اللہ کے رسول حضرت محمد کریمﷺ نے جب مکہ فتح کیا تو دس ہزار کی تعداد میں اسلامی فوج نے وہاں خیمے گاڑ کر اپنی رہائش کا انتظام کیا۔ اس فوج کے سالار اعظم، فاتحِ مکہ اور شاہِ عرب حضرت محمد کریمﷺ نے بھی اپنے لئے ایک خیمہ نصب کروا کر اس میں رہائش اختیار فرما لی۔ کچھ صحابہ نے حضورﷺ کے گھروں کے بارے میں بات کی کہ آپﷺ تو وہاں بھی رہائش اختیار فرما سکتے ہیں۔ فرمایا! ہمارا کوئی گھر چھوڑا ہی کہاں گیا ہے یعنی رشتہ دار ان کو فروخت کر چکے ہیں۔ یاد رہے! حضورﷺ کے دو گھر مکہ میں تھے۔ ایک گھر ماں باپ کا تھا، حضرت عبداللہ اور حضرت آمنہ کا تھا جہاں حضورﷺ کا بچپن گزرا تھا۔ وہ گھر بھی فروخت ہو گیا۔ دوسرا گھر آپ کی اہلیہ محترمہ حضرت خدیجہؓ کا تھا جو مکہ کی مالدار ترین خاتون تھیں، وہ گھر بھی نہ رہا۔ حضورﷺ نے جب ہجرت فرمائی تو مدینہ آنے کے بعد مندرجہ بالا دونوں گھر ہی کسی اور کے ہو گئے تھے۔ حضورﷺ نے ان گھروں پر نظر بھی نہ ڈالی اور خیمے میں گزارہ کر لیا۔ جہاں بچپن گزرا ہو، ماں باپ کا وہ گھر بھلا کہاں بھولتا ہے اور پھر وہ گھر کہ جہاں آپ کی جوانی کے 28 سال گزرے، جہاں چار بیٹیاں اور دو بیٹے پیدا ہوئے۔ اس گھر کی یادیں کیسے بھولنے والی ہیں مگر آج وہ گھر بھی نہ رہا اور حضورﷺ نے مکہ کے فاتح بن کر بھی ان گھروں کو اِک نظر دیکھنا بھی پسند نہ فرمایا کہ یہ گھر اب کسی اور کے تھے۔ مدینہ منورہ میں حضور نبی کریمﷺ کے نو عدد گھر مبارک تھے۔ قرآن نے ان کو حجرات کہا ہے۔ اللہ نے اس سورۃ کا نام ہی سورۃ ''الحجرات‘‘ کر دیا جس میں حضورﷺ کی رہائش گاہوں کا تذکرہ کیا۔ یہ رہائش گاہیں اس قدر چھوٹی اور سادہ تھیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے دور میں جب ان حجرات کو گرا کر مسجد نبوی کا حصہ بنایا جا رہا تھا تو مدینہ کے رہنے والے انصار اور مہاجرین زاروقطار رو رہے تھے اور کہہ رہے تھے۔ کاش! کوئی ایسا طریقہ ہوتا کہ یہ گھر محفوظ ہو جاتے اور آنے والے ادوار میں امت کے لوگ دیکھتے کہ ان کے محبوب رسول کریمﷺ کے حجرات کس قدر سادہ اور محض گزارے کی حد تک تھے۔
جی ہاں! میرے حضور کے گھر جو مکہ کے تھے ان میں بھی سیرت کا اک پیغام ہے کہ اللہ کی خاطر مکہ کو چھوڑ دیا تو مقبوضہ گھروں کو بھی واپس نہ لیا۔ مدینہ منورہ کے گھروں میں بھی اسوئہ رسول ہے کہ سادہ سے حجرات تھے اور آج وہ مسجد نبوی کا حصہ ہیں۔ حضور نبی کریمﷺ نے اپنی امت کے لوگوں کو خبردار بھی فرمایا کہ جس نے کسی کی زمین پر قبضہ کیا یعنی زرعی زمین ہتھیا لی، مکان پر قبضہ جما لیا، پلاٹ پر قابض ہو گیا، قیامت کے دن سات زمینوں تک مذکورہ جائیداد کو سرپر اٹھائے فریادیں کر رہا ہو گا: اے اللہ کے رسول(ﷺ)! میری مدد فرمایئے، فرمایا میں کوئی مدد نہیں کروں گا۔ لہٰذا لوگو! زمینوں کے قابض بن کر دنیا نہ چھوڑو کہ چھوڑنے کے بعد قبرستان میں چند گز جگہ ہی ملے گی، وہ بھی زمین کی سطح پر نہیں بلکہ زمین کے نیچے ہی ملے گی۔ ساڑھے پانچ چھ فٹ کا وجود جو زمین سے بنا تھا واپس زمین میں مل کر مٹی ہی بن جائے۔
