پنجاب حکومت نے اپنے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف کی ہدایت پر ماڈل قبرستان بنانے شروع کر دیئے ہیں۔ لاہور، فیصل آباد اور سرگودھا میں بن چکے ہیں، سہولتوں کے اعتبار سے یہ ایک اچھی پیشرفت ہے مگر مردہ شخص کو اس سے کوئی غرض نہیںکہ اسے گھر میں غسل دیا جائے یا ماڈل قبرستان میں، اسے ٹھنڈی ٹھار ایمبولینس میں لے جایا جائے یا عام سی چارپائی پر۔ اسے ان چیزوں سے اس لئے کوئی غرض نہیںکہ روح نکلتے ہی تمام اغراض کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔
قبر کی بھی ایک مدت ہے۔ بہت کم ایسی اولاد ہے کہ جو ماں باپ کی قبروں پہ جاتی ہے اور دیکھ بھال کرتی ہے۔ کوئی بہت ہی خوش قسمت ہو تو پوتے پوتیوں کی دعائوں سے فائدہ اٹھا لیتا ہے۔ اس کے بعد قبر گمنامی کا شکار ہو جاتی ہے، قبرستان مٹ جاتے ہیں، قبرستانوں پر شہر بن جاتے ہیں، سیلاب آ جاتے ہیں، صدیاں گزرنے کے ساتھ ساتھ انہی قبرستانوں کی مٹی جن میں مردوں کے اجسام کے ذرات ہوتے ہیں نہ جانے اینٹیں بن کر کس کس مکان کی اینٹ کا حصہ ہوتے ہیں یا یہی ذرات سیلابوں اور دریائوں میں بہ کر سمندر میں چلے جاتے ہیں۔ ہزاروں لاکھوں سال سے اربوں کھربوں انسان پہاڑوں، میدانوں اور سمندروں میں بے شمار ذرات کی صورت میں اس زمین کی سطح پراور اس کے اندر موجود ہیں یعنی ساری زمین ہی ہم انسانوں کے آبائو اجداد کا قبرستان ہے۔ ویسے زمین صرف انسانوں ہی کا نہیں ہر شے کا قبرستان ہے۔ جانوروں کا قبرستان بھی زمین ہے۔ درختوں کا قبرستان بھی زمین ہے۔ دھاتوں اور دیگر چیزوں کا قبرستان بھی زمین ہے۔ زمین پر جو بھی شے وجود میں آتی ہے اپنا کردار ادا کرتی ہے اور پھر قبرستان میں ایک قبر حاصل کر لیتی ہے۔ انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے مخاطب کر کے فرمایا ہے ''اسی زمین سے ہم نے تم کو پیدا فرمایا، اسی میں ہم تمہیں واپس لوٹا دیں گے، (قبر بنا دیں گے)۔‘‘ (القرآن)
بیسویں صدی کا سب سے بڑا سائنسدان آئن سٹائن تھا، اسی نے امریکی صدر کو ایٹم بم بنانے کا مشورہ دیا تھا۔ امریکہ نے جاپان کے دو شہروں ناگاساکی اور ہیروشیما کو آن واحد میں قبرستان میں تبدیل کر دیا۔ امریکہ کے بعد مزید کئی ممالک بھی یہ مقام حاصل کر چکے ہیں۔ جی ہاں! انسانیت کے قبرستان بنانے کا مقام حاصل کر چکے ہیں۔ ذرا سوچئے! انسان نے بلندی حاصل کی ہے یا پستی میں جا گرا ہے۔ میاں شہباز شریف نے تو ایسے قبرستانوں کی سہولت فراہم کی ہے جہاں لوگ اپنی طبعی موت مر کر آ جاتے ہیں۔ یہ تو اجروثواب اور انسانیت کی خدمت کا کام ہے... مگر ہنستے بستے انسانوں کی بستیوں کو قبرستان بنانا اور قبرستان بنانے کی اہلیت حاصل کرنا یہ کہاں کی انسانیت ہے؟ انسانی جان کی تکریم کا جذبہ رکھنے والے ہمدردانِ انسانیت سے میرا یہ سوال ہے... عرض کر رہا تھا کہ آئن سٹائن کے بعد بیسویں اور اکیسویں صدی کے سب سے بڑے سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ تھے جو 14مارچ 2018ء کو فوت ہو گئے۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے آسمان میں قبرستان ڈھونڈ نکالا۔
