آج سے 21سال قبل میں بنگلہ دیش میں گیا تو برما کے مہاجرین کے کیمپ میں بھی جا پہنچا۔ چٹاگانگ سے کوئی 5گھنٹے کے سفر کے بعد خلیج بنگال کے کنارے ساحلی شہر ''کاکس بازار‘‘ تھا۔ رات یہاں قیام کیا اور اگلے روز میں ٹیکناف شہر میں تھا۔ اس شہر کے ایک جانب دریائے ناف بہتا ہے اور دوسری جانب سمندر ہے۔ درمیان میں خشکی کی پٹی پر ٹیکناف شہر کے کنارے پر برما کے مہاجرین کا کیمپ تھا۔ آج 21سال بعد بھی اسی دریائے ناف کو کشتیوں کے ذریعے پار کر کے برما کے مہاجرین بنگلہ دیش میںداخل ہو رہے ہیں۔ وہ سمندر کے راستے ''کاکس بازار‘‘ میں بھی آ رہے ہیں اور اب تک 3لاکھ مہاجرین بنگلہ دیش میں آ چکے ہیں۔ ٹیکناف شہر میں ان کاجو کیمپ میں نے دیکھا وہ 8x8کا تھا۔ زندگی انتہائی کسمپرسی کی تھی۔ ظلم کی داستانوں نے میرے کلیجے کو منہ تک آنے سے بمشکل روکا۔ ظلم کی داستانیں تو گزشتہ ستر سال سے جاری ہیں اور ہجرت کے سفر بھی جاری ہیں مگر 2017ء کے موجودہ ظلم نے تمام حدوں کو پھلانگ ڈالا ہے۔ عرض کر رہا تھا کہ مہاجرین دریائے ناف اور سمندری راستوں سے آتے ہیں۔ تیسرا راستہ جنگل کا ہے۔ میں مہاجرین کے اس راستے پر بھی چل کھڑا ہوا۔ برسات کے دن تھے، لٹے پٹے مہاجر آ رہے تھے، اس جنگل میں درختوں پر جونکیں ہوتی ہیں۔ اوپرسے گر کر بھی انسان کو چمٹتی ہیں اور زمین پر پڑی بھی پائوں پر چڑھ کر ٹانگوں کے ساتھ چمٹ جاتی ہیں۔ ان سے بچنے کے لئے میں نے بڑا اہتمام کیا مگر پھر بھی جونکیں چمٹ گئیں اور میراخون چوس گئیں۔ مجھے ''سینا‘‘ نامی جونکوں نے کاٹا تھا۔ اگر بھاترا جونکیں کاٹ لیں تو زیادہ خون بہہ جانے سے موت بھی واقع ہو جاتی ہے۔ اس مشکل راستے سے ہوتا ہوا میںبرما کے سرحدی علاقے تک چلا گیا اور روہنگیا کے ناگفتہ بہ حالات سے واقف ہوا۔ آج پھر سوچتا ہوں کہ راہیں وہی ہیں اور مہاجرین حسب معمول بنگلہ دیش آ رہے ہیں۔ وہ رات جو برما میں مہاجرین کے درمیان گزاری آج بھی رونگٹے کھڑے کر دیتی ہے۔ ترک صدر جناب طیب اردوان کی اہلیہ محترمہ آج نئے مہاجرین کو بنگلہ دیش کی سرزمین پر لٹے پٹے اور کٹے پھٹے دیکھ کر سسکیاں لے کر رو رہی تھیں۔
برما ایک پسماندہ ملک ہے اور برصغیر و مشرق بعید کے درمیان کا ملک ہے۔ اس ملک میں دونوں خطوں کی ثقافت اور چہروں کے خدوخال دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس ملک کے حکمرانوں نے اپنے ملک کا نام بدل کر ''میانمار‘‘ رکھ لیا ہے۔ دارالحکومت رنگون کا نام ''ینگون‘‘ کر دیا ہے اور مسلم اکثریتی علاقے ''اراکان‘‘ کا نام بدل کر ''راکھان‘‘ کر دیا ہے۔ راکھان اپنی پچاس کلومیٹر کی لمبائی کے ساتھ انڈیا کے صوبے ''میزورام‘‘ کے ساتھ ملتا ہے۔ بنگلہ دیش کے ساتھ اس کی سرحد ایک سو کلومیٹر تک ہے اور پھر مزید 165کلومیٹر تک سرحدی صورتحال یوں ہے کہ متواتر دونوں کے درمیان دریائے ناف ہی سرحد بناتا ہے یعنی 265کلومیٹر کی سرحد بنگلہ دیش کے ساتھ ملتی ہے۔ ''اراکان‘‘ موجودہ راکھان کی سرحد میانمار کے ساتھ 540کلومیٹر ہے مگر یہ پہاڑی علاقہ ہے جو سطح سمندر سے 12سو فٹ بلند ہے۔ صرف ایک درّہ ہے جو میانمار اور اراکان کے درمیان رابطہ ہے۔ یوں راکھان جو مسلم اکثریت کا علاقہ ہے اس کا تعلق بنگلہ دیش سے بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انگریز جس کے قبضے میں ہندوستان کے ساتھ برما بھی تھا۔ اس نے جب 1947ء میں آزادی دی تو اراکانی مسلمانوں نے قائداعظم سے ملاقات کی اور کوشش کی کہ ان کے ''اراکان‘‘ کومشرقی پاکستان کاحصہ بنایا جائے۔ انگریز نے جو کام مغربی پاکستان کے ساتھ ملنے والے مسلم اکثریتی علاقے جموں و کشمیر کے ساتھ کیا، وہی زیادتی اراکان کے ساتھ کردی۔ چنانچہ جس طرح کشمیری مسلمان انڈین حکمرانوں کا ظلم برداشت کر رہے ہیں اسی طرح گزشتہ70سالوں سے اراکانی اور اب راکھانی مسلمان جنہیں ''روہنگیا‘‘ بھی کہا جاتا ہے، بدھ مت کے متشدد اور دہشت گرد گروہ کے ظلم کا شکار چلے آ رہے ہیں۔ چنانچہ دونوں مسئلے ہی پاکستان کے ہیں لیکن اراکانی مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش بننے کے بعد خاص طور پر حسینہ واجد کے دور میں اراکانی مسلمانوں کا کوئی پرسان حال نہیں رہا۔ جب تک پاکستان منقسم نہیں تھا صورتحال کافی بہتر تھی مگر بنگلہ دیش بننے کے بعد ابتر ہوتی چلی گئی اور اب حسینہ واجد کے دور میں ابتری اور ظلم کی آخری حدیں کراس کر گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نریندر مودی نے ینگون جا کر میانمار کے حکمرانوں سے مسلم دشمنی کے حق میں یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔
مسئلہ اور قضیہ واضح ہے کہ انڈیا بھی کشمیر میں اور اب تو ہندوستان بھر میں ریاستی دہشت گردی کر رہا ہے جبکہ میانمار سرکاراس سے بھی بڑھ کر راکھان میں اور پورے میانمار میں عمومی طورپر ریاستی دہشت گردی کا ارتکاب کر رہی ہے، لہٰذا وقت آ گیا ہے کہ پاکستان ساری دنیا کو آگاہ کر کے ریاستی دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھائے۔ حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ سے جب پوچھا گیا تھا کہ آپ پاکستان نامی جو ریاست بنانے چلے ہیںاس کا دستور اور آئین کیا ہو گا تو قائد محترم نے واضح کر دیا تھا کہ ہم مدینے کی ریاست کا تجربہ کریں گے یعنی جس طرح مدینہ منورہ کی ریاست میں اللہ کے رسول حضرت محمد کریمؐ نے غیر مسلموں کو ان کے حقوق دیئے تھے۔ انہیں شہریت، جان و مال اور عزت کا تحفظ دیا تھا اسی طرح ہم بھی تحفظ دیں گے۔ یاد رہے!دنیا بھر میں اکثریتی حکمران طبقہ اپنے ملک میں رہائش پذیر کم تعداد لوگوں کو اقلیت کے نام سے موسوم کرتا ہے۔ اسلام نے ''ذِمّی‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اس لفظ میں عزت و تحفظ کا اپنی انتہائی حد تک تصور پایا جاتا ہے۔ یعنی اقلیت کے شہری حقوق کا ذمّہ ریاست کی ذمہ داری ہے اور جو ریاست اس ذمہ داری کو پورا نہیں کرتی وہ نااہل اور ناکام ریاست ہے کہ اس نے اپنے ذمہ کاخیال نہیں رکھا۔ اس ضمن میں حضرت عمرؓ کی شہادت اک ایسا واقعہ ہے جو ریاست کی ذمہ داری کو خوب خوب واضح کرتا ہے۔ حضرت عمرؓ پر اک غیر مسلم ذِمّی نے حملہ کیا تھا۔ حالت نماز میں حملہ کیا تھا، یہ فیروز ابولولو تھا۔ ایران کا مجوسی یعنی آتش پرست تھا۔ حضرت عمرؓ کے پیٹ میں خنجر کا وار ایسا کاری تھا کہ انتڑیاں کٹ گئی تھیں چنانچہ جب آپؓ کو پانی پلایا گیا تو وہ خنجر کے لگے ہوئے زخموں سے باہر نکلنے لگ گیا۔ حضرت عمرؓ سمجھ گئے تھے کہ اللہ کے پاس جانے کا وقت آ گیا ہے چنانچہ آپؓ نے وصیت کی اور صحیح بخاری کی روایت کے مطابق مسلمانوں کو مخاطب کر کے فرمایا! ''میں تم لوگوں کو اللہ اور اس کے رسولؐ کے ذمہ کی وصیت کرتا ہوں، ایسا نہ ہو کہ یوں کہتے پھرو، امیر المؤمنین شہید ہو گئے ہیں اور بے گناہوں کا نقصان نہ ہو۔ چنانچہ ریاست نے اپنی ذمہ داری کو پورا کیا۔ صرف ایک شخص فیروز ابولولو کو قصاص میں قتل کیا گیا، باقی سارے عرب اور عراق و ایران میں کہ جہاں مسلمانوں کی حکومت تھی، کسی ایک مجوسی کو کسی نے اوئے تک نہیں کہا، یہ ہے ریاست کی ذمہ داری۔
برما میں مسئلہ یہ ہے کہ بات بات پر شہریت ختم کر دیتے ہیں۔ ہزاروں اور سینکڑوں سالوں کے باسیوں کا محض تبدیلی مذہب پر شناختی کارڈ منسوخ کر دیتے ہیں پھر انہیں قتل کرتے ہیں جلا وطن کرتے ہیں۔ وہاں کے دہشت گردوں کا ساتھ پولیس اور فوج دیتی ہے۔ فوج اور پولیس خود بھی قتل عام میں شامل ہے۔ یہ ریاستی دہشت گردی ہے۔ یو این کے قوانین میں ایسی ریاست کے حکمرانوں کو مجرم قراردیا گیا ہے۔ عالمی عدالت بھی موجود ہے جہاں جنگی جرائم کے مقدمات بھی چلتے ہیں۔ جب جنگوں میں جرائم کے مقدمات چل سکتے ہیں تو اپنی ہی رعایا اور عام لوگوں کے قتل کے جو جرائم ہیں یہ اپنی سنگینی میں کہیں بڑھ کر ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ نے ایسے الزامات لگا کر صدام اور قذافی کے ملکوں عراق اور لیبیا کو برباد کر دیا، انہیں برما کیوں نظر نہیں آتا۔ کشمیر اور فلسطین کیوں دکھائی نہیں دیتا۔ میں سمجھتا ہوں ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم دنیا کو دکھلائیں۔ یو این میں جائیں، عالمی اداروں کے دروازے کھٹکھٹائیں۔ برما کے حکمرانوں کے گزشتہ 70سالہ مظالم خاص طور پر موجودہ مظالم پر فی الفور اک تحقیقی ادارہ قائم کریں۔ الگ سے کریں یا وزارت خارجہ کا اک ڈیسک بنا دیں۔ اس میں ڈاکومنٹری فلمیں بھی بنائیں۔ مہاجرین کی زبانوں سے حقائق سامنے لائیں۔ اس پر کتب شائع ہوں۔ وہاں کے ظالم کو نامزد کر کے ان کے نام عالمی عدالت انصاف کو دیں تاکہ ان پرمقدمات چلیں۔ اپنے مقدمے کواس طرح مضبوط کریں کہ یو این کی سلامتی کونسل وہاں امن فوج بھیجنے پر مجبور ہو جائے۔ اس امن فوج میں پاکستان، ترکی، بنگلہ دیش، ملائشیا، انڈونیشیا اور چین وغیرہ کے دستے شامل ہوں۔ برما کو ناکام ریاست قرار دلوانے کی بھی کوشش کی جائے۔ آنگ سان سوچی سے نوبل پرائز واپس لینے کی بات کی جائے۔ نوبل پرائز کی کمیٹی کے تمام اراکین کے سامنے حقائق رکھے جائیں۔ مذکورہ تمام کام حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے اس لئے کہ راکھان کے روہنگیا مسلمان اردو بولتے ہیں اور ان کا جرم پاکستان ہے۔ پاکستان کی حکومت پرمذکورہ کردار کی ادائیگی فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ سے توفیق کی درخواست ہے۔