"AHC" (space) message & send to 7575

احمد پور کا سیاہ حادثہ اور نورانی گلاب

کوئی 45سال کا انسان، انتہائی حسین اور چہرہ پُرجمال، اُوپر سے خالص ریشمی پوشاک، دائیں ہاتھ کی چھنگلیا میں قیمتی ہیرے کی چھاپ اپنی سیاہ زلفوں کو تولیے میں لپیٹے ہوئے وہ میرے سامنے آن بیٹھا، میں اس کے عالی شان ڈرائنگ روم میں بیٹھا اس کا انتظار کر رہا تھا جب میں اس سے بغلگیر ہوا تو اس کے سر سے ایسی شاندار مہک اٹھی جو تولیے سے چھن چھن کر میری قوتِ شامہ کو حیرت اور مسرت کے ملے جلے جذبات سے آگاہ کر رہی تھی۔ اب جونہی وہ اپنے، ہرن سے تیار کردہ صوفے پر بیٹھا اور سر سے تولیے کو اتار کر برش سے زلفوں کو سنوارنا شروع کیا تو کچھ نہ پوچھئے کہ خوشبو نے دماغ کو کیسا سکون بخشا۔ میں نے پوچھ لیا کہ سر پر آپ نے کون سا تیل لگایا ہے؟ کہنے لگا، عُود کی لکڑی جو انڈیا اور افریقہ میں پیدا ہوتی ہے اس کے خشک تنے کو کاٹ کر درمیان سے تیل نکالا جاتا ہے۔ میں نے یہ تیل استعمال کیا ہے۔ میں سبحان اللہ، سبحان اللہ کا ورد کرے لگا۔ اپنے اس خالق کی تسبیح کرنے لگا کہ جس نے لکڑی کے تنے میں ایسا تیل پیدا کر دیا ہے اور حضرت انسان اس سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ اتنے میں ایک خادم اسی لکڑی کی دھونی والا عربی برتن کمرے میں لے آیا۔ اب تو ڈرائنگ روم کا ظاہر حسن خوشبویات کے جلو میں انتہائی حسین لگ رہا تھا۔ ابھی میں عود کے ڈبل لطف کے سحر سے نکل نہ پایا تھا کہ ایک چاق چوبند وردی پہنے ہوئے ملازم دو عدد خوشبویات لے کر حاضر ہوا۔ ان میں سے ایک خوشبو کستوری کی تھی۔ ملازم نے اپنے مالک کے ریشمی لباس پر اس کا چھڑکائو کیا۔ پھر مالک کے اشارے پر ملازم نے مجھ پر بھی چھڑکائو کر ڈالا۔ مالک کہنے لگا یہ ہرن کے نافے سے تیار ہونے والی خالص کستوری کا سپرے ہے۔ میں نے کہا خوشبو ہی بتلا رہی ہے کہ کس قدر خالص ہے۔ تعریف اس مولا کریم کی کہ جس نے ہرن کی ناف کی مَیل کچیل کو کستوری بنا دیا۔ ہم انسان تو اپنی ناف کی میل کچیل کو صابن سے صاف ہی کرتے ہیں۔ یہ سب میرے مولا کریم کی قدرتوں کے نظارے ہیں۔ ملازم نے اب کے اپنے مالک کو واسکٹ پہنائی اور اس پر عنبر کی خوشبو کا چھڑکائو کر دیا۔ عنبر نے ماحول کو عنبریں بنا کر ایسا دلنشیں بنایا کہ دل زندگی بھر بھلا کہاں بھولنے پائے۔ مالک کہنے لگا، حمزہ صاحب! یہ خالص عنبر ہے، میں نے کہا ہاں ہاں میں عنبر کے بارے میں کافی حد تک جانتا ہوں۔ مالک کہنے لگا مجھے بھی بتلائو، میں نے کہا حضرت یونس علیہ السلام جس مچھلی کے پیٹ میں گئے تھے، قرآن نے اسے ''حوت‘‘ کہا ہے۔ اس حوت نے حضرت یونس علیہ السلام کو نگل لیا تھا۔
