تمام جہانوںکے لیے سراپا رحمت بن کر تشریف لانے والے رسول کریم حضرت محمدﷺ کی شان میں گستاخی کی جسارت کرتے ہوئے چند سال قبل گستاخانہ خاکے بنائے گئے‘ تو تمام سیاسی اور دینی جماعتوں نے مل کر ''تحریک حرمتِ رسولؐ‘‘ کا آغاز کیا۔ دو پروگرام اسلام آباد میں ہوئے۔ اہم قومی رہنما شریک ہوئے۔ محترم قاضی حسین کی صدارت میں محترم عمران خان صاحب بھی تشریف لائے۔ آج وہ وزیراعظم پاکستان ہیں۔ تمام مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کی ذمہ داری مجھ پر تھی۔ اس دوران تحریک حرمتِ رسولؐ کے پلیٹ فارم پر ہم نے صرف مظاہرے اور احتجاج ہی نہ کیا‘ بلکہ علمی میدان میں بھرپور کام کیا۔ اس ضمن میں میری معرکۃ الآراء کتاب ''رویے میرے حضورؐ کے‘‘ سامنے آئی۔ میں نے دنیا کو انگریزی ترجمے کے ساتھ بتایا کہ آج کی جمہوری دنیا ذرا سوچے کہ تہذیب یافتہ جمہوری ملک اس کو کہا جاتا ہے‘ جس میں صرف الیکشن نہیں ‘بلکہ جمہوری رویے بھی کار فرما ہوں۔ جدید جمہوری دنیا ان رویوں کو اپنا کر ہی جمہوری دنیا بن سکتی ہے۔سادگی میں برطانیہ اور دیگر جمہوری ملکوں کے سربراہوں کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ سنگاپور کے بانی مسٹر لی‘ کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن تروڈو وغیرہ کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ میں کہتا ہوں‘ یہ مثالیں تب ہماری موجودہ دنیا میں موجود ہیں کہ چودہ سو سال قبل حضرت محمد کریمﷺ نے حکمران بن کر ان مثالوں کو وجود عطا فرمایا تھا۔ آپﷺ مدینہ منورہ کی ریاست کے حکمران بنے ‘ تو رواج تو یہ تھا کہ آپﷺ کے سر مبارک پر ہیرے جواہرات اور سونے (GOLD) کا تاج سجتا ‘مگر آپﷺ نے سر مبارک پر عمامہ باندھا۔ رواج تو یہ تھا کہ آپﷺ قیمتی تخت پر تشریف رکھتے ‘مگر آپﷺ نے کھجور کی چٹائی کے مصلّے پر بیٹھ کر حکمرانی کی۔ لکڑی کا ممبر بعد میں بنا اور سادہ سے ممبر پر تشریف فرما ہو کر بھی حکمرانی کی۔ بادشاہوں کو سجدہ کیا جاتا ہے۔ میرے حضورﷺ نے اس سے منع فرمایااور کہا کہ سجدہ صرف اس رب کو لائق ہے‘ جس نے یہ سر اور ماتھا بنایا ہے‘ یعنی سادگی کی مثال کو وجود بخشا اور ساتھ ہی انسانیت کی تکریم کو آسمان کی وسعتوں سے ہمکنار کیا۔ میں کہتا ہوں‘ آج ساری انسانیت کا فرض ہے کہ وہ حضرت محمد کریمﷺ کی عزت و حرمت کا تحفظ کرے۔ حضورﷺ ساری انسانیت کے محسن ہیں۔ آپﷺ کے دئیے ہوئے رویوں کو اگر الگ کر دیا جائے‘ تو انسانیت کے پاس سوائے درندگی کے کچھ نہیں بچتا؛ چنانچہ انسانیت کا اپنا فائدہ اس میں ہے۔ انسانیت کی بقا اور تکریم کا وجود اس میں ہے کہ وہ حضورﷺ کی حرمت پر آنچ نہ آنے دے۔ اس پر کوئی سمجھوتہ نہ کرنے دے۔ اس پر سمجھوتے کا سوچنا بھی انسانیت کے لباسِ شرافت کو تار تار کر دیتا ہے۔
شیر اور چیتے کا شکار بہادری کی علامت خیال کیا جاتا تھا۔ بادشاہ اور شہزادے شیر اور چیتے کا شکار کیا کرتے تھے ‘پھر اس کی کھال کو تخت پر بچھا کر اس پہ بیٹھا کرتے تھے۔ شیر اور چیتے کی کھالوں کو دیواروں پر سجایا کرتے تھے۔ ایسے ماحول میں بادشاہ بھی درندہ بن جایا کرتا تھا‘ جس قوم کو فتح کرنا ‘اس کے قیدیوں کو درندوں کے سامنے ڈھال دیا جاتا تھا۔ درندے کی کھال پر بیٹھا ‘وہ قیدی اور بھوکے درندے کی درندگی کا بھیانک منظر دیکھا کرتا تھا۔ اپنی ریاست میں جس شخص سے ناراض ہو جاتا تھا۔ اس کی کھال اس حال میں اترواتا تھا کہ اپنے تخت پر وہ چیتے اور شیر کی کھال پر بیٹھا ہوا کرتا تھا۔ وہ اشارہ کرتا تھا‘ تو مخالف کو بھرے دربار میں اس طرح ذبح کرواتا تھا‘ جس طرح شیر ہرن کو پکڑ کر اس کی شہ رگ پر اپنی کچلیاں رکھ کر اس کا خون پی جایا کرتا ہے۔
ترمذی شریف میں لباس کے باب میں میرے حضورؐ کا فرمان ہے کہ درندوں کی کھالوں کو مسند بنا کر اس پر مت بیٹھا جائے‘ یعنی انسان اپنی رائے کا اظہار کرے‘ تو بادشاہ اس کے ساتھ درندگی کا سلوک کرے۔ ہمارے حضورﷺکو یہ برداشت نہیں؛ چنانچہ مہذب دنیا کو غور کرنا ہوگا کہ جس محسن ِ انسانیت نے جدید دنیا کو تہذیب دی۔ رائے کے اظہار کی آزادی دی۔ انسان نما درندوں کی وحشت سے انسانیت کو بچایا اسی عظیم پیغمبر کو اگر رائے کی آزادی کے نام پر نشانہ بنایا جائے گا‘ تو مہذب انسانیت کا خون ہو جائے گا۔ اس قلمی خونریزی کو روکنے کے لیے انسانیت کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
حضورﷺ فرماتے ہیں: سب سے افضل جہاد‘ ظالم حکمران کے سامنے عدل کی بات کہنا ہے(ابن ماجہ) ‘یعنی بولنے کی آزادی حضورﷺ دیتے ہیں۔ آپﷺ کے سامنے ہر شخص کھل کر بات کرتا تھا۔ صحابہ کہتے ہیں کہ ہم سوچا کرتے تھے کہ گائوں کا کوئی شخص‘ جو شہری تہذیب کے رکھ رکھائو سے واقف نہ ہو۔ الفاظ کے چنائو کا دھیان بھی نہ رکھ سکتا ہو۔ حضورﷺ سے ذرا کھل کر مسائل پوچھے تو ہمیں بھی حضورﷺ کے جواب سے علمی فائدہ ہو‘ یعنی حضورﷺ کا دربار سادہ‘ عوامی اور رائے کے کھل کر بیان کرنے کا دربار تھا‘ مگر آج اسی دربار کی سرکار عالیشان کو نشانے پر رکھ لیا جائے اور انتہائی بیہودگی کے ساتھ ‘تو کہنا پڑے گا کہ انسانیت کے تحفظ کے لیے ساری دنیا کو کردار ادا کرنا ہوگا۔
محترم عمران خان صاحب پاکستان کے وزیراعظم ہیں۔ میں خود انہیں چند سال قبل دو عدد اے پی سی میں خوش آمدید کہہ چکا ہوں۔ مجھے پتہ ہے کہ اس دور کی صوبائی اور قومی اسمبلیوں سے مذمت کی قراردادیں پاس کروانے کے لیے ہمیں کس قدر جدوجہد کرنا پڑی‘ مگر آج میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں ‘موجودہ حکومت کو کہ اس نے پارلیمنٹ کے پہلے اجلاس میں پہلی قرارداد حرمتِ رسولﷺ پر منظور کی۔ سینیٹ نے دو بار ایسا کیا۔ جناب وزیراعظم نے کابینہ سے بھی مذمت کی قرارداد پاس کروائی۔ ہالینڈ سے ہر روز احتجاج کیا۔ حکومت اس سے بھی آگے کے اقدامات کرنے جا رہی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ حضورﷺ کی مبارک حرمت کے لیے پوری اور بھرپور جدوجہد کرنی چاہئے۔ اپنے ملک کو پر امن بھی ہمیں رکھنا ہے اور علمی میدان میں اپنے پیارے حضورﷺ کے مبارک اور انسانی محبت کے رویوں سے پوری دنیا کو آگاہ بھی کرنا ہے۔ حضورﷺ ساری دنیا کے انسانوں کے رسول ہیں‘ جو نہیں مانتے‘ ان کے بھی رسول ہیں۔ ہمیں ان لوگوں کو واضح کرنا ہے کہ تم کلمہ پڑھو یا نہ پڑھو یہ آزادی ہے۔ ہمارے حضورﷺ یہ آزادی دیتے ہیں‘ مگر توہین کی آزادی انسانیت کی بربادی ہے۔ اس کی آزادی نہیں دی جا سکتی۔ ایسی سوچ حمیت اور غیرت سے خالی ہے ا ور حضورﷺ کا کلمہ پڑھنے والے اور نہ پڑھنے والے بھی کروڑوں انسان ایسے ہیں کہ جو بے غیرتی کو پسند نہیں کرتے‘ نفرت کرتے ہیں‘ لہٰذا نفرت پیدا کرنے والوں کے لیے عالمی سطح پر قانون سازی کا وقت آ گیا ہے۔ حکومت کو اس ضمن میں آگے بڑھنا چاہئے۔