ماہرینِ فلکیات آسمان میں اندھیری قبروں کے وجود کا تصور تو رکھتے تھے مگر جان ویلر (John Wheeler) وہ پہلا سائنسدان ہے جس نے اندھیری قبر کو سیاہ سوراخ (Black Hole) کا نام دیا۔ ماہرینِ فلکیات کہتے تھے کہ یہ بلیک ہولز یا اندھیری قبریں آسمان میں ایسے وجود ہیں جن میں زبردست کشش پائی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے ان میں روشنی نہ تو داخل ہو سکتی ہے اور نہ خارج ہی ہو سکتی ہے۔ بلیک ہول کیا ہے، یہ ایک قبر یا قبرستان ہے اور ایسے بہت سارے قبرستان ہیں۔ آسمان میں چمکنے والا کوئی سورج، سیارہ یا چاند وغیرہ جب اپنی زندگی کی مدت پوری کر لیتا ہے تو سکڑتے سکڑتے اور پھول کر پھٹتے ہوئے بلیک ہول میں جا گرتا ہے وہاں اس کا وجود ختم ہو جاتا ہے۔ وہ روشنی یا شعاعوں کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور قبر میں ہمیشہ کے لئے دفن ہو جاتا ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ نے ان آسمانی قبروں کے بارے میں بھی انکشاف کیا کہ یہ بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر اپنا وجود کھوتے چلے جاتے ہیں اور پھر ایک ایسا وقت آتا ہے کہ گاما شعاعوں کی صورت میں تحلیل ہو کر ختم ہو جاتے ہیں یعنی یہ ستاروں بھرا چمکتا دمکتا جو آسمان ہمیں دکھائی دیتا ہے اور انتہائی خوبصورت لگتا ہے، ان ستاروں کی آسمان ہی میں پیدائش ہوتی ہے اور وہیں ان کا قبرستان بنتا ہے اور پھر یہ قبرستان بھی آسمانی خلائوں میں اپنا وجود ختم کر دیتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ انسان مٹی کے ذرات کی صورت میں ڈھل کر اپنا وجود کھو دیتا ہے جبکہ آسمانی ستارے اور اجسام شعاعوں کی صورت میں ڈھل کر آسمان کی وسعتوں میں اپنا وجود کھو دیتے ہیں۔ اسٹیفن ہاکنگ امن سے محبت کرنے والا انسان تھا، ایٹمی ہتھیاروں کا دشمن تھا، مظلوموں کا ساتھی تھا، فلسطین کے مظلوموں کا حمایتی تھا، اسرائیل کو ظالم جانتا تھا اس لئے اسرائیل کی دعوت پر اسرائیل نہیں گیا۔ جی ہاں! وہ آسمان میں قبرستان دریافت کر گیا مگر چونکہ خود مٹی کا بنا ہوا انسان تھا اس لئے برطانیہ کے ایک قبرستان کی قبر میں جا لیٹا۔
اسٹیفن ہاکنگ نے ایک اور انکشاف کیا کہ موجودہ کائنات کوئی پندرہ ارب سال قبل ایک دھماکے کی صورت میں وجود میں آئی۔ تب سے یہ مسلسل ایک طے شدہ شاندار ڈیزائن کے ساتھ مسلسل پھیل رہی ہے۔ آغاز ایک نقطے سے ہوا تھا اور آخرکار سکڑنا شروع ہو جائے گی تو ایک نقطے پر آ کراس کا اختتام ہو جائے گا۔ یعنی یہ کائنات سوکھتے ہوئے اور سکڑتے ہوئے سمٹتی چلی جائے گی اور پھر موت کا شکار ہو کر قبر میں جا دفن ہو گی۔ سبحان اللہ! قبر سے کوئی نہ بچ سکے گا۔ کیا خوب فرمایا شہنشاہِ کائنات نے ''ہر شے جو موجود ہے فنا ہونے والی ہے اور باقی صرف تیرے رب کا چہرہ رہے گا جو جلال و اکرام والا ہے۔‘‘ (القرآن) دوسرے مقام پر فرمایا! ''اس (قیامت کے) روز ہم آسمان کو ایسے لپیٹ دیں گے جس طرح کہ کتاب کے لمبے کاغذ کو رول کی طرح لپیٹ دیا جاتا ہے، جیسے ہم نے پہلی پیدائش کا آغاز (ایک نقطے) سے کیا تھا، ہم واپس اسی نقطے پر اسے لائیں گے۔ یہ وعدہ (پورا کرنا) ہمارے ذمہ ہے، ہم ضرور بالضرور اسے پورا کرنے ہی والے ہیں۔‘‘ (الانبیائ:104) قارئین کرام! اللہ تعالیٰ کا ایک اور فرمان ملاحظہ ہو! ''میں ان جگہوں (BLACK HOLES) کی قسم کھاتا ہوں جہاں ستارے گرتے ہیں، کیا شک ہے کہ یہ ایسی قَسم ہے کہ تمہیں معلوم ہو تو بہت بڑی قَسم ہے، کوئی شک نہیں رہا کہ یہ قرآن انتہائی باعزت کتاب ہے۔‘‘ (الواقعہ:77-75)
عظیم دھماکہ (BIG BANG) ہو یا کائنات کا سکڑ کر تباہ ہونا یااس کائنات کے بلیک ہولز میں آسمانی اجسام یعنی ستاروں وغیرہ کا گرنا... یہ ساری باتیں قرآن بتلا رہا ہے۔ جب قرآن بتلا رہا ہے تو یہ کتاب انتہائی معزز ہے۔ جو انسان یا کتاب اپنے دعوے پر پورا نہ اترے اس کی عزت مجروح ہو جاتی ہے۔ قرآن نے آغاز ہی میں دعویٰ کر دیاکہ اس کتاب میں شک کی گنجائش نہیں۔ اللہ اللہ! سائنس کی تھیوریاں بدلتی رہتی ہیں، قرآن میں کائنات سے متعلق جو بات آ گئی وہ حرفِ آخر ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ کی تازہ تحقیق جو انہوں نے اپنی وفات سے دس دن قبل پیش کی وہ یہ تھی کہ کائناتیں بے شمار اور ان گنت ہیں۔ اے کاش! اسٹیفن ہاکنگ اپنے دور طالب علمی میں قرآن کے آغاز کی آیت ملاحظہ کر لیتا تو جو چیز اسے 76سال کی عمر میں حاصل ہوئی وہ اسے 22سال کی عمر میں ہی حاصل ہو جاتی جب کیمبرج یونیورسٹی میں سائنس کی تعلیم حاصل کرتے ہوئے وہ ''موٹر نیوران‘‘ کی بیماری میں مبتلا ہوئے تھے۔ مولا کریم فرماتے ہیں ''سب تعریف اس اللہ کے لئے جو بے شمار کائناتوں کی ضرورتوں کوپورا فرمانے والا ہے۔‘‘ میں نے غور کیا کہ آیت میں ''رب العالمین‘‘ فرمایا، ''خالق العالمین‘‘ یا ''خلاق العالمین‘‘ نہیں فرمایا۔ خالق یا خلاق کہنے سے بات تو ٹھیک تھی مگر وہ لوگ کہ جو کہتے ہیں کہ کائنات تو بن گئی، بنانے والے نے بنا دی مگر بننے کے بعد سائنسی قوانین کے تحت خودبخود ہی چل رہی ہے۔ سبحان اللہ! اللہ تعالیٰ نے ''رب‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا، جیسے ماں بچے کی ضرورتوں کا خیال رکھتی ہے، اب کوئی کہے کہ ماں پالتی ہے تو پالنے کے لفظ میں جنم دینے کا لفظ خودبخود شامل ہے۔ اسی طرح کائنات کی ضرورتوں کا خیال رکھنے میں پیدا کرنے کا لفظ خودبخود شامل ہے کہ مولا کریم بنا کر لاتعلق نہیں بلکہ ہر ایک کی ہر آن ضرورت پوری فرمانے والا وہی ہے اور رب ہے تو ایک کائنات نہیں، بے شمارکائناتوں کا رب ہے۔ کس کس کی قبر کب کب بنے گی، مولا کریم جانتے ہیں۔ اے انسانو! آئو! اپنی قبر کی فکر کریں۔ قسمت میں میاں شہباز شریف کے ماڈل قبرستان کی قبر ہو یا کوئی عام قبرستان، سمندر ہو یا فضا میں جہاز میں راکھ ہو کر مرنا ہو، فرق کوئی نہیں پڑتا کہ اصل انسان تو روح کی صورت میں فرشتے کے ہاتھوں میں پرواز کرتا ہے۔ نیک ہے تو جنت میں ہے، برا ہے تو جہنم میں جائے گا۔ لہٰذا! ''نیک کردار کی فکر کر اے نفسِ دانشمندانہ و فرزانہ‘‘۔