیا ہے۔ کلبھوشن کو گرفتار کروا چکا ہے۔ اپنے اربوں ڈالر کی انویسٹمنٹ ضائع کروا چکا ہے، اب وہ جس قدر بھی زور لگا لے کرکٹ کا اک ہارا ہوا کھلاڑی ہے جو گنتی پوری کرنے کے لئے بائولنگ کر رہا ہے۔
جس بائولر نے یہ کارنامہ انجام دیا ہے وہ جنرل (ر) راحیل شریف کی کپتانی میں جنرل (ر) ناصر جنجوعہ ہے۔ بلوچستان میں دونوں کا نام میں نے احترام سے سنا ہے۔ ان کے اس کارنامے کی وجہ سے میاں نوازشریف صاحب نے انہیں قومی سلامتی کا مشیر بنا دیا اور اب وہ نیشنل ایکشن پلان کو کامیابی سے آگے بڑھا رہے ہیں۔ میری تحقیق اور مطالعہ کے مطابق جنرل (ر) جنجوعہ نے حضور نبی کریمﷺ کی سیرت کے اک پہلو کو رہنما بنا کر یہ کامیابی حاصل کی ہے۔ اللہ کے رسولﷺ قبائل اور ان کے سرداروں کا بہت خیال رکھا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر حضرت اَشَج عبدالقیس العبدی رضی اللہ عنہ جو عبدالقیس قبیلے کے سردار تھے۔ اپنے عمائدین کے ہمراہ مدینہ منورہ میں حضورﷺ سے ملاقات کے لئے آئے۔ ان کے ساتھی حضورﷺ کی خدمت میں پہنچ گئے جبکہ نواب صاحب نے اپنے اونٹ کا پائوں باندھا۔ اپنے آپ کو سنوارا، جوڑا زیب تن کیا اور متانت و وقار کے ساتھ حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس موقع پر صحابہؓ اور اہل مدینہ کے سامنے حضورﷺ نے نواب صاحب کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا! اَشبَح میں دو خوبیاں ایسی ہیں جو اللہ کو بھی پسند ہیں اور اللہ کے رسولﷺ کو بھی محبوب ہیں۔ (صحیح مسلم)۔وہ خودداری اور وقار ہیں۔ خودداری کے ذیل میں حلم کا لفظ بھی ہے یعنی حوصلہ مند خوددار ہیں۔
اب اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکمران عرب حضرت محمد کریمﷺ کی طرف سے نواب صاحب کی اس عزت افزائی کا رزلٹ کیا نکلے گا۔ یقینا وفاداری اور محبت۔ حضورﷺ تحائف دے کر بھی رخصت کیا کرتے تھے، ضیافت بھی خوب ہوتی تھی۔ مدینہ اکرام و احترام کا مرکز تھا۔ انگریز جب برصغیر میں آیا تو اس نے بھی یہی پالیسی بنائی تھی کہ بلوچستان کے سرداروں اور نوابوں کی خودداری اور وقار پر حرف نہ آئے۔ وہ کامیاب ہو گیا۔ جنرل (ر) جنجوعہ نے کوئٹہ میں سنتِ نبوی کے سبق کو دہرایا تو 5فروری کے دن یکجہتی کشمیر کے کارواں میں صرف اور صرف پاکستانی پرچموں کی بہار میں ان کی کامیابی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ یہ دن انڈیا کی مذموم خواہشوں پر ناامیدی کی اوس پڑنے کا دن تھا۔ موجودہ سدرن کمانڈر جنرل عامر ریاض بھی جنرل قمر جاوید باجوہ کی ٹیم کے کھلاڑی بن کر یہی کام کر رہے ہیں۔ اب پولیس کو آگے کیا گیا ہے۔ ایف سی کے کردار کو مزید بہتر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ میں کہتا ہوں جس قدر محبانِ وطن کی عزت و وقار کا زیادہ خیال کیا جائے گا اسی قدر رزلٹ میں بہتری کے آثار نمایاں ہوتے چلے جائیں گے۔ یہ بات یاد رہنی چاہئے کہ جونسا سربراہ اپنے عمائدین کی قدرومنزلت کے مطابق رویہ اختیار نہ کرے گا وہ اپنی قدرومنزلت بھی کھو دے گا اور توہین آمیز رویہ اختیار کرنے والا تو متکبر کہلائے گا اور متکبروں کے لئے سوائے ندامت و ناکامی کے کچھ نہیں ہے۔