''حوت‘‘ مچھلی سمندر میں چار کلومیٹر تک گہرائی میں رہتی ہے۔ اس کی تین معروف اقسام ہیں۔ ایک نیلی قسم بھی ہے، اس کی لمبائی 100فٹ تک ہوتی ہے۔ چالیس پچاس فٹ کے قریب چوڑائی ہوتی ہے، یعنی ایک کنال کا ڈبل سٹوری گھر ہو تو اتنی بڑی یہ مچھلی ہوتی ہے۔ گہرے سمندر میں یہ مخصوص پانی جب پیتی ہے تو اس کی انتڑیوں میں جو بڑے بڑے پائپ ہوتے ہیں ان میں عنبر تیار ہوتا ہے جب یہ تیار ہو جاتا ہے تو ''حوت‘‘ مچھلی کنارے پر آ کر قے کر دیتی ہے۔ حوت کی قے ہی عنبر ہے۔ سمندر کے کنارے سے مراد وہ کنارا ہے جہاں تک مچھلی پانی میں آ سکتی ہے۔ اب وہاں سے لہروں کے ذریعے عنبر کے ٹکڑے کنارے پر آ جاتے ہیں۔ شکاری لوگ جال لگا کر اس عنبر کو پانی میں سے نکال لیتے ہیں اور کبھی کبھار یہ ٹکڑے سمندر کے ریتلے کنارے پر بھی آ جاتے ہیں۔ ادھر میں نے اپنی گفتگو کا آخری لفظ بولا ہی تھا کہ ادھر ملازم ایک ٹرے لے کر ڈرائنگ روم میں داخل ہوا، اس نے دو رکابیاں ایسی رکھیں کہ ایک میں چاندی کے ورق لگے ہوئے تھے تو دوسری میں سونے کے سنہری ورق لگے ہوئے تھے۔ میرا میزبان مجھے کہنے لگا، حمزہ صاحب سونے کے ورق کے نیچے میوہ جات سے جو حلوہ تیار کیا گیا ہے اس میں کستوری کی آمیزش ہے اس سے دل اور دماغ مضبوط ہوتا ہے۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا، میرا تو کام ہی دماغی ہے، لگتا ہے آپ کے پاس ہر ہفتے نہیں تو مہینے میں ایک بار تو حلوہ کھانا پڑے گا۔ میزبان نے کہا آپ روزانہ بھی کھا سکتے ہیں۔ یہ آپ کا گھر ہے، میں نے شکریہ ادا کیا اور میزبان نے دوسرے حلوے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کے نیچے عنبر سے تیار کردہ حلوہ ہے یہ مرد کی جسمانی قوت کو تقویت پہنچاتا ہے۔ تب میں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ اچھا اس ڈرائنگ روم میں پہلوان بننے کا بھی سامان موجود ہے اور اسکالر و دانش ور بننے کا نسخہ بھی موجود ہے۔ خاص طور پر ہارون الرشید، سہیل وڑائچ، بابر اعوان، عطاء الحق قاسمی، جاوید چوہدری، سلیم صافی، حامد میر، مجیب الرحمن شامی، ضیاء شاہد، ذوالفقار چیمہ، ڈاکٹر اے کیو خان، اظہار الحق کو ضرور بتلائوں گا کہ آپ کے ہاں پہلوانی اور دانشوری کا سامان اور نسخہ موجود ہے۔ اب میں آپ کے گھر کا ان کو پتہ بتائوں گا۔ یوں ابھی دل لگی ہو رہی تھی کہ ملازم اندر داخل ہوا۔ بکری کا دودھ لایا، ایسی بکری کہ جسے میوہ جات، پھل اور گھاس میں زعفران ملا کر کھلایا جاتا ہے۔ پھر
