"AHC" (space) message & send to 7575

ایک نہیں دو اقتصادی کوریڈور

  1. نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے ہال میں جناب شاہد رشید نے میری تقریر کے بعد جناب مشاہد حسین سید کا نام پکارا تو انہوں نے اپنے صدارتی خطاب کا آغاز کرتے ہوئے کہا: حضرت قائداعظم محمد علی جناح سے جب ایک امریکی صحافی نے سوال کیا کہ آپ پاکستان(کے دو الگ الگ حصوں پر مشتمل ملک) کو کس طرح چلائو گے؟ تو قائداعظم نے فرمایا تھا، ایک وقت آئے گا پاکستان دنیا (کی سیاست اور تجارت) کا محور و مرکز ہو گا۔ یہ قائداعظم کی دور رس نظر اور ویژن تھا جسے آج ہم اپنی آنکھوں سے اقتصادی کوریڈور کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔
  2. قارئین کرام! بعض نام نہاد دانشور تب سے لے کر آج تک یہ اعتراض کرتے چلے آ رہے تھے کہ قائداعظم نے دو الگ الگ اور ایک دوسرے سے دور دو پاکستان حاصل کئے جنہیں سنبھالنا مشکل تھا۔ ایسے نام نہاد دانشوروں کو علم ہونا چاہئے کہ بنگال میں مسلمانوں کی اکثریت تھی، یوں سارے بنگال نے مشرقی پاکستان بننا تھا۔ اگر یہ سارا مشرقی پاکستان بن جاتا تو جنوبی بنگال کے ''سِلّی گوری‘‘ روڈ سے دارجلنگ کے راستے ''سکّم‘‘ کی ریاست کا فاصلہ محض 14کلومیٹر تھا۔ انڈیا اسے مرغی کی گردن (Chicken Neck) کہتا ہے جسے چین کا ہاتھ مروڑ سکتا ہے۔ سلّی گوری دراصل سکّم کا حصہ تھا، انگریز نے اسے بنگال کا حصہ بنا کر چودہ کلومیٹر کی پٹی محض اس لئے انڈیا کے حوالے کی تاکہ اس راستے سے اسے شمال مشرق کے پانچ علاقے دیئے جا سکیں۔ یہ پانچ صوبے (1)آسام، (2)ناگالینڈ، (3)میگھالیہ، (4)تری پورہ، (5)منی پور، (6)میزو رام، (7)اروناچل پردیش ہیں۔ اگر قائداعظم کا پاکستان مذکورہ 14کلومیٹر کا علاقہ جو سکّم کا علاقہ تھا اور سکّم چین کا علاقہ ہے، اسے کاٹ دیتا تو مشرقی پاکستان کا زمینی رابطہ براہ راست سکّم سے قائم ہو جاتا اور ساتوں ریاستیں بھی الگ الگ ملک بن جاتے۔ مذکورہ سات ریاستوں کو انڈیا کی (seven sisters) سات بہنیں کہا جاتا ہے۔ یہ سات ریاستیں مل کر ایک ملک بھی بن سکتی تھیں۔ سکّم کا زمینی تعلق چین کے علاقے تبت سے ہے۔ یوں مشرقی پاکستان براہ راست چین سے مل جاتا۔ انگریزنے اب زیادتی یہ کی کہ بنگال کے دو حصے کئے۔ مغربی بنگال انڈیا کو دے دیا جبکہ مشرقی بنگال کو مشرقی پاکستان بنا دیا مگر صورتحال اب بھی یہ بن گئی کہ مشرقی پاکستان اور بھوٹان و سکّم کے درمیانی علاقے ''چنبی ویلی‘‘ تک کا فاصلہ 44کلومیٹر ہے۔ یہ 44کلومیٹر آسام کا علاقہ ہے۔ ''چنبی ویلی‘‘ چین کی ہے۔ مشرقی پاکستان کو اب بھی انڈیا نے ایک چیلنج کی حیثیت سے دیکھا چنانچہ اس نے انگریز کے ساتھ مل کر جو جارحیت کرنا تھی وہ کرنے کے بعد اس نے اپنی آزادی کے دن 15اگست کے بعد جارحیت کے اک نئے دور کا آغاز کر دیا۔
