کوئی پانچ ہزار سال قبل تمام اہل کتاب یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کی ماں محترمہ حضرت حاجرہ علیھا السلام خشک کوہستانی بیابان میں اکیلی ایک پہاڑی پر کھڑی تھیں۔ جس کا نام ''صفا‘‘ ہے۔ دائیں بائیں دیکھ رہی تھیں کہ شاید کسی انسان پرنظر پڑ جائے کہ جس کے پاس پانی ہو اور وہ اپنے دودھ پیتے ننھے اسماعیل کے منہ میں چند قطرے ڈال سکیں تاکہ اس کی زندگی بچ جائے۔ پھر کیا دیکھتی ہیں ننھے کے قدموں تلے پانی کا چشمہ ابل رہا ہے۔ ننھا اسماعیل جب بڑا ہوا، بلوغت میں قدم رکھا تو ماں محترمہ حضرت حاجرہ علیھا السلام کے شوہرِ نامدار حضرت ابراہیم علیہ السلام فلسطین سے تشریف لائے اور کعبے کی بنیادوں کو بلند کرنے لگے۔ وہ تعمیر کعبہ کے راج گیر (معمار) اور حضرت اسماعیلؑ اپنے بابا جان کو پتھر پکڑا کر مزدورِ کعبہ کا کردار ادا کر رہے تھے۔ دونوں باپ بیٹے نے یہاں ایک دعا کی۔ اے اللہ یہاں کے لوگوں میں ایک ایسا رسول بھیجنا جو یہاں کے باسیوں کو کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کا ''تزکیہ‘‘ کرے (القرآن)
کوئی دو اڑھائی ہزار سال بعد دعا نے اپنا رنگ دکھلایا۔ حضرت اسماعیلؑ کی نسل سے حضرت محمد کریمؐ تشریف لائے اور چالیس سال کی عمر میں آپؐ اسی ''صفا‘‘ پہاڑی پر کھڑے تھے جہاں آپؐ کی دادی محترمہ حضرت حاجرہ علیھا السلام کھڑی تھیں۔ آپؐ نے تمام اہل مکہ کو آواز دی۔ سب لوگ جوق در جوق اکٹھے ہو گئے کہ کعبہ کے متولی سردار عبدالمطلب کے بلند کردار پوتے نے آواز دی ہے۔ بات کوئی انتہائی اہم ترین ہے۔ ابولہب بھی یہاں موجود تھا، ابو جہل بھی حاضر تھا اور باقی سارے قریشی سردار اور ہاشمی اعیان موجود تھے۔ حضرت محمد کریمؐ نے سب سے پوچھا، تم لوگوں نے مجھے (کردار کے ہرپہلو کو سامنے رکھتے ہوئے) کیسا پایا؟ سب نے بیک زبان ہو کر کہا، ہم نے آپ کو صادق اور امین پایا۔
ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے 1973ء میں پاکستان کو جو متفقہ آئین دیا اس کے آغاز میں یہ تحریر کیا کہ حاکم مطلق اللہ تعالیٰ ہیں۔ اور پاکستان کا کوئی قانون کتاب و سنت کے منافی نہیں بنایا جا سکے گا۔ جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کا دور آیا تو انہوں نے اس میں باسٹھ اور تریسٹھ کی دو شقوں کا اضافہ کیا۔ ان کا معروف مفہوم یہ ہے کہ جن لوگوں نے اسمبلیوں میں قانون سازی کا کام کرنا ہے، ان کا صادق اور امین ہونا ضروری ہے۔ اگر یہ ثابت ہو گیا کہ وہ صادق اور امین نہیں رہے تو وہ اپنی ذمہ داریوں سے نااہل ہو کر اقتدار سے محروم کر دیئے جائیں گے۔
قارئین کرام! ''صفا‘‘ کے معنی صفائی وستھرائی ہے یعنی ہمارے حضورؐ کو جب مستقبل کے دشمنوں نے صادق اور امین کہا اس وقت ہمارے حضورؐ جس عالیشان مقام پر کھڑے تھے وہ بھی صاف و شفاف تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اس مقام کو ایسا بلند و بالا مقام بخشا کہ اسے اپنا ''شعار‘‘ یعنی عزت و حرمت کا خصوصی نشان (SYMBLE) قرار دیا۔ پھر حضور کی آمد کا مقصد انسانوں کے دلوں کا ''تزکیہ‘‘ بتلایا۔ اب غور فرمایئے! حضورؐ جس مقام پر کھڑے ہیں وہ ''صفا‘‘ ہے۔ مقصد آپ کا انسانی تزکیہ ہے اور آپؐ کے کردار کی عوامی گواہی صداقت اور امانت ہے۔ جی ہاں! اس کا نام پاکستان کے آئین میں باسٹھ اور تریسٹھ ہے۔ میں ایک اور پہلو سے غور کرتا ہوں تو میرے پاک اور مقدس و مطہر رسول گرامیؐ کی عمر مبارک بھی باسٹھ اور تریسٹھ سال تھی۔ قمری سال کے حساب سے باسٹھ سال اور چند ماہ تھی۔ اگر چند ماہ کو پچھلے سال ہی کا حصہ مان لیں تو عمر مبارک باسٹھ سال تھی اور اگر چند ماہ کو اگلے سال کا حصہ مان لیں تو عمر مبارک تریسٹھ سال تھی۔ یوں باسٹھ اور تریسٹھ کا تعلق میرے حضورﷺ کی عمر مبارک کے ساتھ ہے۔ جنرل ضیاء الحق مرحوم‘ اللہ کے رسولؐ کے فدائی اوربہت بڑے محب تھے۔ انہوں نے جب 1973ء کے آئین میں باسٹھ اور تریسٹھ کو شامل کیا تو ان کے سامنے یقینا حضورؐ کی عمر مبارک کا یہ پہلو بھی ہو گا۔ اگر نہ بھی ہو تب بھی باسٹھ اور تریسٹھ میں اللہ تعالیٰ کی خاص الخاص حکمت دکھائی دیتی ہے کہ پاکستانی حکمرانوں کے کردار کو حضرت محمد کریمؐ کی پاک اور مبارک سیرت کی روشنی میں قانون کے ساتھ باندھ دیا جائے۔
جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے میاں محمد نوازشریف کو ایک اور بھی دعا دی تھی کہ ان کی زندگی بھی میاں نوازشریف کو لگ جائے یعنی ایسی دعا صرف ایک باپ ہی اپنے بیٹے کے لئے کر سکتا ہے۔ جناب ضیاء الحق نوازشریف کو اپنے سگے بیٹے کی طرح سمجھتے تھے جوان کی دعا سے واضح ہے۔ اب یہ دعا تو قبول ہو گئی مگر باسٹھ تریسٹھ کے قانون نے 2017ء میں نوازشریف کو نااہل کر دیا ہے تو میاں صاحب کو اپنی اقتدار کی زندگی کا جائزہ لینا چاہئے اور اپنی ذات سے بھی کچھ شکوے کرنے چاہئیں۔ قانون سے شکوہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس مقدس اور پاکیزہ قانون پر تو عمل ہی نہیں ہوتا رہا اور عملدرآمد نہ کروانے کا شکوہ ہم اہل پاکستان کا میاں صاحب محترم سے ہے۔ اب اگر سپریم کورٹ نے عملدرآمد کا آغاز میاں صاحب سے کیا ہے تو انہیں سوچنا چاہئے کہ سپریم کورٹ کے پانچ جج اور جے آئی ٹی کے چھ ممبران تو محض ایک سبب ہیں اصل فیصلہ تو اللہ تعالیٰ کا ہے کہ ''جسے چاہتا ہے حکمرانی دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے۔‘‘ (القرآن)
اب اللہ تعالیٰ نے چھین لی ہے تو اپنے بچوں کو سمجھائو کہ تکبر اور بڑائی کے ایسے بول نہ بولو کہ ''روک سکتے ہو تو روک لو ہم دوبارہ آئیں گے۔‘‘ سوال پیدا ہوتا ہے یہ چیلنج کن کو ہے۔ آپ کے کارندے اور ترجمان فوج اور عدلیہ کا نام لیتے ہیں تو کیا یہ ان کو چیلنج ہے۔ چلو! یہ مبہم چیلنج بھی کسی حد تک گوارا ہو سکتا ہے مگر خواجہ سعد رفیق کا یہ کہنا کہ باسٹھ تریسٹھ کو (آئین سے) نہ نکالنا ہماری نالائقی تھی۔ اسی طرح ان کا یہ کہنا کہ ''صادق اور امین کا تماشا لگا تو دور تک جائے گا‘‘ اللہ کی پناہ ایسے جملوں سے یاد رکھو! ایسا جملہ بولنا ہی نالائقی اور نااہلی ہے۔ صادق اور امین کی دفعات اسلامی دفعات ہیں۔ حضورؐ کی پاک اور مبارک سیرت سے متعلق دفعات ہیں۔ خواجہ صاحب میرے دوست رہے ہیں، میں جانتا ہوں ''تحریک حرمت رسولؐ‘‘ میں وہ بطور ممبر مسلم لیگ ن کی طرف سے ایک حصہ تھے۔ میں انہیں آج بھی اس کا ایک حصہ سمجھتا ہوں وہ محبِّ رسولؐ بھی ہیں مگر ہوشیار باش! کہ نوازشریف کی محبت اور اقتدار کی ہوس میں اتنا دور نہ نکل جائیں کہ گستاخی کے زمرے میں شامل ہو جائیں اور یہ بھی یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ قرآن میں واضح کرتے ہیں کہ جس کی آواز اس کے محبوب کی آواز سے بلند ہو گئی اس کے سارے نیک اعمال ضائع ہو جائیں گے اور تمہیں اس کا شعور بھی نہ ہو گا (الحجرات) لہٰذا حُبِّ مصطفی ایسے مقام پر ہونا چاہئے کہ بے دھیانی میں بھی محبت کے نازک ایمانی رشتے کو ٹھیس نہیں پہنچنی چاہئے۔ بعض لوگ 295-C کا مذاق اڑا کر ناکام و نامراد ہو گئے۔ یہ بھی جنرل ضیاء الحق کا بنایا ہوا اسلامی قانون ہے۔ صادق و امین کا قانون بھی اسی صافی چشمے سے تعلق رکھتا ہے لہٰذا اس پر ریمارکس دینے سے پہلے اچھی طرح سوچ سمجھ لو کہ منہ سے کیا کہہ رہے ہو؟ صادق اور امین آج کے دور میں ایسا بین الاقوامی مہذب ترین قانون ہے کہ جس کا لحاظ امریکہ یورپ اور دیگر ملکوں میں بھی ہے۔ جھوٹ بولنے پر نکسن کٹہرے میں آ گیا اور بددیانتی پر آج بھی جنوبی کوریا کی صدر پارک اور فرانس کا صدر سرکوزی جیل میں ہیں‘ لہٰذا دوبارہ سوچ لو کیا کہہ رہے ہو؟
آزاد کشمیر کے وزیراعظم راجہ فاروق نے بھی حد کر دی ہے کہ گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ کو پہلو میں بٹھا کر پریس کانفرنس میں یہاں تک کہہ ڈالا کہ ''کیا یہ ہے علامہ اقبال اور قائداعظم کا خواب؟ مجھے سوچنا پڑے گا، بحیثیت کشمیری کہ میں کس ملک کے ساتھ اپنی قسمت کو جوڑوں؟ اگر یہ ہی ہے ''علامہ اقبال کا پاکستان اور قائداعظم کا پاکستان‘‘ قارئین کرام! ایسے بیانات کی بنیاد تو میاں نوازشریف نے اس وقت ڈال دی تھی جب نااہلی کے بعد انہوں نے پارلیمانی میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیراعظم کو یوں ہی فارغ کیا جاتا رہا تو ملک کو حادثہ ہو سکتا ہے... جی ہاں! اسی حادثے کا اعلان اب آپ کے جانباز فاروق حیدر راجہ نے کر دیا ہے اور انڈیا اس پر خوشیاں منا رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں نااہلی پر اس قدر غصہ کہ متفقہ آئین کی اسلامی شقوں کا بھی مذاق، اقبال اور قائد کے پاکستان کا تذکرہ بھی بطور مذاق اور پھر ملک کے حادثے کی بات اور آخر پر مضمر مفہوم میں انڈیا کے ساتھ ملنے کی بات... یہ چوکا تو آپ نے لگا دیا، چھکے میں کیا کرو گے یقینا گرائونڈ سے باہر بھاگو گے۔ ذہن شاہانہ ہے تو بہادر شاہ ظفر جیسے بادشاہ کو دیکھ لو، بات بڑی پتے کی کہہ گئے ہیں؎
ظفر آدمی اس کو نہ جانئے گا‘ وہ ہو کیسا ہی صاحبِ فہم و ذکا
جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی‘ جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا