میاں محمد نوازشریف اور آصف علی زرداری اس لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے لیڈر ہیں کہ وہ دو بڑی سیاسی پارٹیوں کے قائد ہیں۔ عدالتی فیصلے میں میاں صاحب کی نااہلی کے بعد اب مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں شہباز شریف ہیں۔ یوں کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ اب مسلم لیگ (ن) نہیں رہے گی بلکہ (ش) بنے گی۔ اس موقع پر یاد دلانا چاہوں گا کہ مسلم لیگ کی بنیاد 1906ء میں نواب سلیم اللہ خان نے ڈھاکہ میں رکھی تھی۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب برصغیر میں مسلمانوں کی اہم ترین اور بڑی نمائندہ جماعت کو حضرت قائداعظم کی صدارت نصیب ہوئی، تب یہ صرف مسلم لیگ ہی تھی۔ قائداعظم کے مقابلے میں ایک شخص سر محمد شفیع نے مسلم لیگ بنائی اسے شفیع لیگ کہا گیا۔ مسلم لیگ (ش) بھی کہہ سکتے ہیں۔ آج شفیع لیگ، محمد شفیع اور (ش) کوکوئی نہیں جانتا۔ تاریخ نے سب کچھ کوڑے دان میں پھینک دیا اور حضرت قائداعظم کا نام تابندہ ہے اور ان کی مسلم لیگ کا نام بھی زندہ ہے۔ میں یہاں میاں محمد شہباز شریف صاحب سے گزارش کروں گا کہ وہ (ن) کا لاحقہ ختم کریں۔ (ش) کا لاحقہ وہ لگائیں گے نہیں۔ یوں وہ ایسی جماعت کے صدر بن جائیں گے جس کا نام ''پاکستان مسلم لیگ‘‘ ہو گا۔ وہ اسے قائداعظم کی جماعت بنائیں، نام کے اعتبار سے بھی بنائیں اور کردار کے اعتبار سے بھی قائداعظم کی جماعت بنائیں۔
قائداعظم کی جماعت بنانے کے لئے ضروری ہے کہ قائداعظم کے یہ الفاظ یاد رکھیں کہ انہوں نے فرمایا تھا جب اللہ تعالیٰ مجھ سے پوچھیں گے، اے محمد علی! کیا کر کے آیا ہے؟ میں عرض کروں گا، پاکستان بنا کر آیا ہوں تو اللہ تعالیٰ شاباش دیتے ہوئے فرمائیں گے "Well Done Muhammad Ali" ، محمد علی کمال کر آئے ہو۔ اسی طرح زیارت میں انہوں نے فرمایا تھا کہ میں اب دنیا میں زندہ نہیں رہنا چاہتا۔ اللہ کے پاس جانا چاہتا ہوں۔ یعنی انہیں موت یاد تھی، قبرستان یاد تھا، اسی لئے مضبوط کردار کے حامل تھے۔ زندگی میں کوئی اسکینڈل نہ تھا۔ نصف عمر گزر گئی تو ایک شادی کی، اس کے بعد زندگی مسلمانانِ برصغیر کے نام کر دی۔ دولت بھی ملک کے نام کر دی۔ یہ تھا کردار اس قائد کا جس کو موت اور قبرستان یاد تھا۔ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا شوق تھا۔
مجھے آج کے دو بڑے لیڈروں کے خاندانی قبرستان دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ میں گڑھی خدابخش میں اس وقت گیا جب وہاں ذوالفقار علی بھٹو مدفون تھے۔ ان کے بیٹے شاہنواز بھٹو بھی وہاں مدفون تھے۔ پھر مرتضیٰ بھٹو کی قبر یہاںبن گئی اور آخر میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی قبر بھی یہاں بنا دی گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے داماد، محترمہ بے نظیر کے شوہر جناب آصف زرداری یہاں سال میں ایک بار ضرور آتے ہیں۔ جلسہ سے خطاب کرتے ہیں دن کی روشنی میں اور پروٹوکول کے ساتھ آتے ہیں۔ سیاست کا بازار گرم کرنے یہاں تشریف لاتے ہیں۔ یوں قبرستان میں آنے سے آخرت کی یاد اور موت کا تصور انتہائی خفیف سا ہوتا ہے اور پھر وہی حکمرانی کا دبدبہ آن پکڑتا ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ کبھی رات کے سناٹے میں جناب آصف علی زرداری یہاں تشریف لائیں اور سوچیں کہ میں نے تمام محلات اور جائیدادیں چھوڑ کر یہاں آنا ہے اور ایک ایک عمل اور پیسے کا اللہ تعالیٰ کو حساب دینا ہے چنانچہ پچھلی زندگی کا مداوا بھی کرنا ہے اور آئندہ کی مقتدر زندگی کو قبرستان سامنے رکھ کر گزارنا ہے۔ وقت ہی اب کیا بچا ہے، ٹائم تو قریب آن لگا ہے۔ میاں شہباز شریف صاحب کے چھوٹے بھائی میاں عباس شریف مرحوم فوت ہوئے تو ان کے جنازے میں شامل ہوا اور میاں شہباز صاحب کے ساتھ تعزیت کی۔ عباس مرحوم کے ساتھ میرا پرانا تعلق تھا جو گوالمنڈی کے میرے دوست یوسف باکسر مرحوم کے ذریعے سے ہوا تھا۔ الغرض! میاں عباس مرحوم کو جب لحد میں اتارا جا رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ میاں شریف مرحوم نے جاتی امرا کا دیس آباد کیا تو یہاں قبرستان بھی بنا دیا۔ میاں شہباز شریف صاحب سے گزارش ہے کہ وہ اپنی پچھلی زندگی کی مالی تقصیروں کا ازالہ کریں اور آئندہ کی مقتدر زندگی قبرستان کو سامنے رکھ کر گزاریں۔ ان کا اپنا بھی بھلا ہو گا ۔ ان کی رہائش گاہ اور خاندانی قبرستان کے درمیان فاصلہ بھی تھوڑا ہے جبکہ ٹائم بھی تھوڑا ہے۔ اس حقیقت کو سامنے رکھ کر حکمرانی کریں گے تو پاکستان اور اہل پاکستان کا بھلا ہو جائے گا۔
اپنے کالم کا اختتام حضرت محمد کریمﷺ کے مبارک اور رہنما طرز عمل پر کر رہا ہوں جو قبرستان کے حوالے سے ہے۔ ہم سب کی روحانی اماں جان حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنی روحانی اولاد کو آگاہ کرتی ہیں ''جب بھی اللہ کے رسولؐ میری باری والے دن میرے ہاں تشریف لاتے تو جب رات کا آخری حصہ ہوتا تو بقیع کی جانب تشریف لے جاتے۔ (مسلم:974)
قارئین کرام! ہماری روحانی مائوں کی تعداد ایک وقت میں گیارہ تک بھی رہی اور کم بھی رہی۔ یوں ہم اوسطاً حساب لگائیں تو اللہ کے رسولؐ ایک مہینے میں تین بار ''بقیع الغرقد‘‘ تشریف لے گئے۔ ایک سال میں حضورﷺ 36بار یہاں تشریف لائے اور دس سال ہمارے حضورؐ مدینہ منورہ میں رہے۔ اس اعتبار سے ہمارے پیارے حضورؐ 360مرتبہ ''بقیع الغرقد‘‘ تشریف لائے۔ سال میں 365دن ہوتے ہیں... اس اعتبار سے گویا سال بھر اللہ کے رسولؐ بقیع میں تشریف لاتے رہے۔ اللہ اللہ! جہاں مولا کریم کے حبیب اور خلیل حضرت محمد کریمؐ 360بار تشریف لائیں اور تدفین کے لئے جو یہاں تشریف لائے وہ تعداد علاوہ ہے۔ یعنی محتاط اندازے کے مطابق ہمارے پیارے حضورؐ یہاں کوئی چار اور پانچ سو مرتبہ کے درمیان ''بقیع الغرقد‘‘ تشریف لائے۔ یوں یہ بات ایک سال سے بھی بڑھ جاتی ہے... اور جب حضورﷺ بقیع میں تشریف لاتے تو ہماری اماں جان حضرت عائشہ ؓ بتلاتی ہیں کہ بقیع والوں کے لئے یہ دعا پڑھتے!
''اس گھر میں قیام کرنے والے مومنو! تم پر سلامتی ہو۔ جس نعمت کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا، وہ تم لوگوں کو کل ملنے والی ہے۔ بس تھوڑا سا وقت رہ گیا۔ اللہ نے جوں ہی چاہا ہم بھی تمہارے پاس آئے کہ آئے... اے مولا کریم جی! بقیع الغرقد والوں کو بخش دیجئے‘‘ (مسلم: 974)
جی ہاں! یہ ہے طرز عمل مدینہ کے حکمران حضرت محمد کریمؐ کا جو دس سالہ مدنی زندگی میں تقریباً دو سال قبرستان میں گئے۔ ایک سال اپنی مرضی سے گئے اور ایک سال صحابہؓ اور صحابیاتؓ کی تدفین کے لئے گئے۔ آیئے! سوچیں ہم اپنی 65سالہ زندگی میں کتنی بار قبرستان گئے اور کس قدر وہاں آخرت کو یاد کیا۔ میری گزارش ہے کہ وزیراعظم پاکستان اپنی کابینہ کو لے کر ہر ہفتے نہ سہی مہینے میں ایک بار قبرستان لے کر جائیں اور آخرت یاد کرائیں۔ ممبران اسمبلی کو بھی ساتھ لے کر جائیں، افسران کے لئے ضروری قرار دیں۔ میرے ملک میں حضورؐ کی سنت پر عمل کرنے سے شفافیت بھی آئے گی، کرپشن کا خاتمہ بھی ہو گا اور اہل پاکستان کے کام بھی میرٹ پر ہوں گے۔ (ان شاء اللہ)