اس کے دودھ میں میٹھا ڈالنے کے لئے کئی اقسام کا شہد موجود تھا۔ آموں کے باغ میں جو شہد تیار ہوا اس میں سے انور لٹور کی مہک آ رہی تھی اور جو مالٹے کے باغ میں تیار ہوا اس میں سے مالٹے کی بھینی بھینی مہک آ رہی تھی۔ میں نے مالٹے والا شہد بکری کے دودھ میں ڈالا۔ جام ہاتھ میں پکڑا اور عنبر و کستوری کے حلوہ جات کے ساتھ کھانے لگ گیا اور چسکیاں لینے لگا۔ 
میں میزبان سے مخاطب ہوا اور اپنے دوست سے عرض کرنے لگا، میں نے جتنی نعمتیں آپ کے جسم پر اور آپ کے دستر خوان پر دیکھیں، کھائی ہوئی نعمتوں کا حاصل یہ ہے کہ آپ کو اپنے واش روم میں جانا پڑتا ہے۔ حوت مچھلی کی قے اس قدر اعلیٰ ہے کہ وہ آپ کے جسم کے اوپر اور اندر بھی گئی۔ ہرن کے ناف کی میل کچیل اس قدر عالی شان ہے کہ آپ کے جسم پر بھی چھڑکائو ہوا اور معدے میں بھی گئی۔ ریشمی لباس ہمارے حضور کریمﷺ نے مردوں کے لئے منع فرمایا ہے، آپ اس لباس سمیت بھاگ بھاگ واش روم میں چلے گئے۔ ساتھ محسوس کیا کہ جسم سے پسینے کی بو آ رہی ہے چنانچہ ریشمی پوشاک کو وہاں پھینکا اور اک بنیان پہنے باہر نکل آئے، اور پھر سے اسی بکھیڑے میں پڑ گئے جو ابھی ہم نے دیکھا، اللہ نے اسے کھیل تماشا قرار دیا ہے۔ ہمارے حضور حضرت محمد کریمﷺ کا اس دنیا میں بھی جو پسینہ مبارک تھا۔ صحیح بخاری میں ہے، اسے حضرت ام سلیم نے شیشی میں محفوظ کر لیا تھا اور اس میں سے کستوری کی مہک آیا کرتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبیﷺ کی امت کو آگاہ کر دیا تھا کہ میرے نبیﷺ نے ہی تم لوگوں کو یہ بتلایا ہے کہ جنت میں ہر مومن کا پسینہ دنیا کی کستوری سے کہیں بڑھ کر اعلیٰ اور خوشبودار ہو گا اور جو کھائو گے وہ کستوری کا پسینہ بن کر جسم کو خوشبو میں بدل دے گا۔ فضلے اور پیشاب کا سوال ہی نہیں۔ سانس سبحان اللہ اور الحمدللہ ہو گا۔ خوشبو کستوری اور عنبر سے بڑھ کر ہو گی۔ میرے دوست! اس ہمیشہ کی زندگی کا بھی کچھ فکر کیا ہے کہ اسی مذکورہ عارضی اور بدبودار زندگی نے ہی اپنے سحر میں جکڑ کر غافل کر دیا ہے۔ جب آلائشوں سے لبالب بھرا ہوا یہ جسم روح سے خالی ہو جائے گا تو دماغ پگھل کر نتھنوں سے بہنا شروع ہو جائے گا اور کوئی پاس کھڑا کہے گا۔ اس حکمران، بادشاہ۔ سیٹھ اور دانشور کے نتھنوں میں روئی ٹھونس دو۔ جی ہاں! تاکہ دانشوری کا منبع جو پگھل رہا ہے اس کو روکا جائے۔ پیٹ جو پہلوان بناتا ہے وہ پھول گیا ہے۔ اب بیٹا اور بیوی، بھائی اور دوست کہتے ہیں کہ جلدی سے قبر کے سپرد کرو کوئی انہونی نہ ہو جائے۔ دوسرے لفظوں میں ہمارے گھر میں پیٹ نہ پھٹے۔ پھٹے تو قبر میں پھٹے۔ میرے دوست کی زندگی کو میری نصیحت نے بدل دیا تھا۔ کچھ عرصے بعد ایسا ہوا کہ وہ اپنی قیمتی ترین گاڑی پر موٹروے پر جا رہا تھا، کار ٹرالے سے ٹکرائی، کار کو آگ لگ گئی، دوست کا جسم کوئلہ بن گیا۔ مجھے وہ خواب میں ملا، اتنا حسین کہ بیان نہیں کر سکتا اور وہ کہہ رہا تھا کہ میرا جسم جب کوئلہ بن رہا تھا میں فرشتوں کے ہاتھوں میں ریشم اور کستوری کے لباس میں لپٹا اسے دیکھ رہا تھا۔ مجھے تو ابتدائی لمحے ہی پر فرشتوں نے میرے جسم سے جدا کر دیا تھا۔
احمد پور شرقیہ کی وہ غریب بستی کہ جس کے لوگ الٹے ہوئے ٹرالے کے بہتے ہوئے تیل کو برتنوں میں بھر رہے تھے۔ وہ کچھ بھی غلط نہ کر رہے تھے اس لئے کہ ڈرائیور خود تیل کو بہا رہا تھا۔ جی ٹی روڈ پر جلنے والے موٹرسائیکل سواروں اور کاروں کے ڈرائیوروں نے بھی اس تیل سے فائدہ اٹھایا۔ ان سب کی موت کا وقت آ چکا تھا، لہٰذا وہ آگ میں جل کر کوئلہ بن گئے۔ حضرت محمد کریمﷺ نے فرمایا ہے، آگ میں جل کر مرنے والا بھی شہید ہے، ساتھ ہی نہر تھی، بعض لوگ نہر میں کود گئے اور آگ لگنے کے ساتھ ڈوب کر بھی مر گئے، یوں وہ تفضیلی شہادت کا دوہرا رتبہ پا گئے۔ میرے حضورﷺ نے یہ بھی فرمایا، قیامت کا دن جو پچاس ہزار سال کا ہو گا، مسکین جنتی ایسے جنتیوں سے پانچ سو سال پہلے جنت میں چلے جائیں گے جو امیر اور سیٹھ ہوں گے۔ میں سوچ رہا تھا میرا دوست بھی حشر کا میدان دیکھ کر جنت میں جائے گا مگر احمد پور شرقیہ کے مسکین لوگ پانچ سو سال پہلے جنت میں چلے جائیں گے۔ قاری محمد یعقوب شیخ حادثے پر سب سے پہلے پہنچے۔ عید کے موقع پر وہ اپنے جامعہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ میں موجود تھے۔ ان کے طلباء نے بھی خوب خدمت کی۔ پانی پلایا، کھانے کھلائے، جنازے پڑھائے۔ ان کی خدمات کو مقامی ایم این اے محترم گیلانی صاحب نے ایف آئی ایف کی جیکٹ پہن کر خراج تحسین پیش کیا۔ یوں مدرسہ اور اہل مدرسہ کی خدمتِ انسانی کا بہترین پہلو سامنے آیا۔ میری گزارش ہو گی کہ ملک بھر کے دینی مدارس کے مہتمم حضرات خدمت خلق کے ایسے مناظر ملک بھر میں قوم کو دکھلا دیں تو اہل دین کا اک خوبصورت اسلامی کلچر سامنے آئے گا جس سے اہل دین کا خوبصورت چہرہ مزید خوبصورت ہو جائے گا۔ قاری محمد یعقوب شیخ کو انسانیت اور خدمت انسانیت کے ایسے چہرے پر خراج تحسین۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں