اللہ کے آخری رسول حضرت محمد کریمؐ نے بدر کے میدان میں جس مقام پر اسلامی فوج کی قیادت فرمائی وہاں ایک چھپّر بنایا گیا تھا جو کھجور کی ٹہنیوں کے ساتھ سائبان کا کام دے رہا تھا۔ اسے ''عریش‘‘ کہا گیا۔ انگور کی بیل وغیرہ کو بلند جگہ پر چڑھا دینے کو قرآن میں ''معروشات‘‘ کہا گیا ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے والدین کو اپنے جس تخت پر بٹھایا تھا اسے قرآن نے ''عرش‘‘ کہا ہے‘ یعنی بادشاہوں یا وزرائے اعظم کے لیے جو تخت بنائے جاتے تھے عربی میں انہیں عرش کہا جاتا تھا۔ ہمارے حضور گرامی حضرت محمد کریمؐ سرکار مدینہ بنے تو اپنے لیے کوئی تخت یا عرش نہیں بنوایا۔ بس کھجور کی چٹائی کا ایک مصلّٰی تھا جس پر نماز کی امامت فرماتے تھے اور اسی پر تشریف فرما ہوتے ہوئے حکمرانی کے فیصلے بھی فرماتے تھے۔ ایک خاتون نے پیش کش کی کہ اسے اللہ کے رسول گرامیؐ! جمعہ کے دن آپؐ کے خطبہ کے لیے ایک نشست گاہ نہ بنا دی جائے؟ حضورؐ نے اجازت دے دی اور یوں مذکورہ خاتون کے ایک بڑھئی نے غابہ کے جنگل کی لکڑی سے اللہ کے رسولؐ کے لیے تین نشستوں یا سیڑھیوں والی نشست گاہ بنا دی اسے منبر کا نام دیا گیا۔ عرش نہیں کہا گیا۔ حضرت محمد کریمؐ نے مکہ فتح کر لیا۔ جزیرۃ العرب کے حکمران بن گئے مگر تخت یا عرش نہیں بنا۔ حضورﷺ نے مدینہ منورہ میں لکڑی کے ممبر پر ہی خطبات جمعہ بھی ارشاد فرمائے اور ریاست کی پالیسی کے ارشادات اور خطبات بھی وہیں ارشاد فرمائے۔ ہمارے حضور گرامیؐ کا اپنے رب تعالیٰ کے سامنے یہ عاجزانہ انداز تھا اور یہ انداز اللہ تعالیٰ کے ہاں بطور شکرانے کے تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کو ساتویں آسمان پر بلوایا‘ دونوں جہانوں کا سردار بنایا‘ تمام نبیوں اور رسولوں کا امام اور رہنما بنایا۔ سبق یہ ملا کہ اللہ تعالیٰ جس کسی امتی کو کوئی مقام عطا فرمائے وہ اپنے پیار سے رسولؐ کے طریقے اور سنت کو سامنے رکھتے ہوئے عاجزی اور انکساری کا اظہار کرے۔
اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوقات میں سب سے بڑی مخلوق کرسی ہے۔ اس کرسی کی عظمت اور حقیقت کو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں‘ ہمیں تو ''آیت الکرسی‘‘ میں صرف اس قدر بتلایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کرسی نے تمام آسمانوں اور زمین کو گھیرے میں لیا ہوا ہے۔ اس کرسی کو بادشاہ‘ صدر یا وزیراعظم کی کرسی جیسا نہ سمجھا جائے کہ دو ٹانگوں والا انسان چار ٹانگوں والی کرسی پر بیٹھتا ہے۔ یہ کرسی تو اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے اور کیسی ہے اللہ ہی بہتر جانتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا عرش اس سے بھی کہیں بڑی مخلوق ہے اور قرآن میں اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ رحمان اس عرش (سے کہیں) اوپر جلوہ افروز ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا کہ عرش جیسی عظیم مخلوق کو اللہ تعالیٰ کے آٹھ فرشتوں نے اٹھایا ہوا ہے۔ یہ فرشتے کتنے بڑے ہیں ان میں سے ایک فرشتے کی حقیقت سے اللہ کے رسولؐ اس طرح آگاہ فرماتے ہیں کہ ''مجھے (اللہ کی طرف سے) اجازت دی گئی ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے ان فرشتوں میں سے ایک فرشتے سے متعلق آگاہ کروں کہ جنہوں نے عرش کو اٹھا رکھا ہے۔ اس ایک فرشتے کی کان کی کونپل سے کندھے تک کا فاصلہ سات سو سال کی مسافت کا ہے‘‘(ابودائود: 4727 صحیح)۔اگر انسان یہ سفر پیدل کرے تو دسیوں یا بیسیوں زمینوں کا رقبہ بن جاتا ہے۔ اگر گھوڑے پر سفر کرے تو سینکڑوں زمینوں کا رقبہ بن جائے۔ اگر جہاز پر سفر کرے تو لاکھوں کروڑوں زمینوں کا رقبہ بن جائے اور اگر روشنی کی رفتار سے سفر ہو تو نہ جانے کتنی اربوں کھربوں کہکشائوں کا رقبہ بن جائے۔ اسے قارئین کرام! حضرت جبرئیل تو ایک لمحے سے بھی کہیں کم وقت میں‘ عرش کے نیچے سے سات آسمانوں سے ہوتے ہوئے‘ مدینہ منورہ کھجور کی چٹائی پر تشریف فرما ہمارے حضورؐ کی خدمت میں آ جایا کرتے تھے۔ لا محالہ نوری فرشتے کی جسامت کا فاصلہ انہی کی مخصوص نوری رفتار ہی کا ہے تو معلوم ہوا کہ نہ جانے یہ فاصلہ کتنی کائناتوں کا ہے اللہ ہی بہتر جانتے ہیں۔ پھر پورے فرشتے کی جسامت کیا ہو گی‘ جبکہ یہ تو آٹھ ہیں اور قرآن بتایا ہے کہ اس عرش کے گرد بے شمار فرشتے طواف کرتے ہیں اور فرمایا ''سبحان اللہ، الحمد للہ کا ورد کرتے ہیں۔ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور اللہ پر ایمان رکھنے والے مومنوں کے لیے بخشش کی دعائیں کرتے ہیں اور کہتے ہیں اے ہمارے رب! آپ نے ہر شے کو رحمت اور علم کے ساتھ گھیرے میں لیا ہوا ہے‘‘ (المومن : 7 )۔
قارئین کرام! اللہ کے رسولؐ آگاہ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن اس عرش کے سائے تلے (شدید ترین جھلسا دینے والی گرمی میں ٹھنڈے اور خوشگوار مقام پر) سات لوگوں کو جگہ ملے گی۔ ان میں سے ایک وہ ہے جو عدل کے ساتھ حکمرانی کرے گا (بخاری)۔ اب سوال تو یہ ہے کہ جناب آصف علی زرداری بھی صدارتی کرسی پر براجمان رہے۔ یہ بیچارہ صدارتی عرش لکڑی کا تھا‘ چمڑے کا تھا‘ کچھ سٹیل لگا ہو گا۔ چار اس کے پائے تھے۔ کیا انہوں نے اس پر بیٹھ کر عدل کیا؟ میاں نواز شریف صاحب کو وزارتِ عظمیٰ کے تخت پر تیسری باری ملی۔ آخری بار چار سال پہ محیط تھی کیا انہوں نے چار پایوں پر مشتمل لکڑی کے حقیر اور چھوٹے سے تخت پر بیٹھ کر عدل کیا؟ 25 جولائی کے دو چار دن بعد اس پر کون بیٹھے گا؟ ظاہری طور پر تو واضح ہے کہ عمران خان صاحب بیٹھیں گے مگر لوگ چالیں چل رہے ہیں۔
اصل بات اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے کہ چال کیا چلنی ہے اور پھر اس کا نتیجہ کیا نکلنا ہے؟ 1971 میں بھی الیکشن کے بعد اک چال چلی گئی‘ مگر اس کا نتیجہ ملک کے حق میں انتہائی مہلک نکلا۔ اب صورتحال مختلف ہے۔ تب مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان ہزار میل کا فاصلہ تھا‘ اب وہ صورتحال نہیں۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ پاک فوج اللہ تعالیٰ کے کرم سے مضبوط ہے۔ مگر اس سب کے باوجود عاجزی اور انکساری کا تقاضا یہ ہے کہ جو مینڈیٹ حاصل کرے اس کے خلاف کوئی چال نہ چلی جائے۔ سیاستدان اور سب لوگ پاکستان اور اہل پاکستان کی خوشحالی کی خاطر حقدار کی خوشدلی کے ساتھ اس کا حق دے دیں۔ پاکستان کو اللہ تعالیٰ سلامت رکھے۔ سب کو باریاں ملیں گی۔ اصل نظر ہم سب لوگ عرش پر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ کا عرش کس قدر عظیم ہے اور کس قدر عمدہ‘ نفیس اور کریم ہے ہم نہیں سمجھ سکتے۔ دنیا بہت حقیر ہے اور معمولی سی ناقابل ذکر چیز ہے۔ ہمارے پیارے رسول گرامی حضرت محمد کریمؐ نے فرمایا ''جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو وہ کتاب جو اللہ کے پاس عرش کے اوپر ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے لکھ دیا'' کوئی شک نہیں کہ میری رحمت میرے غصے پر غلبہ پائے ہوئے ہے۔‘‘ (بخاری: 3194)۔ آئیے! ہم بھی اپنے غصے پر قابو پائیں۔ ایسے مومن بن جائیں گے تو عرش والے فرشتے ہمارے لیے مولا کریم کے حضور دعائیں کریں گے۔ ان دعائوں کے صلے میں عرش کے نیچے جگہ ملے گی۔ جب نظر اٹھا کر دیکھیں گے حضور عالیشانؐ کے فرمان کے مطابق‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام عرش کے پائے کو پکڑے کھڑے ہوں گے۔ سب سے پہلے اس حالت میں ان کو ہمارے حضورؐ دیکھیں گے۔ اے مولا کریم! پھر ہم کو بھی وہ منظر دیکھنے والوں میں کر دینا۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کی حفاظت فرمائے (آمین)۔