ہندوستان کی زمینی حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں نے اس پر ہزار سال حکمرانی کی ہے اور آج یہ بھی زمینی حقیقت ہے کہ ہندوستان میں ہندوئوں کی اکثریت ہے۔ یہ اکثریت کہ جس کے بل بوتے پر بی جے پی نے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ یہ اکثریت اس زمینی حقیقت کا زبان حال سے اعلان بھی کر رہی ہے کہ مسلمانوں نے اپنی ہزار سالہ حکمرانی کے دور میں رواداری سے کام لیا ہے، جبر کو اختیار نہیں کیا زور زبردستی سے کسی کو مسلمان نہیں بنایا، جو مسلمان بنے ہیں وہ اپنی مرضی سے بنے ہیں۔ وہ علماء اور مشائخ کی دعوتی جدوجہد سے مسلمان بنے ہیں۔ حسین کردار سے مسلمان بنے ہیں، چھوت چھات اور ذات پات کی تقسیم سے تنگ آئے ہندو لوگ مسلمان بنے ہیں، وہ اسی دھرتی کے لوگ ہیں، یہیں کے باسی ہیں، برصغیر کے باشندے ہیں۔ زمینی حقیقت بہرحال یہی ہے کہ ہزار سال ایک بہت بڑی مدت ہوتی ہے، اس لمبی مدت میں چالیس کے قریب نسلیں گزر جاتی ہیں، زبان، کلچر، تہذیب، تمدن اور رنگوں، نسلوں اور عقائد و نظریات میں فرق پیدا ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک فطری تسلسل ہے جو رونما ہو کر رہتا ہے لیکن اگر اس قدر لمبی حکمرانی میں چند حکمران ہی جبر شروع کر دیں، ظلم کے ساتھ نظریات تبدیل کرنا شروع کر دیں تو ہزار سال تو دور کی بات ہے ہزار سال کے بیسویں حصے یعنی صرف 50 سالوں میں ایک مذہب کی جگہ پر دوسرا مذہب جگہ لے لیتا ہے مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنی ہزار سالہ حکمرانی میں ایسا کوئی جبر نہیں کیا اور اسی لئے نہیں کیا کہ قرآن نے واضح کر دیا: ''لا اکراہ فی الدین‘‘ دین میں جبر کوئی نہیں یعنی دل دلیل سے بدلتا ہے تلوار سے نہیں۔ خون تو بہتا ہے اورخون بہہ جانے سے دل بند تو ہو سکتا ہے مگر بدل نہیں سکتا۔
جی ہاں! اسلام تو دلوں کو بدلنے آیا ہے، دلوں کا خون بہانے نہیں آیا، بس وہ خون اتنا ہی بہاتا ہے جتنا ضروری ہوتا ہے۔ وہ جنگ کے میدان میں اپنے مدمقابل جنگجوئوں کا خون بہاتا ہے اور بس۔ یہ خون انتہائی محدود لوگوں کا خون ہوتا ہے، اور محدود وقت کے لئے ہوتا ہے۔ ایک معرکے میں دو تین دن کا وقت ہو سکتا ہے اور پھر سالہا سال پوری انسانیت کے لئے امن اور آزادی کا دور ہوتا ہے۔ جی ہاں!ْ یہ ہے وہ زمینی حقیقت جو آج ہندوستان کی زمین پر نظر آتی ہے کہ ہندو اکثریت میں ہیں، ان کے مندر اور ان کے آشرم تین تین ہزار سال پرانے ہیں اور ہندوستان میں موجود ہیں، یہ زمینی حقیقت اعلان کر رہی ہے کہ مسلمانوں کی ہزار سالہ حکمرانی کیسی تھی؟
ہندوستان میں 100 سالہ حکمرانی کا موقع انگریزوں کو بھی ملا، چونکہ انہوں نے اقتدار مسلمانوں سے حاصل کیا تھا، اس لئے مسلمان اپنا کھویا ہوا اقتدار حاصل کرنے کے لئے جدوجہد بھی کرنے لگے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمان نظر انداز کئے گئے، ہندو نوازے گئے لیکن جبر کے ساتھ کسی کو مسیحی نہیں بنایا گیا۔ عمومی طور پر انگریز کے رویے کی زمینی حقیقت بہرحال یہی ہے کہ ان کے پادریوں کی دعوت اور مشنری سرگرمیوں کی وجہ سے آج تین کروڑ کے قریب مسیحی بھی موجود ہیں، یہ بھی ہندوئوں سے ہی مسیحی ہوئے ہیں، ان کو جبر سے مسیحی نہیں بنایا گیا۔
انگریز کے یہاں سے جانے کے بعد برصغیر تقسیم ہو گیا، پاکستان معرض وجود میں آ گیا، انگریز کا انڈیا آج اپنے دامن میں 25 کروڑ کے قریب مسلمانوں کو بھی سمائے ہوئے ہے۔ انڈین کانگریس نے حکومت بنائی اور پنڈت جواہر لعل نہرو حکمران بن گئے، سیکولرزم کو انڈیا کی پہچان قرار دیا گیا لیکن ہندوئوں کے لئے چانکیہ کا جو نظریہ تھا کہ ''بغل میں چھری رکھو منہ سے رام رام کہو‘‘۔ کانگریس کے دور میں ہی اس کی حقیقت یوں سامنے آئی کہ کانگریس پارٹی نے ایک وفد سپین بھیجا کہ وہ یہ معلوم کر کے آئے کہ وہاں مسلمانوں نے آٹھ سو سال حکمرانی کی اور جب وہاں عیسائی حکمرانی آئی تو کیسے چند سال میں مسلمانوں کا نام و نشان مٹ گیا۔ اندلس جیسا وسیع علاقہ کہ جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی وہاں بھی ان کا نام و نشان نہ رہا تو انہوں(عیسائیوں) نے کونسا طریقہ استعمال کیا کہ جس کی وجہ سے چند سالوں میں آٹھ سو سالوں کی زمینی حقیقت بالکل الٹ ہو کر رہ گئی۔ اس واقعے کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ انڈیا میں ہندو مسلم فسادات بڑھتے چلے گئے۔ بہرحال! ہم دیکھتے ہیں کہ کانگریس اپنی دوغلی پالیسی اور منافقت کی وجہ سے کامیاب نہیںہونے پائی... اور اس کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ پاکستان کا وجود ہے کہ جب تک پاکستان قائم ہے انڈیا کے مسلمان قائم ہیں، لیاقت نہرو پیکٹ میں بھی انڈیا کے مسلمانوں کی حفاظت کا ذمہ دار انڈیا اور پاکستان میں ہندوئوں کی حفاظت کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا گیا ہے۔ پاکستان اس پر قائم ہے جبکہ انڈیا اس عہد کی دھجیاں اڑا رہا ہے۔ کانگریس کے منافقانہ دور کے بعد اب بی جے پی کھل کر سامنے آ گئی ہے۔ نریندر مودی اور اس کی سرکار واضح طور پر مسلمانوں کو ہندو بننے، رام رام کہنے اوریا پھر پاکستان جانے کی دھمکیوں پر اتر آئی ہے۔ ہندو یوگی اور جوگی وزراء اعلیٰ بننے لگ گئے ہیں۔ اہم ترین شعبوں کے سربراہ اور مرکزی اور صوبائی وزراء بن گئے ہیں اور انڈیا کو مسلمانوں سے خالی کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔
یہ زمینی حقیقت تو بہرحال تسلیم کر لی گئی کہ سپین نے اگر آٹھ سو سالہ مسلم حکمرانی کو چند سالوں میں ظلم و بربریت کا بازار گرم کر کے، مسلمانوں کے جہازوں کو سمندر میں ڈبو کر، قتل عام کر کے، جبراً عیسائی بنا کر صورت حال تبدیل کر لی تو وحشت و بربریت اور عدم برداشت کی کالک فرڈیننڈ اور ازابیلا کے حصے میں آئی اور رواداری اور برداشت، حلم اور حوصلہ، مذاہب کی آزادی، عبادت گاہوں کی آزادی، مسلمانوں کا رویہ ٹھہری۔ زمینی حقیقت بہرحال یہ ہے کہ آج نریندر مودی سرکار سپین کے فرڈیننداور ملکہ ازابیلا کے کردار کو سامنے رکھ کر آگے بڑھ رہی ہے مگر یہ بھی زمینی حقیقت ہے کہ سپین کے پڑوس میں کوئی پاکستان نہ تھا اور گرائونڈ رئیلٹی یہ ہے کہ ہندوستان کے پڑوس میں اک پاکستان ہے لہٰذا ہندوستان یہ کام نہیں کر سکتا، اس کام میں تیزی لائے گا تو باقی ماندہ ہندوستان کے وجود سے محروم ہوتا چلائے گا۔ یہ وہ حقیقت ہے جسے انڈیا کی اسٹیبلشمنٹ کسی حد تک سمجھ چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی مداخلت سے رام مندر کے مسئلے کو فی الحال لٹکا دیا گیا ہے اگر آدتیہ ناتھ کے وزیراعلیٰ بننے پر اسے نہ لٹکایا جاتا اور یوپی میں واقع ایودھیا میں رام مندر بننے کی راہ ہموار ہو جاتی تو ہندوستان اپنے انجام کو پہنچنے میں جلدی کر دیتا۔
کشمیر اور ہندوستان کے حالات کو دیکھتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ نے سجن جندال کو ''جو اسٹیل کا تاجر ہے اور میاں نواز شریف سے کاروباری تعلق رکھتا ہے‘‘ پاکستان بھیجا گیا۔ مگر سوال یہ ہے کہ ایک ایسے موقع پر جب کلبھوشن کے بعد ٹی ٹی پی کے ترجمان احسان اللہ احسان نے سرنڈر کر دیا اور اپنے بیان میں واضح کہا کہ ہمارے لوگوں نے پاکستان میں جو دہشت گردی کی اور کر رہے ہیں اس کے پیچھے انڈیا ہے۔ پیسے بھی وہ دیتا ہے، رسائی بھی فراہم کرتا ہے، زمین افغانستان کی استعمال ہوتی ہے، ہم سمجھتے ہیں ایسے موقع پر میاں صاحب کی جندال سے ملاقات انڈین اسٹیبلشمنٹ کے لئے تو مفید ہے مگر پاکستان کے لئے مفید نہیں ہے۔
پاکستان کو اس موقع پر چاہئے تھا کہ وہ انڈیا کے دہشت گردانہ چہرے کو بے نقاب کرتا، کشمیر کمیٹی ہندوستان کے ظالم چہرے کو دنیا کے سامنے رکھتی۔ ہندوستان میں بی جے پی کے مظالم کا کالا چہرہ دنیا کو دکھلایا جاتا۔ پاکستان میں کلبھوشن اور ٹی ٹی پی کے ذریعے دس ہزار پاک فوج کی شہادتیں اور ستر ہزار عام پاکستانیوں کی شہادتوں کا مقدمہ یو این، یورپی یونین، او آئی سی، عالمی عدالت انصاف اور دیگر عالمی فورمز پر رکھا جاتا۔ پاکستان میں عوامی سطح پر اس پر احتجاج ہوتا، 80 ہزار شہداء کے وارث سراپا احتجاج بنتے۔ میاں نواز شریف کی حکومت دنیا کو بتلاتی کہ ہماری ہزار سالہ حکومت کی زمینی حقیقت بھی دیکھو اور ہندوستان کی ستر سالہ زمینی حقیقت بھی ملاحظہ کرو، ان کی حکمرانی انسانیت کے لئے تباہ کن ہے۔ علاقائی امن کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے، مگر آہ! ایسا کرنے کی بجائے جندال سے جو ملاقات کی گئی اس سے کشمیر اور ہندوستان کے مظلوم مسلمانوں کو اچھا پیغام نہیں گیا...محترم میاں نواز شریف صاحب سے گزارش ہے کہ ملاقاتیں کرنا آپ کا فرض منصبی ہے، مگر وقت کا تعین بہت بڑی حکمت ہے۔ فرائض کی ادائیگی بھی نہ ہو اور وقت بھی نامناسب ہو تو پیغام کیا جائے گا؟ جناب میاں صاحب! آپ کی سیاست کے لئے بھی ٹائم مناسب نہ تھا لہٰذا کشمیر، ہندوستان کے مظلوم مسلمان اور خود اپنی سیاست کے لئے نامناسب پیغام کا ازالہ کیجئے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب کنٹرول لائن پر گئے اور انڈیا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر میں ریاستی ظلم کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ جی ہاں! پیغام خوب گیا مگر آپ کا پیغام بھی کچھ ایسا ہوتا تو کیا خوب ہوتا؟