کتاب و سنت کے مطالعہ سے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ دنیا کے پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد انسان بنی رہے تو اس مقصد کے لئے نبیوں اور رسولوں کو بھیجا اور جب چاہا کہ زمین پر فرشتہ سیرت انسان دکھائی دیں تو ایسے انسان وجود میں لانے کے لئے حضرت محمد کریمؐ کو آخری رسول بنا کر بھیج دیا اور قیامت تک طے کر دیا کہ جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ آخری رسول گرامیؐ کی زندگی کو نمونہ بنا لے۔ زندگی کے ہر شعبہ کے لئے کامل ترین نمونہ حضورؐ کی زندگی ہے۔ آج کے کالم میں ہمارے سامنے لیڈرشپ کا نمونہ ہے۔ بطور حکمران ہمارے حضورؐ کی لیڈرشپ کا آغاز مدینہ منورہ میں آمد سے ہوتا ہے۔ مکہ میں تیرہ سال ستائے جانے کے بعد جب آپؐ مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو اس بستی میں قدم رکھتے ہی آپ حکمران تھے۔ اس حکمرانی کو بادشاہت کہہ لیں۔ سرکارِ مدینہ کے لقب سے یاد کر لیں۔ آج کی زبان میں صدر کہہ لیں۔ وزیراعظم کہہ لیں۔ چیف ایگزیکٹو کہہ لیں۔ الغرض! مدینہ منورہ کی حکمرانی کو جو مرضی نام دے لیں مگر یہ سارے نام انتہائی چھوٹے ہیں۔ حضورؐ حکمران تھے مگر اپنے لئے کوئی نام بھی پسند نہیں فرمایا۔ آپؐ تو اللہ کے رسول تھے، یعنی اللہ کا پیغام انسانوں کو پہنچا کر انہیں فرشتہ سیرت انسان بنانے آئے تھے۔ تورات نے تو اپنے نزول کے وقت ہی کہہ دیا تھا کہ جب وہ حکمران فاتح بنے گا، اپنی جنم بھومی (مکہ) فتح کرے گا تو اس کے ہمراہ دس ہزار قدّوسی ہوں گے۔ یعنی رہتے زمین پر ہوں گے مگر کردار کے اعتبار سے وہ فرشتہ سیرت ہوں گے۔ عالمِ قُدُس کے قدّوسیوں جیسے پاکیزہ سیرت والے ہوں گے۔ ایسے انسان جس ہستی کے ہاتھوں زمین پر معرضِ وجود میں آئے۔ اس ہستی کا نامِ نامی اسمِ گرامی ''محمدؐ‘‘ ہے۔
زمین پر قدّوسی حضرات کیسے وجود میں آئے اس کی جھلک حکمرانِ مدینہ کے اولین مبارک کردار سے نظر آتی ہے، جب آپؐ مدینہ میں تشریف لائے تو سب سے پہلے مسجد بنائی۔ اس کے ساتھ ایک گھر بنایا۔ یہ گھر حضرت عائشہؓ کا تھا۔ حکمرانِ مدینہ کی اہلیہ محترمہ کا گھر تھا۔ یہ گھر اب قیامت تک کے لئے ''روضۂ رسولؐ‘‘ ہے۔ اللہ کے گھر اور حضورؐ کے گھر کی کنسٹرکشن کے لئے جو سامان استعمال ہوا وہ ایک جیسا ہی تھا۔ امام ابن سعد طبقات میں لکھتے ہیں۔ اللہ کے گھر (مسجد) کی دیواریں پتھروں سے بنادی گئی تھیں، کھجور کے تنے ستون بنا دیئے گئے تھے۔ چھت بناتے ہوئے لکڑیاں بطور شہتیر کے رکھی گئیں اور کھجور کی شاخیں ڈال کر چھت بنا دی گئی۔ مسجد کے جو دروازے رکھے گئے وہ کواڑوں (تختوں) کے بغیر تھے۔ دو ستون بنا دیئے گئے اور درمیان میں کھلا راستہ تھا۔ یہ دو عدد دروازے تھے جو مسجد میں داخل ہونے کے راستے تھے۔ (قدّوسی) کردار صحابہؓ نے اپنے رسول کریمؐ سے پوچھا، اے اللہ کے رسولؐ! آپ مٹی کا گارا بنا کر لپائی نہیں کریں گے؟ ''فرمایا ''جیسا موسیٰؑ کا چھپر تھا ویسا ہی یہ بھی ایک چھپر ہے، کچھ لکڑیاں ہیں اور کچھ ٹہنیاں ہیں (جس سے یہ چھپر تیار ہوا ہے، مزید بہتر کرنے کی کیا ضرورت ہے) موت تو اس سے بھی قریب ترین ہے۔‘‘ یعنی اس سادہ سے چھپر کو بھی پوری طرح استعمال نہ کر پائیں اور دنیا سے رخصت ہونے کا حکم آ جائے تو اس چھپر کی جتنی مدت ہے، موت تو اس سے بھی قریب کھڑی ہے۔
