اللہ کے رسولﷺ نے جن دس صحابہ کو جنت کی خوشخبری دی انہیں ''عشرہ مبشرہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ حضرت زبیرؓ بن عوام بھی انہی میں سے ایک ہیں۔ حضورﷺ نے انہیں اپنا حواری بھی قرار دیا یعنی جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے12حواری تھے۔ ایسے ہی حضرت زبیرؓ بھی حضورﷺ کے حواری تھے، مدینہ منورہ میں حرّہ کے مقام پر حضرت زبیرؓ کا کھجوروں کا باغ تھا۔ یہاں سے برساتی نالہ گزرتا تھا۔ یعنی مدینہ کے دور دراز علاقوں میں بھی بارش ہوتی تو اس نالے میں پانی چلتا تھا۔ حضرت زبیرؓ معروف دستور کے مطابق اپنے باغ کو اس برساتی نالے سے پانی دیتے اور پھر پانی چھوڑ دیتے تھے تاکہ ان کے بعد والے کہ جن کے کھیت نشیب میں واقع ہیں وہ اپنے کھیتوں کو سیراب کر لیں۔ ہوا یوں کہ مدینہ منورہ ہی کے ایک انصاری کہ جن کا کھیت حضرت زبیرؓ کے کھیت کے بعد نشیب میں تھا، انہوں نے جھگڑا کھڑا کر دیا کہ حضرت زبیرؓ پانی روک رہے ہیں۔ مقدمہ اللہ کے رسولﷺ کی عدالت میں آ گیا۔ اللہ کے رسولﷺ نے دونوں کی بات سنی اور فیصلہ فرمایا۔ امام بخاری رحمہ اللہ اپنی صحیح بخاری میں مذکورہ فیصلے کو لائے ہیں۔ حضورﷺ نے حضرت زبیرؓ کو مخاطب کر کے فرمایا، اے زبیر! تم اپنے کھیت کو سیراب کرو پھر اس پانی کو اپنے پڑوسی کی جانب چھوڑ دو۔ اس پر انصاری کہنے لگا: آپ نے یہ فیصلہ اس لئے کیا ہے کیونکہ زبیرؓ آپ کی پھوپھی کا بیٹا ہے۔ اس پر حضورﷺ کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ آپﷺ نے فرمایا، زبیر! اپنے کھیت کو اس وقت تک پانی دیتے رہو اور پانی روک کر رکھو جب تک کہ پانی کھیت کی منڈیر پر نہ چڑھ جائے۔ (بخاری: 2362)
قارئین کرام! اللہ کے رسولﷺ انصاری کے ساتھ نرمی کر رہے تھے کہ حضرت زبیرؓ اپنے باغ کو مناسب پانی دے کر اپنے پڑوسی انصاری بھائی کے لئے چھوڑ دیں مگر جب اس نے پھوپھی زاد بھائی کا طعنہ دے ڈالا تو اب حضورﷺ نے حضرت زبیرؓ کو پورا حق دے دیا۔ کچھ ایسا ہی معاملہ ''جے آئی ٹی‘‘ کے ساتھ ہو رہا ہے۔ سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کا مجموعی فیصلہ میاں نوازشریف صاحب کے قدرے حق میں تھا اسی لئے میاں صاحب کے وزراء، خاندان اور پارٹی کے لوگوں نے مٹھائیاں بانٹیں۔ پھر جب ''جے آئی ٹی‘‘ کی تشکیل کے لئے نام طلب کئے گئے تو سپریم کورٹ نے محکموں کے افسران میں سے اپنی مرضی کے افسران لئے۔ ایسے افسران کہ جن کی دیانت پر کوئی شک نہ کر سکے ۔ انہوں نے جب تفتیش شروع کی تو حکومت کی جانب سے افسران پر رشتہ داری کے الزامات لگنے شروع ہو گئے۔ میں سمجھتا ہوں ممکن ہے کہ جے آئی ٹی کے افسران مقدمے کو مناسب حد تک ہی شاید رکھنا چاہتے ہوں مگر جب ان پر الزامات لگنے شروع ہوئے تو انہوں نے ایسا نہیں کہ زیادتی کرنے کا فیصلہ کر لیا ہو بلکہ انہوں نے سوچا ہو گا کہ اب عدل و انصاف کا پانی کھیت کے منڈیر پر ہی چڑھا دیا جائے چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ جب ایسا کرنا شروع کیا تو حکومتی وزراء اور حلیفوں کی طرف سے فوج اور عدلیہ کا نام لئے بغیر جانبداری اور سازش کے الزامات لگانے شروع کر دیئے گئے۔ یہ الزامات اس حد تک آ گے بڑھ گئے کہ فوج کے ترجمان ادارے ''آئی ایس پی آر‘‘ کو آگے آنا پڑا۔ میجر جنرل آصف غفور صاحب نے سازش کے الزام کو پریس کانفرنس کے ذریعے سے مسترد کیا۔ آئی ایس آئی اور ایم آئی کے جو دو ارکان مذکورہ ''جے آئی ٹی‘‘ کے ممبر تھے، ان کے بارے میں واضح طور پر کہا کہ ممبران نے انتہائی دیانت داری کے ساتھ اپنے فرائض ادا کئے۔
میجر جنرل آصف غفور صاحب نے ''سازش‘‘ کے سوال پر تو انتہائی باکمال جواب دیا کہ یہ ایسا سوال اور الزام ہے کہ اس کا جواب ہی نہیں بنتا یعنی یہ اس قابل ہی نہیں کہ اس کا جواب دیا جائے۔ جب ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے اپنے فیصلے کے ذریعے سے خود چھ عدد ممبران کا انتخاب کیا ہے اور پھر ان کی رپورٹ پر سماعت کر کے فیصلہ عدالت نے کرنا ہے، ''جے آئی ٹی‘‘ نے نہیں کرنا تو سازش کے سوال کا جواب نہیں بنتا۔ مزید برآں اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ جے آئی ٹی سے کوئی کمی بیشی ہو گئی ہے تو عدلیہ میں وہ اس کمی بیشی کو پیش کر سکتا ہے تو پھر سازش کہاں کی؟ اور کیسی سازش؟ حقیقت یہ ہے کہ جنرل آصف غفور صاحب کے مذکورہ جواب میں یہ ساری باتیں پنہاں تھیں جنہیں ہم نے عیاں کیا ہے۔ ایک اور بات بھی سوچنے کی ہے کہ پاکستان کی 70سالہ تاریخ میں عدلیہ نے لاکھوں فیصلے کئے ہیں۔ پنچایتوں نے بھی فیصلے کئے ہیں۔ فوجی عدالتوں نے بھی فیصلے کئے ہیں۔ مصالحتی عدالتوں نے بھی فیصلے کئے ہیں۔ ان کروڑوں فیصلوں میں سے شاید چند سو ہی ہوں گے کہ جن پر اس فریق نے جانبداری اور سازش کا الزام نہ لگایا ہو کہ جس کے خلاف فیصلہ ہوا ہو؟ اگر فریقین کی خواہشوں کو سامنے رکھ کر فیصلے شروع ہو جائیں تو کوئی فیصلہ نہ ہو سکے۔
اللہ کے رسولﷺ کے فرمان کا حاصل یہ بھی ہے کہ میں ظاہر کو دیکھ کر فیصلے کرتا ہوں لہٰذا اگر کوئی تیز زبان چالاکی کے ساتھ اپنے بھائی کا حق لے اڑے یعنی میں اس کے حق میں فیصلہ کر دوں تو وہ یہ نہ سمجھے کہ میں نے اس کے حق میں فیصلہ دے دیا تو زمین یا پلاٹ اس کے لئے جائز ہو گیا بلکہ میں نے جہنم کا ٹکڑا اسے الاٹ کیا ہے۔
قارئین کرام! حضورﷺ کا دوسرا فرمان یوں بھی ہے کہ فیصلہ کرنے والا اگر دیانت کے ساتھ فیصلہ کرتے ہوئے غلطی بھی کرتا ہے تو اسے ایک نیکی ملے گی اور اگر اس کا فیصلہ درست ہو جاتا ہے یعنی حقدار کو حق مل جاتا ہے تو اسے دو نیکیاں ملیں گی۔ مطلب یہ ہے کہ قانون کی پاسداری قائم رہنی چاہئے اگر یہ قائم نہیں رہے گی تو ہر کوئی پریس کانفرنس کر کے عدلیہ، فوج اور دیگر اداروں کے افسران پر سازش اور اقربا پروری وغیرہ کے الزامات لگاتا پھرے گا۔ فیصلوں کے خلاف قوم کو آواز دینے کی بات کرے گا۔ قبیلے کو پکارنے کی صدا لگائے گا۔ عوام کی عدالت کی بات کر کے کنفیوژن پیدا کرے گا۔ اپنے مقام کو اعلیٰ سمجھتے ہوئے گھیرائو کی بات کرے گا تو یہ ملک جنگل بن جائے گا۔ جس طرح لوگ اپنے بندے کی گرفتاری پر تھانے کا گھیرائو کرتے ہیں، گاڑیوں کو آگ لگاتے ہیں، پولیس پر سنگباری کرتے ہیں اور حکومت ایسے لوگوں کو قابو کرتی ہے، پھر ان پر کارسرکار میں مداخلت کے مقدمے بناتی ہے۔ اب اگر خود حکومتی لوگ ہی ایسا کرنا شروع ہو جائیں گے تو پھر آئی ایس پی آر کو کہنا پڑے گا کہ ہم قانون کے ساتھ کھڑے ہیں۔ محترم جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب کا ایسا بیان آ بھی چکا ہے، سوچئے اس کے بعد حکومت کی کیا ساکھ رہ جاتی ہے؟
فوج ہویا عدلیہ، حکومت کے لوگ ہوں یا اپوزیشن کے بندے سب مسلمان ہیں، نماز پڑھتے ہیں۔ ایک شخص امام بن کر آگے کھڑا ہوتا ہے، امام بھول جائے، چار رکعتوں کے بجائے تین یا پانچ پڑھا ڈالے، پیچھے سے کوئی مقتدی ''سبحان اللہ‘‘ کہہ کر خبردار کر دے۔ اب مرضی امام کی ہے چاہے تو مقتدی کے انتباہ کو صحیح تسلیم کرکے اپنی اصلاح کر لے، چاہے تو مقتدی کی نہ مانے، بالآخر مقتدی ہی کو امام کی ماننا پڑے گی۔ اسے نہ نماز چھوڑنے کی اجازت ہے اور نہ بھاگنے کی۔ صف میں رہنے کی پابندی ہے۔ ہاں! سلام پھیرنے کے بعد نظرثانی کی گنجائش موجود ہے۔ اسی کا نام قانون ہے۔ قانون ماننا پڑے گا، کوئی نہیں مانے گا تو ملکی فورس کو منوانا پڑے گا۔ ریاست کی صف کو ٹوٹنے سے محفوظ رکھنا پڑے گا۔ حضرت زبیرؓ بن عوام کہتے ہیں کہ میرا اور انصاری کا جو جھگڑا ہوا تھا، اللہ تعالیٰ نے اسی واقعہ پر یہ آیت نازل فرمائی تھی: ''نہیں نہیں... میرے رسول! مجھے تمہارے رب کی قسم ہے یہ لوگ اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتے جب تک اپنے مقدمات میں آپ کو فیصلہ کن جج تسلیم نہ کر لیں، پھر اپنے دلوں میں (کئے ہوئے فیصلے پر) تنگی بھی محسوس نہ کریں اور فیصلے کو اس طرح تسلیم کریں جس طرح تسلیم کرنے کا حق ہے۔ (النساء: 65) ہماری حالیہ تاریخ میں سید یوسف رضا گیلانی صاحب کی مثال سامنے ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے پیچھے جناب آصف علی زرداری جو تب صدر پاکستان اور پارٹی سربراہ تھے ان کی آگ تھی۔ یوسف رضا گیلانی اس آگ کی تپش میں آگے بڑھتے تھے توسامنے عدلیہ کی خاردار آہنی دیوار تھی۔ وہ جاتے توکدھر جاتے۔ یوں وہ نااہل قرار دیئے گئے مگر اف تک نہ کی۔ عدلیہ کے فیصلے کو تسلیم کیا اور آصف علی زرداری کے بارے میں ایک جملہ تک نہ کہا۔ آج ایسا صابر و شاکر آدمی مشورہ دے رہا ہے کہ فیصلے مانو، گرد نہ اڑائو، ملک کے لئے ایسا طرز عمل انتہائی باکمال ہے۔ مشورہ وہ دے رہا ہے جو آگ اور دیوار کے درمیان قربانی دے کر سلامت بچ گیا ہے۔ میں کہتا ہوں گیلانی صاحب عزت پا گئے ہیں۔ میاں نوازشریف کو اسلامی تعلیمات اور جناب گیلانی کے کردار کو سامنے رکھ کر رویہ اختیار کرنا چاہئے کہ بھلا صرف اور صرف اسی میں ہے۔ جی ہاں! اسی میں ہے کہ وہ جے آئی ٹی کے کام کو سازش نہ سمجھیں کاوش سمجھیں۔