عربی میں ''قاضی القضاۃ‘‘ ہے اور انگریزی میں ''چیف جسٹس‘‘ ہے۔ ہماری سپریم کورٹ کے چیف جناب ثاقب نثار صاحب اپنے آپ کو قاضی کہہ دیتے ہیں، دوسرے معنوں میں جج کہہ دیتے ہیں۔ یہ ان کی انکساری اور عاجزی ہے۔ اللہ تعالیٰ کو بندے کی عاجزی پسند ہے۔ تکبر پسند نہیں ہے۔ حضورؐ نے فرمایا! جس نے اللہ تعالیٰ کی خاطر انکساری کو اختیار کیا اللہ تعالیٰ اسے بلند مرتبہ کر دیں گے۔ محترم چیف صاحب سائلین کی بھیڑ میں ایک دوہرے قتل کی داستان سن کر رو دیئے۔ رونا دل کی نرمی کی علامت ہے۔ نرم دِلی مومن کی صفت ہے۔ محدثین نے حدیث کی کتابوں میں سخت دل لوگوں کے دلوں کو نرم کرنے کے لئے ''کتاب الرقاق‘‘ کے عنوان سے ابواب بنائے اور ان میں ایسی احادیث لائے جن کو پڑھ کرلوگوں کے دل نرم ہو جائیں اور وہ ظلم کا سوچیں بھی نہیں۔ مگر جو لوگ ظلم سے باز نہ آئیں ان کو سزا دینا ضروری ہے۔ یہ سزا خفیہ تہ خانوں اور پولیس مقابلوں میں دی جائے تو اس کے خاطر خواہ نتائج نہیں نکلتے بلکہ نفرتیں پیدا ہوتی ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ سزا سرعام دو تاکہ معاشرے میں عبرت ہو۔ اس سے لوگ ظلم کرنے سے باز آ جائیں گے۔ محترم چیف صاحب کے آنسو اپنی جگہ قابل قدر ہیں مگر زینب کا قاتل عمران ابھی تک جیل میں ہے۔ لوگ کافی حد تک مذکورہ وحشیانہ جرم کو بھول چکے ہیں۔ آئندہ چند ماہ یا سال اسی طرح گزر گئے تو لوگ بالکل بھول جائیں گے۔ آخر کیا وجہ ہے عمران جیسے درندہ ظالم کو سرعام سزا کیوں نہیں دی جا رہی؟ چیف صاحب تو فرما چکے قانون سازی پارلیمنٹ کا کام ہے۔ سیاسی حکمران سرعام سزا کا قانون پارلیمان میں کیوں نہیں بناتے۔ زینب کے مظلوم ورثاء جیسے بے شمار وارثوں کا یہ سوال ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ اپنی بخاری میں ''کتاب المظالم‘‘ کے عنوان سے ایک چیپٹر لائے ہیں۔ مدینہ یونیورسٹی کے فاضل اور معروف استاذ اور محدث حافظ عبدالستار حماد صاحب نے اپنی ''ہدایۃ القاری شرح صحیح بخاری‘‘ میں مذکورہ عنوان کا ترجمہ ''ظلم و استبداد کے احکام و مسائل‘‘ کیا ہے۔ امام بخاری مذکورہ چیپٹر میں ایک حدیث لائے ہیں۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا! ظلم ایسا جرم ہے کہ قیامت کے دن (ظالم کو) طرح طرح کے کئی اندھیرے گھیر لیں گے۔ (بخاری 2448) یاد رہے! اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ظلم کو اندھیرا قرار دیا ہے۔ صاحب قرآن حضرت محمد کریمؐ بھی ظلم کو اندھیرے قرار دے رہے ہیں۔ ظالم جب ظلم کرتا ہے تو اس کا دماغ روشنی سے محروم ہو جاتا ہے۔ وہ مکمل اندھیرے میں چلا جاتا ہے اور پھر جو سب سے بڑا اندھیر وہ مچاتا ہے وہ کسی انسان کا قتل ہے۔ اب اس نے جس کو قتل کیا ہے، اس مقتول کی ایک ماں بھی ہے۔ ماں جب بیٹے کے قتل کی خبر سنتی ہے اس کی دنیا اندھیر ہو جاتی ہے۔ باپ سنتا ہے تو اس کی کمر ٹوٹ جاتی ہے۔ بیوی سنتی ہے، سہاگ اجڑتا ہے۔ بچے لاوارث ہو جاتے ہیں۔ ان کی روزی اور تعلیم کا کیا بنے گا۔ ان کی تربیت کا کیا ہو گا؟ بھائی اور باقی رشتہ دار اپنے تعلق کے حوالے سے قدرے کم اندھیرے میں چلے جاتے ہیں۔ ایک اور اندھیرا جو سب کے قلب و جگر کو زخمی کرتا ہے اور بار بار نمک اور مرچ زخموں پر چھڑکتا ہے وہ انصاف کی عدم فراہمی اور تاخیر ہے۔ قاتل کا دندنانا ہے۔ اس اندھیرے کے ذمہ دار انتظامیہ اور عدلیہ کے لوگ ہیں۔ جی ہاں! میرے حضورؐ کے فرمان کے مطابق ایک ظالم شخص وہ رعایا میں سے ہو یا حکمرانوں میں سے کوئی کارندہ ہو وہ ظلم کا ارتکاب کرتا ہے تو جس طرح مظلوم لوگ دنیا کے اندھیرے میں پریشان ہو رہے ہیں، اسی طرح ظالم لوگ قیامت کے دن اندھیروں میں پریشان ہوں گے اور قیامت کے اندھیرے، وہاں کی تاریکیاں، وہاں کی کال کوٹھڑیاں، وہاں کے سخت گیر داروغے ایک ظالم کو قیامت کے دن کے اندھیروں میں سزا کے ایسے مزے چکھائیں گے کہ اللہ کی پناہ۔
امام بخاری رحمہ اللہ کا طریقہ یہ ہے کہ کسی چیپٹر کا آغاز کرتے ہیں تو قرآن کی آیات لاتے ہیں اور پھر احادیثِ رسولؐ کا تذکرہ کرتے ہیں۔ مظالم کے چیپٹر کے آغاز میں جو پہلی آیت لائے اس کا ترجمہ یوں ہے ''(میرے پیارے رسولؐ) آپ ہرگز یہ خیال نہ کرنا کہ ظالم جو کچھ کر رہے ہیں اللہ ان سے بے خبر ہے وہ تو انہیں اس دن تک مہلت دے رہا ہے جب (اپنے ظلم کا انجام اور متوقع بدلہ دیکھ کر) نگاہیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔ (ابراہیم: 42) یاد رہے! بعض ظالموں کا ظلم ایسا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی گرفت کر لیتے ہیں اور عبرت کا سامان بنا دیتے ہیں۔ اس میں مظلوم کی بے بسی اور لاچارگی بھی اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ انسان تو پھر بھی واویلا کر لیتے ہیں، بھاگ دوڑ کر لیتے ہیں، اثرورسوخ استعمال کرتے ہیں، مگر بعض ایسے لاچار انسان بھی ہوتے ہیں کہ جو ظلم کے خلاف انتہائی بے بس اور لاچار ہوتے ہیں کہ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ ایسے لوگوں کی بے بسی ظالموں کو جلد ہی دنیا میں کہیں کا نہیں چھوڑتی۔ جانور اللہ کی ایسی مخلوق ہیں کہ وہ کسی ظالم انسان کے ہاتھوں ظلم کا شکار ہو جائیں تو ان کی لاچارگی اور بے بسی اپنی انتہائوں پر ہوتی ہے مگر ان کا خالق تو ان کی بے بسی دیکھ رہا ہوتا ہے۔ ایسی بے بسی کا ایک واقعہ میرے علم میں یوں ہے کہ ایک شخص جو اپنی کار پر جا رہا تھا۔ راستے میں ایک کتیا اپنے بچوں کے ساتھ جا رہی تھی۔ ایک بچہ سڑک کے کنارے پر تھا۔ مذکورہ شخص نے جان بوجھ کر بچے کو ٹائر کے نیچے کچل دیا۔ وہ کہتا ہے، میں نے سائیڈ کے شیشے سے دیکھا، کتیا اس بچے کے گرد دیوانہ وار چکر کاٹ رہی تھی۔ بس پھر کیا تھا صرف رات گزری۔ اگلے دن صبح کو ایک دوست ملنے آیا، جب وہ واپس جانے لگا اور مذکورہ شخص اس کو الوداع کرنے لگا تو اس کا بچہ جو گاڑی کے پیچھے کھیل رہا تھا، گاڑی کے ٹائر کے نیچے آ گیا۔ دوست نے سمجھا اینٹ ہے اس نے ریورس گیئر لگا کر زور سے ریس دی تو منظر کیا تھا، کتیا کے بچے کو کچلنے والا اپنے ڈیڑھ سالہ کچلے ہوئے بچے کو دیکھ رہا تھا۔ چہرہ اور سر دیکھنے کے قابل نہ تھا۔ اللہ کی پناہ! اس قدر جلد اللہ کریم نے اپنی بے زبان مخلوق کا بدلہ لیا کہ صرف رات ہی گزرنے پائی تھی۔
امام بخاری رحمہ اللہ اسی چیپٹر میں حدیث لائے ہیں اللہ کے رسولؐ نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا حاکم بنا کر بھیجا تو (الوداع کرتے ہوئے نصیحت اور وصیت فرما رہے تھے) مظلوم کی دعا سے بچ کر رہنا، اس کی بددعا اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا۔ (بخاری:1395) صحیح مسلم میں۔ حضورؐ نے فرمایا، مظلوم کی بددعا سے بچ جائو، چاہے وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو۔ شیخ البانی حدیث لائے ہیں حضورؐ نے فرمایا، مظلوم اگرچہ فاجر (سخت گناہگار) ہی کیوں نہ ہو اس کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔ (صحیحہ:767) معلوم ہوا حکمرانوں کو خود بھی ظلم و استبداد سے بچنا چاہئے اور عدل بھی فراہم کرنا چاہئے۔ امام بخاری رحمہ اللہ قیامت کے دن مظالم کے بدلے کا ایک باب لائے ہیں۔ اس میں فرمانِ رسولؐ کے مطابق بعض مسلمان اپنے گناہوں کی سزا جہنم میں کاٹ کر جب نکالے جائیں گے تو جہنم اور جنت کے درمیان ایک پل ہو گا وہاں روک لئے جائیں گے۔ وہاں ان سے ان ظلموں کا بدلہ لیا جائے گا جو انہوں نے دنیا میں کئے ہوں گے۔ اللہ اللہ! ان کے ذاتی گناہ تو جہنم میں جَل چکے مگر جو انسانوں پر ظلم کے گناہ ہوں گے وہ سرعام ہوں گے۔ اہل جنت بھی دیکھیں گے اور اہل جہنم بھی دیکھیں گے کہ دنیا میں بڑا معزز بننے والا، اقتدار کی کرسی پر گردن اکڑا کر بیٹھنے والا جو مظلوموں پر ظلم کرتا تھا۔ آج وہ مظلوموں کے ساتھ روا رکھے گئے مظالم کا بدلہ دے رہا ہے۔ کتنی صدیاں بدلہ دے گا، کس کس ظلم کا کس شکل میں بدلہ دے گا۔ یہ اللہ ہی جانتے ہیں، بہرحال! طے یہی ہے کہ چاہے نمازیں پڑھے، صدقہ کرے، روزے رکھے، حج اور عمرہ کرے، ماں باپ کی خدمت کرے مگر مظالم کا بدلہ قیامت کے دن سرعام دینا پڑے گا اور دنیا میں گرفت آ گئی تو یہ علاوہ ازیں ہو گی۔ اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے ہر ایک کو کہ کوئی ظالم بنے۔