دوسروں کی زمینوں، مکانوں اور پلاٹوں پر قبضہ وہی کرتے ہیں جن کے جسموں میں موجود روح بھی مٹی بن جائے۔ مبارک ہیں وہ لوگ جو اپنے حضورﷺ کی سیرت کو سامنے رکھ کر روحوں کو مٹی نہیں بننے دیتے۔ روح آسمانی چیز ہے، وہ آسمانی سوچ رکھتے ہیں۔ اللہ کے عرش پر نظر رکھتے ہیں۔ عرش کے سائے میں جنت الفردوس کے محلات پر نگاہ رکھتے ہیں۔ حضورﷺ کے دیدار کی تمنا رکھتے ہیں۔ قارئین کرام! میں ایک مولانا صاحب کو جانتا ہوں، انہوں نے لاہور کی ایک بستی میں پندرہ سال قبل ساڑھے چھ مرلے کا ایک گھر بنایا۔ چند ماہ اس میں رہائش پذیر رہے اور پھر اسے 15لاکھ روپے میں فروخت کر دیا۔ خریدنے والا ایک دیہاتی آدمی تھا۔ اس کی زرعی زمین لاہور کی رہائشی آبادی کا حصہ بن گئی تھی۔ یوں وہ کروڑوں کا مالک بن گیا۔ اب وہ مکانات اور جائیدادیں خرید رہا تھا۔ اس نے مولانا صاحب کا مکان بھی خرید لیا۔ اس نے اپنے نام رجسٹری اور انتقال نہ کروایا بلکہ مختار عام کروا لیا تاکہ مناسب موقع پر نفع پر آگے بیچ دے گا۔ اس نے مکان نہ بیچا، کرائے دار کو دے کر کرایہ کھانے لگ گیا اور پھر چند سال بعد فوت ہو گیا۔ اس کے دو بیٹے تھے، بڑا بیٹا جائیداد ہونے کے باوجود لوگوں کے پلاٹوں اور جائیدادوں پر قبضے میں مشہور تھا۔ اپنی جائیداد کی کوئی فکر ہی نہ تھی۔ جب رخ مذکورہ مکان کی طرف ہوا تو اس نے اب اپنے نام کرانے کا سوچا مگر یہ دیکھ کر پریشان ہو گیا کہ مکان کی رجسٹری اور انتقال مولانا صاحب کے نام ہے اور وہ اثرورسوخ کے حامل بھی ہیں۔ مختار عام کی مدت بھی ختم ہے لہٰذا اب یہ مکان تو میرے ہاتھ سے گیا۔ لوگوں سے مولانا کے بارے میں معلوم کیا تو سب نے کہا، تمہیں فکر کی ضرورت نہیں۔ مولانا صاحب اس قدر اللہ والے ہیں کہ تیرے باپ کے مکان کی جانب نظر اٹھا کر نہ دیکھیں گے۔ کہنے لگا، شاید چند لاکھ لیں کہ اب مکان تو ان کا ہے اور پھر ہمارے نام کر دیں لوگوں نے کہا ایسا مت سوچو، رابطہ کرو۔ نوجوان نے مولانا سے پہلے کسی کے ذریعہ رابطہ کیا تو جواب ملا جب چاہے اپنے نام کروا لے۔ میرے پاس امانت ہے۔ میں تو بھول ہی چکا تھا کہ اس کے باپ نے مختار عام کروایا تھا۔ اب نوجوان نے خود رابطہ کیا اور مولانا کو اپنا تعارف کروایا اور ساتھ کھانے کی درخواست کی۔ مولانا نے جواب میں کہا، نوجوان بیٹے! تم کھانا کھانے کی بات کرتے ہو، میں تمہارے ہاتھ سے اس وقت تک سادہ پانی کا گلاس بھی نہیں پکڑوں گا جب تک کہ یہ جائیداد جو اس وقت تمہارے بقول 70لاکھ کی ہے تمہارے نام نہیں کر دوں گا۔ نوجوان حیران رہ گیا کہ ایسے لوگ بھی دنیا میں موجود ہیں۔ مولانا نے مزید کہا تم نے اپنے گھر کا جو بتایا ہے، وہ میرے راستے پر ہے۔ تم کاغذ تیار کرو میں گزرتے ہوئے تمہارے گھر میں آئوں گا اور دستخط کر دوں گا۔ ایک بات یاد رکھو، تمہارے والد کی وفات کے بعد یہ جائیداد تمہارے چھوٹے بھائی اور بہنوں کی بھی ہے لہٰذا یہ تم سب کے نام کروں گا۔ کہنے لگا اور بھی جائیداد ہے، یہ میرے نام آئی ہے۔ مولانا نے کہا تمہاری والدہ، بہنیں اور بھائی میرے سامنے گواہی دیں تو تیرے نام کر دوں گاوگرنہ نہیں۔ کہنے لگا، جی! میں سب کو گھر میں موجود رکھوں گا۔ آپ سب سے گواہی لے لیں۔
قارئین کرام! مولانا صاحب مقررہ دن ان کے گھر میں پہنچ گئے۔ ماں، بہنوں اوربھائی سے گواہی لی اور پٹواری کے تیار کردہ کاغذات پر دستخط کر کے 70لاکھ کی جائیداد مذکورہ نوجوان کے نام کر دی اور اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا کہ ایک امانت کا بوجھ سر سے اتر گیا۔ نوجوان اب عرض کرنے لگا کہ جناب مولانا صاحب! اب تو ہمارے گھر سے کچھ کھا پی لیجئے۔ مولانانے سوڈا واٹر کی بوتل اٹھائی۔ چند گھونٹ لیے اور گھر سے نکل گئے۔ پٹواری اور اہل خانہ دیکھتے ہی رہ گئے کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں؟ مذکورہ نوجوان نے توبہ کر لی۔ جائیداد پر قبضے اور بددیانتی سے باز آ گیا۔ یہ ہے ایک کردارکی دعوت۔ اے کاش! یہ کردار زندہ ہو جائے۔ قارئین کرام! مذکورہ مولانا صاحب کون ہیں، میں آپ کو نہیں بتلائوں گا۔ ڈر ہے کہ بتلانے پر کہیں مولانا صاحب ناراض نہ ہوجائیں کہ وہ اپنے اس عمل کا بدلہ اپنے اللہ سے لینا چاہتے ہیں دنیا سے نہیں۔
اس موقع پر حکمرانوں سے گزارش کروں گا کہ وہ پورے ملک میں پولیس کو پابند کر دیں کہ جس کے پاس زمین، پلاٹ یا مکان کی رجسٹری اور انتقال ہو، اسی کا قبضہ یقینی بنائیں، دوسرے کے قبضے کو دہشت گردی قرار دیں اور قابض کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کریں۔ جس سوسائٹی کے ذمہ دار لوگ پلاٹ کو دو تین جگہ بیچیں، اس کی جائیداد ضبط کر کے متاثرین کو ان کا حق دیں اور ایسے فراڈیئے کو سخت ترین سزا دیں۔ میں سمجھتا ہوں اگر مذکورہ دو باتوں پر ہی عمل ہو جائے تو ملک کے لاکھوں مظلوم حکمرانوں کو دعائیں دیں گے۔ ناجائز قابضین جیلوں میں ہوں گے اور حقدار لوگ جو دردر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں اپنے گھروں میں بس جائیں گے۔ جائیدادوں کی بنیاد پر جو قتل ہوتے ہیں رک جائیں گے۔ درمیان والے بھتہ خور چوہدری جو قبضے دلانے کے عوض مظلوم پارٹی سے مال لیتے ہیں یا زمین کا حصہ رکھ لیتے ہیں یہ تیسرا طبقہ بھی خودبخود ختم ہو جائے گا۔ اے حکمرانو! مانا کہ تمہاری حکمرانی بھی ایسے ہی رویوں سے چلتی ہے مگر یہ تو بتلائو قیامت کے دن اپنی گردنوں پر کتنی زمینوں کا بوجھ لاد کر اٹھا سکتے ہو؟