"AHC" (space) message & send to 7575

حرمت رسولﷺ کے پاسبان امام کعبہ

امام کعبہ ڈاکٹر جسٹس صالح بن محمد پاکستان تشریف لائے اور واپس مکہ مکرمہ تشریف لے گئے۔ پاکستان میں ان کی یادوں کی خوشبوئیں تادیر ذرائع ابلاغ کی زینت بنتی رہیں گی۔ یوں تو حرمین شریفین کے بہت سارے امام ہیں مگر امام کعبہ کے طور پر دنیا بھر میں سب سے زیادہ معروف فضیلۃ الشیخ عبدالرحمن السدیس ہیں۔ وہ متعدد بار پاکستان تشریف لا چکے ہیں۔ پاکستان میں آخری بار وہ اس وقت تشریف لائے تھے جب پنجاب میں چودھری پرویز الٰہی وزیراعلیٰ تھے اور لاہور کے لارڈ میئر میاں عامر محمود تھے۔ چودھری صاحب نے اپنے گھر میں شیخ سدیس کے اعزاز میں ایک چھوٹی سی تقریب اور عشایئے کا بندوبست کیا تھا۔ میری خوش قسمتی کہ مدعوین میں شامل تھا اور شیخ سدیس حفظہ اللہ کے ہمراہ دسترخوان پر کھانے کا بھی موقع ملا۔ شیخ سدیس اب ''شئون الحرمین الشریفین‘‘ کے رئیس بن چکے ہیں۔ یعنی کعبہ شریف اور مسجد نبوی شریف کے تمام آئمہ کے امام بن چکے ہیں۔ ہم انہیں اماموں کے امام بھی کہہ سکتے ہیں۔یہ بہت بڑا اعزاز ہے جو انہیں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے ہاتھوں ملا ہے۔
مکہ بھی حرم ہے اور مدینہ بھی حرم ہے۔ مکہ مکرمہ ہمارے حضور عالیشانؐ کی جائے پیدائش ہے تو مدینہ منورہ ہمارے محبوب رسول کریمﷺ کی آخری آرام گاہ ہے جسے روضہء مبارک کہا جاتا ہے۔ جی ہاں! دونوں شہر ہی حرمت و عزت والے ہیں اور خبردار رہنا چاہئے کہ ان کی حرمت و عزت حضرت محمد کریمؐ کی حرمت و عزت کے ساتھ وابستہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام کعبہ جناب صالح بن محمد پاکستان تشریف لائے تو انہوں نے برملا اور دو ٹوک انداز میں کہا ''ہمارا ایمان ہے کہ ہمارا دین معافی، رواداری اور سلامتی کا دین ہے مگر ہم حرمتِ رسولؐ پر سمجھوتہ برداشت نہیں کر سکتے اور یہ کوئی رواداری نہیں کہ ہم ان لوگوں کو بے لگام چھوڑ دیں جو ہمارے پیارے نبیﷺ پر طعن کر کے ہمیں اذیت دیں، صحابہ کرام کو برا بھلا کہہ کر ہمیں تکلیف دیں اور اہل بیت کی گستاخی کر کے ہمارے
دلوں کو زخمی کریں۔ ہمیں چاہئے کہ ہم ان کی حرمت کے تحفظ کے لئے مضبوط فیصلے کریں‘‘۔ قارئین کرام! امامِ محترم سعودی عرب کی عدلیہ کے جسٹس بھی ہیں، پی ایچ ڈی ہیں اور امام کعبہ ہیں۔ آل ابی طالب یعنی ہمارے حضورﷺ کے چچا محترم جناب ابوطالب بن عبدالمطلب کے خاندان سے ان کا تعلق ہے۔ اہل بیت سے تعلق رکھنے والے امام پاکستان تشریف لائے۔ حضرت علی حیدر کرار رضی اللہ عنہ کے والد گرامی سے نسبی تعلق رکھنے والے ہاشمی امام پاکستان تشریف لائے۔ یہ سرزمین پاکستان کے لئے ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔ ان کی زبان سے حضور عالیشانؐ کی حرمت و عزت کے تحفظ اور پاسبانی کا دو ٹوک اعلان واضح کرتا ہے کہ اس سلسلے میں سعودی حکومت آخری حد تک حساس اور بیدار ہے۔
جناب ابو طالب کے بھتیجے حضرت عبداللہ بن عباسؓ بتلاتے ہیں کہ ''ایک دن حضرت جبریلؑ اللہ کے رسولﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ انہوں نے اوپر سے ایک زوردار آواز سنی۔ جناب جبریل نے سر اٹھایا اور پھر اللہ کے رسولﷺ کو بتلایا، یہ آسمان کا ایسا دروازہ ہے جو آج ہی کھولا گیا ہے، اس سے قبل کبھی نہیں کھلا، اس دروازے سے ایک فرشتہ برآمد ہوا ہے جو زمین پر آ گیا ہے اور اس فرشتے کا حال بھی یہ ہے کہ آج سے پہلے یہ زمین پر نہیں آیا۔ اس فرشتے نے اللہ کے رسولﷺ کی خدمت میں سلام پیش کیا اور پھر کہا ''دو نوروں کی خوشخبری لے کر آیا ہوں، یہ دونوں صرف اور صرف آپ ہی کو عطا فرمائے گئے ہیں۔ آپ سے پہلے کسی نبی کو عطا نہیں کئے گئے۔ ایک نور ''سورۃ فاتحہ‘‘ ہے اور دوسرا نور ''سورۃ البقرہ‘‘ کی آخری (دو) آیات ہیں۔ آپ جب بھی ان دونوں نوروں میں سے کوئی کلمہ تلاوت کریں گے تو آپ کو مانگی ہوئی چیز مل جائے گی۔‘‘ (مسلم:206)
قارئین کرام! جیسا کہ آل ابی طالب کے فرزند گرامی امام کعبہ نے فرمایا کہ ہمارا دین مہربانی اور سلامتی کا دین ہے۔ جی ہاں! پہلا نور سورۃ فاتحہ ہے، اس کی سات آیات ہیں اور پہلی آیت ''بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ ہے۔ یعنی نور کا آغاز یہاں سے ہوتا ہے کہ حضرت محمد کریمﷺ کا جو اللہ ہے اس کی پہچان یہ ہے کہ وہ ''رحمان‘‘ ہے۔ یعنی مخلوقات کے لئے بے حد مہربان ہے۔ ''م‘‘ کے اوپر جو کھڑا زبر ہے اسے جب ذرا سا لمبا کیا جاتا ہے تو منہ گولائی میں کھل جاتا ہے۔ سارا منہ مہربانی اور رحمت سے لبالب بھر جاتا ہے۔ یہ ''رحمان‘‘ کے لفظ کا صوتی حسن ہے یعنی پیدا ہونے والی آواز کی خوبصورتی ہے۔ اللہ اللہ! جب زمینی دیوتا وہ یونان وروما کے تھے، ہندوستان کے ساتھ یا سرزمین عرب کے تھے، وہ سب کے سب قہر اور بربادی کے سمبل اور نشان تھے۔ ان حالات میں حضرت محمد کریمﷺ پر جو نور آیا وہ رحمان کا تعارف لے کر آیا۔ ''رحمان‘‘ اللہ تعالیٰ کا ایسا صفاتی نام ہے جو مخلوق کے لئے جائز نہیں ہے۔ کوئی انسان رحمان نہیں ہو سکتا۔ صرف عبدالرحمن ہی ہو سکتا ہے۔ 
سورۃ البقرہ کی آخری دو آیات کا جو نور ہے، اس کا آغاز ''اٰمن الرسول‘‘ سے ہوتا ہے یعنی حضرت محمد کریم پر جو وحی نازل ہوئی اس پر سب سے پہلے آپﷺ ایمان لائے یوں آپ رسول ہیں تو اپنی رسالت کے سب سے پہلے مؤمن بھی آپ رسالت مآبؐ ہی ہیں۔ اس کے بعد ان پاکباز صحابہ کا تذکرہ جو آپ پر ایمان لائے اور پھر قیامت تک آنے والے مومنوں کا ذکر ہے کہ ''کلٌ اٰمن‘‘ سب کے سب اللہ پر، اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں اور رسولوں پر ایمان لائے اور وہ کہتے یہ ہیں کہ ہم اللہ کے رسولوں میں سے کسی ایک کے درمیان بھی فرق نہیں کرتے۔ جی ہاں! ہم تورات کو بھی مانتے ہیں اور انجیل کو بھی، زبور اور صحائف کو بھی اور حضرت موسیٰؑ اور عیسیٰؑ اور دیگر رسولوں کو بھی، یعنی حضرت محمد کریمؐ پر ایمان لانے والے ایسے مؤمن ہیں کہ ان سے ہر نبی کی عزت و حرمت نہ صرف محفوظ ہے بلکہ وہ پاسبان ہیں۔ اسی طرح ان سے نہ صرف یہ کہ ہر الہامی کتاب کی حرمت محفوظ ہے بلکہ وہ ہر ایک کی حرمت کے نگہبان ہیں۔ یوں یہ امن والے مؤمن لوگ ہیں کہ ان سے طعن و تشنیع کا کسی کو کوئی خطرہ نہیں لیکن ان کے پیارے اور محبوب رسول کریمﷺ کی اگر کوئی توہین کرے تو آلِ ابی طالب کے ہاشمی فرزند گرامی امام کعبہ ڈاکٹر جسٹس صالح بن محمد بن ابراہیم نے واضح کیا کہ یہ ناقابل برداشت ہے۔ ہم جب نور والے نور پھیلا رہے ہیں تو توہین جیسی جہالت کا اندھیرا اور ظلم کوئی رواداری نہیں۔ اس پر کوئی برداشت نہیں ہے۔ اس لئے کہ اس پر برداشت پرلے درجے کی بے غیرتی ہے اور مؤمن بے غیرتی برداشت نہیں کر سکتا۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ انسان کو غیرتمند ہونا چاہئے۔ اللہ کے رسول حضرت محمد کریمﷺ نے واضح کیا کہ اللہ تعالیٰ سب سے بڑے غیرتمند ہیں اور پھر میں سب سے بڑھ کر غیرتمند ہوں۔ بعض لوگ اپنے مفادات کی خاطر کسی پر توہین رسالت کی تہمت لگا دیتے ہیں۔ آل ابی طالب کے ہاشمی فرزند گرامی نے اس کا بھی نوٹس لیا اور فرمایا کہ ایسے لوگوں کے لئے سختی ہونی چاہئے کیونکہ اس طرح اللہ کا دین بدنام ہوتا ہے اور اغیار کو باتیں کرنے کا موقع ملتا ہے۔
امام محترم نے سعودی عرب اور پاکستان کو دو بھائی اور ایک جسم قرار دیا۔ انہوں نے پاکستان کی عسکری طاقت کو عالم اسلام کی طاقت قرار دیا اور اسلامی ممالک کا جو اتحاد بننے جا رہا ہے اس کے بارے میں انہوں نے واضح کیا کہ یہ اتحاد دہشت گردی اور فساد کے خلاف ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب دونوں اس کا شکار ہیں۔ قارئین کرام! پاکستان کی قومی سلامتی کے مشیر جنرل (ر) ناصر جنجوعہ بھی واضح کر چکے ہیں کہ جنرل (ر) راحیل شریف کی قیادت میں اسلامی ملکوں کا اتحاد کسی اسلامی ملک کے خلاف نہیں بلکہ سب کے لئے باہمی تنازعات حل کرانے کا ایک پلیٹ فارم ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مذکورہ اتحاد مضبوط ہوتا ہے تو مسلمان ملکوں میں غیراسلامی مداخلت جس طرح سے لاکھوں مسلمانوں کو شہید کر رہی ہے، دربدر کر رہی ہے اور کوئی بموں کی ماں مسلمان ملکوں پر گرا رہا ہے تو کوئی بموں کا باپ گرانے کی تیاری کر رہا ہے اس سے مسلمان ممالک اور ان کے عوام بچ جائیں گے۔ یہ ایک خوبصورت خواب ہے جس کو آل ابی طالب کے ہاشمی فرزند گرامی دیکھ رہے ہیں، کعبہ کے امام دیکھ رہے ہیں وہ کعبہ کہ جو ایسا مرکز ملت ہے کہ مسلمانوں کے ہر مسلک کی مسجد کا رخ کعبہ کی جانب ہے، اللہ کے حضور دعا ہے کہ اتحاد امت کی خاطر ہماری سوچوں کی سمت بھی امام کعبہ کی سوچ کی جانب ہو جائے۔ بقول علامہ اقبال: 
دنیا کے بت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا
ہم اس کے پاسباں ہیں، وہ پاسباں ہمارا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں