ہمارے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف صاحب کے علم میں ہو گا جبکہ میاں شہباز شریف صاحب جیسے چین سپیشلسٹ اور پنجاب سپیڈ شاہسوار کے ذہن میں تو یہ خبر ضرور ہو گی کہ چین کے چار محسن ہیں۔ پہلے نمبر پر چیئرمین مائوزے تنگ ہیں، دوسرے نمبر پر چواِن لائی ہیں، تیسرے نمبر پر ایک مسلمان ڈاکٹر جارج شفیق حاتم ہیں اور چوتھے نمبر پر ایک مسیحی صحافی ایڈگر سنوکر ہیں۔ میں اسی ترتیب کے ساتھ چاروں کے کردار کو اپنے زیر نظر کالم کی زینت بنانے جا رہا ہوں اور پھر اپنے وزیراعظم اور چاروں وزرائے اعلیٰ کی خدمت میں اپنا جائزہ لینے کی درخواست کرنے والا ہوں۔ پاک چین دوستی کے معمار ذوالفقار علی بھٹو مرحوم بیجنگ میں چیئرمین مائوزے تنگ کے پاس بیٹھے گفتگو کر رہے تھے۔ ان کے ساتھ بلوچستان کے گورنر میر احمد یار خان مرحوم نواب آف قلات بھی موجود تھے۔ گورنر صاحب کے صاحبزادے میر سلمان دائود مرحوم بھی وہاں حاضر تھے۔ میر احمد یار خان کی نظر چیئرمین مائو کے کوٹ پر پڑی کہ پھٹے ہوئے کوٹ کو پیوند لگے ہوئے تھے۔ میر احمد یار خان نے سوال کر دیا کہ چیئرمین صاحب! آپ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بڑے ملک کے انتہائی محترم قائد ہیں اور آپ کے کوٹ کو پیوند لگے ہوئے ہیں۔ اس پر چیئرمین مائو مسکرائے اور کہا: میں نے جنرل عمرؓ کے کردار کو پڑھا ہے اور انہی کے کردار نے میرا یہ رنگ و روپ بنایا ہے۔ یعنی آج کا چین جو ہمیں عسکری اور معاشی لحاظ سے مستقبل قریب کی سپرپاور نظر آ رہا ہے اس کے پیچھے چیئرمین مائو کا کردار ہے جس میں چین کے لئے ایثار اور قربانی ہے اور ذات کے لئے لالچ نام کی کوئی شے نہیں۔ قارئین کرام! مذکورہ واقعہ میر سلمان نے خود اپنی رہائش گاہ پر مجھے بتلایا جب آج سے کوئی 25 سال قبل میں کوئٹہ میں ان کے دسترخوان پر بیٹھا تھا۔
چین کے دوسرے محسن چواِن لائی ہیں، چوِان لائی چیئرمین مائو کی قیادت میں انقلاب چین کے اہم ترین لیڈر تھے۔ ایک میگزین کا ایڈیٹر بن کر انہوں نے انقلاب کی راہ ہموار کی۔ گوریلا کمانڈر بن کر لڑائیاں بھی لڑیں۔ اسی جدوجہد میں ان کی ملاقات ایک نوجوان لڑکی سے ہوئی۔ یہ لڑکی مسلمان تھی اور اس کا نام تُنگ تھا، محترمہ تُنگ کا تعلق بھی چیئرمین مائو کی پارٹی سے تھا وہ ایک ذمہ داری بھی نبھا رہی تھیں۔ چواِن لائی اور تنگ میں شادی کے بندھن میں بندھنے کا پیمان بندھا۔ انقلابی جدوجہد کے دوران شادی کا موقع کئی سال بعد ملا۔ اور شادی کے بعد جب بچہ پیدا ہونے والا تھا تو دونوں میاں بیوی کو ایک کٹھن اور جانگسل مرحلے سے گزرنا پڑا۔ اس دوران بچہ ضائع ہو گیا اور پھر چواِن لائی کی اہلیہ محترمہ بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو گئیں۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد چواِن لائی پہلے وزیراعظم بنے تو انہوں نے چین کے یتیم بچوں کی اپنے بچوں کی طرح پرورش شروع کر دی۔ ایک بچے کو ان کی اہلیہ نے اپنا بیٹا بنا کرخود پالنا شروع کر دیا۔ یہ بچہ چواِن لائی کی وفات کے کچھ عرصہ بعد میرٹ پر وزیراعظم بن گیا۔ یہ انجینئر تھا، بجلی اور ڈیموں کا انچارج تھا، چین دنیا میں ترقی یافتہ تب ہو سکتا ہے جب بجلی مفت دی جائے۔ اس بصیرت کو لے کر انجینئر صاحب آگے بڑھے اور ان کے ویژن کی وجہ سے آج چین عظیم اقتصادی طاقت ہے۔ اس انجینئر وزیر اعظم اور ویژنری لیڈر کا نام جناب لی پنگ ہے۔
چین کے وزیراعظم چواِن لائی نے روسی کمیونزم سے ہٹ کر آزاد خارجہ پالیسی اپنائی اور معاشی نظام بھی اپنا بنایا۔ انہوں نے واضح کیا کہ امریکہ اور روس کا نظام سودی قرضے دے کر قوموں کو غلام بناتا ہے اور ان کا استحصال کرتا ہے۔ ہم اس کے برعکس امداد حاصل کرنے والے اپنے دوست ملک کو اس کے پائوں پر کھڑا کریں گے۔ چینی سرمایہ داروں اور کارکنوں کو بھی اس بات کا پابند بنایا گیا کہ وہ مقامی کارکنوں اور مزدوروں کی بہبود میں حصہ بھی ڈالیں اور جیسے حالات میں وہ ہیں ویسے ہی حالات میں ان کے ساتھ کام کریں۔ الغرض! اس پالیسی سے روس ناراض ہو گیا اور پالیسی بدلوانے کے لئے جنگ کرنے پر بھی اتر آیا۔ دس لاکھ فوج روس نے چین کے بارڈر پر لگا دی۔ امداد بھی بند کر دی۔ معاشی پابندیاں لگا دیں۔ چیئرمین مائو کی قیادت میں چوان لائی ڈٹ گئے فوج اور ساری عوام کو لڑنے پر تیار کر دیا۔ یہ بات 1961ء کے دنوںکی ہے چوان لائی بارڈر پر گئے، حالات کا جائزہ لیا۔ جب رات کا وقت ہوا تو دسترخوان پر کھانا رکھ دیا گیا۔ مرغی کا گوشت تھا، انڈے تھے، روٹیاں تھیں، دسترخوان کودیکھا تو کہنے لگے کیا سب لوگ یہی کھانا کھا رہے ہیں؟ جواب ملا وہ الگ کھانا کھائیں گے۔ چوان لائی اب کچی اینٹوں کے بنے ہوئے اس باورچی خانے میں چلے گئے جہاں لوگ درختوں کے پتوں کو ابال کر کھانے کی تیاری کر رہے تھے۔ ساتھ خشک کی ہوئی پتھر جیسی موٹی روٹی تھی جو مکئی کی تھی اور ہر ایک کے حصے میں تھوڑی سی تھی۔ چوان لائی نے وہیں بیٹھ کر درخت کے پتوں کا سوپ پیا۔ چودہ دن وہاں رہے اور درخت کے پتوں کا سوپ پیتے رہے۔
پھر وہ یہاں رہائش کے دوران مقامی بستیوں میں جا کر عوام کا حال معلوم کرنے لگے۔ ایک بچی اپنی کمر کے ساتھ ایک ٹوکری باندھے جا رہی تھی۔ چوان لائی اس بچی کے پاس چلے گئے۔ ٹوکری میں دیکھا کھانے کی کون سی چیزیں ہیں؟ مگر وہ تو درختوں کے پتے تھے۔ چوان لائی نے کہا، میری قوم درختوں کے پتے کھا رہی ہو اور میں کھانے کھائوں۔ یہ نہیں ہو سکتا۔ وہ ایک سکول میں گئے وہاں ایک مخلص استاد گائوں کے بچوں کو پڑھا رہا تھا۔ اس کے پاس جوتا نہ تھا۔ چوان لائی نے کلاس روم میں سب بچوں کے سامنے استاد کے پائوں میں زمین پر بیٹھ کر جوتا پہنایا۔ جی ہاں! چوان لائی نے یہ کردار کہاں سے لیا؟ چین سے واپس آنے والے حکمرانو! ذرا رب کریم کے حبیب اور خلیل حضرت محمد کریمؐ کی سیرت تو دیکھو۔ راہِ جہاد میں حضورؐ کے صحابہ نے درختوں کے پتے کھائے۔ صحابہ خود کہتے ہیں کہ ہم بکری کی مینگنیوں کی طرح قضائے حاجت کرتے تھے۔ حضرت عائشہؓ بتلاتی ہیں ہمارے گھر میں تین ماہ تک آگ سے چولہا گرم نہیں ہوا۔ یعنی اہل مدینہ کھجور پر گزارہ کر رہے ہیں تو حضورﷺ بھی کھجور پر... کچھ مال آیا تو حضورؐ نے حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کو نہیں دیا۔ ضرورت اور استحقاق بھی تھا، مانگا بھی تھا مگرحضورﷺ نے نہیں دیا اور صفہ والے جو تعلیم حاصل کر رہے تھے، فرمایا، ان کو دوں گا وہ زیادہ ضرورت مند ہیں۔ میں کہتا ہوں چوان لائی ایسے وزیراعظم تھے جنہوں نے ہمارے حضورﷺ کی تعلیمات پر عمل کر دکھلایا۔ ہمارے حضورﷺ نے اپنے غلام زیدؓ کو فوجوں کا سالار بنا دیا تو چوان لائی کے ہاتھوں پلا ہوا یتیم بچہ وزیراعظم بن گیا۔ یہ ہیں چین کے دوسرے بڑے محسن چوان لائی جو 1974ء میں فوت ہوئے تو ان کا دفتر اس قدر سادہ تھا کہ لکڑی کی میز اور چند سادہ سی کرسیاں پڑی تھیں۔ جائیداد وغیرہ کچھ بھی نہ تھی جو تھا بس قوم کے لئے تھا۔ ایسے لوگ محسنِ ملت ہوتے ہیں۔
چین کے سرکاری طور پر تیسرے محسن جارج شفیق حاتم ہیں، یہ اردن کے رہنے والے مسلمان تھے۔ یہ ڈاکٹر تھے، انہوں نے13 سال تک کی جدوجہد میں چیئرمین مائو کے ساتھ ان کے زخمی گوریلا جنگجوئوں کا علاج کیا تھا۔ یہ بہترین سرجن ڈاکٹر تھے، چین نے یہ نہیںدیکھا کہ وہ مسلمان تھے، ان کی خدمات کو دیکھا اور انہیں چین کی قوم کا محسن قرار دے دیا۔ وہ پہلے اور غالباً واحد غیرملکی ہیں جن کو باقاعدہ چینی شہریت دی گئی۔ چین نے اپنے جس چوتھے شخص کو چین کی قوم کا محسن قرار دیا ان کا نام ایڈگر سنو ہے۔ یہ امریکی صحافی تھے، چین چلے آئے اور چیئرمین مائو کے عظیم لانگ مارچ کی آنکھوں دیکھی رپورٹنگ کی۔ دنیا بھر کو چین کے حالات سے آگاہ کیا۔ امریکہ کے لوگوں کو باخبر کیا۔ اسی عظیم لانگ مارچ کے بعد چیئرمین مائو اور چواِن لائی چین پر اپنا قبضہ جمانے میں کامیاب ہوئے تھے۔ ایڈگرسنو نے اپنی یادداشتوں پر کتاب Red Star Over China بھی لکھی۔ رپورٹنگ اور کتاب یہ وہ خدمت تھی جس کے تشکر میں یہ نہ دیکھا گیا کہ وہ امریکی ہیں اور مسیحی ہیں بلکہ انسانیت کو دیکھا گیا۔ ان کی خدمت کا اعتراف کیا گیا اور چین کا محسن قرار دے دیا گیا، یوں چین کے چار سرکاری محسنوں میں سے دوچینی ہیں تو دو غیر چینی ہیں۔
قارئین کرام! آج 2017ء کا چین دنیا کی ایک عظیم طاقت ہے۔ اس کا ورلڈ آرڈر قوموں کے ساتھ اشتراک، امن، محبت، بھائی چارہ اور ساجھے داری کا ورلڈ آرڈر ہے۔ امریکہ سے بالکل مختلف ہے۔ ایک خطہ اور ایک روڈ کا اقتصادی نظریہ تین براعظموں پر پھیل رہا ہے۔ باقی دنیا کو شمولیت کی دعوت دے رہا ہے۔ ہمارے وزیر اعظم میاں نوازشریف کو خصوصی عزت کا استحقاق عطا کیا گیا۔ میاں شہباز شریف کی خدمات کو سراہا گیا۔ میاں نواز شریف صاحب چاروں وزرائے اعلیٰ کو ساتھ لے کر گئے تھے۔ میں صرف اتنا عرض کروں گا، چاروں حضرات اپنا کردار بھی دیکھیں اور چین کے چار محسنوں کا کردار بھی دیکھیں۔ اگر آپ مذکورہ کردار کی خوشبو لے کر آئے ہیں تو چین کے دورہ کی مبارک ہو۔ مبارک ہو۔ اللہ کرے کہ ہم مذکورہ کردار کی سو فیصد نہ سہی 20 فیصد ہی جھلک دیکھیں تو میرے اہل وطن کو دورے کی مبارک ہو۔