امام مسلم بن حجاج نیشاپوری رحمہ اللہ اپنی صحیح مسلم میں ایک واقعہ لائے ہیں، سلیس انداز میں تفصیل کے ساتھ واقعہ کچھ یوں ہے کہ مدینہ منورہ مختلف آبادیوں پر مشتمل شہر تھا۔ آبادیوں اورمحلوں کے درمیان فاصلے تھے۔ پہاڑی ٹیلے تھے اور نشیب و فراز تھا۔ ایک انصاری لڑکی جو زیور پہنے ہوئے تھی، کسی دوسرے محلے میں جانے کے لئے ویرانے سے گزر رہی تھی ایک مجرم ذہنیت کے حامل نوجوان نے اکیلی لڑکی کو دیکھا تو زیور دیکھ کر اس کے اندر کا درندہ زندہ ہو گیا۔ وہ لڑکی پر حملہ آور ہوا، اسے پتھر مار کر شدید زخمی کیا۔ زیور اتارے اور قریبی کنویں میں گھسیٹ کر پھینک دیا۔ کنویں میں پانی نہیں تھا، کچھ دیر کے بعد ادھر سے دو مسلمان آدمی گزرے تو درد سے کراہنے کی نحیف سی نسوانی آواز سنی۔ وہ چونکے اور آواز کا پیچھا کرتے ہوئے کنویں تک پہنچ گئے۔ لڑکی کو نکالا اور سرکار مدینہ حضرت محمد کریمؐ کی خدمت میں پہنچ گئے۔ حضورؐ نے ان مجرموں کے بارے میں دریافت فرمایا تو تین نام سامنے آئے۔ اب آپؐ نے بچی کے سامنے پہلے مجرم کا نام لیا تو بچی نے نفی میں اشارہ کیا، دوسرے کا نام لیا تو نفی میں... تیسرے کا نام لیا تو بچی نے اثبات میں اشارہ دیا کہ یہی اس کا مجرم ہے۔ ساتھ ہی زخموں سے چور لڑکی کی روح پرواز کر گئی۔ سب سے شدید زخم اس کے سر پر آیا تھا۔ چنانچہ شاہ مدینہ کے حکم پر مذکورہ شخص کو گرفتار کر لیا گیا۔ طلائی زیور بھی برآمد کر لیا گیا۔ مجرم نے اعتراف بھی کر لیا... عدالتِ نبوی سے فیصلہ صادر ہوا اور یہودی مجرم کو اہل مدینہ کے سامنے اسی طرح سزا دی گئی جس طرح اس نے انصاری لڑکی کو زخمی کیا تھا۔ مجرم کا سر پتھر پر رکھ کر پتھر مارا گیا اور مجرم تڑپ تڑپ اور سسک سسک کر مر گیا... اس کے بعد کوئی ایسا دن نہیں آیا کہ ریاست مدینہ کی کسی لڑکی اور بچی کے ساتھ ایسا ظلم ہوا ہو۔ ہر ماں کی نورِنظر اور ہر باپ کا لختِ جگر محفوظ و مامون ہو گیا۔
قصور کی ساڑھے چھ سالہ بچی زینب کے ساتھ ظلم ہوا اور مدینہ کی انصاری لڑکی سے کہیں بڑھ کر ظلم ہوا۔ زینب عمر میں چھوٹی اور معصوم بھی تھی۔ وہ بہیمانہ قتل سے قبل جنسی زیادتی کا شکار بھی بنا دی گئی تھی۔ اس واقعہ پر تعزیت کے لئے میں قصور گیا۔ زینب کے دکھی والد امین انصاری سے ملا۔ میرے ہمراہ کھڑے ہو کر میڈیا کے سامنے انہوں نے ایک ہی مطالبہ دہرایا کہ قاتل کو گرفتار کر کے زینب کی جائے شہادت پر سرعام سزا دی جائے... حاکمِ پنجاب میاں شہباز شریف بھی اسی گھر میں مجھ سے ایک دن قبل انصاف کی یقین دہانی کروانے آئے تھے۔ ان کے آنے سے قبل قصور کا حال یہ ہو چکا تھا کہ ان کے اپنے ایم پی اے نعیم صفدر کے ڈیرے پر ہجوم نے دھاوا بولا، فرنیچر کو آگ لگا دی۔ ممبر پنجاب اسمبلی کی دو گاڑیوں کو آگ لگا دی۔ (ن) ہی کے ایم این اے شیخ وسیم اختر کے ڈیرے پر بھی توڑ پھوڑ کی گئی۔ ڈی پی او اور ڈی سی او کے دفاتر کا بھی گھیرائو کیا گیا وہاں ایک خاتون افسر کے گارڈز نے دو مظاہرین کو گولیاں مار کر قتل کر ڈالا۔ یوں قصور سے ایک ننھے سے خونی انقلاب کا آغاز ہو گیا۔ میاں شہباز کے دماغ کی اڑان بہت تیز رفتار ہے وہ پچھلے کئی سالوں سے خونی انقلاب کی باتیں کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ٹی وی کلپس اور اخباری بیانات کے تراشے اگر اکٹھے کئے جائیں تو ایک درجن سے زائد ان کے بیانات سامنے آ جائیں گے جن میں وہ کہہ رہے ہیں کہ میں خونی انقلاب دیکھ رہا ہوں۔ میں انہی صفحات پر ان کی خدمت میں گزارش کرتا چلا آ رہا ہوں کہ حضور والا! ظلم اور ناانصافی کی صورت میں جس خونی انقلاب کی بو آپ کی تیز ترین قوت شامہ سونگھ رہی ہے۔ اس کو روکنا کس کا کام ہے؟ آپ وعظ کس کو کر رہے ہیں؟ یہ وعظ تو واعظ کا کام ہے، ایسی نصیحت تو صحافی کی ذمہ داری ہے۔ آپ حکمران ہیں، آپ ایک چیز کو سمجھتے ہیں اور عملی اقدام کرنے کے بجائے آپ مولویوں اور صحافیوں والا کام کرتے ہیں تو آپ اپنی حکمرانی کی ذمہ داری کو پورا نہیں فرما رہے۔ اس پر غور فرمائیں!
آپ کے بھائی جان محترم میاں نوازشریف صاحب عدالتوں کو نشانہ بنا رہے ہیں کہ میں وکیلوں کی فیسیں دے دے کر تھک گیا ہوں، سوچئے! اگر وزارتِ عظمیٰ کی کرسی سے ہٹ کر ایسے بھائی جان تھک گئے ہیں کہ پنجاب میں جن کے چھوٹے بھائی وزیراعلیٰ ہیں، وزیراعظم عباسی ان کے ماتحت ہیں وہ خود کہتے ہیں، میرے وزیراعظم نوازشریف ہیں۔ یعنی آپ اربوں پتی ہو کر حکمران ہو کر عدلیہ کو آڑے ہاتھوں لے کر نظام کی خرابی کا رونا رو رہے ہیں تو عام پاکستانی کا کیا حال ہو گا؟ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ لوگوں کی ذمہ داری شکوے شکایت ہے یا نظام کی اصلاح اور قانون کی عملداری ہے یا صف ماتم بچھا کر گریہ اور آہ و زاری ہے... جبکہ ابھی تک حکومت آپ کی ہے۔ جی ہاں! آپ لوگ اپنے آپ کو حکمرانی کے قابل نہیں سمجھ رہے، یہی وجہ ہے کہ زینب کے والد امین انصاری بھی آپ کو حکمران نہیں سمجھ رہے اور وہ انصاف کا مطالبہ کر رہے ہیں تو آرمی چیف سے اور سپریم کورٹ کے چیف سے۔ جناب والا حکمرانِ پنجاب ہو کر بھی قصور میں امین انصاری کے گھر جاتے ہیں تو صبح چار بجے کہ جب لوگ سو رہے تھے۔ کیا یہ واضح پیغام نہیں تھا کہ پنجاب کا حکمران اپنے نمائندوں اور انتظامی افسران کے گھیرائو کے بعد اپنے گھیرائو کے ڈر سے پچھلی رات قصور میں پہنچا اور تعزیت کا فریضہ ادا کر کے واپس آ گیا۔ کیا یہ اس بات کی گواہی نہیں کہ وہ خونی انقلاب جس کا تذکرہ آپ سالوں سے کرتے چلے آ رہے ہیں اب اس سے خوف کھانے لگے ہیں۔