  3. اس نے چین کے علاقے تبت پر نظر رکھنا شروع کر دی اور تبت کے روحانی پیشوا دلائی لامہ کو بھارت میں بٹھا کر تبت کا جلاوطن خودساختہ عبوری حکمران کہنا شروع کر دیا۔ چین نے انڈیا کے ارادوں کو بھانپتے ہوئے تبت میں اپنی سرحدوں کو محفوظ بنا لیا۔ انڈیا نے مزید جارحیت یہ کی کہ 1975ء میں سکّم پر قبضہ کر لیا حالانکہ برطانیہ نے سکّم کو آزاد رہنے کی گارنٹی دی تھی۔ وہاں کے بادشاہ کو چوگیال کہا جاتا ہے۔ 1975ء میں دسواں چوگیال نامگیال تھا جسے انڈیا نے بادشاہت سے ہٹا دیا اور اس کے ملک پر قبضہ کر لیا۔ انڈیا نے لمبی پلاننگ کے تحت 1973ء میں سکّم میں نامگیال بادشاہ کے خلاف مظاہرے شروع کرا دیئے اور پھر نام نہاد ریفرنڈم کے ذریعے سے بادشاہ کو ہٹا کر قبضہ کر لیا۔ نامگیال بے چارہ 1982ء میں امریکہ میں کینسر کے مرض سے مر گیا۔ انڈیا مزید آگے بڑھا اور اس نے بھوٹان میں اپنی فوج رکھنا شروع کر دی۔ غور فرمایئے! تبت بھی بدھ مت کا علاقہ ہے، سکّم بھی بدھ مت کا علاقہ ہے، بھوٹان بھی بدھ مت کا علاقہ ہے۔ یہ سارے علاقے فطری طور پر چین کے ہیں مگر انڈیا یہاں جارحیت کرتا چلا آ رہا ہے، اس کا جارحانہ انداز ختم نہیں ہو رہا۔ اس نے1971ء میں مشرقی پاکستان میں اپنی فوج داخل کر کے پاکستان کے مشرقی حصے کو بنگلہ دیش بنا دیا۔ یعنی جہاں سے چین اور پاکستان دونوں مل سکتے تھے اور اقتصادی کوریڈور بن سکتا تھا۔ چین سے چنبی ویلی اور ''ڈوکلان‘‘ کے میدان سے سڑک آگے بڑھتی اور آسام کے مسلمان علاقے سے ہو کر مشرقی پاکستان کی بندرگاہ ''کاکس بازار‘‘ سے ملتی تو سارا علاقہ خوشحالی کا مرکز بن جاتا۔ یہ تھا قائداعظم کے ویژن والا جغرافیہ جسے ہماری کوتاہیوں کی وجہ سے انڈیا نے سبوتاژ کر دیا۔
  4. چین اب پرامن طریقے سے یہ شاہراہ بنانا چاہتا ہے۔ وہ انڈیا سے توقع رکھتے ہوئے کہتا ہے کہ تبت کے معاملے میں تم دلائی لامہ کی سرپرستی چھوڑ دو۔ سکّم پر بھی تمہارا ناجائز قبضہ ہے۔ چنبی ویلی کے ساتھ ڈانگلونگ کا میدان ہمارا ہے مگر تم نے بھوٹان کے قصبے پارو میں 600انڈین فوجی لا کر وہاں ان کے کیمپ بنا دیئے ہیں، پیروویلی میں پہاڑی علاقے کی جنگ کے پیراٹروپس بھی اب تم لے آئے ہو اور پھر تم نے کہا ہے کہ بھوٹان کی درخواست پر ہم مزید فوج لائیں گے۔ یاد رکھو! ہم بھی پاکستان کی درخواست پر کشمیر میں فوجیں داخل کر سکتے ہیں۔ ایسے کام نہ کرو۔ ڈانگلونگ کا نام ڈوکلام رکھ کر قبضے مت کرو۔ اقتصادی کوریڈور مل کر بناتے ہیں، امن سے بناتے ہیں۔ آسام کا 44کلومیٹرکا علاقہ تمہارا ہے اس سے تمہیں بھی فائدہ ہو گا۔ آگے بنگلہ دیش کو بھی فائدہ ہو گا۔ یوں چین، بھوٹان، انڈیا اور بنگلہ دیش چاروں ملک اس اقتصادی راہ داری کے حصہ دار بن کر امن کے ساتھ علاقے کو خوشحال بنا دیں۔ قارئین کرام! اس منصوبے کو انڈیا نے تباہ کرنے کا تہیہ کر لیا۔ امریکہ اور اسرائیل اس کی پشت پر کھڑے ہو گئے، جنگ پر آمادہ ہو گئے۔ چین چاہتا تو معمولی جھڑپ کے بعد انڈیا کو مار بھگاتا مگر اس نے وقتی طور پر خاموشی اختیار کر لی، اپنے فوجی دستوں کو پیچھے ہٹا لیا، کوشش یہی ہے کہ امن کے ساتھ انڈیا راہ راست پر آ جائے۔
  5. قارئین کرام! انڈیا نے مزید جارحیت کے کون کون سے ریکارڈ توڑے، اب اس کا بھی جائزہ لیتے ہیں۔ 19 جولائی 1947ء کو کشمیر کے نمائندوں نے مسلم اکثریت کے حامل جموں و کشمیر کے خطے کا الحاق پاکستان سے کیا لیکن پھر بھی بھارت نے زبردستی کشمیر پر قبضہ کر لیا۔ جوناگڑھ اور مناوادر کے مسلم نوابوں نے اپنی ریاستوں کا الحاق پاکستان سے کیا تو انڈیا نے ان پر بھی قبضہ کر لیا۔ حیدرآباد دکن کی ریاست کے نواب عثمان خان نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا تو1948ء میں انڈیا نے اس پر بھی قبضہ کر لیا۔ کراچی کے ساتھ ملحق پاکستان کے سمندری علاقے سرکریک پر قبضہ کر لیا۔ 1984ء میں سیاچن کے ایک حصے پر قبضہ کر لیا اب گوادر سے خنجراب اور آگے کاشغر تک چین اور پاکستان اقتصادی کوریڈور بنا رہے ہیں تو انڈیا اس کی بھی مخالفت کر رہا ہے۔ کلبھوشن جیسے حاضر سروس فوجی افسروں کے ذریعے سے پاکستان میں دہشت گردی کرواتا ہے۔ پاکستان میں چین کے لوگوں پر حملے کرواتا ہے۔ پاکستان اور چین اسے کہتے ہیں کہ کشمیر کا مسئلہ حل کر دو اور اقتصادی راہداری سے فائدہ اٹھائو مگر وہ دہشت گردی پر تلا ہوا ہے۔
  6. بہرحال! وہ ناکامی سے دوچار ہے اور پاک چین کوریڈور تیزی سے مکمل ہوا چاہتا ہے۔ پاک چائنہ اقتصادی کوریڈور پاکستان کو معاشی خوشحالی کی بلندیوں پر لے جائے گا (ان شاء اللہ) یہ تھا قائداعظم کا ویژن کہ پاکستان کا جغرافیہ کس قدر سیاسی اور معاشی لحاظ سے دنیا کا محور و مرکز بننے والا تھا۔ آج کا پاکستان بھی گوادر سے کاشغر تک دنیا کا محور و مرکز بننے جا رہا ہے۔ انڈیا باز نہ آیا تو ایک روز دونوں جانب سے منہ کی کھانا پڑے گی۔ مقبوضہ علاقے چھوڑنے پڑیں گے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ مغرب کے کوریڈور کے بعد مشرق کا کوریڈور بھی بن کر رہے گا۔ انڈیا اگر امن کے ساتھ تاریخ کے اس موجودہ دھارے کو تسلیم نہیں کرے گا، مخالفت جاری رکھے گا، جارحانہ انداز نہیں چھوڑے گا تو تاریخ کے ہمالیائی دھارے کی رو میں اپنے موجودہ وجود سے محروم ہو جائے گا۔ (ان شاء اللہ تعالیٰ)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں