بخاری شریف کی حدیث کے مطابق ''اَلْحَرْبُ سِجَالٌ‘‘ جنگ میں باریاں ہوتی ہیں۔ یعنی مدمقابل دونوں طاقتیں باری باری فتح و شکست سے دوچار ہوتی رہتی ہیں۔ فتح پر خوشی کے شادیانے بجانا اور شکست پر دشمن کی بہادری کو تسلیم کرنا بھی بہادری ہوتا ہے اور نئے سرے سے تیاری کر کے میدان میں اترنا دلیروں کا شیوہ ہوا کرتا ہے جبکہ بزدل کا معاملہ الگ ہے وہ فتح پر خوش ہوتا ہے تو شکست پر اس طرح کا بین اور نوحہ کرتا ہے کہ کسی کا کچھ نہیں بگاڑتا بلکہ اپنے آپ ہی کو بے توقیر کرتا ہے اور بے حوصلہ ہو کر اپنی ہی عزت کو خاک میں ملا دیتا ہے۔ قرآن نے مسلمانوں کی اس معاملے میں خوب خوب رہنمائی کی ہے۔ اُحد وہ جنگ ہے جس میں مسلمانوں کو شروع میں فتح اور پھر شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ اللہ کے رسول حضرت محمد کریمﷺ خود زخمی ہوئے، آپ کے دندان مبارک شہید ہوئے آپ کے جانباز اور جری جرنیل چچا حضرت حمزہؓ شہید ہوئے۔ 72کے قریب صحابہ شہید ہوئے۔ مکہ کے مشرکین فتح یاب ہوئے۔ وہ فتح حاصل کر کے میدان سے نکل گئے تو ذرا دور جا کر انہیں خیال آیا کہ وہ غلطی کر بیٹھے ہیں جب فتح مل گئی تھی تو مدینہ کی ریاست کو خوب خوب کچلنے کا موقع انہوں نے کیوں گنوا دیا۔ ادھر اللہ کے رسولﷺ اس حقیقت کو اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ فتح یاب ہو کر نکل تو گئے ہیں مگر مذکورہ سوچ کے تحت وہ واپس بھی آ سکتے ہیں چنانچہ ہمیں نئے سرے سے تیار ہو جانا چاہئے جب آپﷺ نے اپنے جانبازوں کو ایسا کرنے کو کہا تو ان کی ہمت میں قدرے کمزوری محسوس فرمائی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے رہنمائی کے لئے جو انداز اختیار فرمایا ''سبحان اللہ‘‘ وہ کمال حوصلے اور برداشت کا انداز ہے۔ ملاحظہ ہو، فرمایا:
''اے مسلمانو! دشمن کا تعاقب کرنے میں ہمت نہ ہارو اگر آج تم (شکست کی) درد سے کراہ رہے ہو تو وہ بھی (شکست کے) درد سے کراہتے ہیں جیسا تم کراہ رہے ہو۔ ہاں! ایک فرق ہے کہ تم اپنے اللہ سے (اجر اورجنت) کی وہ امیدیں رکھتے ہو جو یہ لوگ نہیں رکھتے۔ (النساء: 104) قرآن نے درد کے لئے جو لفظ استعمال کیا ہے وہ ''اَلَمْ‘‘ کا لفظ ہے۔ اَلَم اور المیہ کی صورت میں اردو زبان میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔ قرآن نے ''عذاب الیم‘‘ کا لفظ بھی درجنوں مرتبہ استعمال کیا ہے یعنی گناہ گاروں کو دردناک سزا دی جائے گی۔ جی ہاں! مندرجہ بالا لفظ لا کر اللہ تعالیٰ اپنے پیارے رسولﷺ کے ذریعے مسلمانوں کی تربیت کر رہے ہیں کہ جنگ کے دردناک زخموں اور المیوں کو حوصلے سے برداشت کرنا چاہئے، ہمت نہیں ہارنی چاہئے اور شکست کے فوراً بعد نئے سرے سے صفوں کو مضبوط کرنا نہیں بھولنا چاہئے۔ چنانچہ وہی ہوا۔ مکہ کی مشرک فوج کے سالار ابوسفیان کو جب حضرت محمد کریمؐ کی تیاری کا پتہ چلا تو وہ اپنا ارادہ ترک کر کے مکہ کو چل پڑا۔ قرآن نے دوسرے مقام پر مدنی فوج کے جانبازوں کی یوں اصلاح فرمائی: ''کمزور بھی نہ بنو اور غم بھی نہ کرو، تم مومن بنے رہے تو آخری غلبہ تمہارا ہی ہو گا، یہ بھی تو سوچو اگر آج تمہیں (شکست کا) زخم لگا ہے تو ایسا ہی (شکست کا) زخم (بدر کی جنگ میں) انہیں بھی لگ چکا ہے (فتح و شکست کے) یہ دن ہم لوگوں کے درمیان ادل بدل کرتے رہتے ہیں‘‘ (آل عمران 140:) آگے پھر مزید اللہ تعالیٰ مسلم فوج کو حوصلہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہم نے مومنوں کی جانچ بھی کرنا ہوتی ہے۔ کچھ لوگوں کو شہادت کے مرتبے بھی عطا کرنا ہوتے ہیں باقی محبت تمہی سے ہی ہے ظالم لوگوں سے نہیں ہے۔
ہماری پاک فوج ایک اسلامی فوج ہے وہ اسلامی جنگوں سے رہنمائی لیتی ہے۔ 1948ء کی لڑائی میں ہم سری نگر نہیں لے سکے، مگر ہم نے حوصلہ کیا اور یو این میں پرامن جدوجہد میں لگ گئے۔ 1965ء میں ہمارا میچ انڈیا کے ساتھ برابر رہا۔ بھاری ہم اس لحاظ سے رہے کہ دشمن ہم سے تین گنا بڑا تھا۔ 1971ء میں ہمارا مشرقی بازو ہم سے سیاسی چالبازی کی وجہ سے الگ ہوا۔ مگر ہماری فوج نے حوصلہ کیا، اس کے برعکس انڈیا کو دیکھیں کہ کشمیریوں کی جنگ آزادی کی معمولی کارروائی سے بھڑک کر خوب نوحہ کرتا ہے اور بے حوصلہ ہو کر جنگ کی دھمکیاں دیتا ہے اور اپنے ہی بے گناہ لوگوں کو مارنا شروع کر دیتا ہے۔ ہمارا ایسا گھٹیا دشمن آج کل امریکہ کا اتحادی ہے۔ یہ اس وقت روس کے ساتھ کھڑا تھا جب افغانستان میں روس کے خلاف امریکہ اور پاکستان مل کر لڑ رہے تھے۔ امریکہ کا اسلحہ تھا اور ہماری حکمت عملی اور خون تھا۔ امریکہ فتح یاب ہو کر واحد سپرپاور بنا تو انڈیا سے مل گیا۔ ہم نے حوصلہ کیا اور صفوں کو درست کرنا شروع کر دیا۔ امریکہ نے جنرل ضیاء الحق کو صف درستی کی سزا دیتے ہوئے شہید کروا دیا۔ ہم نے اس پر بھی صبر کر لیا اور اپنی صفوں کو درست بھی کرنا شروع کر دیا۔ یہاں میں روس کو بھی اس لحاظ سے خراج تحسین پیش کروں گا کہ اس نے دنیا کی دوسری بڑی سپرپاور ہونے کے باوجود بے حوصلگی کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ ترمذ میں اپنی شکست کو تسلیم کیا۔ افغانستان میں آئندہ نہ لڑنے کا عزم کیا اور وسط ایشیا کی چھ ریاستوں سمیت مشرقی یورپ کے آٹھ ملکوں کو بھی آزاد کرنے کا اعلان کر دیا۔ یعنی روس نے دلیری کے ساتھ شکست کو عملی طور پر تسلیم کیا۔ اپنی صفوں کو درست کیا اور صدر پوٹن کا روس آج پھر سپرپاور بن کر کھڑا ہے۔ یورپ، مشرق وسطیٰ اور افغانستان میں امریکہ کو شکست کے آثار دکھلا چکا ہے۔
امریکہ 2001ء میں افغانستان پر حملہ آور ہو کر یہاں گزشتہ 16 سال سے لڑ رہا ہے۔ انڈیا کے ساتھ حقیقی دوستی کر کے اسے افغانستان کی لڑائی میں اپنا ساتھی بنا چکا ہے۔ پاکستان کو چھڑی دکھا کر اور گاجر کا لالچ دے کر غیر فطری انداز سے مدد چاہتا ہے۔ وہاں اب وہ شکست سے دوچار ہو کر اوباما کے دور سے ڈیڑھ لاکھ فوج نکال چکا ہے۔ صرف دس ہزار فوج باقی ہے۔ اب گولڈن ٹرمپ صاحب نئے امریکی صدر بن کر پاکستان کودھمکی دینے پر اتر آئے ہیں کہ تمہاری وجہ سے ہمیں شکست ہوئی ہے لہٰذا ہم تم پر حملے کر سکتے ہیں۔ یعنی شکست کا بوجھ خود اٹھانے کے بجائے پاکستان پر ڈال دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ جیسی سپرپاور طاقت کے صدر نے شکست تسلیم کرنے کے بجائے بے حوصلگی اور عدم برداشت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس سے امریکہ نے ساری دنیا میں اپنی ذلت کا سامان کر لیا ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ امریکی قوم مستقبل میں شاید اس ذلت کو برداشت نہ کر سکے اور اپنے صدر کو کٹہرے میں کھڑا کر لے۔
جنرل حمید گل جو میرے بزرگ رہنما بھی تھے اور دوست بھی تھے انہوں نے کمال تبصرہ فرمایا تھا کہ نائن الیون بہانہ، افغانستان ٹھکانہ اور پاکستان نشانہ... جی ہاں! امریکہ نے پاکستان کو نشانہ بنانے کے لئے کراچی اور بلوچستان کے علیحدگی پسند سیاسی گروپوں کو دہشت گردی پر لگا دیا۔ پاک فوج حوصلے کے ساتھ دیکھتی رہی اور جب موقع ملا تو کراچی اور بلوچستان دونوں کو سیاسی دہشت گردوں سے پاک کر دیا۔ پاکستانی عوام اپنی فوج کی پشت پر کھڑی ہو گئی۔ امریکہ اور انڈیا کی دوستی نے دوسرا کام یہ کیا کہ مذہبی عنصر کو پاکستان میں دہشت گرد بنا کر کھڑا کردیا۔ ٹی ٹی پی کہ جس کے بارے میں احسان اللہ احسان انکشاف کر چکا کہ ہمیں پیسہ اور اسلحہ انڈیا دیتا تھا یوں اس کو بھی پاک فوج نے اپنے ملک سے صاف اور پاک کر دیا۔ صرف اتنا کہا افغانستان سے یہ لوگ حملے کے لئے آتے ہیں۔ اب صاف ظاہر ہے وہاں امریکہ اور انڈیا بیٹھے ہیں۔ اللہ کی قسم! جان قربان ہے پاک افواج کے حوصلے اور برداشت پر۔ داعش کہ جسے بنانے اور پالنے کا ہلیری نے اعتراف کیا، وہ بھی افغانستان میں قدم جما کر پاکستان میں حملے کرنے لگی۔ پاک افواج نے اس پر بھی قابو پا لیا۔ اقتصادی کوریڈور بننے لگا تو سیاسی اور مذہبی دہشت گردوں نے چینیوں پر حملے شروع کر دیئے۔ پاک فوج نے اس پر بھی قابو پا لیا۔
امریکہ اور انڈیا کی دوستی نے پاکستان کے 80ہزار لوگوں کو شہید کیا۔ ان میں دس ہزار پاک فوج کے جوان ہیں جو ضرب عضب اور ردالفساد کے تحت لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ تین ہمارے جرنیل شہید ہوئے۔ تیس ہزار کے قریب ہمارے فوجی زخمی اور اپاہج ہو چکے ہیں۔ پاک فوج نے حوصلے سے برداشت کر لیا۔ اب امریکہ کے صدر ٹرمپ صاحب کہتے ہیں کہ ہم نے تمہیں ڈالر دیئے، تم نے ہمیں شکست کیوں ہونے دی۔ پاک فوج کے سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے برملا کہا، ڈالر بھی اپنے پاس رکھو اور اسلحہ بھی سنبھال کر رکھو، ہمیں ضرورت نہیں لیکن اعتماد کے ساتھ آگے بڑھنا سیکھو... واللہ العظیم! خراج تحسین اور سلیوٹ ہے پاک فوج کے سالار کو کہ اس قدر حوصلہ ہے ان کا کہ امریکہ کو یہ نہیں کہا جناب 120ارب ڈالر تو ہمارا نقصان کر ڈالا تم لوگوں نے۔ سڑکیں توڑڈالیں، کس پیسے کی بات کرتے ہو۔ جی ہاں! جانوں کے نقصان کا معاوضہ تو دیا ہی نہیں جا سکتا۔ پاک افواج کس قدر حوصلہ مند ہے اور امریکی فوج محض تین ہزار بندے مروا کر افغانستان میں اس قدر بے حوصلہ؟ درست کہا چین نے کہ پاکستان پر تنقید مت کرو۔ دہشت گردی کے خلاف اس کی خدمات کا اعتراف کرو۔ اس بیان میں یہ صداقت عیاں ہے کہ دہشت گردی کو پاکستان پر مسلط کرکے ان کا نقصان کس نے کیا؟ روس نے بھی کچھ ایسا ہی بیان دیا جس کا مطلب یہ بنتا تھا کہ شکست تسلیم کرنے کا حوصلہ کرو۔ جناب ٹرمپ صاحب! حوصلہ کیجئے حوصلہ... شکست مان کر افغانستان سے چلے جایئے، انڈیا کو بھی یہ بات سمجھایئے۔ جب تک یہ نہ سمجھائو گے تب تک پاکستان سے اب یہ پیغام دیئے جاتے رہیں گے۔ ہمارے پاس فی الحال تم سے ملنے کا ٹائم نہیں، بے حوصلہ لوگوں کو حوصلہ مند لوگ آخرکار یہی پیغام دیتے ہیں۔ اے حوصلہ مند پاک افواج اور پاک قوم! تمہیں تمہارے حوصلے پر مبارکباد کہ اب یہ حوصلے فتح کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ پنٹاگان سے گزارش ہے کہ ہماری میزان اور ترازو کی ڈنڈی پر نگاہ جمائے اور اپنا اوپراٹھا ہوا پلڑا دیکھ کر حوصلہ کرے حوصلہ... جی ہاں! وہ حوصلہ جو گورباچوف نے کیا تھا گوربا چوف کا حوصلہ، زندہ باد۔