جناب وزیر داخلہ احسن اقبال نے کوئٹہ جا کر اک دانشورانہ بات کی ہے کہ قصور کی لڑکی کے قتل پر سیاست کی جا رہی ہے۔ ارے بابا! اپنی حکمرانی کے دور کا ریکارڈ نکال کر دیکھو، ہزاروں نہیں تو سینکڑوں بچوں اور بچیوں کا ریپ، جنسی زیادتی، قتل، چہرے پر تیزاب، کتوں کا بچوں پر چھوڑا جانا، بچے کے دونوں بازو دھڑ سے الگ کر دینا... اس سب پر آپ لوگوں نے کیا کیا؟ اگر ایک ایک واقعے پر سیاست ہوتی تو آپ جیسے لوگ آج بھی حکمران ہوتے؟ اللہ کی قسم! سیاست ہوئی نہیں وگرنہ احسن اقبال کہاں وزیر داخلہ ہوتے؟ اچھا! آپ لوگوں کو سیاست سے کس نے روکا ہے، آپ ایسی جاندار سیاست کریں کہ سب کی سیاستیں دم توڑ جائیں۔ سپریم کورٹ کے چیف صاحب جناب ثاقب نثار نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ قانون بنائے تیز، جلد اور سستے ترین انصاف کے لئے اصلاحات کرے۔ انہوں نے مقدمے کی مدت کے تعین کی بھی بات کی ہے۔ میں خود اپنے کالموں میں عرض کر چکا ہوں کہ فوجداری مقدمے کی مدت تین ماہ اور دیوانی کیس کی مدت پانچ ماہ مقرر کر دیں۔ مجرموں کو سزا سرعام دینے کا قانون بنا دیں۔ احسن اقبال کی نیک اور باکردار والدہ محترمہ آپا جی نثار فاطمہ مرحومہ جو جنرل ضیاء الحق کی مجلس شوریٰ کی رکن تھیں اور میاں نوازشریف جنرل ضیاء الحق کے انتہائی لاڈلے وزیر ہوا کرتے تھے۔ انہی جنرل ضیاء الحق نے پپو جیسے معصوم بچے کے ساتھ زیادتی اور قتل کے چار مجرموں کو سرعام کیمپ جیل لاہور کے سامنے پھانسی کے پھندے کے ساتھ لٹکایا تھا... آپ لوگ اسی کو قانون بنا دیں تب تو قانون معطل تھا۔ مارشل لاء کے تحت ایسا ہوا اور امن دے گیا، آپ لوگ جمہوری ہو، عوامی اور جمہوری بنو۔ ریاستِ مدینہ کا طرزِ عمل اپنائو، دیکھو امن کس طرح ملتا ہے۔ تمہاری سیاست کو چار چاند کس طرح لگتے ہیں؟
مجرموں کے لئے جدید سائنسی طریقے اپنائو مگر یاد رکھو امن مدنی انداز سے ہی ملے گا۔ کیمرے لگا کر سیف سٹی بنانے کا انداز قابل تعریف ہے مگر زینب کا مجرم کیمرے میں آ گیا۔ تین خاکے بن گئے۔ نشاندہی نہ ہوئی۔ اب دوکلومیٹر کے اندر رہنے والوں کا ڈی این اے ٹیسٹ بھی اچھی بات سہی مگر مجرم ابھی تک دوکلومیٹر کے اندر ہی پڑا ہے۔ صدقے تمہاری ذہانت پر... اب اس فاصلے کو پھیلا کر لاہور تک لے آئو پھر پورے پاکستان کے جوانوں کا ڈی این اے ٹیسٹ شروع کر لینا... اللہ کے بندو! یہ سارے کام اپنی جگہ، اصل کام مدینے والا کام ہے۔ اللہ فرماتے ہیں سرعام سزا دینے سے عبرت ملتی ہے۔ لوگ ڈرتے ہیں۔ معاشرہ محفوظ ہوتا ہے۔ اللہ کے لئے سیدھے راستے پر آئو وگرنہ ٹیڑھے راستے پر تو سالوں سے چل ہی رہے ہو۔ اللہ تعالیٰ کے حضور ہدایت اور راہ راست کے لئے دعاگو ہوں۔