میرے حضورﷺ نے عام لوگوں کی قدرومنزلت کا بھی اس طرح خیال رکھا کہ مسجد نبوی میں ایک عام سادہ سے آدمی نے پیشاب کرنا شروع کر دیا۔ صحابہؓ میں سے بعض لوگ اس کی طرف گھورتے ہوئے اور ڈانٹتے ہوئے دوڑنے لگے کہ اس کو ایسی حرکت سے روکیں مگر حضورﷺ نے صحابہؓ کو روک دیا اور فرمایا اسے پیشاب سے فارغ ہو لینے دو۔ جب وہ فارغ ہوا تو محبت کے ساتھ اپنے پاس بلایا، بٹھایا اور سمجھایا کہ مسجد میں ایسا نہیں کیا کرتے۔ یہ عبادت کی جگہ ہے اور صحابہ کرامؓ کو حکم دیا کہ پیشاب والی جگہ کو پانی سے صاف کر دو۔ اس پر وہ عام سادہ سا آدمی اللہ کو مخاطب کر کے کہنے لگا، اے اللہ! صرف حضرت محمدؐ کریم پر اور مجھ پر رحمت نازل فرما، باقی کسی پر نہیں۔ حضورﷺ نے مسکرا کر فرمایا تم نے تو اللہ کی رحمت کو محدود کر دیا۔
جی ہاں! اس سے اندازہ لگائیں اے قارئین کرام! کہ حضورﷺ نے ایک عام سادہ سے آدمی کی بھی عزت افزائی کی تو اس کا رزلٹ کیا نکلا۔ میں عرض کرتا ہوں حکمرانوں اور صاحبان اختیار سے کہ وہ سیرت کے اس پہلو کو سامنے رکھ کر حکمرانی کریں۔ کامیابی مقدر بن جائے گی۔ حاسد، تنگ دل اور عزت و وقار کا خیال نہ کرنے والے حکمران آخرکار اپنے لئے اور ملک و ملت کے لئے مسائل کے گڑھے کھودتے ہیں۔
سلطان علائو الدین خلجی ایک ایسا تابناک نام ہے کہ جس نے دہلی میں ہندوستان کو حکمرانی کے تخت تلے رکھ کر تاریخ مرتب کی ہے۔ یکجہتی کے کارواں کے بعد اسی سلطان کے ایک فرزند نے میری ضیافت کا اہتمام کیا۔ انداز وہی شاہانہ تھا مگر مزاج میں حلم، تواضع اور دانش کا رنگ نمایاں تھا۔ نواب سلمان خلجی نے مجھے بتلایا کہ پشتونوں کے دو بڑے قبیلے ہیں ایک خلجی ہے اور دوسرے درانی ہیں۔ نواب صاحب خلجی قبیلے کے سردار ہیں۔ بتلانے لگے، تمام پشتونوں میں خلجیوں کی تعداد 65فیصد ہے۔ وہ شکوہ کر رہے تھے کہ خلجی قبیلے کے لوگ جو سالہا سال سے کوئٹہ میں اور ملک بھر میں رہ رہے ہیں، ان کو افغانستان میں دھکیلا جا رہا ہے۔ ان کے شناختی کارڈ بلاک کر دیئے گئے ہیں۔ اب بیمار بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کی بہبود میں دن رات سرگرداں رہتا ہوں۔ میں اپنے قبیلے کے لوگوں کی زبوں حالی پر دل گرفتہ ہوں، ہم اپنے ملک اور حکومت کے ساتھ ہیں مگر ہمارے ساتھ بعض لوگوں کی سیاست کی وجہ سے جو زیادتی ہو رہی ہے، مستقبل میں میرا ملک اس سے نقصان اٹھا سکتا ہے لہٰذا اس سلسلے کو بند ہونا چاہئے۔ ہاں جو لوگ غیرقانونی کارروائیوں میں ملوث ہیں حکومت ان کو سزا دے، کوئی اعتراض نہیں۔ میں نے کہا ہمارے چودھری نثار صاحب دانشور وزیر داخلہ ہیں۔ ان تک اپنی بات پہنچائیں۔ بہرحال! میری گزارش ہے کہ چودھری صاحب خود نواب صاحب سے رابطہ کریں اور ان کی عزت افزائی کرتے ہوئے ان کی بات پر توجہ دیں۔ قارئین کرام! میری ایک اور تحقیق یہ ہے کہ بلوچستان سرسبز اور لہلہاتی فصلوں کے اعتبار سے مستقبل کا پنجاب بن سکتا ہے یہ پھر سہی، فی الحال اللہ کا شکر ہے کہ بلوچستان کے سیاسی موسم میں کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار۔ انڈیا کے ارادوں پر اک زوردار اور زناٹے دار طمانچہ ہے۔ رانا اشفاق صاحب کو ایسی محنت پر مبارکباد۔ پاکستان زندہ باد۔