چوہدری پرویز الٰہی کے بھائی چوہدری جاوید الٰہی ایک علمی شخصیت ہیں۔ مطالعہ کا گہرا شغف مگر سیاست سے تعلق نہ دلچسپی۔ کرنل امجد حسین سید مرحوم کے تعزیتی ریفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے کہنے لگے۔ محترم امجد حسین سید سُنّی تھے جبکہ ان کی مرحومہ اہلیہ محترمہ شیعہ تھیں۔ سٹیج پر میں محترم سینیٹر مشاہد حسین سید کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، ان سے کہا، مشاہد صاحب! میرے لئے تو یہ بہت بڑا انکشاف ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کا گھرانہ سنی شیعہ اتحاد کا ایک نمونہ ہے۔ حقیقت یہ ہے مشاہد صاحب اپنے والد کے نقش قدم پر مسلمان اور سچے پاکستانی ہیں۔ وہ فرقہ وارانہ سوچ سے بہت بالا ہیں۔ مشاہد حسین سید میاں نوازشریف کے دوسرے دور حکومت میں وزیر اطلاعات بھی رہے ہیں، پھر مسلم لیگ ق کا دور آیا تو وہ اس کے سیکرٹری جنرل بھی رہے۔ آج کل سینیٹ کے ممبر ہیں اور پاک چائنہ اکنامک کوریڈور کی پارلیمنٹری کمیٹی کے چیئرمین بھی ہیں۔ پاک چائنہ دوستی کی پائداری میں ان کا کلیدی کردار ہے۔ میری تجویز ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان مصالحت کے لئے حکومت پاکستان کو تحریک پاکستان کے سپاہی محترم کرنل امجد حسین سید مرحوم کے اس قابل فخر فرزند سے کام لینا چاہئے اور ایک پارلیمنٹری کمیٹی مذکورہ مصالحت پر بھی بنانا چاہئے اور مشاہد حسین سید کو اس کا چیئرمین بنا کر بھرپور اور بااختیار کردار ادا کروانا چاہئے کہ ان کے گھر کی تربیت عالم اسلام کی مصالحت میں نتیجہ خیز کردار ادا کر سکتی ہے۔ وہ بین الاقوامی سطح پر دانشور سیاستدان تسلیم کئے جاتے ہیں۔ حال ہی میں انہیں براعظم ایشیا کی سیاسی جماعتوں کے فورم نے اپنا نائب چیئرمین منتخب کیا ہے۔
نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے مذکورہ پروگرام میں جناب شاہد رشید نے میرانام پکارا تو میں نے سامعین کو بتلایا کہ کرنل امجد حسین سید پاکستان کی تاریخ کا وہ تابناک باب ہیں کہ جن کے سینے میں یہ جذبہ ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی طرح تھا کہ مسلمانوں کو زندگی کے ہر میدان میں ہندوئوں سے ممتاز ہونا چاہئے۔ وہ جس قدر استطاعت رکھتے تھے کردار بھی ادا کرتے تھے، چنانچہ ہندوئوں نے لاہور کے نواح میں جب ماڈل ٹائون بنایا اور ہندو سیٹھ، ساہوکار اور صاحبان اقتدار یہاں رہائش کرنے لگے تو کرنل امجد حسین سید نے اپنے تایا جان سے مل کر لاہور میں مسلم ٹائون بنایا۔ مجھے مشاہد حسین سید سے ملاقات کے لئے دو تین بار مسلم ٹائون میں واقع ان کے گھر میں جانے کا اتفاق ہوا۔ اس گھر کی چنائی گارے سے کی گئی ہے۔ وہی پرانا گھر آج بھی رہائش گاہ ہے۔ اس کے لان کے گرد اور گیراج کا جو فرش ہے وہ وہی پکی اینٹوں کا سادہ سا فرش ہے۔ سادگی اور بوسیدگی بول بول کر کردار کی گواہی دے رہی ہے۔ آج ہمارا حال یہ ہے کہ گورنمنٹ سمیت جو بھی ہائوسنگ سوسائٹی بنتی ہے اس کی ایک فائل تین تین اور چار چار لوگوں کے نام ہوتی ہے۔ ایک پلاٹ دو تین لوگوں کو بیچا جاتا ہے اور لوگ ہیں کہ آج تک خوار ہو رہے ہیں۔ کرنل امجد حسین سید بھی مسلم لیگ کے کارکن تھے مگر وہ اقبال اور قائد کے سپاہی تھے جبکہ آج کل کے سیاسی عہدیدار عموماً قبضہ مافیا کے ڈان ہیں۔ جی ہاں! جیسے ان کے قائدین ہیں ویسے ہی وہ ہیں۔
کرنل امجد حسین سید دور طالب علمی میں ہی علامہ اقبال کی مجاہدانہ شاعری کے شیدا تھے وہ ان کی خدمت میں حاضری دیتے تھے۔ اپنے دوستوں کوبھی ہمراہ لے جاتے تھے۔ مسلم تشخص کے لئے حضرت علامہ کی خدمت میں اپنے جذبات کا اظہار کرتے تھے۔ یقینا یہ ایسے ہی جذبے تھے کہ جنہوں نے حضرت علامہ اقبال کے قلم میں جنبش پیدا کی اور انہوں نے حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ کو خط لکھا کہ وہ ہندوستان میں آئیں اور برصغیر کے مسلمانوں کی رہنمائی کریں یعنی وہ ماڈل ٹائون (بھارت) بنانا چاہتے ہیں تو آپ اس ہندوستان میں مسلم ٹائون (پاکستان) بنائیں۔ جی ہاں! محترم مجید نظامی مرحوم کے ہاتھوں قائم نظریہ پاکستان ٹرسٹ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے کہ جہاں اقبال اور قائد کے بزرگ سپاہیوں سے ملاقات کا شرف حاصل ہو جاتا ہے۔ مجھے بھی کرنل امجد حسین سید جیسے بزرگوں سے یہاں ملنے کا موقع ملتا ہے۔ میں ان سے مصافحہ کرتا ہوں۔ ان کے گلے ملتا ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اقبال اور قائد سے مل رہا ہوں۔ میں محترم مجید نظامی مرحوم کا شکر گزار ہوں جنہوں نے کمال شفقت کے ساتھ حمید نظامی ہال میں اور نظریہ پاکستان کے ہال میں کتنی ہی بار مجھے اپنی صدارت میں ڈائس پر کھڑا کیا۔ تحریک پاکستان کے ایسے نمایاں ترین بزرگوں میں اب ہمارے پاس بہت تھوڑے بزرگ رہ گئے ہیں۔ ان میں جناب محمد رفیق تارڑ، ڈاکٹر پروفیسر رفیق احمد، جسٹس محبوب، میاں الطاف فاروق، آفتاب فرخ اور چند ایک اور ہیں۔ شاہد رشید صاحب کی مہربانی سے آئے روز میری ان سے ملاقات ہو جاتی ہے۔ ان کا خصوصی شکریہ۔
ماڈل ٹائون اور مسلم ٹائون دو قومی نظریے کا عملی اعلان ہے اور یہ عملی اعلان پاکستان کے وجود میں آنے سے پہلے اقبال اور قائد کے ایک سپاہی امجد حسین نے کیا۔ پاکستان بننے کے بعد وہ پاک فوج میں کرنل کے عہدے تک پہنچے۔ 1965ء میں جب کشمیر کے مسئلے پر پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ ہوئی تو کرنل امجد حسین سید تب انڈونیشیا میں ملٹری اتاشی تھے۔ انہوں نے صدر سوئیکارنو سے بات کی۔ پاکستان کے لئے انڈیا کے خلاف مدد مانگی۔ انڈونیشیا کے صدر نے بری، بحری اور فضائی افواج کے سربراہوں کو ایوان صدر میں بلا لیا اور کرنل امجد حسین سید کو بھی بلا لیا۔ کرنل صاحب سے کہا، یہ تینوں افواج کے سربراہ موجود ہیں۔ آپ کو پاکستان کے دفاع کے لئے ان سے جو چاہئے یہ آپ کی خدمت میں حاضر کر دیں گے۔ یہ تھے کرنل امجد حسین سید۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے فرزند ارجمند مشاہد حسین سید تو آج بھی پاک چائنہ تعلقات ایسے ہی موڑ پر لے آئے ہیں جیسے ان کے والد گرامی 1965ء میں پاک انڈونیشیا تعلقات مثالی موڑ پر لے آئے تھے۔ کیا آج ہمیں سارے عالم اسلام کے لئے ایسے ملٹری اتاشی، دوستی کی ایسی سرکاری کمیٹیوں کے چیئرمینز اور سفارتکار نہیں چاہئیں۔ یقینا آج ہمیں ایسے لوگوں کی کہیں زیادہ ضرورت ہے مگر یہ اقربا پروری کی لعنت کے خاتمے سے ممکن ہے۔ میرٹ اور اہلیت کے ساتھ مشروط ہے۔ کاش! ہمارے مقدر میں ایسی گڈگورننس آ سکے۔
