میاں محمد نوازشریف نے جماعۃ الدعوۃ کی طرف اشارہ کر کے لندن سے بیان جاری کر دیا کہ ایسے لوگوں کاالیکشن لڑنا سیاست میں خطرناک رجحان ہے۔ انہوں نے کہا ملک اس کا متحمل نہیں ہو سکتا یعنی یہ وہ بوجھ ہے جسے پاکستان نہیں اٹھا سکتا۔ محترم میاں صاحب کی خدمت میں یاددہانی کے لئے عرض ہے کہ اگریہ بوجھ ہے تو آپ اس بوجھ کو کئی سال سے حلوے اور کھیر کی پرات سمجھ کر اٹھاتے چلے آ رہے ہیں۔ اس لمحے تو میں بھی موجود تھا جب محترم مجید نظامی مرحوم کے گھر میں ملاقات کا بندوبست ہوا۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کے اقتدار سنبھالنے سے چند دن پہلے کی بات ہے۔ میاں شہباز شریف اور ان کے والد گرامی میاں شریف مرحوم پروفیسر حافظ محمد سعید سے ملاقات کر رہے تھے۔ نظامی صاحب اس ملاقات میں موجود تھے۔ مجلس کے اختتام پر محترم میاں شریف مرحوم نے پروفیسر حافظ عبدالرحمن مکی سے معانقہ کیا اور مجھ سے بغل گیر ہوتے ہوئے یہ جملہ ارشاد فرمایا تھا کہ ہمارا ساتھ برقرار رہے گا۔ اسی طرح چند سال قبل جب محبوبہ مفتی جو جو آج کل مقبوضہ کشمیر کی وزیراعلیٰ ہیں پاکستان کا دورہ کر کے واپس گئیں تو محترم نظامی صاحب کی مشاورت سے جاتی امرا میں میاں نوازشریف صاحب سے ملاقات ہوئی۔اس موقع پر محترم حافظ محمد سعید صاحب سے میاں صاحب کہنے لگے حافظ صاحب! آپ کشمیر کے مسئلہ پر سب سے بڑھ کر کردار ادا کر رہے ہیں کیا آپ کشمیری ہیں؟ حافظ صاحب نے فرمایا میاں صاحب کشمیری نہیں ہوں ایک مسلمان اور پاکستانی ہونے کی حیثیت سے مظلوم کشمیریوں کی بات کرتا ہوں۔ یہ پاکستان کی بقا کا مسئلہ ہے۔ حافظ عبدالرحمن مکی اور راقم بھی اس موقع پر موجود تھے۔ حافظ صاحب نے میری سیرت کی کتاب بھی میاں صاحب کو تحفے میں دی۔
میاں نوازشریف کے دست راست وزیر داخلہ جناب احسن اقبال صاحب پروفیسر حافظ محمد سعید کے شاگرد ہیں۔حافظ صاحب انجینئرنگ یونیورسٹی میں شعبہ اسلامیات کے چیئرمین بھی رہے ہیں ان کے ہزاروں شاگرد احسن اقبال صاحب کی طرح ملک میں نمایاں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔میں جانتا ہوں پروفیسر حافظ محمد سعید، میاں نوازشریف صاحب کے بارے میں بہت ہی عزت و احترام کے جذبات رکھتے تھے، وہ اپنی مجلسوں میں اس کا اظہار بھی کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ حافظ صاحب سے محبت کرنے والے لوگ خود تو الیکشن میں پالیسی کی وجہ سے کھڑے نہیں ہوتے تھے مگر ووٹ دیتے تھے تو زیادہ تر مسلم لیگ ن ہی کو دیتے تھے۔ 2013ء کے الیکشن میں، میں ان ایم این اے اور ایم پی اے صاحبان کے نام بتلا سکتا ہوں جو مٹھائیوں کے ٹوکرے لے کر حافظ صاحب محترم کے پاس آئے اور تعاون پر شکریہ ادا کیا۔ خواجہ سعد رفیق صاحب نے اپنے حلقے سے کامیاب ہو کر میرا اور حافظ خالد ولید صاحب کا شکریہ ادا کیا۔ بہاولپور سے ایم این اے اور اب وفاقی وزیر تعلیم جناب بلیغ الرحمن صاحب نے قاری محمد یعقوب شیخ کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے این اے 120سے حالیہ ضمنی الیکشن لڑ کر نمایاں پوزیشن حاصل کی ہے۔ الغرض! مذکورہ بوجھ چونکہ میٹھا اور لذیذ تھا اس لئے رابطے بھی، ملاقاتیں بھی اور شکریہ کے پیغامات بھی تھے اب یکدم یہ سارے لوگ بوجھ اس لئے بن گئے کہ میاں صاحب اپنی اساس سے ہٹتے چلے گئے تو نظریاتی لوگ ان سے دور ہوتے چلے گئے۔ پاکستان کا دو قومی نظریہ جو علامہ اقبال اور قائداعظم نے دیا۔ کشمیر جس کو قائد محترم نے شہ رگ فرمایا۔ میاں صاحب ان سے دور ہوتے چلے گئے اور یہاں تک فرما گئے کہ مجھے عوام نے انڈیا کے ساتھ دوستی کرنے کا مینڈیٹ دیا ہے۔ اس بیان کے بعد حافظ محمد سعید اور ان کے لوگوں نے سوچنا شروع کر دیاتھا کہ ہمارے ووٹ میاں صاحب کو جائیں اور وہ اس مینڈیٹ کو مودی جیسے ظالم لوگوں کی تائید میں استعمال کریں۔ کلبھوشن کا نام تک نہ لیں۔ کشمیر کے مظلوم روتے رہ جائیں۔ یہ ہمیں گوارا نہیں۔ چنانچہ آخرکار انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ ہم خود میدان میں آئیں گے چنانچہ وہ میدان میں آ گئے۔ این اے 120کے میدان میں ان کا اترنا تھا کہ اب یہ بوجھ بن گئے ہیں، ملک کے لئے خطرناک بن گئے ہیں، اس پر تعجب ہی کیا جا سکتا ہے۔
کراچی کی ایک جماعت پر علیحدگی پسندی کا الزام ہے، ہزاروں پاکستانیوں کا قتل اس کے سر پر ہے۔ قیادت لندن میں ہے، قیادت نے پاکستان کا جھنڈا تک جلایا ہے، وہ الیکشن میں حصہ لے کر اقتدار میں آتی ہے تو وارے میں ہے کہ جمہوری جماعت ہے، لیاری میں امن کمیٹی کے نام پر قاتل گینگ کے تانے بانے ایک قومی سیاسی جماعت کے ساتھ سامنے آ گئے مگر اسے بھی ریلیف ملتا ہے کہ جمہوری جماعت ہے۔ بلوچستان کے علیحدگی پسند عسکری تنظیمیں بنا کر دہشت گردی کرتے ہیں ان کو ریلیف دیا جاتا ہے کہ آئیں ہتھیار ڈالیں اور قومی دھارے میں شامل ہو جائیں۔ ہم کہتے ہیں مذکورہ لوگوں میں جو بھی قومی دھارے میں شامل ہوتا ہے انتہائی اچھی بات ہے مگر یہ کیا ہوا کہ ایک ایسی جماعت جو پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائی تو انتہائی دور کی بات ہے الٹا دہشت گردی کے خلاف دہشت گردوں کی نہ صرف مذمت کرتی ہے بلکہ خارجیت اور دہشت گردی کے خلاف نظریاتی محاذ پر بھرپور کردار ادا کرتی ہے۔ دس عدد کتابیں سامنے لاتی ہے۔ ان کتب میں میری معرکہ الآراء کتاب ''خارجی دماغ اور ردّالفساد‘‘ بھی شامل ہے۔ ملک بھر میں نوجوانوں کو خارجیت سے بچانے کے لئے جلسے اور تربیتی ورکشاپس کا انعقاد کرتی ہے۔ پاکستان کا جھنڈا اٹھاتی ہے، اتحاد امت کا کردار ادا کرتی ہے۔ تھر اور بلوچستان میں فلاح انسانیت کا کام کرتی ہے۔ لاہور ہائیکورٹ اس کے بارے میں فیصلہ دیتی ہے کہ پاکستان کے اندر اس جماعت کیخلاف ظلم کی ایک بھی شکایت نہیں۔ سپریم کورٹ ایسی کسی شکایت کا ثبوت وفاقی حکومت سے مانگتی ہے تو وہ مہیا نہیں کر سکتی یہاں تک کہ یہ سپریم کورٹ سے بھی کلیئر ہوتی ہے لہٰذا یہ جماعت کالعدم نہیں بلکہ محض واچ لسٹ میں رکھی ہوئی ہے وہ بھی اس لئے کہ کشمیر کی بات کرتی ہے۔ ظاہر ہے انڈیا کے سرپرست امریکہ کو کچھ دکھلانا تو ضروری ہے۔
میں کہتا ہوں ایسے لوگ قومی دھارے میں آئیں تو انہیں تو سب سے بڑھ کر سینے سے لگانا چاہئے چہ جائیکہ تشویش کا اظہار کیا جائے۔ نیشنل ایکشن پلان میں یہ اصول طے کیا گیا تھا کہ جو قومی دھارے سے الگ ہو چکے انہیں قومی دھارے میں لایا جائے اور جو پہلے ہی بہت بڑھ کر قومی دھارے میں ہیں اور صرف انتخابی جمہوری سسٹم میں نہ ہو کر الگ تصور کئے جاتے تھے وہ جب ملی مسلم لیگ کی صورت میں آئے ہیں تو انہیں تو دونوں بازو کھول کر ویلکم کرنا چاہئے نہ کہ تشویش کا اظہار کرنا چاہئے۔ میں سمجھتا ہوں اگر لندن سے دنیا کو میاں صاحب یہ پیغام دیں کہ یہ ہماری کامیابی ہے کہ ملی مسلم لیگ کے نام سے حافظ سعید کے لوگ قومی اور بین الاقوامی دھارے میں آ گئے ہیں تو یہ پاکستان کے حق میں ہے اور جب وہ اسے خطرناک کہیں گے تو یہ چیز اسی طرح پاکستان کے خلاف جائے گی جس طرح گھر کی صفائی والی بات پاکستان کے خلاف گئی ہے اور اس پر ہندوستان کا میڈیا خوشی و مسرت کی باتیں کر رہا ہے کہ ہمارے موقف کی تائید پاکستان کا حکمران طبقہ کر رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں ہمیں اپنی ذات اور سیاسی مفادات سے بہت اوپر اٹھ کر پاکستان کا سوچنا چاہئے۔
