پروفیسر حافظ محمد سعید پچھلے سات ماہ سے نظربند ہیں۔ نظربندی کے باوجود وہ اپنی عقابی نظریں بلوچستان پر گاڑے ہوئے ہیں۔ ملی مسلم لیگ بلوچستان کے سربراہ جناب اشفاق صاحب کو واضح ہدایات تھیں کہ بلوچستان میں عمومی طورپر اور کوئٹہ میں خصوصی شان و شوکت اور عالیشان انداز سے 14اگست منایا جائے اور دنیا کو بتلایا جائے کہ بلوچستان کے جری، دلیر اور محب وطن لوگ کس طرح پاکستان سے والہانہ محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ اظہار جو چند دہشت گردوں کی دہشت گردی کی وجہ سے گھروں میں نظربند کر دیا گیا تھا، اسے سرعام نمایاں اور مشتہر ہونا چاہئے۔ جی ہاں! ایک جانب یہ پروگرام تھا تو دوسری جانب دشمن بھی اپنی بزدلانہ چال چلنے کو تیار بیٹھا تھا۔ اب تو ہر ایک کو معلوم ہے کہ مودی حکومت بلوچستان میں دہشت گردی کروانے میں آخری حدوں تک ملوث ہو چکی ہے۔ کلبھوشن جو انڈین نیوی کا حاضر سروس کمانڈر ہے وہ بلوچستان سے ہی پکڑا گیا تھا۔ انڈین خفیہ ادارے ''را‘‘ کے دہشت گردوں کو 14اگست کے حوالے سے خصوصی ٹارگٹ دیئے جاتے ہیں چنانچہ پچھلے سال بھی 14اگست کے موقع پر ان دہشت گردوں نے وکلاء برادری کو خون میں نہلا ڈالا تھا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ کوئٹہ میں چند سینئر وکلاء کے علاوہ باقی سب اپنے اللہ کے پاس ہیں۔ اس سال حسب سابق یوم آزادی سے صرف دو دن قبل کوئٹہ میں پاک فوج اور ایف سی کے افسروں اور جوانوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ ساتھ ہی یہ اطلاع افواہ بن کر گردش کرنے لگی کہ دہشت گرد بارود سے بھرا ٹرک لے کرکوئٹہ میں موجود ہیں۔ مزید یہ کہ دو عدد خودکش بھی شہر میں موجود ہیں۔ ایسی صورتحال میں بھلا کون جیالا باہر نکلے گا، وہ بھی کوئٹہ میں اور آزادی کے پرہجوم کاروان میں کہ ہجوم ہی تو دہشت گردوں کا نشانہ ہوتا ہے۔ ایسے میں کون سی بیوی ایسی ہو گی جو شوہر کو جانے دے گی۔ کون سا باپ اور ماں ہو گی جو اپنے جگر پارے کو باہر نکلنے دے گی۔ دشمن نے یہی سوچ رکھا تھا، مزید یہ کہ دشمن نے دہشت گردی کی افواہوں کا بازار گرم کیا اور مطمئن ہو گیا کہ اب کامیابی ناگزیر ہو گئی ہے، کوئی باہر نکلنے نہ پائے گا۔
پاک فوج کے دلیر اورجانباز سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ ایسی صورتحال میں فوراً کوئٹہ پہنچے۔ انہوں نے شہداء کی نماز جنازہ پڑھی۔ زخمیوں کی عیادت کی اور دشمن کو پیغام دیا کہ تمہاری گولیاں اور بارود ختم ہو جائیں گے مگر ہمارے سینے ختم نہیں ہوں گے اور یہ کہ دہشت گردوں کو ختم کر کے دم لیں گے۔ یہ ایسا بیان تھا جس نے کوئٹہ کے ہر پاکستانی کا سینہ چوڑا کر دیا۔ اک ولولہ اور جذبہ ہر سینے کی زینت بن گیا۔ ایسے حالات میں مجھے کوئٹہ پہنچنا تھا اور آزادی کے کارواںمیںبلوچ، پشتون عوام اور سرداروں، نوابوں کے ہمراہ کارواں کے ساتھ ساتھ چلنا تھا۔ میرے چھوٹے بیٹے کو بلوچستان، خاص طور پر کوئٹہ جانے کا بڑا شوق تھا۔ اس بار بھی اس نے اپنے شوق کا اظہار کیا تو میں نے اسے اپنے ہمراہ لے لیا۔ یہ سوچ کر کہ انڈین دہشت گردوں کی سوچ کو شکست دینے کے لئے آزادی کے کارواں میں جہاں بلوچستان کے جگر گوشے موجود ہوں گے وہاں لاہور کا جگر گوشہ بھی موجود ہونا چاہئے۔ مزید برآں! میں کوئی پچھلے دس دنوں سے ہلکے بخار کے ساتھ آزادی کے پروگرامز کی بھاگ دوڑ میں مصروف تھا اور اب جسمانی کمزوری کافی ہو چکی تھی، چنانچہ یہ بھی سوچا کہ بیٹا سفر میں خدمت بھی کرے گا۔ یوں 14اگست کو ہم کوئٹہ میں تھے اور ولولوں کا وہاں اک جہان آباد تھا۔
کوئٹہ سے مستونگ کوئی 70کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ مستونگ ہی وہ ضلعی صدر مقام ہے جہاں چند ماہ قبل ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفور حیدری پر خودکش حملہ ہوا۔ مولانا کو اللہ نے محفوظ رکھا جبکہ گاڑی میں سوار تمام افراد اور دیگر درجنوں لوگ شہید ہو گئے۔ اسی مستونگ سے ملی مسلم لیگ کے صوبائی سربراہ جناب اشفاق صاحب کاروان لے کر چلے، ان کے ساتھ شاہوانی قبیلے کے نواب میر ظفر اللہ صاحب اپنے قبیلے کی سینکڑوں گاڑیوں کے ہمراہ موجود تھے۔ اب یہ قافلہ اس شاہراہ پر چل رہا تھا جہاں برادر ہمسایہ ملک چین کے لوگوں پر حملے ہوئے تھے۔ 14اگست کو مذکورہ ریلی اس راہ پر چل رہی تھی جہاں دوسرے صوبوں کے لوگوں کو کئی بار شہید کیا گیا تھا۔ کوئٹہ سے چل کر اب میں بھی مستونگ روڈ پر اس کارواں میں شامل ہو چکا تھا۔ میر حاجی علی جتک جو پیپلزپارٹی بلوچستان کے صدر ہیں انہوں نے کارواں کے لوگوں کو کھانا دیا اور وہ بھی اپنے کارکنوں کے ہمراہ آزادی کارواں میں شامل ہو کر چل پڑے۔ کوئٹہ شہر میں سریاب روڈ پر آئے تو مسلم لیگ ن کے صوبائی رہنما اور وزیراعلیٰ کے مشیر میر عثمان پرکانی اپنے قافلے کے ہمراہ کارواں کا استقبال کرنے کو موجود تھے۔ اب وہ بھی آزادی مارچ کا حصہ بن چکے تھے۔ سردار عنایت اللہ اچکزئی جو اپنے قبیلے کے سردار ہیں۔ کارواں کے ہمراہ مستونگ سے تشریف لائے تھے۔ جوانوں کی طرح پرجوش تھے، قافلہ اور آگے بڑھا تو میرحشمت خان لہڑی جو جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی رہنما ہیں، اپنے قافلے کے ہمراہ موجود تھے۔ میرطارق، حضرت علی اچکزئی، میر معظم اور رحیم کاکڑ بھی تھے۔ ادّوزئی قبیلے کے سردار جناب ڈاکٹر ہارون صاحب نے تو کمال کر دیا۔ انہوں نے پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جھنڈا تیار کیا۔ اس جھنڈے کی چوڑائی 9میٹر تھی اور لمبائی پندرہ سومیٹر تک تھی۔ تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر بنتا ہے۔ جب اس جھنڈے کو پھیلایا گیا تو فضا پاکستان کا مطلب کیا ''لاالہ الا اللہ‘‘ اور پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھی۔ اندازہ لگائیں تو ڈیڑھ کلومیٹر تک قافلہ میں موجود بلوچ اور پختون جوان اور بزرگ سبز ہلالی پرچم تھامے انتہائی جذباتی انداز میں پاکستان کے ساتھ والہانہ وابستگی کا اظہار کر رہے تھے۔ لوگ کہہ رہے تھے نائن الیون کے بعد بلوچستان کی تاریخ میں پہلی بار اتنا بڑا قافلہ نکلا ہے۔
دہشت گردوں کی ناپاک امیدوں پر بلوچستان کے عوام نے خاک ڈال دی تھی۔ انتظامیہ نے جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کر رکھی تھیں، انہیں خدشہ تھا کہ بڑا ہجوم کسی سانحے کا شکار نہ ہو جائے۔ اس کے باوجود لوگ بڑی تعداد میں نکلے۔ اندازہ لگائیں اگر بارہ تاریخ کا سانحہ نہ ہوتا تب آزادی مارچ کے متوالوں کی تعداد کس قدر زیادہ ہوتی؟ میں کہتا ہوں اگر انتظامیہ کی حفاظتی رکاوٹیں ہی نہ ہوتیں تب بھی تعداد بہت زیادہ ہوتی مگر اس سب کے باوجود کہ بہت سارے لوگ رکاوٹوں کی وجہ سے واپس گھروں میں چلے گئے۔ ریلوے ہاکی گرائونڈ بھرا ہوا تھا، جہاں مذکورہ تمام رہنمائوں کے علاوہ سردار ہاشم پانیزئی، راز محمد لونی، سردار عبدالصمد نے بھی خطاب کیا۔ آخر پر میںنے آدھ گھنٹہ تک تقریر کی۔ مغرب سے ذرا قبل جلسے کا اختتام ہوا جب ہم مغرب کے بعد شہر میں نکلے تو یوں تھا جیسے سارا شہر سڑکوں اور پارکوں میں نکل آیا ہے۔ ہر جانب رش کی وجہ سے ٹریفک جام تھی، رینگ رینگ کر چل رہی تھی، ہاتھوں میں جھنڈے تھے اور زبانوں پر پاکستان کے نعرے تھے۔
سردار ہارون ادّوزئی نے مزید یہ کیا کہ ''سنڈے من‘‘ سکول کی وسیع و عریض گراسی گرائونڈ میں شہر کے عمائدین کو آزادی کی خوشی میں عشائیہ دے دیا۔ تین سو سے زائد عمائدین یہاں جمع ہو گئے۔ بلوچ، پختون، پنجابی، سندھی اور کشمیری سب یہاں موجود تھے۔ کھانے کے بعد میں نے تحریک پاکستان پر روشنی ڈالتے ہوئے سردار ہارون صاحب کا شکریہ ادا کیا۔ اس موقع پر حاضرین نے اپنے جن جذبات کا اظہار کیا وہ بھی انتہائی ایمان افروز تھے۔ حاجی محمد خان گورگیج جو اپنے قبیلے کے سرکردہ آدمی ہیں، کہنے لگے، میرا ایک ہی بیٹا ہے، سیکنڈ ایئر میں ہے، اور پھر عثمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کی ماں ہمیشہ اپنے بیٹے کو ایسے پروگراموں سے روکتی ہے لیکن آج آزادی کے دن مجھے کہنے لگی، اس کوبھی ساتھ لے جائو، پاکستان پر ہمارا سب کچھ قربان ہے۔ میں نے اپنے بیٹے خزیمہ کی طرف دیکھا جو عثمان کے ساتھ بیٹھاتھا، میں نے کہا آج میں بھی اسی جذبے سے شامل ہوا ہوں۔ یہ متوقع امید لے کر کہ ہو سکتا ہے ہم باپ بیٹا 14اگست 2017ء کی شام کو کوئٹہ میں نہ ہوں اور اللہ کی جنت میں ہوں۔ سردار عبدالصمد کہہ رہے تھے، مجھے میری بیوی نے یہ کہہ کر روانہ کیا کہ اہم کاغذات کا مجھے بتلا جائو اور جائو اللہ کے حوالے... الغرض! رات کے عشایئے میں ایک سے بڑھ کر ایک جذبات سننے کو مل رہے تھے۔ اور وہ دو بانکے جوان، دونوں بھائی کہ ایک کا نام طوفان خان ہے اور دوسرے کا نام سیلاب خان ہے۔ دونوں صاحب حیثیت ہیں۔ مگر پاکستان کا پرچم بلند کئے ہر میدان میں اشفاق صاحب کے ہمرکاب تھے۔ الحمدللہ! آج میں یہ بات کہنے کی پوزیشن میں ہوں کہ کوئٹہ اور بلوچستان میں ہر جوان تحریک پاکستان اور استحکام پاکستان کی خاطر وطن دشمن دہشت گردوں کے خلاف اک سیلاب اور اک طوفان بن کر آیا اور پاکستان کے استحکام کو اک فولادی جذبہ دے گیا۔ ایسے جذبوں کو مبارک۔ اللہ کی رحمت سے یقین ہے کہ ہر سال یہ جذبے اور ولولے جنرل باجوہ کی للکار کو سامنے رکھتے ہوئے بڑھتے رہیں گے اور کوئی ان جذبوں کو نظربند نہ کر سکے گا۔(ان شاء اللہ)