کرنل امجد حسین سید دو قومی نظریے کے ایسے نظریاتی سپاہی تھے کہ انہوں نے مسلم ٹائون میں واقع اپنے گھرمیں بھی اس وقت دو قومی نظریے کا اعلان کرنا شروع کر دیا جب اللہ تعالیٰ نے انہیں اولاد کی نعمت سے نوازنا شروع کیا۔ مجاہد حسین سید نام رکھنے کا مطلب واضح ہے کہ پاکستان کے دفاع کے لئے امجد حسین سید کا بیٹا جہاد کرے گا۔ موحد حسین سید کا مطلب توحید کا علمبردار ہے۔ ہندو بتوں کا پجاری ہے تو ہم ایک اللہ کو ماننے والے پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ کا نعرہ بلند کر کے ان کے معبودوں کی نفی کرنے والے ہیں۔ یہی قائداعظم کا پیغام تھا کہ ہندو جس گائے کی پوجا کرتے ہیں۔ اسے دیوی اور ماں قرار دیتے ہیں ہم اس کے سیخ کباب بنا کر کھاتے ہیں۔ محترم امجد حسین سید نے موحد حسین نام رکھ کر مسلم ٹائون کے گھر میںدو قومی نظریے کا اعلان کیا۔ مشاہد حسین سید کے نام سے شہادتوں کی خوشبوئیں آتی ہیں۔ ''مَشْھَدْ‘‘ کی جمع ''مشاہد‘‘ ہے۔ یعنی اللہ کی راہ میں جان پیش کرنے کے مقامات۔ دوسرے لفظوں میں پاکستان کی حفاظت کیلئے پاکستان کے چپے چپے پر جان قربان کرنے کا عہد ہے۔ یہ ہے وہ سوچ جو کرنل امجد حسین سید نے اپنے بیٹوں کے ناموں میں اجاگر کی۔
آخر پر گفتگو کرتے ہوئے میں نے حاضرین سے کہا کہ حضرت علامہ اقبال رحمہ اللہ بھی محب رسول تھے۔ ختم نبوت کے علمبردار تھے۔ حضرت قائداعظم اس قدر حضور عالیشانﷺ کے شیدائی اور فدائی تھے کہ انہوں نے لندن میں اس قانونی ادارے میں داخلہ لیا جس میں تاریخ عالم کے قانون دانوں کی فہرست میں سرفہرست حضرت محمد کریمؐ کا نام تھا۔ مشاہد حسین سید نے ابھی مجھے بتلایا ہے کہ ان کے والد گرامی اکثر اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کرتے تھے کہ ادھر ان کی روح پرواز کرے اور ادھر جنت الفردوس میں وہ سیدھے حضرت محمد کریمؐ کے مبارک قدموں میں بیٹھے ہوں۔ ہم سب کی دعا ہے اللہ تعالیٰ ان کی اس خواہش کو پورا فرمائے۔ (آمین) حقیقت یہ ہے کہ تحریک پاکستان کے ایسے جو سپاہی تھے ان کے اعلیٰ کردار اس لئے مثالی اور لاجواب تھے کہ وہ حُبِّ رسولؐ کا جام نوش کئے ہوئے تھے۔ دنیا ان کی نظر میں حقیر تھی۔ آخرت عزیز تھی۔ آج ان عظیم لوگوں کے سیاسی وارث ایسے ناخلف ہیں کہ دنیا ان کی نظر میں حد سے بڑھ کر عزیز ہے اسی لئے تو وہ ذلیل ہیں جبکہ آخرت ان کے ہاں بس دکھاوے کی اک چیز ہے، اسی لئے ذلت ان کے پائوں کی زنجیر ہے۔ اللہ کے حضور دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے عظیم اسلاف کا کردار عطا فرما کر صاحبِ اعزاز و افتخار بنائے۔ (آمین)