این اے 120سے ملی مسلم لیگ کے صدر سیف اللہ خالد اور ان کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار قاری محمد یعقوب شیخ نے اگر بھرپور مہم چلا کر نمایاں پوزیشن لی ہے تو اس میں مثبت پہلو یہ ہے کہ یہ لوگ گھر گھر گئے۔ جوابی طور پر محترمہ مریم نواز صاحبہ کو بھی اپنے کارکنوں کے ساتھ گھر گھر مہم چلانا پڑی۔ حلقے کے لوگ ملی مسلم لیگ والوں کا اس بات پر شکریہ ادا کرتے تھے کہ حکمران جماعت کے لوگ بس گھروں میں پرچیاں بھیج دیتے تھے اور سمجھتے تھے کہ اب ووٹ ان کا ہے لیکن اس بار آپ لوگوں کی وجہ سے ان کو بھی رابطے کرنا پڑے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملّی اور لبیک کے لوگوں کی مہم کی وجہ سے ٹرن آئوٹ بڑھ گیا۔ جمہوری سسٹم کی کامیابی کے لئے ٹرن آئوٹ میں اضافہ ضروری ہے وگرنہ جیسا کہ ٹرن آئوٹ کم ہوتا جا رہا ہے تو یہ علامت اچھی نہیں۔ این اے 120 میں ملی مسلم لیگ کے کارکنوں نے علاقے کے مسائل پربھی بات کی اور نظریاتی گفتگو میں کشمیر میں انڈیا کے ظلم کی بھی بات کی۔ اس کا اچھا پہلو اب یہ سامنے آیا ہے کہ یو این میں حکمران مسلم لیگ ن کی جانب سے ڈاکٹر ملیحہ لودھی صاحبہ نے کشمیر کے مسئلہ پر انڈیا کی خوب خبر لی ہے۔ انڈیا جو اپنے آپ کو دنیا کی بڑی جمہوریت کہتا ہے۔ محترمہ لودھی صاحبہ نے اسے جمہوریت کے نام سے منافقت قرار دیا۔ کشمیری طالبہ کا چہرہ جو پیلٹ گن کے چھروں سے چھلنی تھا اور آنکھیں نابینا ہو گئی تھیں وہ تصاویر دنیا کو دکھلائیں اور کہا کہ ہم دنیا بھرکو انڈیا کی دہشت گردی سے آگاہ کریں گے کہ وہ پاکستان اور دیگر ہمسایوں کے لئے کیسے کیسے دہشت گرد گروپ تیار کرتا ہے۔ وہ علاقے میں دہشت گردی کی ماں ہے۔ جی ہاں! حلقہ 120میں محبان کشمیر کی نمایاں پوزیشن سے مسلم لیگ ن نے اپنی اصلاح کرنا شروع کر دی ہے تو حافظ محمد سعید کا دل دوبارہ میاں صاحب کے لئے احترام کے جذبات سے معمور ہو سکتا ہے۔ میاں صاحب اب واپس پاکستان آئے ہیں۔ انہیں سیاست کے بازار سے انتقام کو بھی نکال باہر کرنا ہو گا۔ حلقہ 120میں الیکشن لڑنے کی وجہ سے فلاح انسانیت فائونڈیشن کی شامت آ گئی اور ایمبولینسوں کے تمام بوتھ ہٹا دیئے گئے۔ حلقہ 120سے تو کرینوں سے اٹھا کر دریائے راوی میں پھینک دیئے گئے۔حافظ عبدالرئوف جوچیئرمین ہیں آنسو بہائے جا رہے ہیں۔ میاں شہباز صاحب ان کے آنسو پونچھیں۔ یاد رہے! سیاست صرف الیکشن کا نام نہیں یہ حوصلے، برداشت، رواداری اور خدمت کا نام ہے۔ نئے لوگوں کی انٹری سے مجھے مندرجہ بالا خوبیاں دکھائی دے رہی ہیں۔ تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن والوں نے تسلیم کیا کہ ہمارے درمیان لڑائیاں ہوتی رہی ہیں لیکن نئے لیگیوں کی وجہ سے اس بار ایک آدھ معمولی ہاتھا پائی کے علاوہ کوئی لڑائی نہیں ہوئی۔ ایسی خوبیاں اور ضمنی الیکشن میں مناسب ٹرن آئوٹ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ نئے لیگیوں کی آمد سسٹم کے لئے مبارک ہے لہٰذا انہیں خوش آمدید کہا جانا چاہئے۔ اسی طرح گلے لگانا چاہئے جس طرح میاں محمد شریف مرحوم نے مجھے گلے لگا کر کہا تھا تعلق قائم رہے گا۔