خلا کے اندر ایک خوبصورت گیند ہے جس کا نام زمین ہے، اسے خلا سے دیکھیں تو انتہائی خوبصورت لگتا ہے جو لَٹّو کی طرح گھوم بھی رہا ہے اور سورج کے گرد چکر بھی کاٹ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ''اس زمین پر جو کچھ بھی ہے ہم نے اسے زمین کی زینت بنایا ہے‘‘ (الکہف:7)‘‘ سمندر بھی زینت ہے۔ کشتیاں اور بحری جہاز اس پر چلتے ہیں۔ مونگے، مرجان اور موتی اس کی تہہ سے نکلتے ہیں۔ بادشاہوں، شہزادیوں اور دلہنوں کا ہار سنگھار بن کر زینت کا باعث بنتے ہیں۔ مچھلیاں جب سمندر کے پانیوں پر اٹکھیلیاں کرتی ہیں تو زینت مزید حسن کا روپ دھارتی ہے۔ پہاڑ اور ان کی سرسبز وادیاں دیکھیں اور ان میں بہتے ہوئے دریا، آبشاریں، چشمے، جھیلیں اور جھرنے دیکھیں تو زینت سمجھ میں آتی ہے۔ میدانوں میں لہلہاتی فصلیں اور باغات زینت کا ایک الگ مفہوم سمجھاتے ہیں۔ خشک پہاڑوں سے سونے، چاندی وغیرہ کی دھاتیں نکل کر کس کس سر پہ تاج کی صورت میں ڈھل کر زینت بنتی ہیں اور کس کس گلے کا ہار، پائوں کی پازیب، چھنگلیا میں چھاپ، کانوں میں کانٹے اور ناک میں نتھ بن کر زینت کا باعث بنتی ہیں۔ کاٹن کی فصل کیا کیا رنگ اختیار کر کے مردوں اور عورتوں کے اجسام پر لباس اور پوشاک کی صورت میں سجتی ہے سب واقف ہیں اور خوب آگاہ ہیں۔
سائنس دانوں کے ہاں ایک متفقہ قانون ہے۔ اس قانون کو ''ناکارگی قانون‘‘ کہا جاتا ہے یعنی اس زمین اور کائنات میں جو کچھ بھی ہے وہ اپنی طبعی عمر کے لحاظ سے ناکارگی کا شکار ہے۔رفتہ رفتہ وہ ہستی سے نیستی، وجود سے عدم اور زندگی سے موت کے سفر کی جانب گامزن ہے۔ یعنی اس زمین پر جو کچھ بھی ہے، زینت و زیبائش ہے یہ ناکارگی کا شکار ہے۔ یوں جو شے اپنی طبعی عمر پوری کر لیتی ہے وہ ناکارگی کا شکار ہو کر کچرا بن جاتی ہے۔ کوڑا کرکٹ بن جاتی ہے۔ وہ کوڑا کرکٹ ری سائیکل ہوتا ہے اور یوں مادی اشیاء کسی اور صورت میں ڈھل جاتی ہیں اور اپنا وجود کھو کر بے نام ہو جاتی ہیں۔
کوڑا بنی ہوئی اور ناکارہ چیزوں کو ٹھکانے لگانے کا ایک قدرتی نظام بھی ہے۔ مثال کے طور پر سیلاب آتے ہیں اور بہت کچھ بہا کر لے جاتے ہیں۔ طوفان اور آندھیاں آتی ہیں۔ یہ ہوائیں بھی زمین اور فضا سے ناکارہ چیزوں کو ٹھکانے لگا دیتی ہیں۔ تیز دھوپ بھی یہی عمل کرتی ہے۔ جنگلوں میں آگ بھی ایسا ہی کرتی ہے۔ جنگلوں میں جنگلی جانور مر جاتے ہیں تو ان کے مردہ اجسام کو ٹھکانے لگانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ''گدھ‘‘ پیدا کر رکھے ہیں وہ ہزاروں مردہ جنگلی جانوروں کو کھا کر جنگل کو آلودہ ہونے سے بچاتے ہیں۔ الغرض! جنگلی جانور، پرندے، درندے وغیرہ زمین کے ماحول کو خراب نہیں کرتے، سمندری ماحول کو آلودہ نہیں کرتے، فضا میں آلودگی پیدا نہیں کرتے اور خلا میں تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ بے چارے پرندے وہاں جا کر آلودگی پیدا کریں۔ وہ وہاں جا ہی نہیں سکتے لہٰذا آلودگی کہاں پیدا کریں گے؟ اس زمین کو آلودہ کیا ہے، کچرا اور کوڑا بنایا ہے اور اس کو ٹھکانے نہیں لگایا تو انسان نے ایسی حرکت کی ہے۔ اس نے زمین کو خوبصورت بھی بنایا ہے اس کے حسن میں اضافہ بھی کیا ہے مگر اس کوڑے اور کچرے سے اس کی زینت کا ستیاناس بھی خوب کیا ہے۔ کراچی میں ہم اہل پاکستان نے یہی کیا ہے۔
امیر طبقہ کے لوگ اپنے محلات اور بڑے گھروں کی اشیاء کو کوڑا سمجھتے ہوئے یا تو انتہائی کم نرخوں پر بیچ دیتے ہیں اور یا پھر غرباء کو ویسے ہی دے دیتے ہیں، بالکل اسی طرح کا سلوک امیر ممالک غریب ممالک سے کرتے ہیں۔ الیکٹرانک سامان، کمپیوٹر کا سامان حتیٰ کہ کپڑے وغیرہ امیر ممالک سے کوڑا بن کر غریب ملکوں میں آتے ہیں اور یہاں بِک جاتے ہیں۔ کپڑوں کا کوڑا دیکھنا ہو تو لاہور کا ''لنڈا بازار‘‘ بہترین مثال ہے۔ الیکٹرانک کا کوڑا ہال روڈ اور اس کے نواح میں مل جاتا ہے۔ نئے سامان کی دکانوں کے ساتھ ساتھ کچرے کی دکانوں سے استعمال شدہ کوڑا بھی ملتا ہے۔ امریکہ میں سب سے زیادہ کوڑا اور کچرا ہوتا ہے اس کے بعد یورپ کا نمبر ہے اس کچرے کو چین اٹھاتا تھا۔ اربوں ڈالر کا یہ کوڑا ری سائیکل ہو کر کارآمد بنتا تھا۔ دنیا میں اور ملک بھی کوڑا اٹھاتے ہیں مگر سب سے بڑا کوڑا اٹھانے والا ملک چین ہے۔ کوڑے اور کچرے کی بہت ساری اقسام ہیں۔ چین اس کوڑے کی تمام اقسام کو ری سائیکل کر کے اعلیٰ ترین مال تیارکرتا ہے اور برآمد کر دیتا ہے۔ تجارت کے معاملے میں آج کل امریکہ اور چین کے مابین مخاصمت چل رہی ہے اس مخاصمت میں چین نے کوڑا اٹھانے سے انکار کر دیا ہے۔ امریکہ اور یورپ کے امیر ممالک میں اب کوڑے کے ڈھیر لگ چکے ہیں وہ اس صورت حال سے پریشان ہیں کہ کوڑا کون اٹھائے گا اور اس کو ٹھکانے لگائے گا۔ چین معاشی اعتبار سے دیوہیکل بن چکا ہے اب اسے کوڑا اٹھانے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ امریکہ نے چین کی اشیاء پر درآمدی ٹیکس لگا دیا ہے۔ اس کے جواب میں چین نے کوڑا بھی نہیں اٹھایا اور امریکی اشیاء پر بھی اپنے ملک میں ٹیکس لگا دیا ہے۔ مزید یہ کیا ہے کہ لاطینی امریکہ کے ایک ملک سے تیل اپنی کرنسی میں خریدنا شروع کر دیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اسے تجارتی جنگ کہہ دیا ہے۔
مجھے خطرہ اس بات کا ہے کہ ''تجارتی جنگ‘‘ کا خطرناک لفظ عالمی جنگ کا سبب نہ بن جائے، ورنہ ساری دنیا کی زینت کوڑا کرکٹ بن جائے گی۔ ہیروشیما اور ناگاساکی کو ہم کوڑا کرکٹ بنتا دیکھ چکے ہیں۔ امن پسند لوگ خوبصورت زمین کو کوڑا کرکٹ بنتانہیں دیکھ سکتے۔ انسان نے پہلے ہی کیا کمی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ''خشکی اور سمندر میں فساد ظاہر ہو گیا ہے اور یہ فساد لوگوں کے ہاتھوں کی کرتوتوں کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ (القرآن)‘‘
جی ہاں! انسانوں نے فیکٹریاں لگائیں، وہاں سے سامان خوبصورت تیار ہوا۔ مردوں اور عورتوں نے اس سامان سے اپنی راحت اور زینت کو حاصل کیا... مگر دھوئیں کی چمنیوں پر ٹریٹمنٹ فلٹر نہ لگائے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ فضا آلودہ ہو گئی۔ وہاں سے نکلے ہوئے زہریلے پانیوں کو دریائوں میں ڈال دیا۔ ایسا نہیں کیا کہ ٹریٹمنٹ واٹر پلانٹ لگا کر پانی کو صاف کر کے دریائوں میں ڈالتے... اب نتیجہ کیا نکلا، وہی پانی دریائوں کے ذریعے سے زمینوں کو سیراب کر گیا۔ نیچے تک زیرزمین گیا۔ اسی پانی سے اگی ہوئی سبزیاں، پھل اور اناج بھینسوں کا دودھ جب پیا گیاتو انسانوں میں ہیپاٹائٹس، کینسر اور دیگر امراض پیدا ہونا شروع ہو گئے یعنی انسان نے زینت اور راحت کا فائدہ تو اٹھا لیا مگر کوڑے اور کچرے کو ٹھکانے نہ لگایا۔ گاڑیوں کے دھوئیں کا بندوست نہ کیا۔ پانی والی بجلی کے بجائے کوئلے سے بجلی بنانے کے پلانٹ لگا دیئے۔ امیر ملکوں نے آبی، شمسی اور ایٹمی بجلی حاصل کر لی۔ پاکستان کو کوئلے کے پلانٹ دے دیئے اور ہم نے ساہیوال جیسے زرعی علاقے میں لگا لئے۔
اے انسانو! پلانٹ جہاں بھی لگے گا، نقصان پوری زمین کے لوگوں کا ہو گا۔ ہاں فرق صرف اتنا پڑے گا کہ ساہیوال کے لوگوں کا نقصان زیادہ اور شروع میں ہو گا پھر بڑھتا بڑھتا آخر سارے جگ کا نقصان ہو گا۔
آہ! اس گھر کے لوگ کیسے ناعاقبت اندیش ہیں جو گھر کی صفائی نہیں کرتے۔ یا گھر کا کچرا اپنے دروازے کے سامنے پھینک دیتے ہیں۔ دنیا اب ایک گھر ہے، ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہر کوئی اپنے کمرے کا خیال کرے اور باقی گھر کا خیال نہ کرے۔ انسانیت کو مشترکہ صفائی کا نظام بنانا ہو گا اور اس دنیا کو ایسی بدامنی سے بھی بچانا ہو گا کہ کہیں یہ کوڑا نہ بن جائے۔ آیئے! مل کر جدوجہد کریں کہ اس زمین کی زینت قائم رہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ''کہ ہم نے زمین کو جو باعث زینت بنایا ہے تو ہم انسانوں کی آزمائش کریں گے کہ کون اچھے اعمال کرتا ہے۔‘‘ (الکہف:7)
جی ہاں! جب اعمال انتہائی برے ہو جائیں گے تو مولا کریم فرماتے ہیں ''پھر جو کچھ زمین پر ہے ہم چٹیل میدان بنا دیں گے۔ (الکہف: 8)‘‘
یعنی قیامت تو آئے گی اور کوڑا کرکٹ ایسا صاف ہو گا کہ ساری زمین چٹیل میدان بن جائے گی... آیئے! اس چٹیل میدان بننے سے پہلے ہم انسانوں میں سے ہر انسان یہ کوشش کرے کہ زمین کو کوڑے کرکٹ اور کچرے سے صاف رکھنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ عقیدے کی صفائی، اخلاق کی صفائی، برداشت اور کردار کی صفائی سے ہم زمین کی زینت کو قائم رکھ سکتے ہیں۔