لوگو! اس کا نام ہے لیڈرشپ، جناب راہبرﷺ راہبری فرما رہے ہیں۔ جناب رہنماﷺ رہنمائی کر رہے ہیں۔ عظیم ترین لیڈر اپنی قوم کو بتلا رہے ہیں کہ لیڈرشپ کیا ہوتی ہے؟ اس کا ویژن کیسا ہونا چاہئے؟ ہاں ہاں! قدوسی لوگ وجود میں آئے تو ایسی لیڈرشپ کی رہنمائی میں وجود میں آئے۔ حضورؐ دس سال تک حکمرانِ مدینہ رہے۔ 85کے قریب غزوات اور جنگیں ہوئیں۔ مکہ فتح ہو گیا۔ موجودہ دور کا سعودیہ، یمن، اومان، امارات، بحرین، قطر وغیرہ سب حضورؐ کی حکمرانی میں شامل ہو گئے۔ سونے چاندی کے ڈھیر، درہم و دینار اور لباس و اناج کے لدے ہوئے گھوڑے اور اونٹ قطار در قطار مدینہ منورہ میں آن وارد ہوئے مگر مدینے کے حکمران کا نہ طرزِ زندگی بدلا اور نہ طرزِرہائش بدلا۔ تبدیلی آئی تو صرف اس قدر آئی کہ بارش کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے گھر مسجد میں اور حضور نبی کریمؐ کے گھر میں کیچڑ کا سماں بن گیا تو تب فیصلہ ہوا کہ چھت کی لپائی کر دی جائے۔ باقی کوئی تبدیلی نہ آئی۔ اس کا نام ہے لیڈرشپ۔ ایسے بے مثال لیڈر اور راہبر کی رہنمائی اور راہبری میں اک قوم تیار ہوئی جسے مسلم کہا جاتا ہے۔ آج یہ قوم لیڈرشپ سے محروم ہے۔ کس قدر رونے کا مقام ہے کہ بے مثال لیڈرشپ کی حامل قوم لیڈرشپ سے تہی دامن ہے۔
آہ! جو لیڈر ہیں انہیں عام روایتی انسان کہنا بھی مشکل ہے۔ کسی جانور سے تشبیہ دیں تو کوے اور گدِھیں دکھائی دیتی ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے کیا خوب فرمایا تھا۔ ''زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن‘‘ یہ نام نہاد لیڈر زاغ ہیں، یعنی کوے ہیں۔ بلبل، فاختہ اور چڑیا کی آوازیں کانوں میں رس گھولتی ہیں۔ دل کرتا ہے کہ چڑیا چہچہاتی رہے، فاختہ اور کبوتر غٹر غوں کرتے رہیں، بلبل اپنا سریلا نغمہ گاتی رہے۔ مگر جب کوّا کائیں کائیں کرتا ہے تو اسے کنکر مار کر اڑانا پڑتا ہے، کیا کیا جائے کہ آواز ہی مکروہ ہے۔ علامہ اقبال نے آج کی لیڈرشپ کو زاغ یعنی کوّا کہا ہے۔ آج کے میڈیا میں یہ کائیں کائیں کرتے ہیں۔ دھیلے کی کرپشن نہیں، ثابت ہو تو سیاست چھوڑ دوں گا، وغیرہ وغیرہ مگر جب مقروض اہل پاکستان کا وجود دیکھیں تو سب کو دکھائی دیتا ہے کہ پاکستان کے وجود کو گدِھیں کھا رہی ہیں، نوچ رہی ہیں۔ احد چیمہ اور ڈاکٹر عاصم جیسے سینکڑوں اور ہزاروں لوگ کون ہیں؟ کھربوں کی کرپشن کرنے والے کون لوگ ہیں۔ یہ جو پکڑے گئے ہیں اور پکڑے جا رہے ہیں۔ ان کے حکمران کون ہیں۔ ان کے وزراء کون ہیں۔ ان کے وزیر خزانہ کون ہیں۔ ان کے وزیراعلیٰ کون ہیں۔ ان کے وزیراعظم کون ہیں۔ ان کے راہبر کون ہیں۔ ان کے لیڈر کون ہیں۔ ان کے رہنما کون ہیں؟ پاکستان کے وجود کو یہ نوچ ڈالیں اور ان کے رہنما کہیں کہ ہم پارسا ہیں، ہم پوتر ہیں، ہم تو قدّوسی کردار والے ہیں...؟ تو پھر اب وقت آ جانا چاہئے کہ پس پردہ لوگ جو اونچی کرسیوں پر براجمان ہیں۔ ثبوتوں کے ساتھ ان کے کرتوت سامنے آ جائیں۔ ثاقب نثار کے انداز پر، انصاف پرور طرز و طراز پر، یہ قوم نثار ہونے کو تیار ہو گی۔ چیئرمین نیب کو جن کا نام اقبال ہے وہ کائیں کائیں کرتے زاغوں کا حقیقی چہرہ دکھائیں گے۔ عدل کے ترازو کو برابر تول کر قوم کے سامنے رکھیں گے تو مصور پاکستان کے شعر کی زندہ حقیقت آشکار ہو جائے گی۔ یہ وقت اب قریب آ گیا ہے۔
جی ہاں! اہل پاکستان اب اس حقیقت کو دیکھنے کے منتظر ہیں کہ مردار خور کی معاشرے میں عزت نہیں ہوتی، ذلت ہوتی ہے۔ زاغوں کو ڈرا کر اڑایا جاتا ہے یا غلیل کے غلیلے سے مار گرایا جاتا ہے۔ پاکیزہ گوشت نوچنے والی گِدھوں کو مواقع فراہم نہیں کئے جاتے کہ پاک بدن کو نوچ نوچ کر کھاتی رہیں۔ ان کے لئے عزت کی کوئی گنجائش مہذب معاشرے میں نہیں ہے۔ عزت اور توقیر ہے تو بس صرف اور صرف حضرت محمد کریمؐ کی لیڈرشپ کی غلامی میں ہے۔ ہمیں پاکستان کا حکمران ایسا غلام چاہئے، جی ہاں! ایسا غلام چاہئے۔