سخت چٹانوں پر مشتمل پہاڑی دیوار کو عربی میں ''سَدٌّ‘‘ کہا جاتا ہے۔ ایسی دو دیواروں کو قرآن نے ''سَدَّین‘‘ کہا ہے۔ حضرت ذوالقرنین نے ایسی دو دیواروں کے درمیان پگھلی ہوئی دھاتیں ڈال دی تھیں چنانچہ یہ ایسا ''سَدْ‘‘ بن گیا کہ یاجوج ماجوج جیسی مضبوط اور شریر ترین قوم ہزاروں سال سے اپنے گرد اس حصار کو توڑ نہیں سکی۔ جس دن وہ اسے توڑ کر باہر نکلیں گے وہ دن زمین پر بسنے والے انسانوں کے لئے تباہی اور بربادی کا دن ہو گا۔ بچیں گے صرف وہی جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہمراہ کوہِ طور پر ہوں گے۔ اسی سے ''سدید‘‘ کا لفظ ہے جس کا معنی مضبوط اور سیدھا ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنی آخری کتاب میں نصیحت فرمائی ہے، ''اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور بولو تو سیدھی اور پختہ بات کرو۔‘‘ (الاحزاب70:) یعنی بات پہاڑی چٹان پر مشتمل ایسی دیوار کی طرح مضبوط ہونی چاہئے کہ جس کے سوراخ اور رخنے دھاتوں سے بند کر دیئے گئے ہوں۔ ایسے بند کہ اس میں ہیر پھیر کر کے کوئی شے گھسنے نہ پائے۔ پانی تو دور کی بات اس میں ہوا بھی راہ بنانے نہ پائے۔ یاد رہے! ایسا کردار وہی فرد یا قوم ادا کر سکتی ہے جو اپنے قدموں پر مضبوطی سے کھڑا ہونے کے قابل ہو۔ نائن الیون کے بعد امریکہ ہم سے ڈومور، ڈومور کہتا چلا آ رہا تھا۔ اسے ایسا کہتے ہوئے اور ہمیں سنتے ہوئے سترہ سال ہونے کو آئے ہیں۔ دو ماہ بعد اٹھارہواں سال شروع ہو جائے گا۔ شناختی کارڈ اٹھارہ سال کی عمر میں بنتا ہے یعنی پاکستان کی ایک نسل اپنی پیدائش کے دن سے ڈومور، ڈومور سنتے ہوئے آج جوان ہو چکی ہے۔ ہم امریکہ کی مذکورہ گردان اس لئے سنتے چلے آئے کہ ہم کمزور تھے۔ اب ہم قدرے مضبوط ہو کر جوانی میں قدم رکھ رہے ہیں۔ اس لئے ہم نے امریکہ کو ایک پیغام دیا ہے، پیغام کیسے دیا ہے، یہ میں ذرا آگے جا کر بتلائوں گا، پہلے یہ بات کہ ہم مضبوط کس طرح کے ہوئے ہیں۔
یہ بات تو معلوم ہے کہ ہم ایٹمی قوت ہیں، میزائل ٹیکنالوجی میں بھی بہت آگے ہیں۔ ہماری افواج دنیا کی مانی ہوئی افواج ہیں۔ جس طرح اس فوج نے دہشت گردی کو شکست سے دوچار کیا ہے اس مہارت کو سارے جہان نے سراہا ہے مگر کل کو اگر ہمارے دشمن ہم پر حملہ آور ہو جاتے ہیں، انڈیا کئی بار حملہ آور ہونے کے پروگرام بنا چکا۔ اب بھی پیچھے نہیں ہٹا تو پھر کہیں ایسا نہ ہو کہ انڈیا کادوست امریکہ ہمارے ساتھ ہاتھ کر جائے۔ بم ہوں یا میزائل، جہاز ہوں یا آبدوزیں، ٹینک ہوں یا فائٹر طیارے تھنڈر۔ سب کمپیوٹرائزڈ ہیں۔ چلنے کے لئے یہ سارے ہتھیار گلوبل پوزیشننگ سسٹم اور خلا میں موجود سیٹیلائٹ کے محتاج ہیں اور یہ سارا سسٹم امریکہ کے ہاتھ میں ہے۔ اس نے ہمیں جام کر دیا تو ہمارے سارے ہتھیار اور ٹیکنالوجی کس کام کی؟ اب پاک افواج کے سائنسدانوں نے یہ کام کیا کہ چین کے ساتھ مل کر سارا کمپیوٹرائزڈ سسٹم امریکی جی پی ایس اور سیٹیلائٹ سے ہٹا کر اپنے دوست کے دیئے ہوئے خلائی سسٹم کے ساتھ جوڑ دیا۔ یوں پاکستان مضبوط ہو کراعتماد کے ساتھ کھڑا ہو گیا کہ اب انڈیا نے جارحیت کی تو لگ پتہ جائے گا۔ (ان شاء اللہ)
قارئین کرام! یہ تو ایک بات ہے جو مجھے معلوم ہے، جو ہمیں معلوم نہیں وہ کیا کیا ہے اور کیا کچھ پائپ لائن میں ہے وہ یقینا کہیں زیادہ ہو گا۔ لہٰذا یہی وجہ ہے کہ اب ہم نے ڈومور کے سامنے ''نومور‘‘ کہنے کا فیصلہ کیا۔
ذرا یاد کیجئے! پچھلے سولہ سترہ سال کہ جب کوئی بھی امریکی نمائندہ آتاتھا، ہالبروک جیسا وزارت خارجہ کا جنوبی ایشیا کے لئے افسر آتا تھا تو مہینوں قبل اس کے استقبال کی تیاریاں ہوتی تھیں۔ اعلیٰ حکام استقبال کرتے تھے۔ جہاز ابھی فضا میں ہوتا تھا کہ اعلیٰ حکام چکلالہ ایئربیس پر باادب کھڑے ہوتے تھے۔ وائسرائے صاحب تشریف لاتے تو ان کا تکبر دیدنی ہوتا تھا۔ وزیراعظم سے الگ ملاقات، آرمی چیف سے الگ۔ وزیر خارجہ سے الگ اور باقی جس جس سے چاہیں ملاقاتیں کرتے رہیں اور آخرپر ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہوئے ڈومور کی فہرست الگ الگ دیتے جاتے اور اپنے سفیر کو نگرانی کا کہہ کر چلے جاتے تھے۔ کابل جاتے تھے اور کبھی کابل سے واپس اسلام آباد اترتے تھے اور پھر لمبا قیام دہلی میں کیا کرتے تھے۔ ماہ اکتوبر کا آخری ہفتہ پاکستان کے لئے کیسا مبارک ثابت ہوا کہ امریکی وزیر خارجہ بنفسِ نفیس قطر کے امریکی ایئربیس سے اڑے، کسی کو خبر نہ ہونے دی اور سہمے ڈرے ہوئے کابل میں گئے۔ وہاں ایک زیرزمین بنکر میں صدر اشرف غنی سے ملاقات کی۔ ایوان صدرمیں بھی جانے کی ہمت نہ ہوئی اور پھر وہاں دو گھنٹے ٹھہرنے کے بعد اسلام آباد کے لئے روانہ ہوئے۔ امریکی طیارہ چکلالہ ایئربیس پر آ کر لینڈ ہوا اور پھر مقررہ جگہ کھڑا ہو گیا۔ باہر کوئی وصول کرنے والا نہ تھا اور جی ہاں! پہلے تو ایسا ہوا کرتا تھا کہ طیارہ آنے سے پہلے ہی رن وے پر سب لوگوں کو ہٹا دیا جاتا تھا۔ کام ٹھپ ہو جاتا تھا مگر اس بار ایئربیس کے کارکنان حسب معمول اپنے کاموں میں مصروف تھے جیسے کسی کو کوئی دلچسپی ہی نہ ہو کہ کون آیا ہے؟ پانچ منٹ کے بعد پاکستان کے وزیر خارجہ جناب خواجہ آصف نہیں بلکہ ان کی وزارت کا ایک افسر امریکی وزیر خارجہ کو لینے کے لئے گیا۔ یہ پیغام تھا اس بات کا کہ عزت کرو گے تو عزت کروائو گے۔ دھمکیاں دو گے اور ڈومور کی گردان کرتے آئو گے تو اب ایسا نہیں چلے گا۔ چکلالہ ایئربیس پر ہی یہ پیغام اس لئے دیا گیا کہ اب کے ذرا سنبھل کر رہنا ہو گا۔
کیسا خوبصورت اور باوقار منظر تھا کہ جب وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، آرمی چیف جناب قمر جاوید باجوہ اور وزیر خارجہ خواجہ آصف ایک جانب بیٹھے تھے اور دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ اپنے وفد کے ہمراہ بیٹھے تھے یعنی الگ الگ ملاقاتوں کے بجائے اب کے بار ایک ہی ملاقات میں معاملہ نمٹا دیا گیا اور سب نے مل کر ایک بات کہی اور وہ قول سدید تھی۔ چٹانی اور دھاتی دیوار کی طرح ایک مضبوط بات تھی۔ مومنوں نے قرآن پر عمل کرڈالا تھا۔ سول اور عسکری قیادت نے واضح کر دیا کہ جناب ''نومور‘‘... ہم نے جو کرنا تھا کر چکے، اب آپ نے ہی کرنا ہے اور آپ نے کیا کرنا ہے وہ بھی ہم بتلائے دیتے ہیں۔ آپ اپنی شکست تسلیم کریں۔ افغانستان میں آپ شکست کھا چکے ہیں۔ قولِ سدید اختیار کریں اور حقیقت ماننے کے بعد آپ آگے چلیں گے تو ہم آپ کے ساتھ تعاون کریں گے کہ آپ نے افغانستان سے کیسے واپس جانا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ اور ان کے وفد نے قولِ سدید پہلی بار سنا۔ انہیں اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا لیکن یقین کرنا پڑا اور پھر مذکورہ وفد دہلی روانہ ہو گیا۔ تین دن دہلی میں بیٹھا رہا مگر پرائم منسٹر مودی تو پہلے ہی انکار کر چکے کہ جناب آپ کے اور ہمارے درمیان محبت بہت زیادہ ہے مگر اپنی فوج لڑنے کے لئے افغانستان نہیں بھیجیں گے۔
حضرت علیؓ روایت کرتے ہوئے امت کے لوگوں کو ایک حدیث سناتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے مجھ سے فرمایا! یہ دعا مانگا کرو
اَللّٰھُمَّ اھْدِنِیْ وَ سَدِّدْنِیْ وَاذْکُرْ بِالْھُدٰی ہِدَایَتَکَ الطَّرِیْقَ وَ السَّدَادِ سَدَادَ السَّھْمِ (مسلم: 2725)
اے اللہ! میری رہنمائی فرما دیں۔ مجھے سیدھا کر دیں۔‘‘ اے علی! ہدایت کی درخواست کرتے ہوئے صحیح راستے پر گامزن رہنے کو دل میں رکھو اور جب سیدھا رہنے کی دعا کرو تو تیر کے سیدھا رکھنے کو دل میں رکھو... قارئین کرام! دعا کے صرف دو لفظ ہیں اَللّٰھُمَّ اھْدِنِیْ وَ سَدِّدْنِیْ اور پھر مذکورہ دونوں الفاظ کی ادائیگی پر حضورﷺ کی جانب سے ایک نصیحت ہے کہ پہلے لفظ کی ادائیگی پر صحیح اور سیدھے راستے کو دل میں رکھا جائے اور دوسرے لفظ کی ادائیگی پر تیر کے سیدھے پن کو دل میں رکھا جائے یعنی راستہ اور راستے پر چلنے والے کو تیر کی طرح سیدھا ہونا چاہئے۔ خواجہ آصف صاحب نے ایک اور بھی سیدھی بات قومی اسمبلی کے فلور پر کہی کہ امریکی وزیر خارجہ نے دہشت گردوں کی جو فہرست دی اس میں پروفیسر حافظ محمدسعید کا نام نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ امریکی حکومت کو یہ پیغام دے دیا گیا تھا کہ نریندر مودی کی عینک پہن کر کوئی نام لکھا جائے گا تو اسے تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ چنانچہ امریکی وزیر خارجہ نے پہلی بار حقیقت پسندی کا مظاہرہ کیا اور تسلیم کیا کہ پروفیسر حافظ محمد سعید ایک ایسی معزز اور پرامن شخصیت ہیں کہ ان کو دہشت گردی جیسی گالی واپس ہمارے ساتھ ہی آ کر چمٹے گی۔ حافظ صاحب کا نقصان نہ ہو گا۔ جی ہاں! قول سدید کی سعادت کے کیا کہنے کہ پاکستان اور پاکستان کے معزز شہری، ممتاز دانشور اور راہبر حافظ محمد سعید کی سعادت مندی کو بھی امریکی اور پاکستانی ایوانوں میں تسلیم کر لیا گیا۔ اللہ تعالیٰ مزید سعادتوں سے میرے وطن کو مالا مال فرمائیں گے۔ (ان شاء اللہ)