''خشکی اور سمندر میں 'ماحول دشمنی‘ نمایاں ہو کر سامنے آ گئی۔ انسانی ہاتھوں کے کرتوتوں کی وجہ سے ہی ایسا ممکن ہوا۔ (ماحول دشمن لوگ) جو حرکتیں کر چکے ہیں (اللہ نے فیصلہ کیا ہے) کہ اس کے نقصان کا کچھ مزہ ان کو چکھائے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ لوگ واپس (ماحول دوستی) کی طرف پلٹ آئیں۔ (الروم:41)
زہریلی دھند کا ایک سبب دھان کی فصل کو جلانا بھی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم ایسے ہارویسٹر کیوں نہیں بنا سکتے کہ جو مونجی کو بوریوں میں بھر دے اور پرالی کی گانٹھوں کو باندھ کر کسان کے حوالے کر دے۔ یہ پرالی جو جل کر ہمارا ماحول خراب کرتی ہے، یہی پرالی جب ہاتھوں کی کٹائی سے گانٹھوں کی شکل میں کسان کی حویلی میں پہنچتی تھی تو اسے سبز چارے کے ساتھ ملا کر ٹوکے سے گزارا جاتا تھا اور یہ مویشیوں کی خوراک بن کر ہمیں دودھ کی شکل میں مشروب دیا کرتی تھی۔ قرآن کہتا ہے واپس پلٹو۔ خادم اعلیٰ پنجاب کی خدمت میں تجویز ہے کہ واپس پلٹنے کا سائنسی ٹارگٹ دیں۔ اسی طرح کا ٹارگٹ گندم کی فصل میں موجود ہے۔ گندم کا دانہ تھریشر مشین سے بوریوں میں بھرا جاتا ہے جبکہ گندم کا ''ناڑ‘‘ توڑی کی شکل اختیار کر جاتا ہے اور وہ توڑی مویشیوں کی خوراک بن جاتی ہے۔ ''ناڑ‘‘ سے مجھے یاد آیا، 50سال پہلے اپنے بچپن کا وہ منظر آج بھی مجھے دورِ گزشتہ کو آواز دینے پر ابھارتا ہے جب گائوں میں میری والدہ محترمہ اپنی بہنوں اور سہیلیوں کے ساتھ سادہ اور رنگدار چنگیریں بنایا کرتی تھیں۔ گندم کی روٹیاں گندم کے پودے ''ناڑ‘‘ سے تیار شدہ چنگیر میں رکھ کر کھائی جاتی تھیں۔ آج پلاسٹک کی چنگیر اور پلاسٹک کا ہاٹ پاٹ سامنے آ گیا۔ یاد رہے! پلاسٹک کی اشیاء اور برتن ماحول دشمن اور صحت کے لئے خطرناک قرار دیئے جا چکے ہیں۔ جی ہاں! قرآن کہتا ہے واپس پلٹو، کیا ہم اس کے لئے تیار ہیں؟ قارئین کرام محض تعلیم کی خاطر ابا جی نے گائوں کو چھوڑا اور ننکانہ میں مکان خرید لیا۔ شہر میں آئے تو ان دنوں نائلون کا زنانہ اور مردانہ کپڑا بڑا مشہور ہوا۔ میرے اصرار پر اباجی نے مجھے نائلون کی دھاری دار شرٹ اور سفید شلوار سلوا دی۔ سردیوں کے دن تھے، ایک دن سخت سردی میں مجھے اس قدر گرمی محسوس ہوئی کہ میں نے اوپر سے پہنا ہوا سویٹر اتار دیا۔ نیچے سے قمیض اتار دی اور باہر صحن میں آ گیا۔ بدن پر خارش ہو رہی تھی۔ کھال سرخ ہو چکی تھی۔ جگہ جگہ سوزش ہو گئی تھی۔ کافی دیر بعد سکون ملا، پتہ چلا کہ پٹرولیم مصنوعات سے بنے ہوئے کپڑے کا کمال ہے۔ اس کے بعد آج تک میں نے صرف سوتی اور کھدرکا لباس پہنا ہے۔ سوال پھر وہی ہے قرآن کہتا ہے واپس آ جائو، واپس۔
لوگ گھروں سے سبزی اور سودا سلف لینے نکلتے تھے تو کپڑے کے بنے ہوئے تھیلے یا کھجور کی چھال سے بنے ہوئے بیگ لے کر نکلتے تھے۔ سبزی، گوشت اور دیگر سامان اسی میں لے کر واپس پلٹتے تھے۔ اب پولی تھین یا پلاسٹک کے شاپر استعمال ہوتے ہیں۔ بچے سکول جاتے تھے تو ماں کے ہاتھوں کا کپڑے سے بنا ہوا بستہ لے کر جاتے تھے۔ اب نائیلون کے بستے ہیں۔ دودھ دہی کے لئے گھر سے برتن لے کر دکان پرجایا کرتے تھے۔ روٹیاں مٹی یا سٹیل کی پرات میں ''سوتی پُونے‘‘ میں لپیٹ کر واپس گھر آتی تھیں۔ اب روٹیاں، نان، دہی بھلے، گرما گرم چھولے اور پائے وغیرہ شاپروں میںبند ہو کر گھروں میں آتے ہیں۔ شاپروں کا کیمیکل اور اس کے دیگر اثرات کھانے کو زہریلا بنا دیتے ہیں۔ کیا ہم واپس پلٹیں گے۔ طرز زندگی بدل پائے گا؟ پلاسٹک نما کاغذی ڈبوں میں بند خوراک بھی کیمیکلز کی وجہ سے محفوظ رہتی ہے۔ یہ اور ڈسپوزیبل برتن بھی صحت اور ماحول دشمن ہیں۔ پلاسٹک کی بوتلوں میں پانی اور سوڈا واٹرز کی بوتلیں بھی ماحول دشمن ہیں۔ یہ کچرا اور کوڑا بن کر مسلسل ریڈی ایشن چھوڑتے ہے جب یہ آگ پکڑتے ہیں تو فضا کو زہریلا بنا دیتے ہیں۔ فیکٹریوں میں ٹائر جلتے ہیں تو اللہ کی پناہ... احتجاج میں سڑکوں پر ٹائر جلتے ہیں، خوشی کے مواقع پر ہمارے منچلے گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کے سائلنسر نکال کر دھویں اور شور سے خوشی مناتے ہیں یعنی ہمارا غصہ اور خوشی بھی اپنے دامن میں خودکشی کے جراثیم پالے ہوئے سامنے آتی ہے۔ پھر چونکہ احتجاج اور خوشی
سڑکوں اور چوراہوں پر ہوتی ہے لہٰذا ٹریفک کئی کئی گھنٹے بند رہ کر کھڑی اور رینگتی گاڑیوں اور رکشوں کے زہریلے دھویں سے ماحول دشمنی کا خوب ثبوت دیتی ہے۔ کیا یہ سب انسانوں کے ہاتھوں کی کرتوتیں نہیں ہیں۔ قانون سازی کے لئے قوانین کہاں ہیں۔ انتظامیہ کہاں ہے اور تربیت کے لئے حکمران کہاں سوئے ہوئے ہیں؟
میں نے ایک بار تحقیق کر کے لکھا تھا کہ مکہ کی حدودِ حرم کا تعین حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آج سے کوئی چار ہزار سال قبل کیا تھا۔ مدینہ کی حدودِ حرم کا تعین حضرت محمد کریمؐ نے کیا تھا۔ ہر شہر کی حدِ حرم کوئی 25یا 30کلومیٹر بنتی ہے۔ امن و امان کی حرمت اور انسانی صحت کی حرمت ایسے شہر میں قابل کنٹرول رہتی ہے۔ بڑا شہر بنانا مقصود ہو تو اسلام آباد کی طرح سیکٹروں میں بنائیں۔ اضافہ یہ کر لیں کہ ہر دو سیکٹروں کے درمیان زراعت اور پارکوں کے لئے جگہ چھوڑ دیں۔ زرعی زمینوں پرہائوسنگ سوسائٹیاں نہ بنائیں۔ سڑکوں پرتعمیرات کی اجازت نہ دیں۔ کمرشل ایریازماحول کو سامنے رکھ کر بنائیں۔ بائی پاسوں پر تعمیرات کی اجازت نہ دیں، مگر وائے افسوس! حکمرانوں کا ویژن کوئی نہیں اورکرپشن نے ماحول دشمنی میں خوب خوب کردار ادا کیا ہے۔ اب سارے لوگ سانس میں زہر پھانک رہے ہیں۔ کوئی ہے جو اصلاح کر کے قرآن کے الفاظ میں واپس ماحول دوستی کی جانب قوم کو لے جانے کا کردار ادا کرے؟ کوئی وقت تھا انجکشن لگانے کی سرنج شیشے کی ہوا کرتی تھی اب وہ بھی پلاسٹک کی ہے۔ سیرپ بھی شیشی کے بجائے پلاسٹک بوتلوں میں شروع ہو گیا ہے۔ الغرض میڈیکل کا سامان بھی جو صحت دینے کے لئے تھا‘ صحت دشمن اور ماحول دشمن بن گیا۔ جب یہ کوڑے میں جا کر جلتا ہے تو اس زہر کی زہرناکی کئی گنا زیادہ ہوتی ہے۔ کیا صحت کا کوئی ایسا وزیر ہمیں دستیاب ہے جو میڈیکل کے سامان کو ماحول اور صحت دوست بنائے؟ صنعتوں کے دھویں فضا کوخراب کر رہے ہیں۔ ان کا کیمیکل ملا پانی دریائوں، نہروں اور نالوں میں بہہ کر بربادی کر رہا ہے۔ سبزیاں اس سے اگائی جا رہی ہیں۔ صنعتوں کے پانی کو صاف کرنے کے آلات اور دھویں کو معیاری بنا کر چھوڑنے کے فلٹروں کو دیکھنا وزیر صنعت کا کام ہے یا وزیر ماحولیات کا؟ کیا دونوں وزیر اپنا کام کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے اگر وہ کام کرتے تو آج ہمارا یہ حال کیونکر ہوتا؟ پانی، ہوا، ایٹم اور سورج سے بننے والی بجلی ماحول دوست ہے مگر حکمران تیل سے مہنگی اور ماحول دشمن بجلی کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔
یاد رہے! جزیروں پر آبادیاں اور ساحلی شہر سمندر کا حصہ ہیں۔ یوں خشکی اور سمندری آبادیوں کے باسیوں نے خشکی اور سمندر میں جو ماحول دشمن رویہ اپنایا ہے اس نے فضا کو گندہ کر دیا ہے۔ اب زمین کا پانی پئیں تو زہریلا، فضا میں سانس لیں تو آکسیجن زہریلی۔ فضا کی صحت کا پیمانہ یہ ہے کہ ایک مربع میٹر یعنی تین فٹ مربع میں 20مائیکرو گرام کثافت یعنی آلودگی ہو تو خطرناک ہو جاتی ہے۔ اللہ اللہ! لاہور کی فضا میں اس کی مقدار دو سو مائیکرو گرام تک ہو چکی ہے۔ رپورٹ یہ بھی ہے کہ 300 درجے تک آلودگی چلی گئی ہے۔ یاد رہے! ماحولیات کے نام سے باقاعدہ ایک شعبہ قائم ہے۔ وزارت موجود ہے۔ حکمرانوں کا گریبان کون پکڑے کہ تم نے پاکستان کے لوگوں کو گندی فضا کے سمندر میں ڈبکیاں لگانے کے لئے چھوڑ دیا ہے جبکہ خود بیرونی دنیا کے صاف ماحول میں محلات بنا لیتے ہو۔ تمہارے بیمار بھی وہیں سانسیں لیتے ہیں، تمہاری حکمرانی کیسی ہے اس کا جواب دو۔ عوام کے نقصان کا ہرجانہ ادا کرو۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم واپس پلٹنے کے لئے ماحول دوست حکمرانوں کا انتخاب کریں۔ آئندہ الیکشن میں ماحول دوستی کو انتخابی مہم کا اہم ترین حصہ ہونا چاہئے۔ میں اپنے کالم کا اختتام بھی ماحول دوستی سے متعلق ایک دوسری آیت سے کر رہا ہوں۔ مولا کریم فرماتے ہیں ''تم لوگوں کو جو کوئی بھی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ تمہارے ہاتھوں کی کمائی کی وجہ سے ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ بہت ساری (ماحول دشمن) چیزوں سے عافیت دے دیتے ہیں۔ (الشوریٰ 30)