حضرت عمرؓ کے صاحبزادے حضرت عبداللہؓ کہتے ہیں کہ میں اللہ کے رسولﷺ کی زوجہ محترمہ‘ اپنی بہن ام المومنین حضرت حفصہؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ان سے پوچھنے لگا، کیا آپ کے علم میں ہے کہ والدِ محترم (حضرت عمرؓ) اپنی جگہ پر کسی حکمران کی نامزدگی نہیں کریں گے؟ حضرت حفصہؓ فرمانے لگیں، نہیں! میرا خیال تو یہ ہے کہ والد محترم نامزدگی کریں گے، اب میں نے قسم کھائی کہ میں اس موضوع پر اپنے والد سے بات کروں گا۔ اس روز تو میں پوچھنے کی ہمت نہ کر سکا، اگلے دن صبح کو بھی نہ پوچھ سکا۔ اب میرا حال ایسا تھا جیسے میں ایک پہاڑ کو اٹھائے پھرتا ہوں کہ قسم کی وجہ سے پوچھنا بھی ضروری ہے اور والد کا رعب دیکھوں تو سامنا کرنے کی ہمت بھی نہیں کر پاتا۔ آخرکار میں نے ہمت کر کے پوچھنے کا ارادہ کر ہی لیا اور والد حضور کی خدمت میںحاضر ہو گیا۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ لوگوں میں کیا باتیں چل رہی ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ میں نے لوگوں سے جو سنا اس پر قسم اٹھا لی تھی کہ آپ سے ضرور پوچھوں گا۔ اب آپ نے خود ہی مجھ سے پوچھ لیا ہے توعرض یہ ہے کہ لوگ اس رائے کا اظہار کر رہے ہیں کہ آپ اپنے بعد کسی کو حکمران نامزد نہیں کریں گے۔ اب یہاں میرا ایک سوال ہے کہ آپ کا کوئی چرواہا ہو، وہ اونٹ یا بکریاں چرا رہا ہو۔ آپ اسے بلائیں اور وہ (اپنی جگہ کوئی چرواہا نامزد کئے بغیر) ہی ریوڑ چھوڑ کر آپ کے پاس آ جائے تو آپ یہی سمجھیں گے کہ جانور برباد ہو گئے۔ اس کے مقابلے میں انسانوں کو حکمرانی دینا تو کہیں زیادہ ضروری اور لازمی ہے۔ میری دلیل والد محترم پر اثر انداز ہوئی اور انہوں نے کچھ دیر کے لئے سر جھکا لیا (سوچنے لگ گئے) پھر اپنا سر اٹھایا اور فرمانے لگے: کوئی شک نہیں عزت و جلال والا اللہ تعالیٰ اپنے دین کی حفاظت فرمائے گا۔ اس معاملے میں میرے سامنے اللہ کے رسولﷺ کا اسوہ یہ ہے کہ آپﷺ نے کسی کو حکمران نامزد نہیں فرمایا، اسی کو سامنے رکھتے ہوئے میں بھی کسی کو نامزد نہ کروں۔ اور اگر میں نامزد کر دوں تو جناب ابوبکرؓ نے (مجھے نامزد کر کے) ایسا کیا ہے۔ حضرت عبداللہؓ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ جب والدِ محترم نے اللہ کے رسولﷺ اور جناب ابوبکرؓ کا تذکرہ کیا تو میں جان گیا اور اللہ کی قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ ابا جی اللہ کے رسول حضرت محمد کریمﷺ کا اسوہ ہی اختیار کریں گے۔ دوسری جانب نہ دیکھیں گے اور کسی کو حکمران نامزد نہ کریں گے۔ (صحیح مسلم: کتاب الامارہ: 1823)
قارئین کرام! اللہ کے رسولﷺ کے اسوہ کو سامنے رکھتے ہوئے لوگوں کی جو تربیت تھی وہ یہی تھی کہ حکمران کا انتخاب مسلمانوں کے سپرد کیا گیا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے ایسا ہی کیا تھا اور حضرت عمرؓ بھی ایسا ہی کریں گے، چنانچہ انہوں نے اپنے بیٹے کی دلیل پر غور ضرور کیا لیکن فیصلہ وہی کیا جو حضورﷺ کی سنت سے ثابت ہوتا تھا۔ آج کے دور میں جمہوری ادارے بن چکے ہیں۔ الیکشن کمیشن وجود میں آ چکا ہے، انتقال اقتدار کا ایک نظام اور سسٹم موجود ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ سیاست دان اس نظام اور سسٹم کے ساتھ مخلص ہیں؟ پاک فوج کے ترجمان جناب میجر جنرل آصف غفور نے یہی بات کی ہے کہ جمہوری نظام کو کسی سے کوئی خطرہ نہیں، اگر کوئی خطرہ ہے تو غیر جمہوری اور غیر آئینی رویوں سے ہے۔ مثال کے طور پر آئین کو سامنے رکھتے ہوئے عدلیہ نے میاں نواز شریف صاحب کو قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار دے دیا۔ اب انہوں نے اگلے وزیراعظم کے لیے اپنی پارٹی کو اختیار دینے کے بجائے خود ہی ایک شخص کو نامزد کر دیا۔ کیا یہ جمہوری طرز عمل کے مطابق ہے یا اس کے خلاف ہے، یقینا اس کے خلاف ہے۔ اگلا قدم انہوں نے یہ اٹھایا کہ اپنی جماعت کا صدر رہنے کے لئے اکثریت کے بل بوتے پر قانون میں ترمیم کروا دی۔ اب اپنی ذات کے لئے قانون بدلنا، کیا یہ جمہوری تقاضے کے مطابق ہے یا اس کے برعکس ہے، یقینا صریحاً برعکس ہے۔ تیسری گزارش یہ ہے کہ جن اسمبلی ممبران نے مذکورہ قانون میں ترمیم کر کے میاں صاحب کو پارٹی صدر بنانے کی راہ ہموار کی، انہیں پتا ہی نہ چلا کہ اس تبدیلی کے ساتھ ''ختم نبوت پر حلف‘‘ کی ایک شق بھی تبدیلی کی زد میں آ گئی ہے یعنی اسمبلی
ممبران ایسے اندھے مقلد تھے کہ اپنے سیاسی پیشوا میاں نوازشریف کی حمایت میں انہوں نے ختم نبوت والی شق کی بھی کوئی پروا نہیں کی۔یہ ہو سکتا ہے کہ اراکین اسمبلی نے قانون میں ترمیم کو پڑھا ہی نہیں۔ بس انہیں یہ بتلایا گیا کہ اس سے میاں صاحب کی پارٹی صدارت کی راہ ہموار ہو گی، تو انہوں نے ہاں میں ووٹ دے دیا۔ ایسا رویہ ظاہر کرتا ہے کہ قومی اسمبلی میں قانون سازی کا جمہوری عمل مفقود ہے، بحث‘ مباحثہ نہ ہونے کے برابر ہے اور یہ عمل سراسر غیر جمہوری ہے یعنی جمہوریت کو ایسے غیر جمہوری رویوں سے ہی خطرہ ہے۔
اب میاں نواز شریف صدر منتخب ہوئے ہیں، جنرل کونسل کے نام پر اپنے لوگوں کو کنونشن سنٹر میں جمع کیا جاتا ہے اور وہاں بلامقابلہ اعلان کردیا جاتا ہے کہ میاں نواز شریف پارٹی صدر منتخب ہو گئے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے جمہوری ملکوں میں ایسے الیکشن خود مختار الیکشن کمیشن کرواتا ہے، خفیہ ووٹنگ ہوتی ہے پھر پارٹی کا صدر منتخب کیا جاتا ہے۔ کیا ہمارے ملک میں ایسا انتخاب جمہوری رویہ ہے یا غیر جمہوری؟ یقینا جمہوریت کے نام پر یہ ایک مذاق ہے۔ مزید برآں! ہمارے ملک میں جس قدر بھی جمہوری سیاسی پارٹیاں ہیں‘ دو تین کو چھوڑ کر سب کے سربراہ وراثتی طور پر جماعتوں کے سربراہ چلے آ رہے ہیں اور پھر وہ پارٹی کے تاحیات سربراہ ہیں اور آگے بھی وراثت منتقلی کے منصوبے سامنے لا رہے ہیں۔ دو بڑی پارٹیوں میں خاندانی حکمرانی جمہوریت کے لیبل سے واضح ہے۔ اب ان کے اگلے جانشین بلاول صاحب اور مریم صاحبہ کی صورت میں سامنے آ چکے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ جمہوری رویے ہیں یا جمہوریت کے نام پر شاہانہ رویے ہیں؟ یقینا! مذکورہ رویے شاہانہ رویے ہیں۔ پھر پاک فوج کے ترجمان کی بات کو لوگ کیوں نہ تسلیم کریں کہ جمہوریت اور آئین کو کسی سے خطرہ نہیں، خطرہ ہے تو غیر جمہوری رویوں سے خطرہ ہے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب نے معیشت پر محض اتنی سی بات کی کہ ترقی تو کچھ ہوئی ہے مگر قرضے بہت بڑھ گئے ہیں۔ یعنی ہمارا سارا پیسہ سود اتارنے کی قسطوں میں کھپ جاتا ہے۔ اب اس حقیقت کے بیان کرنے پر وزیر داخلہ جناب احسن اقبال صاحب جو واشنگٹن میں بیٹھے تھے، لال پیلے ہوکر جمہوری پھلجھڑیاں چھوڑتے ہیں کہ اس سے سول بالادستی متاثر ہو گئی ہے۔ جمہوری نظام کو خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں گزشتہ ستر سالوں کا قرضہ ایک جانب اور صرف گزشتہ چار سالہ حکمرانی کا قرضہ برابر بلکہ شاید بڑھ چکا ہے۔ اس بات کی نشاندہی کرنے پر جمہوریت کوخطرہ پیدا ہو گیا ہے اور جو ملک کو خطرہ ہے وہ کہاں جائے گا؟ اس کا کون سوچے گا؟ کہ قرضہ پانچ ارب ڈالر کے قریب اور بڑھ گیا تو ملک دیوالیہ ہو جائے گا... جی ہاں! جس ملک کو دہشت گردی اور خارجی ذہنیت سے بچانے کے لئے دس ہزار کی تعداد میں پاک فوج نے جوان قربان کئے ہیں اور کرتے چلے جا رہے ہیں۔ 15اکتوبر کو کیپٹن حسنین، سپاہی عبدالقادر خان، سعید باز اور جمعہ گل کے جنازے اٹھے ہیں، ان دس ہزار کا وارث اور روحانی باپ، پاک فوج کا سالار ملک کی فکر میں حقیقت پسندانہ بات بھی نہ کرے؟ انہیں ہماری نام نہاد جمہوری اشرافیہ اتنا بھی حق نہ دے تو سوچنے کی بات ہے کہ جمہوری حسن میں رائے کا اظہار بھی اگر دس ہزار بچوں کے وارث سے ہو تو وہ غیر جمہوری اور غیر آئینی کیسے ہو جاتا ہے؟ اچھا! معیشت پر وزیر خزانہ چپ رہے اور وزیر داخلہ بولے تو یہ پروٹوکول اور ضابطے کے عین مطابق جمہوری کیسے ہو سکتا ہے؟ کون بتلائے گا یہ حقیقت۔ الغرض! اب وقت آ گیا ہے کہ 2018ء کے الیکشن میں ہم مندرجہ بالا جمہوری تقاضوں اور رویوں کو الیکشن کمیشن کا ضابطہ بنائیں۔ آزاد الیکشن کمیشن بنائیں تاکہ صحیح معنوں میں ایسے لوگ آگے آئیں جو جمہوری رویوں کے مطابق حکمرانی کریں، ناکہ جمہوریت کے نام پرخاندانی، گروہی، مفاداتی اور وراثتی کھیل‘ کھیل کر ہمیں جمہوریت کا جعلی درس دیتے رہیں۔